جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزچین کے جارحانہ عزائم، بحیرہ جنوبی چین سے بحیرہ بلوچ تک تحریر...

چین کے جارحانہ عزائم، بحیرہ جنوبی چین سے بحیرہ بلوچ تک تحریر : شبیر بلوچ

بحیرہ جنوبی چین اس وقت چین کی جارحانہ عزائم اور دوسری ریاستوں کے معاملات اور علاقائی سا لمیت میں بے جا مداخلت کی وجہ سے اضطراب اور کھلبلی کا شکار ہے ۔چین اکیسو یں صدی کی سپرپاور کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے علاقائی اور خطے کی ریاستوں پر اپنی نگرانی مضبوط کرنے کی ریہرسل اور آزمائشی مشق کررہا ہے۔ چین سے پہلے امریکہ نے Monroe Doctrine کے تحت سپرپاور بننے کے لیے کیریبین خطے پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے سپین کے ساتھ بھی جنگیں لڑیں۔ کیونکہ امریکہ اس خطے میں یورپ کی بالادستی اور اثررسوخ کو اپنی بالادستی کے لیے خطرہ محسوس کرتا تھا۔ اور امریکہ کو سپر پاور بننے کے لیے فلوریڈاسے وینیزویلا تک کے سمندری علاقوں کو جن میں خلیج میکسیکو اور بحیرہ کیریبین شامل ہیں۔ جو کہ شمالی اور جنوبی امریکہ کو متحد کرتے ہیں۔ جسکا سائزتقریباََ بحیرہ جنوبی چین کے برابر ہے ۔ امریکہ اس کو کنٹرول کرنے کے لیے بالا عمل اقدامات اٹھا کر پورے خطے کا نگران بن گیا۔ اور اس کے بعد وہ دنیا کا سپرپاور بن گیا ،کیونکہ سپرپاور بننے کے لیے اس کے اپنے خطے کے جتنے بھی ممالک اور سمندری علاقے ہیں ان علاقوں پر کنٹرول کسی بھی سپرپاور کی پہلی ترجیح رہا ہے۔
امریکہ نے سپرپاور بننے کے لیے کیریبین خطے پر اپنا مکمل اثر ورسوخ بڑھاکر اپنے خطے کا حاکم اور مختار کل بن گیا۔ اور پھر پوری دنیا میں اس کی سپرپاوری کا سکہ چلنے لگا۔ کیونکہ 1770تک بقول Robert D kaplan کیریبین کا ہر ایک ٹکڑا یورپی ممالک کے تصرف اور قبضہ میں تھا۔ لیکن بعد میں ان ممالک کو پورپی ممالک کے قبضہ ،تسلط اور اثرورسوخ سے نکال کر انھیں اپنے کنٹرول میں کرکے امریکہ دنیا کا سپر پاور بن گیا۔ آج ہوبہواور ویسا ہی عمل چین بحیرہ جنوبی چین میں کررہا ہے۔ تاکہ اس خطے میں اپنی بالادستی کو قائم ودائم رکھ کر امریکہ کی طرح پوری دنیا کا سپرپاور بن جائے۔ کیریبین اور بحیرہ جنوبی چین میں ایک مماثلت ہے کہ کیریبین امریکہ کے قریب اوریورپین اور فرنگیوں سے دور تھا بلکل اسی طرح بحیرہ جنوبی چین ، چین کے قریب اور امریکہ سے دور ہے۔ بقول Robert D Kaplin برٹش جو اس وقت دنیا کی عظیم بحریہ اور نیوی طاقت تھی۔ جس کے نیوی ٹھکانے اور اڈے اس وقت جمیکا ،ٹرینداد ،برٹش گیاناز،برٹش ہونڈوراس اور انٹیلیزاصغر میں تھے۔ اسی طرح آ ج کے سپرپاور امریکہ کے نیوی اڈے اور ٹھکانے بحیرہ جنوبی چین میں ہیں۔ جس طرح امریکہ نے اس وقت کے سپر پاور برٹش سے اپنے خطے کی بالادستی کا خاتمہ کرتے ہوئے خود کو خطے کا حاکم کل بنا یا۔ بلکل اسی طرح جنوبی چین میں چین بھی آستینیں چڑھا رہا ہے تاکہ وہ اپنے قریبی بحیری علاقوں پر قبضہ کرسکے۔
تاریخ دان Richard H Collin کہتے ہیں کہ صنعتی ٹیکنالوجی نے دُنیا کو تبدیل کیا ،جدیدیت دنیا کو gunboatسفارتکاری کی طرف لے گیا۔ تا کہ نئے معاشی مفادات کا تحفظ کر سکیں ،جدیدیت سے پہلے دنیا فضائی ،نیوی ،الیکٹرانک ،اور سائبر جنگ و جدال کی طرف تھا۔ اور جدیدیت کے پیش نظر امریکہ نے کینال تعمیر کیا تاکہ سینٹرل امریکہ کو وسیع کریبین کے ساتھ پیسیفک سے لنک کر سکیں۔ آج کاجدید دور Western Hemisphereنیم کرہ غربی میں اسپین کے زیر قبضہ کیوبا میں اسپین اور امریکہ کے درمیان جنگ کے ساتھ شروع ہو ا۔ جس میں جنگ کا اختتام خطے میں امریکی جانشینی اور اسپین کی فلپائن اور بحیرہ جنوبی چین میں شکست پر ہوا۔ بقول کولن یورپ کو نئی دنیا New Worldسے دور کرنا روزولٹ کی خارجہ پالیسی کا بنیادی پھتر تھا۔ John Mearsheimerکے مطابق چین بھی اسی طرح اپنے خطے سے دوسری طاقتوں کو نکال باہر کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ بحیرہ چین اور اردگرد کے ملکوں پر فقط چین کی اجارہ داری ہو۔ چین کی یہ پالیسی ہے کہ وہ امریکہ کو ایشیا سے نکال باہر کرے۔ جس طرح امریکہ نے یورپ کو کیا تھا۔ اس کے مطابق چین کی اس آزمائشی مشق میں امریکہ اور چین کی جنگ ناگزیر ہے۔ اور امریکہ ،انڈیا ،جاپان،فلپائن،جنوبی کوریا،ویت نام اورانڈونیشیا کے ساتھ اتحاد کرکے چین کی طاقت کی پروجیکشن اور آگے بڑھنے کی صلاحیت کو روکنے کی کوشش کرے گا۔ جبکہ چین عالمی طاقت بننے کے لیے جاریت کرتے ہوئے خطے کا داروغہ بن کر بحرہ جنوبی چین کے ممالک کو دھمکا رہا ہے ، جنگ عظیم اول سے قبل جس طرح جرمنی یورپ میں ایک زمینی پاور تھا۔ بلکل اسی طرح چین بھی اپنے خطے میں ایک نیول پاور بن رہا ہے کہ جس کے پاس مشرقی ایشیا کی سمندر ہے۔ لیکن جرمنی ،برطانیہ اور امریکہ کے برعکس چین کے ہمسایہ ممالک بھی معاشی اور فوجی حوالے سے کمزور نہیں ہیں کہ کیریبین کی طرح چین ان پر آسانی سے اپنی بالادستی قائم کرسکے ۔ چین جو خود بہت کمزور تھا۔ جس کے چنگ خاندان 1644سے 1912تک حکمران رہا یہ خاندان آخری صدی میں مشرقی ایشیا میں کمزور تریں حکمران بن گئے۔ جس میں چین کے بہت سے قبضہ کئے گئے علاقے ان سے چھین لئے گئے۔ جیسے کہ چین کوخراج دینے والے ممالک نیپال اور برما پر برطانیہ نے قبضہ کیا۔ ہندچین کے علاقوں پر فرانس اور ،تائیوان،کوریا اور ساخالینSakhalinپر جاپان جبکہ منگولیاپر روس نے قبضہ کیا۔ پھر جاپان نے چین کے دل shandong peninsulaاورmanchuria پر قبضہ کیا۔ جس نے بعد میں جاپان چین جنگ کی شکل اختیار کی ،آخر کار چین کے تمام لوگوں نے اس شرمساری اور ذلت سے بچنے کے لیے خود کو طاقتور بنانے کی سعی وکوشش کی۔ اب جبکہ چین دوبارہ سے طاقتوربن گیا ہے۔ اسی لیے وہ چنگ خاندان سے پہلے والی پوزیشن میں خود کو لانے کے لیے بحرہ جنوبی چین میں باقی ممالک کی سمندر اور زمینوں پر جاریت کا ارتکاب کررہا
