جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزآزادی کے دیوانوں کا مکالمہ 5 :تحریر:مھراب مھر

آزادی کے دیوانوں کا مکالمہ 5 :تحریر:مھراب مھر

زندگی اپنے ٹوٹے ہوئے پر پھیلائے بلند بالا پہاڑوں و خشک بے آب وگیابان میدانوں میں دوڑ رہی تھی. گرمی کی شدت دن بہ دن تیز تر ہوتی جارہی تھی۔ دور پہاڑوں سے پہلے جنگل سیاھی مائل گرد و غبار کی طرح دکھ رہا تھا۔ اس بے آب میدان میں ہر طرف سراب ہی سراب تھا۔ دور اونٹ میدان میں اپنی بھوک مٹانے کے لیے خشک جھاڑیوں کی جڑوں کو کھا رہے تھے۔ سراب سے اونٹ مزید اونچے دیکھنے کے ساتھ ہوا میں نظر آرہے تھے۔ کمال کا نظارہ تھا۔ جہاں گرمی نے زندگی کی ہر رنگ کو بدل کے رکھ دیا تھا۔ ہوا کے جھونکے دوزخ کے خیال کو زندہ کر رہے تھے۔ جوں ہی انسان سے ٹکراتے تو جسم کے انگ انگ میں آگ لگ جاتی۔ ہوا کے یہ جھونکے جہنم کی تپش لیے دیوانوں کے منہ پر تھپیڑے ماررہی تھی۔ ہر طرف سفیدی کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔ اور گرمی میں تپتی زمین سے ہوا اڑ رہی تھی۔ اس برداشت نہ ہونے والی گرمی میں وطن کے دیوانے اپنے وطن کی خوبصورتی کی داستان رقم کر رہے تھے۔ دیوانوں کے پاؤں آبلہ ہو کر گرمی سے جل رہے تھے۔ بلوچی چوٹ نیچے سے گرمی کی تپش کو روکنے میں ناکام نظر آ رہے تھے۔ پیاس و گرمی سے بیگانہ دیوانے اپنی منزل پر نظر جمائے بلند حوصلوں کے ساتھ تکے ہارے جارہے تھے. پہاڑ کے دامن میں کھجور کے درختوں کا جھرمٹ ان کی دوپہر کی اس تھکاوٹ کو ختم کرنے کا سبب بنی اور تمام دوست درختوں کے سائے میں پاؤں پھیلا کر آگے کے سفر کے لیے خود کو تازہ دم کر رہے تھے۔ کھجور کی فصل تیار ہوچکی تھی۔ ہر طرف ڈیمبوؤں کی ریل پیل تھی۔ ایک دوست دیکھتے ہی دیکھتے کجھوڑ پر چڑھ گیا اور چادر بھر کھجور نیچے پھینک دیا۔ کچھ نیند کے مزے لے رہے تھے۔ کچھ کھجوروں پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے وہ زندگی میں پہلی بار کجھور کھا رہے ہیں۔  ایک دوست نے دوسرے کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا یار ہم کب تک ایسے در بدر ان پہاڑوں میں رہیں گے؟ جب تک ہم آزاد نہ ہونگے۔ دوسرے کا سادہ سا جواب آیا فی الحال کھجور پر دھیان دو نہ کہ پھر نہ کہنا کہ میں نے کم کھجور کھایا۔ سب کے قہقہے پہاڑ سے ٹکرا کر گونجنے لگے. ایک دوست نے تھوڑی دیر بعد خاموشی کو توڑتے ہوا کہا. دوست ہم اس وقت اس طرح در پدر رہیں گے جب تک ہم عام لوگوں جیسا سوچیں گے. کیا مطلب؟ کہنے کا مقصد ہم نے وطن کی آزادی کا بھیڑا اٹھا کر نکلیں ہیں۔ اور آزادی ایک حسین نعمت ہے۔ لیکن اس حسین نعمت کو حاصل کرنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اور جسے تم دربدری کہہ رہے ہو۔ یہ دربدری نہیں یہی ہماری نئی نسل کی تاریخ ہے۔ ہم ضرور خوار ہیں۔ عذابی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ خواری عذابی دربدری غلامی کی زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ ویسے جس زندگی کو ہم پر آسائش سمجھتے ہیں۔ وہاں ہر نکڑ پر ہمیں ہماری غلامی کا احساس دلایا جاتا ہے۔ لیکن ہم آنکھیں نیچے کرکے اس حاکم کی بجا آوری کرتے ہیں جو ہم پر قابض ہیں۔ آج مالاکنڈ سوات و چکوال و سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی فورسزز ہماری جامہ تلاشی لیتے ہیں۔ اور ہر جگہ ہمیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم غلام ہو۔ لیکن پھر بھی ہمارے نوجوان سمجھ کر بھی ناسمجھ بنتے ہیں۔ کیونکہ انھیں اپنی زندگی میں دکھ تکلیف برداشت نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی پسند نہیں کرتے۔ وہ انفرادیت کے کائی میں گر چکے ہیں۔ وہ اجتماعی و قومی سوچ سے دور اپنے انفرادی زندگی میں بھٹک رہے ہیں۔ اگر ہم ان کی طرح سوچیں گے تو ہم میں اور ان میں فرق نہیں رہے گا. اگر ہم دربدری عذابی کا رونا روئیں گے تو ہم میں اور عام لوگوں میں کیا فرق رہے گا. اس سوچ کے ساتھ ہم وطن کو کیسے آزاد کر سکیں گے. ہم ایک فیصلہ کر کے نکلیں ہیں۔ اور یہی فیصلہ اس وقت نتیجہ خیز ہوگا جب ہم مستقل مزاج رہ کر تسلسل کے ساتھ اپنی جہد کرتے رہیں گے. اور آزادی کا راستہ قربانیوں کا راستہ ہے قربانی کے بغیر کچھ بھی ہاتھ میں نہیں آئے گا. ویسے سنگت قربانی کا رٹہ ہم ہر وقت لگاتے ہیں یہ قربانی دینا ہوتا کیا ہے؟ آیا صرف موت ہی قربانی ہے؟ اور کیا قربانی کا کوئی معیار مقرر ہے یا ہر ایک اپنی سوچ کے مطابق معیار مقرر کرتا ہے؟ سنگت لفظ قربانی کو فارسی و عربی سے نکال کر بلوچی زبان میں دیکھیں تو قولیگ و ندر ہونا ہوتا ہے۔ جبکہ عربی میں قربانی کی معنی قرب ہے کہ خدا کے نزدیک قربت حاصل کرنے کے لیے کسی جانور کو ذبح کرنا ہوتا ہے۔ اور بلوچی میں ندر و کولیگ کے لفظ کو ماں اپنے بچوں کو لوری سناتے وقت قولیگ و ندر کا ورد کرتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی جان اپنے بیٹے یا بیٹی کے نذر کرتا ہے۔ اور قربان ہونے کا تصور قدیم دیو مالائی قصوں سمیت اسلام و یونان کی سرزمین میں ملتی ہے۔ ہندو ازم ہو یا کہ اسلام غرض ہر مذہب میں قربانی کا تصور موجود ہے۔ دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے جانوروں و انسانوں کو قربان کرنا مذہبی روایات میں موجود ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ روایات آہستہ آہستہ ختم ہوتے گئے۔ آج ہم قربانی کو کس پس منظر میں دیکھتے ہیں وہ صرف موت نہیں. موت کے علاوہ زندگی میں ہر مشکل گھڑی یا حالت سے سمجھوتہ کرکے اسے برداشت کرکے گزرنا قربانی کہلاتا ہے۔ ہم جہد آزادی کے راستے میں آتے ہی سب سے پہلے اپنے خواہشات کو قربان کرکے آتے ہیں۔ اپنی پر آسائش زندگی کو عارضی سمجھ کر اسے عظیم مقصد کے لیے قربان کرتے ہیں۔ اسی طرح زندگی کا ہر وہ ضرورت جو ہم سے جڑا ہے انھیں قربان کرکے کھٹن و پرخار راستے پر سفر کرتے ہیں۔ اگر ہم عام لوگوں کی طرح اپنی ضرورت و آرام دہ زندگی کے لیے بے چین رہے تو ہم میں وہ دیگر لوگوں میں فرق نہیں رہے گا۔ قربانی آپ کے فیصلے سے شروع ہو کر موت پر آخر ختم ہو جاتی ہے۔ قربانی کا کوئی معیار نہیں۔ خواہشات کی قربانی سے لیکر زندگی تک یہ تمام قربانیاں ہیں۔ لیکن موت ایک ایسی ھستی ہے کہ موت کے ڈر سے شہنشاہوں نے آب حیات حاصل کرنے کے لیے دنیا کے کھونے کھونے کی خاک چانی۔ تاکہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں۔ اس لیے زندگی جیسی نعمت قربان کرکے موت کو گلے لگانا سب سے بڑی قربانی ہے۔ ویسے اپنے بچوں کو چھوڑنا گھر بار چھوڑ کر وطن کی آزادی کے لیے نکلنا ہی قربانی ہے۔ لیکن انسان کی ذات کا کیا بھروسہ کھبی بھی کچھ بھی بن سکتا ہے۔ جو لوگ کل تک ہمارے اپنے تمام خواہشات سمیت آرام دہ زندگی بال بچوں سمیت ہر اس چیز کو ٹکرا چکے تھے جن سے انھیں بے پناہ محبت تھی۔ بوڑھی بیمار ماں جو آخری عمر میں اپنے بچے کو ہی اپنا سہارا سمجھتی تھی۔ لیکن وہ ہر اس محبت کو وطن کی خاطر قربان کرکے جنگ آزادی کا حصہ بنے۔ انھوں نے دشمن کے ظلم و ستم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ در بدری عذابی کو وطن کی آزادی کے لیے برداشت کرتے رہے۔ انھوں نے اپنے بے پناہ محبوب دوستوں کو دشمن کی ظلم و بربریت کا شکار پائے۔ ان کی مسخ شدہ لاشیں انھیں تحفے میں ملیں۔ فوجی آپریشنوں میں وہ دوستوں کے ساتھ رہے۔ دشمن کی شیلنگ کی وجہ سے شہید ہوئے۔ ان دوستوں کو اپنے ہاتھوں سے دفناتے رہے۔ ہر وہ سختی جبر بربریت کو دیکھا جو کہ ایک دشمن غلام قوم پر کرتا ہے۔ جب فوجی آپریشن کے دوران دشمن فوج ان معصوم بلوچوں کو قتل کر رہی تھی۔ یہ سارے منظر ان کی آنکھوں کے سامنے سے گذرے ہیں۔ لیکن پانچ دس سال جنگ آزادی کا حصہ رہنے کے بعد وہ ہتھیار پھینک کر دشمن کی گود میں بیٹھ گئے۔ ان کا ضمیر کیسے انھیں زندہ رہنے دے گا؟ وہ بلوچ قوم کو کیا منہ دکھائیں گے کہ انہوں نے کس مقصد کے لیے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنائے تھے۔ اب کیا ہوا کہ وہ ریاست کے چاہنے والے بن گئے؟ ایسے لوگ بھی قربانی دے چکے ہیں۔ جنھیں آج ہم غدار کے القاب سے نوازتے ہیں۔ قربانی تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ جب تک زندگی ہے آپ کو قربانی کے سلسلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ قربانی تو دے چکے تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ اپنے ضمیر و سوچ کو کچھ آسراتی کے لیے فروخت کر گئے۔ وہ قومی غداروں میں سر فہرست ہیں۔ انھوں نے اپنی قربانیوں کو دس من مٹی تلے دفن کر کے غداری کا تاج پہن لیا ہے. اسی وجہ سے قربانی ایک تسلسل ہے جو آپکی موت تک چلتا ہے۔ جب آپ مر جائیں گے یا شہید ہو جائیں گے۔ اس وقت تک انسان کی سوچ کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی قابل بھروسہ و قابل اعتبار نہیں۔ لیکن ہر شخص دوسرے کے نظر پر ہے۔ کیونکہ حالات و کمزور اعصاب و کمزور اپروچ نے ان کی حیثیت واضع کردی۔ اس سے تحریک پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں۔ کیونکہ اس قسم کے لوگ آپ کو ہر فورم پر ملیں گے۔ میرے کہنے کا مقصد یہی ہے کہ قربانی کا چھوٹا کھاتہ ہر شخص کے پاس ہے۔ لیکن قربانی تسلسل کا خواہاں ہے کہ آپ اپنی تمام خواہشات ضروریات و رشتوں کو اجتماعی مفاد کے لیے قربان کرتے ہیں۔ وہی قربانی ہے اور تمھیں مرتے دم تک ثابت قدمی کے ساتھ اپنے فکر پر قائم رہنا ہے۔ تب جا کر وہ قربانی تاریخ کے اوراق کی زینت بنے گا. آپ کا مطلب تب تک ہم زندہ ہیں اپنی ہر ذاتی سوچ فکر و اپنی ذاتی ضروریات کو اجتماعی مفادات کے لیے تسلسل کے ساتھ قربان کرتے رہیں. جی ہاں کیونکہ انسان کی سوچ کو بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ آج یہاں تو کل کہاں پر ہوگا. اصل میں سوچ یک دم تبدیل نہیں ہوتی۔ انسان کے لاشعور میں چھوٹے چھوٹے مسئلے وقت کے ساتھ پرورش پاتے رہتے ہیں۔ اور پھر ایک واقعہ انھیں انجام تک پہنچا دیتا ہے۔ اور دنیا میں کوئی بھی عمل یک دم نہیں ہوتا، بلکہ انسان کی لاشعور کی گہرائیوں میں چھپے ہوتے ہیں۔ جو کھبی بھی کوئی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے شاعر نے کہا ہے.
