پنج‌شنبه, مارس 28, 2024
Homeآرٹیکلزآخر اس کا انجام کیا ہے ؟ تحریر۔ نود بندگ بلوچ

آخر اس کا انجام کیا ہے ؟ تحریر۔ نود بندگ بلوچ

طویل بحث کے تھکن کے آثار نمایاں کیئے بغیر وہ اپنے روایتی گرجدار آواز میں بولنے لگا \”چلو میں تسلیم کرتا ہوں 2011 تک یہ مسائل اس لیئے فیس بک و اخبارات کے زینت نہیں تھے کیونکہ آپ لوگ پہلے درونِ خانہ گفت و شنید سے کوئی راستہ نکالنا چاہتے تھے اور حتی الامکان سمجھانا چاہتے تھے ، اس کے بعد آپ لوگ عوام کے سامنے آئے ، چلو یہ بھی مان لیا کہ مسائل ہیں ، کوتاہیاں ہیں ، غلطیاں ہیں اور دانستہ و نا دانستہ نقصان دینے کی بھی کوشش کی گئی ہے یہ بھی مان لیتا ہوں کہ ان پر لکھنا بھی ہرگز فعل ممنوع نہیں لیکن کیا یہ یونہی چلتا رہے گا ؟ کیا کوئی حل یا اس عمل کا کوئی منطقی انجام نہیں ؟ اگر ہے تو کیا ہے ؟\”
نصف شب تک جاری بحث کا یہ قطعہ محض اس دوست کے خیالات کا ماخذ ہرگز نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی بے چینی اور اس بے چینی سے اٹھتے سوالوں کے اثرات کا بھی مظہر ہے ، بنیادی انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے اردگرد جاری کسی بھی عمل کے بارے میں تب تک بے چین رہتا ہے جب تک علت تلاش نہیں کرپاتا اور منطقی انجام سے آشنائی حاصل نہیں کرتا ، سطحی جائزے سے تلاشِ علت اور منطقی انجام سے آگاہی فلسفیانہ اور سائنسی رویوں کے ضمرے میں آتے ہیں لیکن معاملات یہاں سیاہ و سفید میں نہیں بانٹے جاسکتے کیونکہ جہاں ان رویوں نے سائنس و فلسفے کی بنیاد رکھی وہیں اساطیر و عقیدے بھی انہیں رویوں سے پیدا ہوئے ، طلوعِ و غروبِ آفتاب سے ششدرہ انسانوں نے تسکین کیلئے سورج کو دیوتا کا ناو اور نیلگی آسمان کو فضا میں معلق سمندر کہہ کر دیوتا کو صبح سے رات گئے تک اس میں چپو چلوایا ،کسی نے اسے زیوس کہا تو کسی نے \” انو \” اور کسی نے خدا کا کرشمہ ، اسکی کیا وجہ تھی ؟ یہی کہ وہ اس جاری عمل کو سمجھنا چاہتے تھے انہیں اس عمل کے علت کی تلاش تھی تو علت انہوں نے اپنی نگرانی گردانی اور منطقی انجام کسی نے دیوتاوں کے آپسی لڑائی میں کائنات کا بے نور ہونا ٹہرایا تو کسی نے آسان الفاظ میں اسے قیامت کہہ ڈالا لیکن بات تو یہاں تک ختم نہیں ہوتی ان لوگوں میں کچھ کوپر نیکس جیسے دیوانے بھی تھے اور کچھ برونو جیسے آشفتہ سر بھی جو مجمعے کے سامنے زندہ جلتے وقت یہی کہتا ہے کہ \”تمہارا خدا بہت چھوٹا ہے ، اپنے خانوں سے نکلو اور کائنات کے وسعتوں کو پہچان کر بڑے خدا کی تلاش کرو\” اور آج انہی جلتے برونوں کے فکری نسل ہمیں بتاتی ہے کہ سورج اصل میں کیا ہے ، وہ کسی منطقی انجام تک پہنچنے کیلئے جلد بازی کا شکار نہیں تبھی تو 2004 میں اس قبیل کے لوگ ایک خلائی مشن \” روزیٹا \” خلاء میں چھوڑتے ہیں جو مسلسل 10 سال خلاء میں تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے 316 ملین میل کا سفر طے کرنے کے بعد پچھلے مہینے ایک دمدار ستارے پر ایک چھوٹا سا 3 فٹ چوڑا مشین \” فلی \” کو اتارتا ہے ، اب کہتے ہیں کہ \” فلی \” وہاں کچھ تصویریں لے گا اور تھوڑا سا مٹی جمع کرے گا جس سے پہلی بار انسان یہ جان سکے گا کہ زمین پر زندگی کا آغاز کیسا ہوا ، ذرا سوچیں 10 سال مسلسل انتظار اور 316 ملین میل کا سفر طے کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ اس کا نتیجہ محض یہ نکلے گا کہ ہم سمجھ سکیں گے کہ زندگی کا آغاز کیسے ہوا لیکن آج سے 7 ہزار سال پہلے چینی اساطیر کے مطابق انسان دیوتا کے چھینکنے سے پیدا ہوا تھا مسئلہ حل۔ بات طول اختیار کرگئی کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان دونوں سوچوں میں فرق دیکھیں کوئی کسی عمل کے نتیجے کو اپنے اردگرد ہی نزدیک اور فوری ڈھونڈتا ہے تو تشفی اساطیر ، عقیدے اور لغو سے کرتا ہے اور کوئی 3 فٹ کے ڈبے کے پہنچنے کیلئے 10 سال تک انتظار کرتا ہے اور زندگی کے راز معلوم کرتا ہے۔ہماری قومی نفسیات بھی کچھ اسطرح سے ڈھلی ہوئی ہے کہ ہمیں جلد نتائج چاہئے وگرنہ ہم بے چین و پریشان ہوجاتے ہیں ، ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہم ہزاروں سالوں کی تاریخ رکھتے ہیں لیکن 1948 تک ہی دیکھ لیں کہ ہزاروں سالوں کی تاریخ رکھنے والے اقوام تشکیل و نظام ریاست کے کس حد تک پہنچے ہوئے تھے اور ہم کہاں تھے ، شاید طاقت نصیب ہونے کیلئے میگنا کارٹا جیسے دور اندیش معاہدات اور کرومویل جیسے لوگوں کی فتوحات کی ضرورت ہوتی ہے جو بادشاہ کو ہرا کر بھی بادشاہ بننے کے بجائے اقدار اعلیٰ ایوان کو دے دیتا ہے شاید وہ اپنے کسی عمل کے نتیجے کو فوری بادشاہی کی صورت میں دیکھنے کے بجائے دور ڈھونڈ رہے تھے ورنہ رند و لاشار کی نسل جو قلات تک آنے کے بعد تشکیل ریاست کے بجائے \” موت یا گنداواہ \” کا نعرہ لگاتے ہیں اکثر برباد ہوا کرتی ہے ، ایک دانشور اپنا رائے دے رہا تھا کہ رند و لاشار اتنی قوت اور مال و متاع رکھتے تھے کہ وہ ایک مضبوط بلوچ ریاست تشکیل دینے کی طرف جاسکتے تھے لیکن وہ اپنے فتوحات کے فوری نتائج کے چاہ میں تشکیل ریاست کے بجائے زرخیز سیوی و گنداواہ تک چلے گئے اور ان میں اتنی قوت تھی کہ وہ اس وقت دہلی پر حملہ کرکے ہمایوں کے منتشر حکومت کو شکست دے کر حکمرانی کرتے ، وہ تو ہمیں گوہر نے بچا لیا کہ آپسی جنگوں میں الجھ کر کمزور ہونے کی وجہ سے کبھی آگے نہیں بڑھے ورنہ شاید دہلی پر کچھ وقت حکومت کرتے لیکن بعد میں ہم خلجیوں اور مغلوں کی طرح مدغم و تتر بتر ہوکر کسی زمین کو اپنا کہنے کیلئے آج ترس رہے ہوتے۔عزیز دوست میں آپکا چھبتا سوال نہیں بھولا ہوں ، میں تو اسی کے جواب کی تلاش میں اپنے قومی نفسیات اور انسانی جبلت کو چھاننے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں ، آپکا سوال صرف آپ تک محدود نہیں رہا یہ تو ہمارے خمیر کا بیان ہے ، یہ تو ہمارے اس بلوچ کا اظہار ہے جو چار گام اٹھانے کے بعد فوری نتیجہ رہبری چاہتا ہے ، اس بلوچ کا جو چار پرنے سیاہ کرنے کے بعد فوری نتیجہ دانشوری چاہتا ہے ، اس میں چار گولیاں چلانے والا وہ پریشان بلوچ بھی آپکو نظر آئے گا جسے لیڈر نے کہا تھا کہ 2014 میں بلوچستان آزاد ہوجائے گا ، ہم ہمیشہ جلد نتائج چاہتے ہیں یہی حال ان کچھ تنقیدی مضامین کے ساتھ بھی ہے ، میرے فکری حریف بھی اس کے نتائج اور مقصد ڈھونڈنے کیلئے سر اٹھا کر دور نہیں دیکھتا بلکہ اپنے قدموں کے اردگرد دیکھ رہا ہے اسلئے نا سمجھ کر وہ کبھی اسے ریاستی چالبازی ، کبھی تھکن تو کبھی سامراجی سازش کے معنوں میں تشریح کررہا ہے اور میرے فکری حلیف اس انتظار میں نڈھال ہوئے جارہے ہیں کہ کب براہمداغ بگٹی آکر کہے گا کہ معاف کرنا آپ صحیح کہہ رہے تھے میں قبیلے کو قوم سمجھ بیٹھا تھا ، کب ڈاکٹر اللہ نظر کہے گا کہ مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ میں سیاسی تنظیموں کو اپنا باجگزار بناؤں ، کب مہران آکر کہے گا کہ یو بی اے بناکر مجھ سے بڑی بھول ہوگئی، کب جاوید کہے گا کہ واقعی اختر پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ اختر سے ہے ، کب بہن کریمہ و خلیل آکر کہیں گے کہ ہم جو کررہے تھے وہ کچھ بھی کہلایا جاسکتا ہے لیکن قومی سیاست نہیں اور پھر \” ہیپی اینڈنگ \” ہوجائے گی۔آج ہمیں لکھنے نے بہت تکلیف دیا ہوا ہے ، لکھنا از خود کیا ہے محض خیالات کا اظہار ہے ، وہ خیالات آپکے حق میں ہوسکتے ہیں ، آپکے خلاف بھی ، آپ اسکا کوئی منطقی انجام ڈھونڈتے ہیں لیکن کیا خیالات کا کوئی انجام ہوسکتا ہے ، شاید یہ اپنے اظہار کا شکل بدلتا رہے لیکن یہ تو ہمیشہ بیچ میں رہیں گے ، یہاں فکروں کے بیچ ٹکراو ہوتا رہے گا ، آج کا ماحول صاف انداز میں ظاہر کررہا ہے کہ بلوچ سیاست میں دو فکر وجود رکھتے ہیں ، ہر شخص وقت کے رفتار کے ساتھ اپنے ہم فکروں کے ساتھ صف بندی کرتا رہے گا ، کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ مڈل کلاس اور سوشلزم کے داعی جنیوا میں ایک نہیں بلکہ پانچ نوابوں و نوابزادوں کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ملا کر ایکتا کا اظہار کرے گا یا پھر کیا یہ آپکے گمان میں تھا کہ اللہ نظر کا رشتہ دار اور بی ایل ایف کے بانیوں