ہے ۔چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1960 میں چین نے اپنی پہلی آبدوزروس سے خریدا تھا۔ اب چینی آبدوزوں کی تعداد 60 تک پہنچ چکی ہے۔ اور چند سالوں میں ان کی تعداد 75تک پہنچ جائے گی۔ 2005سے چین امریکہ کے مقابلے میں آٹھ سے ایک آبدوز بنارہا ہے۔ جبکہ یہ مقابلہ 2000میں چار سے ایک تھا۔ امریکہ کے پروفیسراور دانشور Bruce A. Elleman, Ph.D,نے کہا کہ جہاں چین کے تمام آبدوز ڈیزل الیکٹرک کے ہیں وہاں امریکہ کے جوہری ہیں۔ چین کی جاریت اور حریص طاقت اور پاور کی وجہ سے ایشیائی ممالک ہتھیاروں کی دوڑ میں تیزی سے داخل ہورے ہیں۔ اب چین کا یہ محکم ارادہ ہے کہ وہ اپنے نیوی کو Sea denialسے سمندری کنٹرول Sea control میں تبدیل کرے، sea denial کے تحت سمندر کو کنڑول کرنے کے بجائے دشمن کو سمندر استعمال کرنے سے روکنا ہوتا ہے، جبکہ sea control کے تحت سمندر پر اپنی نیوی کے ذریعے مکمل کنڑول حاصل کیا جاتا ہے۔ اس فوجی حکمت عملی میں بحرہ جنوبی چین اہمیت کا حامل ہے۔ بحرہ جنوبی چین کے حوالے سے Robert D kaplanنے کتاب Asia s cauldron میں لکھا ہے کہ بحرہ ملاکا جو جنوب مغرب سے باشی اور بلنگٹنگ چینل اور بحرہ تائیوان کو شمال اور شمالی مشرق سے منسلک کرتا ہے اور یہ مڈل ایسٹ کے سمندر کو بر صغیر شمال مشرقی ایشیاء سے جوڑتا ہے۔ یہ ایشیاء کا سنٹرل ہے۔ جس طرح بحرہ روم یورپ کا ہے۔ اپنی اسی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے بحرہ جنوبی چین ممکنہ تصادم کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ تجزیہ نگار Mingjiang Liنے کہا ہے کہ بحرہ جنوبی چین، چین کے لیے نیچرل
ڈھال کی مانند ہے۔ جبکہ دوسری طرف بحرہ جنوبی چین تیل اور گیس سے بھی مالا مال ہے جہاں تیل اور گیس کے بہت سے ذخائر موجود ہیں۔ اگر چین نے ان پر کنٹرول حاصل کر لیا تو چین کو مڈل ایسٹ کی انرجی پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔ چین کے نیوی کمانڈر نے بحرہ جنوبی چین پر اپنا حق جتاتے ہوئے کہا کہ اگر میں آپ کے پاؤں اور ہاتھ کاٹ لوں تو آپ کس طرح محسوس کریں گے۔ اسی طرح چین کے بحرہ جنوبی چین کے لیے محسوسات ہیں۔ چینی ان سمندروں کو نیلا قومی مٹی کہتے ہیں۔ لیکن اسی نیلے مٹی پر بہت سے اور ممالک کا بھی دعوی ہے۔ جیسے کہ ویت نام جو تاریخی حوالے سے چین کے ساتھ تنازعات کا شکار رہا ہے۔ چین نے ویت نام پر 17 دفعہ جارحیت کیا۔ اور چین کی سونگ ،منگ اور گنگ سلطنت نے گیار ھویں ،پندر ھویں اوراٹھار ھویں صدی میں ویت نام پر قبضہ کیا۔ لیکن ویت نامی قوم نے چین کے خلاف مزاحمت کی۔ اور اپنی الگ شناخت بچانے کی کوشش کی۔ ایک ویت نامی سفارتک کارنے انٹرو یو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’امریکہ نے ایک بار میکسیکو پر قبضہ کیا۔ اور میکسیکو کے لوگ اس پر کتنے حساس ہیں۔ لیکن چین ویت نام پر سترہ دفعہ حملہ آور ہوچکا ہے۔ اور ہم اپنے نصابی کتابوں میں چینی قبضہ گیروں کے خلاف اپنے ہیر وز کی داستانوں کو پڑھ کر سنِ بلوغت کو پہنچے ہیں ۔‘‘ انکے قومی لیڈر ہوچی منہ، جنہیں تاریخ دانوں نے بیسویں صدی کا عظیم سیاست دان قرار دیا ہے کہ جو ایک حقیقت پسند شخص تھا۔اس نے مارکسزم ،کنفیوشزم اور نیشنلزم کو چینی ،فرنچ اور امریکہ کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے اپنے ملک کو آزاد کیا۔ اور آج ویت نام کی سلامتی کو سب سے زیادہ چین سے خطرہ ہے۔ ویت نام بحرہ جنوبی چین کے Paracelاور spratly جزیرے پر دعوی کرتا ہے Professor Clive Schofieldنے کہاہے کہ اگر چائینہ ویت نام کو نقب لگانے میں کامیاب ہوا تو سمجھ لو کہ وہ بحرہ جنوبی چین میں جنگ جیت چکا۔ جبکہ Kaplan امریکہ کے ایک اعلی عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ملایشیاء کم میں واقع ہے برونائی نے کسی حد تک اپنے معاملے چین سے طے کئے ہوئے ہیں۔ انڈونیشا کی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ فلپائن کے کارڈ کم ہیں۔ اور سنگاپور صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر اسکا رقبہ چھوٹا ہے۔ اگر کچھ کر سکتا ہے تو وہ ویت نام ہی ہے ویت نامی اپنی قومی سلامتی اور اقتدار اعلی کے لیے بہت حساس ہیں ۔ ہوچی منہ کمیونزم کے عروج کے دور میں بھی یوگوسلاویہ کے ٹیٹو ،البانیہ کے انور خوجہ کی طرح مقامی اور home grown تھا ۔ جس نے اپنی قومی آزادی کے لیے امریکہ سے جنگ لڑی۔ لیکن اب ویت نامی چین کو کاونٹر کرنے کے لیے امریکہ کے فطری اور مضبوط تریں اتحادی بننے جارہے ہیں ۔خطے میں چین کو کاونٹر کرنے کے لئے ویت نام کا کلیدی کردار ہوگا۔ ویت نام کے لیے خود کو چین سے Finlandized ہونے سے بچانے کے لیے امریکہ کی قیادت میں نئی ممکنہ بننے والی بلاک میں شامل ہونا اٹل ہے۔ اسی خطے میں ویت نام کی طرح ملائیشیا بھی موجود ہے۔ جو سب سے زیادہ ناقص اور بدترین حالات سے گزراہے۔ جو کہ محکومی سے لیکر آزادی اور پھر چینی ثقافتی یلغار سے لیکر بدحالی اور تنگی کا شکار ملک تھا ، مہاتیرمحمد نے ترکی کے عطاترک کی طرح اس ملک کا نظام ہی بدل ڈالا۔ غربت بھوک افلاس اور تنگی کی گھٹن حالات سے اپنے لوگوں کو نکال کر انھیں خوشحال زندگی فراہم کی۔ وہ خود ایک سخت گیر آدمی تھے۔ اور قوم کی تعمیر کے لیے اس نے سخت فیصلے کیے اور آج ملائیشیا اس پوزیشن میں ہے کہ چین سمیت باقی ممالک سے اپنی زمین اور علاقوں کا تحفظ کرسکتا ہے۔ بقول kaplanجہاں سنگاپور کے مضبوط اور طاقتور آدمی لی کوان یؤ نے قومی حب الوطنی کو سیکولرزم کے ساتھ اپنا سلوگن اور ہدف بناچکے تھے تو اس کے برعکس مہاتیر محمد قومی حب الوطنی کو ماڈرن اسلام کے ساتھ اپنے سیاسی پروگرام کے لیے پیش کرتے تھے۔ مہاتیر روس کے پطرس اعظم Peter the Greatجنوبی کوریا کے جنرل پارک چنگ ہی Park Chung-hee سے