وقت کرتا ہے پرورش برسوں.
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا.
اس طرح قربانی کا کوئی معیار مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ اور انسانی جان سب سے زیادہ انسان کو عزیز ہوتی ہے۔ اور اپنی جان کو قومی مفاد و آزادی کے لیے قربان کرنا سب سے بڑی قربانی ہے۔ مرنے کو ہم بھی دشمن کی کسی گولی سے مرینگے۔ لیکن ہم میں زندہ رہنے کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ہماری قربانی شہید درویش سے کم ہی ہوگی۔ وہ اس وجہ سے کہ ہم بچ بھی سکتے ہیں، اور مر بھی سکتے ہیں۔ ہم میں وہ خواہش ہر وقت ہمیں جینے کا درس دیتی ہے۔ جبکہ خود کش اپنے آنے والے دنوں کے بارے نہیں سوچتا۔ وہ اپنے آپ کو وطن کی آزادی کی خاطر قربان کردیتا ہے۔ اس وجہ سے قربانی کا معیار مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ جس میں جتنی قربانی دینے کا جذبہ ہوتا ہے۔ وہ ہر قربانی کے لیے آگے رہتا ہے۔ صرف مرنا قربانی نہیں ہوتا۔ اپنے مرنے سے پہلے اس کمٹمنٹ کے ساتھ مرنا جو مکمل قومی اجتماعی آزادی کے لیے ہو۔ اگر ہم آزادی کے سفر میں ہر تکلیف سختی کو دربدری سے تعبیر کریں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہم نارمل زندگی سے کئی گناہ زیادہ تکلیف میں ہیں۔ نہ ہمیں صحیح کھانا میسر ہے اور نہ ہی آرام دہ بستر، اور نہ ہی پرسکون ماحول۔ بلکہ ہر وقت ہم تھکے ہارے سفر میں رہتے ہیں۔ اور یہ فیصلہ ہمارا ہی تھا۔ اور ہم ایک قومی سوچ کے تحت ان تکالیف کو برداشت کر رہے ہیں۔ اور یہ دربدری و تکالیف اس قومی آزادی کے لیے ہیں جو ہماری شناخت ہے۔ جسے بزور طاقت ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ اس کے لیے ہمیں ہر تکلیف سے گزرنا ہے۔ اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم تکلیف میں ہیں، دربدر ہیں ،اور ان دس پندرہ سالوں میں ہمیں آزادی نہ مل سکی۔ تو ذرا یہ بھی سوچ لینا کہ بچپن میں ہمارے ماں باپ زبردستی ہمیں اسکول میں داخل کرتے اور ہم اپنی زندگی کے وہ حسین لمحے اس تعلیم کے لیے قربان کرتے جو ہمیں اسکول میں دی جاتی۔ اور ہمارے تعلیم کا مقصد شعور حاصل کرنا نہیں ہوتا تھا، بلکہ نوکری کرنا ہوتا تھا۔ سولہ سترہ سال پڑھنے کے بعد ہم ایک چھوٹی موٹی نوکری حاصل کرتے۔ جو دس یا پندرہ ہزار کی نوکری ہوتی۔ اگر اسے اپنی کامیابی تصور کرتے اور آج بھی ہمارے قوم کی اکثریت یہی سوچتے ہیں۔ اور ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ان سولہ سالوں میں ہم نے اپنی کتنے خواہشات اس نوکری کے لیے قربان کیے۔ کھیل کود سے لے کر آزادانہ گھومنے پھرنے سے خود کو پابند بنا کر سولہ سال اسی مدار میں گھومتے رہے۔ آپ خود اندازہ کرلیں کہ ایک نوکری کے لیے ہم کتنے تکالیف سے گزرنے کے بعد ایک نوکری حاصل کرتے ہیں۔ تو یہ سوچ لیں کہ ہم ایک قوم کی آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔ تو اس کے لیے کتنی خواہشات قربان کرنے ہونگے۔ ایک نوکری کے لیے اپنی زندگی کے حسین سولہ سال دینے کے بعد ہی ہمیں کچھ ہاتھ آتا ہے۔ اسی طرح آزادی کے لیے اس سے کئی گناہ زیادہ اپنی زندگی کے حسین سال قربان کرنے ہونگے۔ تب ہم اپنے قومی پہچان کے ساتھ سامنے آئیں گے۔ اور اپنے آزاد وطن کے مالک بنیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز