چهارشنبه, آوریل 24, 2024
Homeآرٹیکلز،میرے دھرتی کے سچے عاشق،تحریر: ثاقب بلوچ

،میرے دھرتی کے سچے عاشق،تحریر: ثاقب بلوچ

میرے زندگی میں شازونادر ہی ایسے لمحے آتے ہیں کہ میں لاجواب ہوتا ہوں کہنے کو بہت کچھ کہنا چارہا ہوتا ہوں لیکن کچھ کہہ نہیں پاتا ہاتھ کانپنے لگ جاتے ہیں جسم میں ایک ترتراہٹ سا محسوس ہوتا ہے بہت سنبھلنے کو چاہتا ہوں لیکن میرے جسم پہ میرے سوچ پہ میرے روح پہ میرا کنٹرول نہیں ہوتا ایسا محسوس ہوتا ہے میرا وجود مجھ سے دور بھاگتا جارہا ہے اور میں سکتے میں کچھ نہیں کرپارہا ہوں ان لمحوں کو میں محسوس کرنا چاہتا ہوں ان لمحوں کو میں اپنے اندر سمیٹنا چاہتا ہوں ان لمحوں کو میں صرف لمحے اور پھر ہوا میں تحلیل کرنا نہیں چاہتا۔
آزادی کی اس کارواں میں کم و بیش تقریبا 12 سال سے سیاسی پلیٹ فام سے ہمسفر رہا ہوں، سینکڑوں واقعات ان آنکھوں نے دیکھے کچھ دل دہلانے والے واقعات کچھ جگر کو پارہ پارہ کرنے والے واقعات کچھ اپنے آپ کو فنا کرنے والے واقعات اور کچھ بےمقصد وجود والے واقعات لیکن شہید دلجان و بارگ جان کی شہادت نے مجھے یہ سوچنے پر ایک دفعہ پھر مجبور کردیا کہ آخر بہادری، ہمت، جزبہ، جوش، شعور، جرات اور نظریہ کا پیمانہ کیا ہوتا ہے ؟ کیا کوئی انسان اس قدر بہادر ہوسکتا ہے کہ بغیر کسی لالچ بغیر کسی زاتی مفاد بغیر کسی زاتی مراعات بغیر کسی خاندانی لالچ بغیر کسی قیمت کے کئی ، کئی سال بھوکے پیاسے زخموں میں خون سے لت پتا ان ویران پہاڑوں میں گزارے جہاں عام انسان دن کو بھی جانے سے ڈرتا ہو۔ کیا ایک سوچ اس قدر بھی پختہ ہوسکتا ہے کہ آپکو ماں کی گود سے اپنی طرف کھینچ لے اور ماں دنگ رہ جاۓ ؟ کیا ایک نظریہ اس قدر پختہ ہوسکتا ہے کہ آپ کو باپ کی چھاؤں سے کھینچ کے تپتی دوپ میں لے جاۓ اور باپ سکتے میں رہ جاۓ ؟ کیا ایک فکر اس قدر مضبوط ہو سکتا ہے کہ آپ کو آپ کی پھول جیسی بہن جس کو آپ کی کندھوں کی ضرورت ہو آپ کو کیھنچ کے ایسی لے جاۓ کہ سالوں آپ اس بہن کی آواز تک نہ سن سکو کیا ایک مقصد اس قدر پختہ ہوسکتا ہے کہ جس بھائی کو ہرلمحہ آپکی ضرورت ہو اور وہ مقصد آپ کو ایسے کھینچ کے لے جاۓ پھر واپسی کا کوئی امید ہی باقی نہ ہو۔!
جی ہاں وہ پختہ سوچ، وہ پختہ نظریہ، وہ پختہ فکر، وہ پختہ مقصد دھرتی ماں ہے، وہ دھرتی ماں جس کی کوکھ سے ہم جنم لے چکے ہیں، وہ دھرتی ماں جس نے ہمیں چلنا سکھایا، وہ دھرتی ماں جس نے ہمیں ایک پہچان دی، وہ دھرتی ماں جس نے ہمیں سانس لینا سکھا دیا، وہ دھرتی ماں جس نے ہمیں آواز دی، وہ دھرتی ماں جس نے بغیر کسی غرض کے ہمیں کھلایا پلایا ، وہ دھرتی ماں جس نے ہمیں وجود دی، وہ دھرتی ماں جس نے ہمیں ہمت دی، وہ دھرتی ماں جس نے ہمیں عزت دی، وہ دھرتی ماں جس نے ہمیں غیرت دی، وہ دھرتی ماں جس نے ہمیں ایک الگ قومی شناخت دی، وہ دھرتی ماں جس نے ہمیں اپنایا۔ آج جب اس دھرتی ماں نے ہمیں آواز دی کہ اے میرے فرزند اب مجھے آپ کی ضرورت ہے، اب اٹھ کہ غیر نے مجھے للکارا ہے، اے میرے لال اب اٹھ کہ غیر نے مجھے اپنی گندی نظروں سے دیکھا ہے، اے میرے لخت جگر اب اٹھ کہ ظالم نے میری کوکھ پہ اپنی غلیظ و ناپاک نگاہ ڈالی ہے، اے میرے نور اے نظر اب اٹھ کہ تیری ماں محفوظ نہیں ہے، اے میرے بہادر جانباز اب اٹھ کہ تیری ماں شال دشمن کی ناپاک مٹھی میں ہے، اے میرے نڈر فرزند اب اٹھ کہ تیرے باپ کی عزت محفوظ نہیں ہے، اے میرے ہمدم اٹھ کہ تیرے پھول جیسی بہن کی عزت کو ظالم تار، تار کرنے والے ہے، اے میرے پھول اب تو اٹھ جا نہیں تو تجھ پہ میری پاکیزہ دودھ کا وہ قرض کھبی معاف نہیں ہوگا جسے میں نے تجھے پلایا۔