متاثر تھا۔ مہاتیر کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ نئی صدی میں مواصلات ،نقل وحمل اور بنیادی ڈھانچہ قوموں کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔ اس نے اس پر کام کیا اور اپنے ملک کو غربت کی دلدل سے نکال کر خوشحالی کے راستے پر گامزن کیا۔ ملائیشیا کے ایک تبصرہ نگار نے کہا ہے کہ مہاتیر کی عمدہ اور نمایاں کامیابی یہ تھا کہ اس نے ملائیشیا کے لوگوں کو قائل کیا ہوا تھا کہ کم جمہوریت زیادہ سے زیادہ استحکام ،خوشحالی اور اَسودہ حالی کا ضامن ہے۔ جزائراسپراٹلی پر ملائیشیا اور چین دونوں کا دعوی ہے بی بی سی کے مطابق چین دنیا میں وہ ملک ہے جو کہ سب سے بڑے رقبے کا دعوادار ہے ۔ اس رقبے کی حدبندی 9 dashلائن کی شکل میں کی گئی ہے جو کہ جنوبی صوبہ ہائنانیجنگ سے شروع ہوکر جنوب اور مشرق کی طرف ہزاروں میل تک جاتا ہے چینی کہتے ہیں کہ ان جزیروں اسپارٹلے اور پارسل پر انکا حق صدیوں پرانا ہے اور یہ چین کے لازم حصہ ہیں۔ در اصل 1947میں چین نے ایک نقشہ جاری کیا تھا جس میں اپنے دعوے کے تمام تفصیلات جاری کیے گئے تھے ۔ اس نقشہ کے مطابق جزیروں کے دو گروپ چین کے جغرافیائی حدود میں اَتے ہیں ۔ جزائر اسپاراٹلی پر ملائیشیا کسی بھی وقت چین کے خلاف کسی بھی ممکنہ بلاک میں شامل ہوسکتا ہے ،جبکہ ملائیشیا کو بہت زیادہ فکر لائق ہے کہ چین نے 1970 میں ملائیشیا کے خلاف انسرجنسی کرنے والے چینی نسل کے کمیونسٹوں کو سپورٹ کیا تھا۔ اور چین انکا سہارا بن کر انکی کمک کررہا تھا ،چین سے ملائیشیا کو چینی نسل کے لوگوں کے ساتھ ساتھ جزیرہ اسپاراٹلی پر دعوی چین سے محتاط طور پر اسکے مخالف کیمپ پر لے جاسکتا ہے ۔
سنگاپور اس خطے کا تیسرا ملک ہے ۔جس کاآبنائے ملاکامیں ایک نیچرل پورٹ ہے ۔ آبنائے ملاکا بحرہ ہند اور بحرالکاہل کے سمندری جہازوں کے گزرنے کا روٹ ہے ،یہ چین ،بھارت اور انڈ ونیشیا کو منسلک کرتی ہے،یہ ملائیشیا ،سنگاپور اورانڈونیشیا سے گزرتا ہے۔ یہ دنیا میں اہمیت کا حامل سمندرری چوک پوئنٹ choke point ہے۔ سنگاپور کے لوگ تاریخی حوالے سے دوسرے اقوام کی سلطنت اور بادشاہت میں رہے ہیں۔ سنگاپور اسرائیل کی طرح اس خطے میں چھوٹا اور تنہا ملک رہا ہے ، جسکی آبادی پانچ ملین ہے جوکہ پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان میں موجود بلوچوں کی آبادی سے بھی کم ہے۔ لیکن اس نے 23ملین آبادی کے ملک آسٹریلیا کی سائز کی فِضائیہ رکھا ہے۔ اسرائیل کی طرح اپنی تنہائی اور چھوٹے سائز کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے فضائی برتری پر توجہ مرکوز کیا ہے۔ اس کے پاس 6 جنگی بحیری جہاز 6جنگی آبدوز 21کے قریب میزائل داغنے والے شپ ہیں۔ فضائی حوالے سے انڈونیشیا ،ملائیشیا،اور ویت نام پراسکو برتری حاصل ہے ،دنیا میں تین ترقی یافتہ ممالک ہیں جو اپنی قومی خدمت اور سروس میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔ جنوبی کوریا ،سنگاپور اور اسرائیل۔
Robert D kaplanنے سنگا پور کی ترقی کا راز معلوم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب کبھی بھی ان کے کسی اعلی میٹنگ میں گیا ہوں تو وہاں مکالمہ اور گفتگو میں ان کے تجربہ کار لوگوں کے ساتھ ان کے نئے نوجوان ساتھی زیادہ تعداد میں بیٹھے ہوتے تھے ۔ ان کو بٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان کے حکمرانی ،عملداری کے فلسفے سے سیکھ کر اس روایات کو آگے نئی نسل کو جاری رکھ سکیں ،پرانے اور نئے سنگاپور میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پرانا سنگاپور کچی بستیوں ،گندے نالوں ،چوہے ،ردی کی ٹوکریوں اورآوارہ کتوں کا جگہ سمجھا جاتا تھا۔لیکن نیا سنگاپور مشرق بعید کی ترقی یافتہ ممالک بن چکا ہے۔ اور ترقی کے حوالے دنیا کے لیے رول ماڈل بن چکا ہے۔ یہ سب کچھ ا ن کے طلسماتی لیڈر لی کوان یؤکی وجہ سے ہوا۔ لیڈر اپنی طلسماتی لیڈرشپ سے یا قوموں کو بام عروج تک پہنچاتے ہیں یا اپنی حماقت سے قوموں کو تباہ و برباد کردیتے ہیں ،لی کوان یہو اپنی قوم کو ترقی کے معراج پر لے گیا ،لی ایک انگلش تعلیم یافتہ نسلی طور پر چینی بیرسٹراور قانون دان تھا۔ اسکا نام ہیری لی تھا۔ لیکن جب سنگاپور کی سیاست میں آیا تو اس نے اپنا نام بھی سنگا پور کی روایاتی نام میں تبدیل کیا۔ اور اپنا نام لی کوان یہو رکھ دیا۔ اسے بہت سے دانشور اکیسویں صدی کا بہتریں انسان اور لیڈر کہتے ہیں۔ لی نے کہا کہ اس نے جاپانی قبضہ سے جتنا سیکھا اتنا کسی یونیورسٹی نے اسے نہیں سکھایا ،لی نے بھی مہاتیر محمد کی طرح اپنی پالیسی کو چلانے کے لیے جمہوریت کے بجائے مطلق العنان بن کر حکومت کرتے ہوئے اپنے مقاصد کو حاصل کیا۔ اسے آبنائے ملاکا کی اہمیت معلوم تھی کہ جہاں بحر ہند ختم اور بحرالکاہل بحرہ جنوبی چین کی شکل میں شروع ہوتا ہے۔ جس پر سنگاپور غلبہ حاصل کر چکا ہے۔
جس وقت لی نے قومی ذمداری سنھبالی اس وقت ستر فیصد سنگاپور کی آبادی تاریخی حوالے سے چینی نسل سے تعلق رکھتے تھے ، دوسرے نسلوں میں مالے اور ہندوستانی تامل شامل تھے گو کہ آپسی اختلافات کا شکار تھے ۔ لی نے خود سے سوال کیا کہ اس معاندانہ اور مخالفانہ ماحول میں وہ کس طرح اپنی بقاکو قائم و دائم رکھ سکیں گے۔ سنگاپور لفظ خود تامل لفظ سنگم سے ہوتے ہوئے مالے زبان میں سنگاپور ہوا۔ جسکے معنی شیر ہے اس کے شیر لیڈر نے سیاسی بصیرت سے تمام مشکلات پر قابو پاکر اپنے ملک کو ایک الگ شناخت دی ۔لی نے کہا کہ وہ ایک فلاحی ریاست کے بجائے منصفانہ ریاست کی تعمیر کریں گے ۔لی اور مہاتیر محمد کو عرب حکمرانوں کی طرح ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔ لیکن حقیقت میں
