جمعه, مارس 29, 2024
Homeخبریںاسامہ کے پیچھے فوراً پاکستان نہ جانا بڑی سٹریٹیجک غلطی تھی، امریکی...

اسامہ کے پیچھے فوراً پاکستان نہ جانا بڑی سٹریٹیجک غلطی تھی، امریکی انٹیلیجنس سربراہ

واشنگٹن(ہمگام نیوز) امریکہ کے دفاعی ادارے ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) مائیکل ٹی فلن کا کہنا ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں مشترکہ انٹیلیجنس آپریشنز کی بجائے مشترکہ فوجی آپریشن کرنے چاہیے تھے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) مائیکل ٹی فلن سنہ 2012 سے سنہ 2014 تک ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی یا ڈی آئی اے کے سربراہ تھے اور وہ افغانستان میں ایساف افواج کے ڈائریکٹر آف انٹیلیجنس بھی رہ چکے ہیں۔

’امریکہ میں گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملوں کے 14 برس کی تکمیل پر میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ مل کر پاکستانی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کرنے چاہیے تھے اور ایسا نہ کرنا اس جنگ میں اتحادیوں کی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔

’ہمیں ان لوگوں کے پیچھے جانا چاہیے تھا جنہوں نے یہ حملہ کیا اور جہاں سے حملہ کیا۔ اگر یہ لوگ پاکستان میں تھے یا وہاں چلے گئے، جیسا کہ ہم نے دیکھا، تو ہمیں پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہیے تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ جاننے کے فوراً بعد کہ اسامہ بن لادن کو پاکستان میں پناہ گاہ مل گئی ہے، پاکستان میں نہ جانا ایک بہت بڑی سٹریٹیجک غلطی تھی۔ اگر ہم یہ غلطی نہ کرتے تو ہمیں اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں دس سال نہ لگتے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر) مائیکل ٹی فلن کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے قبائلی علاقوں میں امریکی فوجیوں کی موجودگی نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اس سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں چاہیے تھا کہ ہم مل کر درست اہداف پر مرکوز مشترکہ آپریشن کرتے اور پاکستانیوں کو بتاتے کہ یہ آپریشن کسی پاکستانی کے خلاف نہیں۔ ہم انہیں کہتے کہ یہ ایک سعودی اور دیگر عربیوں کو پکڑنے کے لیے کیا جا رہا ہے جنہوں نے پاکستان سے ملنے والی مراعات کا غلط استعمال کیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ایسا سوچنا غلط تھا کہ ہم افغانستان میں تو گھس جاتے ہیں لیکن پاکستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو رہنے دیتے ہیں۔ ’ہمیں پاکستان پر اس کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے تھا۔ لیکن ہم نے عراق اور افغانستان میں جانے کے بیوقوفانہ فیصلے کیے جو ایک بیکار خارجہ پالیسی کا نتیجہ تھے۔‘

مائیکل فلن نے کہا کہ ’آج پاکستان جو بھی کہے، لیکن اسے شیشے میں یہی نظر آئے گا کہ اس نے دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو پنپنے دیا اور تاریخ بھی یہی کہے گی کہ پاکستان نے انسداد دہشتگردی کے لیے جو کیا، اس سے کہیں زیادہ کر سکتا تھا۔‘

ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی کے سابق صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان فوج کے ساتھ کام کیا ہے اور وہ اسے ایک حیرت انگیز طور پر دلیر فوج سمجھتے ہیں جس نے بہت قربانیاں دی ہیں لیکن اس جنگ کے سیاسی پہلو میں بہت بڑی غلطیاں ہوئیں۔

انھوں نے کہا کہ ایسی جنگ خواہ کہیں بھی ہو، عسکری طاقت کا استعمال اس کا محض ایک رخ ہوتا ہے اور دہشتگردی جیسے پیچیدہ مسئلے کے حل کے لیے تو عسکری قوت ایک بہت ہی چھوٹا عنصر ہے۔ ’ہمیں اب بھی سوچنا پڑے گا کہ ہم یہ جنگ کیسے لڑنا چاہتے ہیں۔‘

جنرل فلن کے مطابق دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس قدر پیچیدہ صورتحال شاید دنیا نے پچھلے 75 برس میں نہیں دیکھی۔

ان کے مطابق دہشتگرد جس طرح سے آج ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں اس کی مثال جنگی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔

’میں سنہ دو ہزار چار میں عراق میں تھا اور ہم 30 کے قریب لوگوں سے ایک ہی ویب فارم کے ذریعے نمٹ رہے تھے۔ آج دولت اسلامیہ نامی تنظیم کو 20 ہزار سے زائد ویب سائٹس تک رسائی حاصل ہے جس سے وہ اپنا پیغام دنیا بھر میں پھیلا رہی ہے۔ لہٰذا اب وہ عالمی سطح پر زیادہ رابطے میں بھی ہے اور زیادہ خطرناک بھی۔‘

جنرل فلن کے خیال میں اس سے دشمن کا تشخص بھی بدل گیا ہے۔ ’اب ہمارا نشانہ ایک نظریہ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ دنیا میں کئی مذاہب اور سیاسی نظاموں میں انتہا پسندی کا عنصر ہے۔ لیکن اسلام کو بھی خود میں جھانکنا ہو گا اور اپنی تصحیح کرنی ہوگی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ دنیا بھر کی اسلامی ریاستوں کا ایک سیاسی چیلنج ہے کہ وہ کس طرح سے اپنے اندر کے اس ناقابل یقین حد تک انتہا پسند عنصر کو باہر نکالتے ہیں۔‘

دولت اسلامیہ نامی تنظیم کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ان کی عراق اور شام میں اپنی کامیابیوں پر گہری نظر ہے اور وہ اس انتظار میں ہے کہ کب امریکہ افغانستان سے نکلے اور وہ وہاں کی صورتحال کو مزید بھڑکا سکیں۔ ’آپ انہیں محض سّنی عرب کہہ کر نہیں ٹال سکتے۔ انہوں نے پورے مذہب کو ہی ایک شدت پسندانہ شکل دے دی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم اسلام کو اس کے سیاسی نظریے سے علیحدہ نہیں کر سکتے اور یہ بات امریکہ کو پہلے سمجھ نہیں آئی۔ ’اب یہ ذمہ داری اسلامی ریاستوں کے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی ہے کہ وہ اپنے اندر اعتدال پسندوں اور جدیدیت کے حامی عناصر کی ایک گلوبل سطح پر حوصلہ افزائی کریں۔‘

یہ بھی پڑھیں

فیچرز