دھرتی ماں کی اس پکار پر ہزاروں بلوچ فرزند نے لبیک کہہ کر دھرتی ماں کی رکشاں کرنے سرمئی پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا لیا ہزاروں نے سیاسی پلیٹ فام سے جدوجہد شروع کی تو ہزاروں نے مسلح ہوکر دشمن کو للکارا ایسے میں شہید نور الحق عرف بارگ جان اور ضیا عرف دلجان نے سیاسی پلیٹ فام سے اس کاروان اے آجوئی میں شامل ہوکر دھرتی ماں کی قرض ادا کرتے رہے۔ سیاسی پلیٹ فام پہ جب کام کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا تو دھرتی ماں کی ان جانباز فرزندوں نے فیصلہ کرلیا کہ اب مسلح محاز ہی ایک واحد راستہ ہیں جہان سے ہم اپنی زمہ داریاں بخوبی نبھا سکیں گے اور پھر یہ بہادر سپوت تادم اے شہادت مسلح جدوجہد سے ہی جھڑے رہے۔ ویسے تو ان جانباز فرزندوں کی بہادری ان کی جرات اور ایمانداری قابل اے دید تھی ۔ مگر ساتھ ہی ساتھ وہ جہد اے مسلسل اور علمی میدان میں بھی کافی مہارت رکھتے تھے۔ سنگت دلجان کی کئی مضامین سوشل میڈیا میں موجود ہیں جو ہم جیسوں اور آنے والے نسل کے لیے انکی تحریر اور کردار مشعل راہ ہیں۔
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ وہ وقت کیسا ہوگا جب ایک انسان کو پتہ ہو کہ وہ فنا ہونے والا ہے یا وہ اب مرنے یا جام شہادت نوش کرنے والا ہے اس کے تاثرات کیا ہونگے وہ کیا سوچ رہا ہوگا ؟ اس کا دفاع اس کو کیا کہہ رہا ہوگا ؟ اس کا دل دھڑکتے دھڑکتے اس کو کیا سوچنے پہ مجبور کررہا ہوگا ؟ دنیا میں اکثر لوگ بغیر مقصد جیتے ہیں اور بغیر مقصد کے ہی مرجاتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے وقت بدلتا رہتا ہے ان کی قبروں کی مٹی ہوا میں تحلیل ہو کر چلی جاتی ہے اور کرتے کرتے ایک دن ایسا بھی آجاتا ہے کہ اس کا نام و نشان تک اس دنیا سے مٹ جاتا ہے، مگر دھرتی ماں سے عشق مادر اے وطن سے محبت ہی وہ واحد زریعہ و راستہ ہے جو انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رکھتا ہے اس کو دوسروں کے لیے ایک روشنی بنا دیتا ہے۔ اس کو باقیوں کے لیے ایک چراغ و امید کی کرن اور ایک مضبوط نظریہ بنا دیتا ہے۔ دوسرے اس کی طرز عمل اور زندگی سے متاثر ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر رہ سکتے ہیں۔
وہ لمحہ کیسا ہوگا جب شہید دلجان و شہید بارگ جان اپنے اپنے کلاشنکوف کو دیکھے ہونگے ؟ کہ اس سے دشمن پہ تیر برسانا بند ہوا ہے اس وقت ان کی تاثرات کیا ہونگے ؟ وہ ایک دوسرے کو کیا کہہ رہے ہونگے ؟ ان کی بیچ کا مکالمہ کیسا ہوا ہوگا ؟ کاش وہ وقت وہی تھم جاتا اور ہم وہاں ان کی بیچ موجود ہوتے اوران کی گفتگو سن لیتے، وہ گھڑی کیسی ہوئی ہوگی جب سامنے سے دشمن یہ آواز لگا رہا ہوگا کہ ہتھیار پھینک دو ہم تمہیں نہیں مارینگے اور اس وقت شاہ اے شہیدان دشمن کو کیا جواب دیئے ہونگے ؟ اور دشمن ان کی جواب سن کہ وہی خاک میں مل چکا ہوگا، وہ لمحہ بھی دنگ رہ چکا ہوگا جب دو بہادر سپوت ایک دوسرے کو گلے لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خداحافظ کہہ چکے ہونگے، وہ ساعت وہ لمحہ وہ گھڑی ضرور قابل دید ہوگی جب دونوں جانباز اپنے اپنے آخری گولیاں چھوم کر پھلین امیر جان کی کاروان میں شامل ہونے کے لیے بےقرارہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔
دھرتی ماں کی قبضہ زدہ خشک اورحسین و جمیل مگر دولت سے مالا مال سوکھی مگر مہرومحبت کی زمین کو آبیار کرنے کی خاطر اسکے حقیقی سپوتوں اور فرزندوں نے شعوری فکری اور نظریاتی موجودگی اور وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے سرخ لہودے کر دھرتی ماں کی قرض کو ادا کرتے ہوۓ آزادی کی نشانی قومی بیرک کو بلند وبالا کیاہوا ہے ،دھرتی ماں کی قرض کو ادا کرنے کے لیے جن بلوچ فرزندوں نے مادرانہ سلوک کا عیوض دیتے ہوئے اپنی زندگی کو قربان کردیا اور وہ سپوت قومی تاریخ میں قومی تاج سر پر پہن کر جام شہادت نوش کرتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پوری قوم پر حکمران رہے ۔
جہد آجوہی زندگ بات

یہ بھی پڑھیں

فیچرز