ان میں بہت فرق ہے کسی نے کہا ہے کہ ایک اچھا ڈکٹیڑ وہ ہے کہ اپنی طاقت کا استعمال ایک عوامی جمہوریت بنانے کے لیے کرتے ہوے خود اپنی معزولی کی راہ ہموار کرے۔ یہ تمام مہاتیر اور لی نے کیا جبکہ خراب ڈکٹیٹر کے بارے میں کہا گیا کہ ایک برا ڈکٹیٹر وہ ہے جو ریاست کے بنیا دی اداروں میں سب سے اوپر نظام حکومت کے عہدوں میں اپنے رشتہ داروں کو بیٹھائے اور اس سے نیچلی سطح پر اپنے قبائل کے لوگوں کو جگہ دے ۔ا سی نظریہ کو افریقہ عرب ممالک اور مشرق بعید میں واضع انداز میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں چین ،سنگاپور ،ملایشیا اور ویت نام میں اچھے ڈکٹٹروں نے معاشی کرامات اور معجزے دکھائے ان اچھے ڈکٹٹروں میں لی کوان یہو بھی تھا ،جس نے اپنی وژن سے ترقی اور خوشحالی کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔ اور آج کے بحرہ جنوبی چین کے تنازعہ میں سنگاپور بحرہ جنوبی چین میں حق نہیں جتارہا ہے۔ اور دعوی دار نہیں ہے۔ لیکن چین کی ابھرتی ہوئی طاقت سے حساس ہے۔ اور خطے میں امریکہ کی نیوی کی موجودگی کازیادہ مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر چین سے ان کے مخالفانہ تعلق نہیں تو ان کے تعلق دوستانہ بھی نہیں ہیں۔ اور خطے میں چین مخالف ممکنہ بلاک میں یہ امریکہ کے بلاک میں شامل ہوسکتے ہیں ،
بحرہ جنوبی چین میں اسپین کے بادشاہ فلپ کے نام پر رکھا گیا ملک فلپائن بھی چین کے ساتھ مخالفانہ تعلقات رکھتا ہے ،فلپائن کے 7000سے زیادہ جزیرے ہیں۔ یہ ملک تین صدیوں تک اسپین کی کالونی رہا پھر اسپانوی امریکہ جنگ میں اسپین کی شکست کے بعد یہ تقریباََ پانچ دہائیوں تک امریکہ کے قبضہ میں رہا۔ کتابThe Philippines Reader: A History of Colonialism, Neocolonialism میں لکھا ہے کہ جب اسپین نے فلپائن پر قبضہ کیا تو اس کے قبضہ کے خلاف کچھ لوگ قومی آزادی کے جذبہ کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے اور بہت سے لوگوں نے قبضہ گیر کا ساتھ دیا۔ او ر ہمارے بلوچوں کی طرح وہاں قابض کے اشتراک کنندہ اوردست گیروں نے قابض کی خوب مَدَح سرائی اور قصیدہ خوانی کی۔ لیکن تعداد میں کم لوگ ہی اٹھے اور پوری قوم کو بیدار کرکے اسپین سے آزادی لی۔ پھر امریکہ کے قبضہ میں رہے وہاں بھی قصیدہ خوان طبقے نے اپنا قبلہ تبدیل کرتے ہوئے اسپین کی جگہ امریکہ کی مدح سرائی کرتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے اس پر قبضہ کیا اور وہاں بھی یہ طبقہ ان کے دست گیر بن کر قابض کی قصیدہ خوانی کرتا رہا۔ لیکن تمام قبضہ گیروں کے خلاف فلپائنی محب وطن لوگوں نے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر جدوجہد کی اور تین قبضہ گیروں کو یکے بعد دیگرے اپنی سرزمین سے نکال باہر کیا۔ اور 1946میں امریکہ سے بھی آزادی حاصل کی ،بعد میں امریکہ نے بھی معاشی ،سیاسی اور فوجی حوالے سے اس ملک کی مدد کی لیکن کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے یہ ملک ترقی اور خوشحالی کے بجائے پسماندہ ترین ممالک میں شامل ہوا ہے ۔فلپائن کو گیمبل ریپبلک بھی کہا جاتا ہے جہاں سیاست دان اقتدار پر سیاسی جوہر خصلت اور قابلیت کے بجائے جرائم بدمعاشی بلیک ملنگ اور پیسہ کی وجہ سے براجمان ہیں۔ اس ملک کو لی ،مہاتیر اور 129129پارک چنگ کی طرح کا طلسماتی لیڈر نہیں مل سکا
،اس کا بانی لیڈر فردینا ند مارکوس کرپٹ سیاست دان تھا جس نے اپنی دو دہائی حکمرانی میں بلین ڈالر سے زیادہ چرائے اور اس کے مفادات اپنے ملک کی بجائے اپنے خاندان اور لوگوں تک محدود تھے ۔ 100ملین کی آبادی والا ملک فلپائن بحرہ جنوبی چین کے مشرقی کنارے پر جبکہ ویت نام مغربی اور چین شمالی حصہ پر تسلط جما چکا ہے۔ چین اور فلپائن کا جزائر اسپراٹلی پر تنازعہ چل رہا ہے۔ چین نے جاریت کرتے ہوئے فلپائن کے جزائر اسپراٹلی پر قبضہ کیا اور کچھ سالوں سے چین اس جزیرے میں اپنی فضائی اور سمندری فوجیوں کی تعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ انکی نقل و عمل میں بھی اضافہ کرچکا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ماہی گیری سے لیکر انرجی کی برآمد تک یہ جزیرہ فلپائن کی معاشی زندگی ہے ،
فلپائن اپنی تمام تیل سمندر کے ذریعے درآمد کرتا ہے حتی کہ گیس بھی خلیج مانیل Manila Bayسے درآمد کرتا ہے۔ بحرہ جنوبی چین کے
جزیرے اسپراٹلی اورScarborough Shoalمیں عدم رسائی کی صورت میں یا کہ ان کے ہاتھ سے نکلنے کی صورت میں یہ فلپائن کی بقا کے حوالے سے ڈراؤناخواب جیسا ہوگا۔ جس طرح بحرہ اسود Black Seaپر روس کا لالچ اور حرص ہے بلکل اسی طرح بحرہ جنوبی چین پر چین کا ہے ، جس طرح کے بین القوامی لائن کچھ ممالک کی سرحدوں کی حد بندی کرتے ہیں جیسے کہ 49th Parallel امریکہ اور کینڈا کا سرحدی لائن ہے ،Majinot Line فرانس اور جرمنی Macmahon Lineہندوستان اور چین Alpine Lineاٹلی اور فرانس کی سرحدی حد بندی کرتے ہیں ۔ یہ تمام سرحدیں با ہمی رضامندی کے تحت قرار پائی ہیں، یہ سرحدیں قوموں کی فطرتی زمین اور حدبندیوں کو واضح کرتی ہیں۔ اس کے برعکس چین نے 1947 میں خود اپنی سرحدوں کے نئے نقشے جاری کیے، اس نقشے کو Nine-dash line146 کہا جاتا ہے۔ جس کے ذریعے چین اپنے ہمسایوں کے ممالک کی سمندری حدود اور تمام جزیروں پر دعوی کررہا ہے۔ جس طرح پرانے زمانے میں چین نے اپنی طاقت و قوت کی علامت کے طور پر دیوار چین تعمیر کیا ہے۔ اب بہت سے لوگ بحرہ جنوبی چین کے علاقوں میں اس کی جاریت کو دیکھ کر اس نئی Nine dash line کو Great wall of sandکہتے ہیں۔ چین میں ایک طرح کا سوچ ہے کہ چین ایک وقت میں عظیم طاقت ہو ا کرتا تھا اور دوبارہ وہ ایک عظیم طاقت بنے گی ، جہاں دیوار چین ان کی ماضی کی طاقت رعب و دبدبہ کا سمبل سمجھا جاتا ہے وہاں ریت کی دیوار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چین دوبارہ ا یشیا میں ایک طاقت بنے جاری ہے ۔ ای طاقت کی گھمنڈ اور جاہ جلال میں چین باقی ممالک کے سمندروں اور جزیروں پر دعوی کررہا ہے۔ اور اس میں باقی فریق بھی اپنا حق جتا رے ہیں۔ جس طرح paracelجزیرے پر چین ،ویت نام ،اورتائیوان کا دعوی ہےScarborough shoalجزیرے پرچین،فلپائن اورتائیوان کا دعوی ہے اوراسپراٹلی پرچین ،ویت نام،تائیوان ،ملائیشیا ،فلپائن اور برونائی کا دعوی ہے۔ چین اب عالمی طاقت بننے کے خواب میں

طاقت کے نشہ میں بدمست ہاتھی کی طرح بحرہ جنوبی چین کے جزائر کو قبضہ کرنے کے لئے جاریت پر اتر آیا ہے۔ اور بین القوامی عدالت انصاف نے بھی چین کے خلاف اپنا فیصلہ دیا ہے لیکن چین اس فیصلہ کو ماننے سے انکار ی ہے ،
چین بحرہ جنوبی چین اور مشرقی بعید کے ممالک کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کے لیے بھی خطرہ ہے۔ تاریخی طور پر تبریز سے کوہ البرزکے دامن میں قیام کرنے والی اور پھر بحرہ کیسپین Caspian Seaسے مختلف مراحل سے تارک وطن کرتے ہوئے بلوچستان میں زندگی بسر کرنے والی قوم بلوچ بھی جاپانی ،کورین،جرمن ،فرنچ،چینی افغان قوم کی طرح ایک الگ قوم ہے۔ بقول ایک انگریز مصنف کے
کہ بلوچ مضبوط البدن ،بہادر،اور جفاکش تھے۔ ہمیشہ آزاد رہناپسند کرتے تھے۔ وہ اپنے ملک میں ہی سکندر اعظم سے لڑے تھے۔ ان لوگوں نے فنِ سپاہ گری سیکھا تھااپنی آزادی پر جان پر کھیل جاتے تھے۔ ہاں حاصل خان ، ڈاکٹر مالک اسرار زہری ،اختر مینگل،شاہ زین بگٹی ،اسداللہ اور چنگیز مری جیسے طبقہ اور کلان ہر قوم سے نکلے ہیں۔ اور یہ لوگ نا بلوچیت کے زمرے میں آتے ہیں اور نا ہی جاپانی ،جرمن ،فرنچ ،امریکن ،ہندوستانی اورنارویجین کے
یہ قبضہ گیر کلان سے تعلق رکھنے والے اپنے قومی فرد کے زمرے میں آتے تھے۔ بلکہ نیشنلزم اور قومی آزادی کی جہد کے فلسفے میں یہ لوگ قابض کے اشتراک کنندہ اور شریک کار کے طبقہ اور کلان کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ہاں موسم ،ماحول،علاقے اور مدت میں فرق کی وجہ سے اس طبقہ اور کلان کے نام میں فرق رہا ہے جہاں ناروئے میں اسے قوئزلنگ ،امریکہ میں بنڈیکت ارنولدہندوستان میں جعفر و صادق اور بلوچستان میں حاصل خان بزنجو اور ڈاکٹر مالک اور چنگیز مری نام سے جانا جاتا ہے۔ جن کی حیثیت کے مطابق ان کا مقام کا تعین ان کی قابض کے قصیدہ خوانی اور مدح سرائی سے ہوتا رہا ۔ بلوچوں نے اپنی سرزمین پر صدیوں تک حکمرانی کی ہے اور بلوچوں نے جہاں سکندر اعظم کا مقابلہ کیا وہاں قبضہ گیر پرتگال کے بحری قزاقوں کا بھی سامنا بلوچ سپوت حمل جیند نے کیا۔ جس نے ساحل سمندر کو پرتگال کو دینے سے انکار کرتے ہوئے پرتگیزی حملہ آوروں کا مقابلہ کیا۔ حالانکہ واسکو ڈے گاما کے بعد ہندوستان ،افریقہ، ھرمز تک قبضہ گیر پرتگیزی قابض تھے لیکن حمل جیند نے اس وقت کے یورپی طاقتوں کے ساتھ سخت مقابلہ کیا۔ اور تاریخ کے درخشان صفحے میں قومی ہیروکا روپ دھار لیا۔ اسی طرح اپنی الگ قومی شناخت کو قائم و دائم کرنے کے لئے جب مغل حکمران کامران نے قندھار پر قبضہ کیا تو اس کے بعد انگریز کی طرح اس نے بھی قلات پر قبضہ جمایا۔ اور قلات میں مغل گورنر تعینات ۔کیا لیکن قلات میں دہواروں کے سردار ارباب شمس الدین اور گوہرام کی زیر کمان بلوچوں نے مغل حکمرانوں کے خلاف جنگ کی۔ اور قلات کو ان سے چھین لیا۔ پھر بعد میں انگریز قابض کی شکل میں بلوچستان میں داخل ہوئے تو ان کے خلاف بھی بلوچ قوم کے سپوتوں نے جنگ لڑی۔ جس میں خان مہراب خان ،نورا مینگل ،میرخان محمد زرکزئی ،سردار نوردین ،سردار خیربخش مری کی جنگیں شامل ہیں ۔ بلوچوں نے تاریخی طور پر کسی بھی اغیار کی حکمرانی اور قبضہ کو اپنی سرزمین پر قبول نہیں کیا بلکہ اپنی طاقت وقوت کے مطابق تمام بڑی بڑی طاقتوں سے اپنی سرزمین کو بچانے کی کوشش کی ۔
سکندر اعظم ،پرتگال ،مغل،انگریز اور اب پاکستان کے خلاف بلوچ قوم کی جدوجہد اور دفاعی جہد سے اندازا لگایا جاسکتا ہے ۔ لیکن اس وقت جب بلوچوں نے قابض کے خلاف جنگ کی تب بھی یہاں قابض کے اشتراک کنندہ اور شریک کاروں کا طبقہ اور کلان آج کے مالک اور حاصل کی شکل میں موجود ہوا کرتے تھے۔ جنہوں نے مغل،اور انگریز کی ثنایا مدح کی۔ جس طرح آج حاصل و مالک پنجابی قبضہ گیروں کی کررے ہیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ وہ اپنی ثناہ خوانی اور مدح سرائی سے ان قبضہ گیروں کو سہارا نہیں دے سکے۔ حقیقت میں یہ کلان اور طبقہ تمام محکوم اقوام میں ہوتے ہیں۔ جوں ہی قابض قبضہ گیر کی شکل میں محکوم سرزمین میں داخل ہوتا ہے تو یہ کلان اور طبقہ اپنی قومی شناخت سے احساس کمتری کی بنا پر نکل کر قابض سے ھَڑبندی کرتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے قوم اور طبقہ سے نکل کر قابض کے شریک کار اور کلان بن جاتے ہیں۔
آج ویت نام ،ملائیشیا،فلپائن،تائیوان ،برونائی یہاں تک کہ جاپان جنوبی کوریا اور ہندوستان کی سلامتی کے ساتھ ساتھ چین و پاکستان کے اشتراک سے بلوچ شناخت اور وجود کو بھی خطرہ لائق ہے ،چین بحرہ جنوبی چین میں اپنی خود ساختہ سرحدی حد بند یNine-dish lineکے ذریعے دوسروں کی زمین اور سمندر پردعوی کررہا ہے۔ جہاں ایک طرف ملاکا کی چوک اور تیل و گیس سے مالامال خطہ اور ساحل پر قبضہ جمانے کی کوشش کررہا ہے تو دوسری طرف گوادر میں نیول بیس بنانا رہا ہے تاکہ آنے والے دنوں میں چین دنیا کا سپرپارو بن کر بحرہ بلوچ پر قابض پاکستان سے ساز باز کرکے آبنائے ہرمز کی Choke pointپر بھی موجود رہے ۔
ہرمز جوکہ 21 میل چوڑی ہے خلیجی ممالک کی تیل کی برآمدات کا صرف یہی راستہ ہے یہاں سے روزانہ 13ملین بیرل تیل گزرتا ہے تقریباََ دنیا کی تیل کی 40فیصد اور چین کی انرجی کی 60 فیصد رسد ہرمز سے گزرتی ہے۔ ہرمز بحیر بلوچ کے پاس اور گوادر سے 250میل دور واقع ہے۔چین کو خطرہ ہے کہ انڈیا اور امریکہ کے ساتھ جنگ کی صورت میں دونوں ہرمز کی choke pointسے چین کی تیل کی رسد اور سپلائی کو بند کر سکتے ہیں۔ اسی لئے چین پیش بندی سے گوادر پر قبضہ کرکے اس کو اپنی معاشی اور جنگی عزائم کی خاطر استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے ،آبنائے تائیوان اور ملاکا میں امریکہ کی موجودگی اور خطرے سے بھی چین بچنے کے لیے گوادر کو اپنے لیے محفوظ سمجھتا ہے کہ جہاں سے وہ اپنے مخالفین پر قابو پانے کی کوشش کرے گا۔ اگر چین نے گوادر میں نیول بیس بنالیا ( چین کی آمد کا مقصد بھی یہی کہ وہ نیول بیس بنائے) تو وہ آسانی سے آبنائے ہرمز کے چوک کو گوادر اور ملاکا کے چوک کو اپنی خود ساختہ بنائی گئی Nine dash lineسے کنٹرول کرنے کی کوشش کرے گا ۔
اگر چین اپنے عزائم میں کامیاب ہوا تو وہ گوادر پورٹ کو اپنے فوجی مقاصد کی خاطر استعمال کرے گا جس کے ذریعے چین بلوچستان کے
ساحل کو استعمال کرتے ہوئے انڈیا کا مکمل طور پر محاصرہ کرنے کی کوشش کرے گا ،پاکستا 1964سے پلاننگ کر رہا ہے کہ گوادر میں نیول بیس تعمیر کرکے انڈیا کا محاصرہ کرے لیکن چونکہ پاکستان معاشی اور فوجی طور پر اس قابل نہیں کہ وہ اکیلے اس کام کو انجام دے اسی لیے اب اس میں چین کو شامل کیا گیا ہے ۔ چین کی تیل کی کمپنی the Great United Petroleum Holding Co., Ltd (GUPC)بھی گوادر میں ایک تیل صاف کرنے کی ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس تعمیر کروانا چارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین گوادرمیں Gwader special economic zone {GSEZ}بنانا چارہا ہے ،گوادر پورٹ کے حوالےjohn Garverنے کہا ہے کہ گوادر پورٹ چین کے مغربی حصہ کے لوگوں اور سامان کو ریل کے ذریعے ان کے باقی ملک کے حصوں ،سنٹرل ایشاء اوربحرہ عرب میں لے جانے کے لئے اہم ہوگا ۔چین کی پاکستان سے تعاون کا دور 1960میں شروع ہوچکا ہے جہاں قراقرم کی تعمیر،پھر 1990تک
پاکستان کو ایک نیوکلیر ملک بنانا اور اب مقبوضہ بلوچستان کے علاقے گوادر کو قابض پاکستان سے معاملہ پکا کر کے اپنے جنگی عزائم کے لئے استعمال کرنا شامل ہے جسکا مقصد بحرہ بلوچ اور خلیج فارس سے امریکہ کی نیوی عملداری کی نگرانی اورانڈیا کی نیوی کی نگرانی بحرہ عرب سے کرنا ہے ۔
چین پاکستان کا گٹھ جوڑ اور بلوچستان میں ان کے منصوبے ہماری قومی خاتمے کا خاکہ اور ڈیزائن ہیں۔ اور ان سے بلوچ قومی وجود اور شناخت کو ابور جنیز ،ریڈ انڈین اور ماؤری اقوام کی طرح خطرہ ہے۔ جہاں پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں بلوچوں کی آبادی 8ملین سے کم ہے وہاں چین اور پاکستان 500سے زیادہ ملین افراد آباد کروانا چاہتے ہیں۔ اور ابھی سے Gwadar Development Authorityکے ذریعے ساری گوادر کی زمینیں وہاں کی مقامی لوگوں سے لیکر پنجابی سرمایہ داروں کو فروخت کئے جارہے ہیں۔دوسری طرف چین بھی خود کچھ علاقے اپنی ملکیت کے طور پر لے رہا ہے۔ اور چین نے یہاں تک کہ اپنے لوگوں کی سیکورٹی کا بندوبست بھی خود کرنے کے لیے بڑا علاقہ مانگا ہے۔ اور آگے یہ بھی تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں جہاں سے پاک چین اقتصادی راہداری گزر ے گی وہاں بھی چین خود کی سیکورٹی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اگر چین کی ماضی کی جارحانہ عزائم کو سامنے رکھتے ہوئے تجزیہ کیا جائے تو مستقبل میں بلوچوں کا سب سے بڑا سردرد چین بن سکتا ہے۔ چین امریکہ کی طرح بلوچستان میں بھی ویتنامی ماڈل اپنا سکتا ہے کیونکہ ویت نام نے فرانس کو اپنی جنگی آزادی میں تو شکست دی تھی لیکن امریکہ نے اپنے مفادات کی خاطر فرانس کی جگہ لیکر ویت نام پر قبضہ کیا۔ آگے ہو سکتا ہے کہ چین پاکستان کی جگہ لیکر وہاں خود نگران بن کر انگریز اور پاکستان کی طرح حکمرانی کرنے لگے ،چین پاکستان ،شمالی کوریا اور روس اپنے مفادات کی خاطر بلاک بنا سکتے ہیں۔ اور ان کے رد عمل میں امریکہ ہندوستان، اسٹریلیا،جاپان،جنوبی کوریا،ویتنام،سنگاپور،برونائی،ملائیشیا افغانستان اور بلوچوں کی بھی فطری اتحاد او ر قومی مفادات کے لیے نزدیکی ہوسکتی ہے ۔
چین جہاں بحرہ جنوبی چین اور مشرق بعید میں جاپان ،جنوبی کوریا ویتنام کیلئے خطرہ ہے۔ اسی طرح وہ بحرہ بلوچ بحرہ عرب اور بحرہ ہند میں امریکہ ہندوستان اور بلوچ کے لیے خطرہ ہے۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ ابھی سے ہی چین کی جارحانہ عزائم کو روکنے کے لیے اس کے تمام متاثرین ایک توانا قوت اور آواز بن کر چین کو روکنے کی کوشش کریں۔ بلوچستان ثقافتی ،تاریخی،سماجی،وسائلی اور قومی خودداری کے
حوالے سے کورین، جاپانی ، افغان،ویتنامی اور سنگاپورکی اقوام سے کم نہیں ہے ۔تاریخی حوالے سے ہمیشہ تین خطوں مڈل ایسٹ ،سنٹرل ایشیاء،اور جنوبی ایشیاء کے سنگم پر واقع ہونے کی و جہ سے بلوچستان اور بلوچ کی اپنی الگ شناخت اور پہچان ہمیشہ سے رہی ہے۔ لیکن قابضانہ دور میں احساس کمتری میں مبتلا قابض کے شریک کار اور کلان سے تعلق رکھنے والے طبقے بلوچ کو پاکستانی کہتے ہیں اور جبکہ کچھ حالات سے جلدی متاثر ہونے والے اور اشتعال پزیر اور جلد برانگیختہ ہوجانے والے اور اپنی قوم ، لوگوں اور تاریخ سے عدم واقفیت رکھنے والے ، خود اور اپنی قوم پر عدم یقین کرنے والے لوگ جاہلانہ اور چاپلوسانہ انداز میں خود کو کھبی ہند تو کھبی افغان تو کھبی ایران سے جوڑتے ہیں ۔ نیشنلزم اور تاریخی ثبوتوں کی روشنی میں ہم بلوچ ہیں۔ اگر ہم ان ثبوتوں کو مسترد کرکے کسی اور کو خوش کرنے کے لیے پاکستانی ،ہندوستانی،ایرانی،جاپانی اور افغان خود کو قرار دیتے ہیں۔ تب نیشلزم کے تحت یہ بچگانہ عمل قومی گالی سے کم نہیں ہے۔