میں سے ایک ثناء بلوچ انہیں چھوڑ دے گا ، نہیں یہاں طبقات و رشتہ داریاں محض ثانوی ہیں اہم چیز فکر ہے اور ہر کوئی اپنے ہم فکروں کی طرف جائے گا ، اس سلسلہ کا اظہار آج سوشل میڈیا میں ظاہر ہے کل کسی اور مقام پر اظہار پا رہا ہو گا ، اس سلسلے کا انجام آزادی بھی نہیں ہے ، امریکی جنگ آزادی کے وقت بھی دو سوچ وجود رکھتے تھے \” قدامت پرست \” اور \” ترقی پسند \” وہی سلسلہ آزادی کے بعد ختم نہیں ہوا بلکہ آج تک \” ریپبلکن \” اور ڈیموکریٹک \” پارٹی کی صورت میں زندہ ہے ، کیا انقلابِ روس بالشویک و منشویک کے فکری تضاد کو مٹا سکا نہیں لیننسٹ و ٹراٹسکیٹ آج تک زندہ ہیں ، آپ سوچ رہے ہوں گے پھر اس تقسیم کا فائدہ کیا ہے ، فائدہ وہی ہے جو جدلیاتی مادیت آپ کو بتاتی ہے ، یعنی جدید و قدیم کے تضاد سے جنم لیتی ترقی ، جب ایک فکر پر تکیہ کرنے کے بجائے اندر سے ایک اور فکر اسے چیلنج کرتی ہے تو اسکے کمزوریوں اور عدم افادیت کو ظاہر کرتی ہے اور اس سے بہتر چیز سامنے لاتی ہے ، پھر نئی فکر رائج ہوتی ہے سلسلہ رکتا نہیں کچھ وقت کے بعد ایک اور نئی اور مزید بہتر فکر پیدا ہوتی ہے ، یہ سلسلہ رکتا نہیں یونہی چلتا رہتا ہے ، یہ آپکے خیالات میں جمود پیدا ہونے نہیں دیتی ، یہ آپکو رکنے نہیں دیتی ، یہ کوئی \” اسٹیٹس کو \” قائم ہونے نہیں دیتا ، یہ روانی پیدا کرتی ہے وہ روانی جو کسی دریا کو جوہڑ بننے سے روکتی ہے ، اسکا فائدہ کسی اور کو نہیں بلکہ میرے اور آپ جیسے عام لوگوں کو ہوتی ہے ، بالفرض آج حیربیار ، براہمداغ ، اللہ نظر وغیرہ اور انکے فکری ساتھی آپس میں گٹھ جوڑ کیئے ہوتے وہ آج کچھ بھی کرتے ، غریبوں کو بے گناہ مارتے یا تحریک کو جاگیر اور تحریک سے جاگیریں بناتے تو انہیں کون روکتا ، کل آزادی کے بعد شمالی کوریا کے کم ال سنگ کی طرح اپنے نسل در نسل کو مسلط کرتے ، کاسترو کی طرح 30 سال حکومت کرنے کے بعد اقتدار اپنے بھائی کو دے دیتے کون انہیں روکتا یہ تو آج سے قبائلی نوابی اور سیاسی نوابی (چیئرمینی) کیلئے کسی حد تک جانے کیلئے تیار نظر آتے ہیں ، ان کے اندر سے ہی کوئی قوت انکے سامنے کھڑی نا ہو تو پھر یہ کس کس حد تک جاسکتے ہیں آپ اندازہ لگاسکتے ہیں ، یہ تضاد یہ لکھنا یہ تنقید تو ہمارے کردار اور افکار کو جمود سے نکال کر بہتر کرتی ہے ، آپ منطقی انجام پوچھ رہے تھے ، فائدہ پوچھ رہے تھے تو اس کا منطقی انجام و فائدہ افکار و کردار کی ترقی و بہتری ہے ، اگر آپ اسکے نتائج کو اپنے نزدیک کہیں ڈھونڈ رہے ہیں تو شاید آپ کو جنیوا میں اس ہاتھوں کے زنجیر میں ایک اور شخص کے اضافے کا انتظار ہے ، لیکن شاید وہ طویل ہوتا ہاتھوں کی زنجیر خود کو ایک دھوکہ ہوگا۔
آؤ تھوڑا روایتی پیمانوں میں اس انجام کو ڈھونڈتیں ہیں بالفرض محال کل سے ہی فکری دوست اخباروں اور سوشل میڈیا میں لکھنا بالکل چھوڑ دیتے ہیں اور بالکل چپ ہوجاتے ہیں پھر کیا سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ؟ کیا پھر آپ ہمارے سرفیس سیاست کو کافی اور اسکے طریقہ کار کو موزوں کہیں گے ؟ کیا آپ ہمارے بندوق برداروں کے رویوں سے مطمئن ہوجائیں گے ؟ کیا قبائلی نواب بننے کیلئے چھینا جھپٹی کرنے والوں کو آپ انقلابی سمجھیں گے ؟ کیا سیاسی نواب ( چیئرمین ) بننے کیلئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے والوں پر آپ کا دل نہیں جلے گا ؟ کیا تحریک کا ٹھیکیدار بننے کیلئے چاپلوسی ، موقع پرستی ، دھوکہ دہی اپنا جواز ڈھونڈ کر جائز کہلائے گی ؟ نہیں سب اپنی جگہ جوں کا توں ہی رہیں گے یعنی تنقید و تحریر خود مسئلہ نہیں بلکہ مسئلوں کا اظہار ہے ، یقین کریں اگر آج آپ اس عمل کے منطقی انجام کو سنگت حیربیار کا کسی اسٹیج پر یار لوگوں کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ لیئے ایک تصویر اور اسکے ہم فکروں کی خاموشی سمجھتے ہیں تو پھر آپ اس شخص سے چنداں مختلف نہیں جو قدرت سے گھبرا کر قوانین فطرت کو سمجھنے کے بجائے انہیں دیوتا یا کوئی نادیدہ قوت قرار دیتی ہے ، اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو یقین کریں یہ منطقی انجام نہیں ہوگا بلکہ اس عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے کوئی اور کہیں اور سے آئے گے ان گرے ہوئے قلموں کو اٹھائے گا اور اس سلسلے کو وہیں سے شروع کرے گا جہاں سے ہم نے چھوڑا ہوگا ، یہ فطری عمل ہے اسکا انجام اتحاد و اتفاق نہیں بلکہ بہتری ، ترقی اور شفافیت کے صورت میں ہونا ہے ، ہم اس عمل کو چھوڑ سکتے ہیں لیکن یہ ہمیں نہیں چھوڑے گا۔میرے دوست بحث میں پوری رات گذر گئی اب صبح ہونے کو ہے اور میں صرف اناب شناب بولتا رہا ، گول گول گھومتا رہا اب نیند مجھ پر حاوی ہے ، جذبات بھی مجھ پر غالب ہوگئے ہیں ، میرے مصلحت پسندی اور خوف مستردی کے احساسات اپنے کم ترین سطح پر آگئے ہیں ، اب میں صاف صاف ایک بات بولتا ہوں اس کا انجام تب ہوگا جب آپ سنگت بنیں گے اور آپ سنگت تب بنیں گے جب آپ میرے موقف پر آکر گروہیت کو طلاق دیکر مکمل طور پر قومیت کا دامن تھام لیں گے اس سے پہلے آپ سے سنگتی یا اتحاد مجبوری یا خوف ہوسکتا ہے لیکن منطقی انجام نہیں ، سنگت نہیں بالکل نہیں میں انجام نزدیک دِکھا کر اپنے باتوں میں تضاد پیدا نہیں کررہا ، کیونکہ مجھے پتہ ہے جب ہم سنگت ہونگے تو کوئی اور کہیں سے ظاہر ہوگا اور مزید بہتری کی راہ دِکھا رہا ہوگا۔ اب مجھے نیند آرہی ہے \” جوان سنگت آواروں \”

یہ بھی پڑھیں

فیچرز