رہبر اور لیڈر کسی بھی قوم میں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ پوری قوم کی عکاس ہوتے ہیں۔ اگر اپنی قومی معاملات میں لیڈر احساس کمتری کا شکار ہوکر اپنی قومی تاریخ،ثقافت اور قوم کے مستقبل کے بارے میں اس طرح کے بچگانہ عمل کریں۔ تو وہ

اقوام فلپائنی ،پاکستانی اور افریقی اقوام کی طرح قومی وسائل دولت اور افرادی قوت کے باوجود تبائی بربادی اور بدتریں صورتحال کا شکار ہوسکتے ہیں ،قومیں دنیا کی سیاسی دنگل اور میدان میں چاپلوسی ،چم جلی،دھوکہ بازی،پینتربازی اور مَدَح سرائی سے نہیں بلکہ ایمانداری ،نقطہ نظر ،مضبوط موقف اصول کلیت، حکمت عملی کھراپن اور قومی خودداری سے اپنا جگہ اور مقام بنا سکتے ہیں۔ جس طرح روس کو لیڈر پطرس اعظم ، جنوبی کوریا کو جنرل پارک چنگ ہی، ملائیشیا کو مہاتیر محمد ،سنگاپور کو لی کوان یؤ کی شکل میں ملا جن کا مقصد ان کی قوم اور ملک کی تعمیر تھا۔ بلکل ان سے کسی حد تک ملتا جلتا کردار اور عمل کے حامل لیڈر بلوچ قوم کو حیربیار مری کی شکل میں ملا ہے۔ جس نے موجودہ تحریک کو نئی آکسیجن فراہم کرتے ہوئے پھر سے اسے حرکت دیکر توانا کیا اور آج قومی تحریک نشیب و فراز سے گزر کر آزمانے اورجانچ پڑتال کے مراحل میں داخل ہوتے ہوئے منزل کی حصول کی جانب گامزن ہے ، جہاں ایک طرف پاکستان مسلم لیگ،پیپلز پارٹی ،جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی اور نیپ کی تسلسل اور انکی پارٹی ڈھانچے کی طرح تشکیل پانے والی نام نہاد قوم پرست پارٹیاں اور تنظیمیں بی این پی جوڑواں ،نیشنل پارٹی جمہوری وطن پارٹی ہیں کہ جن کی تنظیمی اور پارٹی ڈھانچہ پاکستانی پارلیمانی پارٹیوں کے مانند اور مشابہ تشکیل دی گئی ہیں تو دوسری طرف بدنصیبی سے کچھ آزادی پسند پارٹیاں ہیں جو بی این پی جوڑواں ، نیشنل پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی سے آزادی اور پارلیمانی طرز سیاست کے نقطہ پر الگ ہوئے لیکن ان پارٹیوں کی بناوٹ ،سرگرمی اور فعل کی نوعیت اور اندرونی ساخت لفظِ آزادی کے علاوہ نیشنل پارٹی، بی این پی جوڑواں اور جمہوری وطن پارٹی جیسی ہیں۔ جس طرح پاکستانی پارلیمانی پارٹیوں کے سنٹرل کیمٹی، زون ،یونٹ ہوتے ہیں بلکل اس طرح کا یکساں اور متشابہ ڈھانچہ آزادی پسندوں کا ہے اور اب یہ لوگ اپنی ساری انرجی فقط اپنی روایاتی سیاسی اسڑکچر کو برقرار رکھنے کے لیے لگارے ہیں۔پارٹی کسی مقصد کے لیے بنایا جاتا ہے نہ کہ پارٹی بذات خود مقصد ہوتا ہے اسی لیے زیادہ تر پارٹیاں جو بلوچستان میں موجود ہیں ان کوپارلیمانی ووٹ ، الیکشن کو مدنظر رکھ کر تشکیل دیا گیا ہے اور بلوچستان میں موجود بہت سی پارٹیوں نے سوشلسٹ پارٹیوں کے ڈھانچہ کا نقل نویسی کیا ہوا ہے لیکن چالیس سال کے سیاسی اَزمائش کے عمل نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سوشلسٹ پارٹیوں کی ڈھانچہ سے متا ثر ہو نے والے پارٹیا ں یا تو بی این پی اور نیشنل پارٹی کی طرح پاکستان پرست بن جاتی ہیں یا پھر اس ڈھانچے پر قائم پارٹی نظام آزادی کی جدوجہد کی بنیادی لاوازمات کو پورا نہیں کرسکتی ہے جیسے کے کارکنوں کی زندگیوں کی حفاظت، رازداری، ریاستی ایجنٹوں کی پارٹیوں میں سرایت کو روکنا شامل ہیں پارلیمانی طرز سیاست کے ڈھانچہ پرقومی آزادی کی سیاست کرنے والے کچھ پارٹیاں قومی آزادی کا سفر جوکہ پر خطر ،نصیحت آمیز اور پیچیدگی کی وجہ سے سریع الفہم کا مُتلاشی ہے اس میں وہ آسان راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے لیے قومی آزادی کی جدوجہد کے لیے اتنی تیاری ،مہارت ، ا حتیاط وچوکسی اور سنجیدگی درکار ہے کہ جتنی کسی ہوائی جہاز بنانے والے کو ایک ہوائی جہاز بناتے وقت درکار ہوتا ہے ۔ جس طرح جہاز بنانے والے کی چھوٹی سی چھوٹی غلطی جہاز کو تباہ اور زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے ایسے ہی آزادی کی جدوجہد میں مہارت ،احتیاط ،سنجیدگی اور سریع الفہم کا فقدان قومی جدوجہد کو ٹائیٹینک جہاز کی طرح ڈبو سکتا ہے ۔ جب کہ پارلیمانی طرز سیاست کی مثال ایک جگہ سے دوسری جگہ ستر سی سی موٹرسائیکل پر سفر کی طرح ، آسان ، قلیل مدتی اور محفوظ ہے ۔ کچھ آزادی پسند پارٹیاں اب تک سفر کی پیچیدگی اور خطروں کو سمجھ نہیں سکے ۔ وہ اپنے تصوراتی خیالوں اور قومی آزادی کی جدوجہد پارلیمانی پارٹی ڈھانچہ کی سیاست سے کرکے دراصل موٹر سائیکل کی انجن سے ہوائی جہاز کی طرح اڑنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اب ان کو اس حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ آزادی کے لیے جو چیز درکار ہے وہ ان سیاسی ڈھانچہ میں نہیں جن کا مقصدِ تشکیل ہی بالخصوص پارلیمانی اہداف حاصل کرنا تھا ۔
پاکستان جیسے درندے اوروحشی ملک میں جمہوری سیاست سے عام ورکروں اور جہدکاروں کو جمہوری انداز میں عہدہ دینا اور پھر سب کو ایک ساتھ ایک ہی سنٹرل کمیٹی زون اور یونٹ میں جمع کرنا اور انھیں وحشی درندے پاکستان سے بچانا در اصل کرامات اور معجزہ سے کم نہیں ہے۔ حالانکہ حقیقت کی دنیا میں کرامات اور معجزہ ایک بار ہوتے ہیں بار بار نہیں۔ حالانکہ اسپین جیسے جموری ملک میں قومی آزادی کی جہدکرنے والی پارٹی Batasunaپر اسپین نے پابندی لگائی تھی۔ اور انکے خلاف کاراوئی کی کہ یہ مسلح ونگ ETA.کا حمایتی تنظیم ہے۔ اور اس تنظیم کے لوگوں نے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری براعظم یورپ میں بھی قومی آزادی کے جہد میں جمہوری طریقہ نہیں اپنایا ۔کیونکہ جمہوریت پر عمل کرنے کے لیے امن کا ہونا لازمی ہے، جنگ اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوے Batasuna کے سب کے سب کارکن پوشیدہ اور مخفی طریقہ سے کام کررہے تھے۔ حالانکہ اسپین جموریت پسند ہونے کے باوجود ایسے تنطیم کو برداشت نہیں کرتی جوکہ اس کے جیوگرافیک اسٹیٹس کو کے خلاف تھی۔ اسی لیے ان پر اسپین کی عدالت نے پابندی لگا دی۔ لیکن ہمارے تصوری اور خیالی اور کچھ موقع پرستوں کے یہاں گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔ اور یہ لوگ اپنی موقع پرستانہ روش اور تصوری اور خیالی پالیسیوں سے حقیقی اور ایماندارانہ سوچ رکھنے والے ہمارے بلوچ جہد کاروں کو وحشی اور درندے پاکستان کی آگ کی بھٹی میں ڈال رے ہیں۔ دوسری
طرف سنگت حیربیار مری حقیقت پسند بن کر منزل اور مقصد پر نظریں لگا کر اپنے دوستوں کے ساتھ جدوجہد کررہے ہیں۔ پشتوں بلوچ چپکلش ہو ،افغان بلوچ تعلقات ،ایران کے حوالے قومی پالیسی ہو یا کمیونزم سوشلزم کی بھڑک بازیاں ہوں ، مغرب اور امریکہ مخالف بیان بازیاں ، سرداری نوابی دستارہو یا اس نظام کی مخالفت ہو یا مذہب اور بلوچ کا قومی سوال ہو، شروع دن سے ان معاملات کے حوالے سے سنگت حیربیار مری نے جن پالیسیوں کی پرچار کی اور ان کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنایا آج ان پالیسیوں کا ثمر پوری بلوچ قوم کو قومی حوالے سے مل رہا ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے آزادی پسندوں میں موجود ان پالیسیوں کے کریٹک اور نقاد حیربیار مری کی پالیسوں کی گن پہچاں چکے ہیں ۔
بلوچ قوم کو درپیش چیلنجوں کو دیکھ کرآزادی پسند لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصولی قومی اتحاد اور یکجہتی کرکے قومی طاقت بن کر بلوچ قوم کو اپنی سرزمین میں اقلیت میں تبدیل ہونے اور دنیا کے حالات کواپنے حق میں ہموار کرتے ہوئے اپنی قومی آزادی حاصل کریں۔ قومی لیڈر پطرس، اور لی کی طرح حقیقت پسندانہ پالیسی اپناتے ہوئے اپنی قوم کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنائیں ۔اگر ہماری سوئی پارٹی بازی گروہ بازی اور معمولی ذاتی مفادات تک اٹکی رہی تو ہمارے لیے موورو موومنٹ سمیت بہت سی مثالیں سیاسی تاریخ میں موجود ہیں کہ کس طرح مورو موومنٹ نے فلپائن کے خلاف قومی آزادی کے لیےmnlfمورو نیشنل لبریشن فرنٹ 1969بنائی تھی۔ اس کی اپنی ایک فوج تھی۔ Bangsamoroفوج اور یہ فوج روایتی فوج کی طرح تھی۔ بقول Joseph Liow, Michael Leiferاس کی فوج کی تعداد 1990میں 17000تھی۔ انھیں مکمل مالی اور فوجی مددلیبیااور ملائیشیاء کی طرف سے مل رہی تھی۔ اور اس جنگ سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگ پناہ گزین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے اور انکی تحریک نے وہ مقام حاصل کیا کہ دنیا انکی طرف مکمل متوجہ ہوئی۔ اور اسلامی ممالک کی تنظیم OICنے انھیں مورو لوگوں کا باقاعدہ نمائندہ تسلیم کیا۔ اور مورو قوم کردوں کی طرح اپنی قومی آزادی کے بہت قریب پہنچ چکے تھے ۔ مورو کی جہد کا بنیادی لیڈر ہاشم سلامتNur Misuari, نورمصوری سمیت اور بہت سے لیڈر تھے۔ لیکن تقسیم در تقسیم ،نفاق اور غلط حکمت عملیوں نے ان کی کامیابی اور بہرہ مندی کو زک اور انہدام میں تبدیل کیا اور انکے مسلح تنظیمیں پھر تقسیم در تقسیم ہوتے گئے۔
مورو لبریشن تنظیم ، موروآرمی ، مورو آرمز فورس ،مورو نیشنل لبریشن فرنٹ ،BMLO,MILF,MIM,NLM,NPA, اور the Moro National Liberation Front (MNLF)،the Moro Islamic Liberation Front (MILF)،اور ابو سیاف مسلح تنظیم وغیرہ تھیں۔ یہ تنظیمیں تقسیم در تقسیم ہو کر الگ الگ ممالک کی منظور نظر ہوتے گئے۔ اور ان کے کچھ لوگوں نے اپنی طفلانہ حرکتوں کی وجہ سے ان کی مضبوط اور آزادی کے دہلیز پر پہنچنے والی موومنٹ کو دنیا میں تماشہ بنایا۔ اوریہ اپنے مفادات اور ذاتی دوکانداری کی خاطر ایک دوسرے پر غداری کا لیبل لگاتے رہے۔ اور انکی نااہلی، نااتفاقی اور جدوجہد کی پیچیدگیوں سے عدم سمجھ کی وجہ سے قومی معاملات میں ان کے فیصلے ملائیشیا ،لیبیا اور دوسرے ممالک طے کرتے رہے ۔ کتاب Civil Wars of the World: Major Conflicts Since World War II میں لکھا ہے کہ ان کی موومنٹ تین تشویش ناک مسئلوں کو حل کرنے کی عدم صلاحیت کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکا ۔
1کس طرح ایک مسلم روایاتی سماج کو ڈیل کیا جاتا ہے۔
2کس طرح مورو ریپبلک کوچلائے جائے ۔
3کس طرح مورو کے اندر نسلی مسئلوں سے نمٹا جائے ۔
اس کے ساتھ ساتھ آزادی کی جہد میں ان لوگوں نے طبقاتی تنازُع شروع کیا۔ لی کوان یہو،شناناگوژماوُ،ہاشم تاچی،کی طرح ان میں صاحب تدبیر ،مدبر اور سیاسی بصیرت کے حامل لیڈر نہیں تھے۔ اور آزادی کے منزل کے قریب ہوتے ہوئے بھی وہ منزل سے کوسوں دور چلے گئے۔ اگر آج کے حالات کو دیکھا جائے تو اس بات سے کوئی انکاری نہیں ہوسکتا کہ بلوچ جہد میں موجود بہت سی قوتوں نے مورو تحریک کی طرح غلطیاں اور نادانیاں کی ہیں۔ مگر بد قسمتی سے یہ غلطیاں پھر سے دھرائی جارہی ہیں۔ دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچ قوم کے لیے آزادی کی جدوجہد کرنے والی قوتوں کو اب پارٹی بازی، ذاتی ضد ، نمود نمائش اور تنگ نظری سے نکل کر قوم کی وجود کو بچانے لیے قومی آزادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اصولی اتحاد اور قومی ہم آہنگی کرنی ہوگی ۔ کیونکہ ان حالات میں بلوچ کے پاس صرف دو راستے ہیں یا منزل سے قریب پہنچ کر تصوراتی، نمود نمائش، طفلانہ حرکتیں، پارٹی بازی کرکے مورو قوم کی غلطیوں کو دھراتے ہوئے ان کی طرح دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہوجائیں یا پھر حقیقت پسندانہ سیاست، سیاسی بصیریت،دوراندیشی اور سیاسی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوسووو ، مشرقی تیمور، پولینڈ، آئرلینڈ، ویتنام، کینیا اور دوسری سرزمین اور اقوام کی طرح دنیا میں ایک آزاد قوم کی طور پر پہنچانے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز