جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزافغان جہاد میں شامل بلوچ کس کے ایجنٹ؟؟ تحریر: سیم زہری

افغان جہاد میں شامل بلوچ کس کے ایجنٹ؟؟ تحریر: سیم زہری

دوستو آج میں آپ کے سامنے چند ایسے حقائق بیان کرنے جا رہا ہوں جن کی بروقت روک تھام نہیں ہوئی یا جن پر توجہ نہ دی گئی میرے خیال کے مطابق آنے والے دور میں ہمیں بحیثیت مجموعی بہت بڑے نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا، میں اپنی بات مستند دلائل اور مختلف حوالوں سے بیان کرنے کی کوشش کروں گا پھر اس کے بعد آپ اپنے طریقے سے ان حوالہ جات کو پرکھ کر حقیقت تلاش کریں۔
افغان جہاد میں شامل بلوچ مجاہدیںیہ آسمانی مخلوق کون ہے؟ کہاں سے لائے گئے؟ کس کے فلسفے پر کار بند ہیں؟ وہ کون سی طاقت ہے جو ان کے زریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟
سب سے پہلے میں آپ کو تفصیل سے بتا سکتا ہوں کہ افغانستان میں نام نہاد جہاد( قتل و غارت گری ) کی بنیاد کیسے رکھی گئی؟ ستر، اسّی کی دہائی میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کا خالص مقصد یہ تھا کہ وہ بلوچستان کے گرم پانی( سمندر) کو حاصل کر کے اپنے لینڈ لاک زمین سے نکل کر بین الاقوامی منڈی تک رسائی حاصل کر لے،اسی بات سے خائف روسی مخالفین جن کا سربراہ امریکہ برائے راست اس جنگ کا حصہ بنا اور روس کو روکنے کے لیے افغانستان میں مجاہدین کی بنیاد ڈال دی اور اس جہاد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پاکستان کے دہشت گردی کے فیکٹریوں( مدرسوں) کا سہارا لینا پڑا، اس نام نہاد جہاد کے لیے پنجابی کو فوجی اسلحہ سمیت ایک خطیر رقم سے نوازا گیا اور پاکستان افغان جہاد کے میدان میں ایک مضبوط اسٹیک ہولڈر کے طور پر سامنے آیا، عالمی طاقتوں کی اس پنجہ آزمائی کے درمیان روس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اس کے یونین میں شامل تمام اسٹیٹس ٹوٹ کر بکھر گئے اور روس سپر پاور کی رینک سے نیچے گر گیا، امریکہ نے اپنے سپر پاور ہونے کا اعلان کیا جبکہ روس نے اپنی بوریا بستر باندھ کر واپس اپنے ملک کا رخ کیا، لیکن اس دوران پنجابی کی چاندنی ہو گئی کہ اسے ان دہشت گردی کی فیکٹریوں کو چلانے اور بحال رکھنے کے لیے سعودیہ و دیگر ممالک سے فنڈ، اخلاقی حمایت اور قانونی جواز حاصل ہوا، اب یہ دہشت گرد کسی بھی میدان میں کسی بھی طاقت کے خلاف کسی بھی طاقت کے لیے استعمال ہو سکتے تھے کیونکہ ان کے اس جاہلانہ جذنے کے پیچھے مذہب کا چربہ شامل تھا بلکہ پنجابی انھیں بطور اثاثہ کسی بھی مصیبت کے منہ میں جھونک کر خود کو محفوظ کرنے لگا، افغانستان سے فارغ ہو کر یہ نام نہاد مجاہد کشمیر پہنچے، کبھی کبھار سعودیہ کی خدمت گزاری کی تو کبھی امریکہ کے خلاف پنجابی کو ایک ٹیڑھی آنکھ مہیا کرتے رہے. اس تمام گیم کے ماسٹر مائنڈ آئی ایس آئی، پنجابی اور پنجاب آرمی کو نہ اسلام سے کوئی سروکار ہے نہ یہ اتنے بڑے اور سچے مسلمان ہیں بلکہ دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے، چاپلوسی کرنے اور اپنی بدمعاشی چلانے کے لیے اس دہشت گرد ملک کو ہر حال میں قائم رکھنا چاہتے ہیں جس میں اسلام کے مقدس نام کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح پنجابی نے بلوچ سرزمین پر قبضہ کرتے وقت بھی اسلام کے نام کا سہارا لیا تھا لیکن سیکولر و نیشنلسٹ بلوچ نے اس قبضہ کے خلاف مزاحمت کی اور آج تک پنجابی کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے، دوستو آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں اپنے موضوع سے ہٹ کر بات کرنے لگا ہوں یا بلوچ سرزمین، افغان جہاد اور آج کے طالبان کا کیا تعلق؟ دوستو ،انتہائی قریب کا تعلق ہے. اگر آج کا افغانستان گزشتہ چالیس سال جنگ میں گزارنے کے بجائے ایک پر امن ملک ہوتا تو کیسے ہوتا، اس کی صورت حال کیا ہوتی، اور اس کی ترقی و خوشحالی کے اثرات بلوچ سرزمین پر کیسے پڑتے؟ جنگ ایک تباہی کا نام ہے لیکن قومیں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں اور مقاصد کی تکمیل کے بعد پھر کبھی اسے نہیں اپناتے. بلوچ گل زمین کی پہلو میں ایک پرامن خوشحال افغانستان پنجابی کو کبھی گوارا نہیں گزرے گا کیونکہ افغان قوم نے بلوچ کی تاریخ اور تاریخی سرزمین کو صدیوں سے بطور ہمسایہ قبول کیا ہوا ہے اور دونوں اقوام کے درمیان انتہائی قریبی تعلقات رہے ہیں. یہی بات پنجابی کو ہضم نہیں ہوتی جس کے لیے دہائیوں پر محیط معصوم افغان کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے. اس نام نہاد کار خیر کو انجام دینے کے لیے بلوچ نوجوانوں کو استعمال کیا جا رہا ہے. یہ نوجوان کوئی اور خلائی مخلوق نہیں بلکہ زہری، پندران، قلات، گدر، منگچر، نیمرغ کھڈ کوچہ مستونگ، نوشکی، خضدار وڈھ سمیت بلوچستان کے کونے کونے سے ہمارے اپنے بلوچ شامل ہیں.
دوستو اس تمام صورتحال کو بیان کرنے کے بعد آئیے آپ کو زہری کے اندر ایک ایسے نوجوان کی آپ بیتی سناتا ہوں جو کچھ عرصے تک ایک طالبان کی حیثیت سے زہری میں کام کیا لیکن اب سب کچھ سمجھ جانے کے بعد ان سے لاتعلق ہے. اس کے کہنے کے مطابق شروع شروع میں وہ زہری بازار میں موجود ہونے پر جامع مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جاتا رہتا تھا. پھر آہستہ آہستہ اس نے محسوس کیا کہ ایک دو تبلیغی اس سے قربت بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں. لیکن مجھے ان سے قربت پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا کیونکہ ہمارے معاشرے میں تبلیغ والوں کی عزت کی جاتی ہے. کچھ دنوں کے بعد انھوں نے مجھے تین روزہ تبلیغ پر جانے کے لئے تیار کیا اور ہم یہیں زہری کے ہی علاقے میں تین روزہ جماعت کے ساتھ نکلے. اس دوران تبلیغ کے تمام امور اپنے طریقے سے چلتے رہے. صبح کی نماز کے بعد شش نمبر کا بیان پھر صبح کا گشت جس میں ہم مختلف گروپوں میں تقسیم ہو کر عام لوگوں بزغر شوان دکاندار سے ملاقات کرتے اور ترغیب دیتے. پھر ظہر کی نماز کے بعد فضائل اعمال کی تعلیم ہوتی عصر کے بعد گشت اور مغرب کے بعد بیان ہوتا تھا لیکن میں نے محسوس کیا کہ مجھے تبلیغ پر آمادہ کرنے والے میرے یہ دونوں دوست مجھ میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے اور ہم اکثر فارغ اوقات میں ایک ساتھ بیٹھتے اور وہ مجھے جہاد کے متعلق ترغیب دیتے تھے. چوتھے دن واپسی پر میں جہاد کا ایک اچھا خاصا حمایتی تھا.
اس کے بعد ہم اکثر زہری بازار میں ملتے تھے ایک ساتھ گھومتے تھے ہوٹل کی چھت پر بیٹھ کر چائے پیتے اور پکوڑے کھاتے تھے. ایک دن میرے تبلیغی دوستوں نے مجھے سوئندہ پکنک کے لیے لے گئے اور وہاں بیٹھ کر ہم نے مجلس کی اس دوران میرے ایک دوست نے دوسرے سے کہا کہ بھائی کو ابھی بھیجنے کا انتظام کر لینا چاہیے. میں یہ سن کر حیران ہوا کہ یہ لوگ مجھے کہاں بھیجنا چاہتے ہیں تفصیل معلوم کرنے پر دونوں میرے قریب ہو کر بیٹھ گئے اور کہا کہ بھائی اپنے آپ کو تیار کر لو افغانستان جہاد کے لئے چلتے ہیں. یہ سنتے ہی میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی لیکن خود کو سنبھالتے ہوئے میں نے کہا بھائی مجھے گھر سے اجازت نہیں ملے گی تو انھوں نے مجھے کہا کہ آپ کوئی بہانہ بنا کر گھر سے نکلو صرف ٹریننگ کرکے واپس آئیں گے. یہ سن کر مجھے تسلی ہوئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ چند دنوں کی بات ہے. تب میں تیار ہونے پر راضی ہوا اور وہ دن بھی آ گیا میرے دونوں دوستوں نے مجھے ایک فون نمبر دے کر کوئٹہ روانہ کیا اور خود یہیں زہری میں رک گئے. کوئٹہ پہنچ کر میں نے نمبر ڈائل کیا اور بہت جلد میرے مطلوبہ شخص سے میرا رابطہ ہو گیا. شام کو ہم نے ملاقات کی اور دوسرے دن صبح دالبندین کی گاڑی میں سوار ہو کر شام کو دالبندین پہنچ گئے. ایک دن یہاں گزارنے کے بعد ہم بارڈر پہنچے ایف سی چوکی دیکھ کر میں ایک لمحے کے لیے پریشان ہو گیا لیکن میرے ہمراہ نے مجھے تسلی دے کر کہا کہ پریشان نہیں ہونا یہ اپنے دوست ہیں اور اللہ تعالیٰ کی کمک ہمارے ساتھ شامل ہے. ہم نے ایف سی والوں سے سلام دعا کی بارڈر کراس کیا اور ایک دشوار راستے سے چلتے ہوئے کافی گھنٹے سفر کرنے کے بعد ہم شام کو برابچہ پہنچے یہاں میں نے ٹریننگ مکمل کی اور واپس ہو گیا. اس کے بعد کئی دفعہ میں افغانستان اور بلوچستان کے بارڈر سے اس پار اور اس پار ہوتا رہا. ہم نے پنجپائی، صمد کاریز، سر لٹھ، کرار گاہ، نوشکی سے متصل سرحدی علاقے، دالبندین، چاغی، گردی جنگل سے لیکر برابچہ تک مختلف علاقوں میں جہاد کے سلسلے میں سفر کیا اور قیام کیا. اس دوران ہمارے کیمپوں کی سربراہی کرنے والے اکثر پنجابیوں سے ملاقات ہوتی رہی. کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا میں پاکستان آرمی میں شامل ہوا ہوں جس میں صرف وردی کی کمی کے علاوہ تمام چیزیں مماثلت رکھتی ہیں.
لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان کیمپوں میں بہت بڑی تعداد بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے براہوئی بلوچوں سے میری ملاقات ہوئی. وہاں میں نے بات کرنے کے لہجے سے بہت جلد اندازہ لگایا کہ ان براہوئیوں میں شامل کون کون کن کن علاقوں سے تعلق رکھتا ہے. اس کے علاوہ بہت سے سینئر مجاہد ایسے بھی تھے جنھیں کوڈ نام کے علاوہ ان کی اصل شناخت سے پہچانا اور پکارا جاتا تھا. اس وقت میں ان کو پہچان نہ سکا لیکن بعد میں بہت سے لوگوں کو پہچان لیا. واپس آ کر میں بہت جلد علاقے کا ایک جانا پہچانا مجاہد بن گیا اور یہاں زہری میں بھی بہت سے طالبان سے ملنا جلنا ہوتا تھا. ادھر زہری میں نورگامہ، مشک دیزیری، چوٹ جو، ہناری، چشمہ اور بلبل کے نامی گرامی سفید ریش و سفید پوش طالبان سے ملاقات ہوتی رہی. لیکن میں اس نام نہاد کاروان سے تب جدا ہوا جب ہمارے مشک کے ایک سینئر مجاہد نے میری ملاقات شفیق مینگل سے کروائی. پھر میں سمجھ گیا کہ مجاہد صاحب یہ جہاد تجھے جنت لے جائے یا نہیں لیکن ایک بے نام موت ضرور دیگا اس انجام کو سوچ کر میں جہاد کے نام سے بھاگنے لگا
دوستو اس سابقہ طالبان مجاہد سے خدا حافظ کر کے میں نے خود سے تمام باتوں اور واقعات پر غور کرنا شروع کیا اور سب سے پہلے شفیق مینگل کے متعلق جاننا چاہا کہ کیا وہ حقیقت میں طالبان ہے؟ اس سلسلے میں سب سے پہلے زہری کے معروف بزرگ، سفید پوش طالبان لیڈر کے جمیل نامی بیٹے سے قربت بڑھائی اور انتہائی جلد معلوم کر لیا کہ شفیق مینگل کیسا مجاہد ہے. چھوٹا مجاہد شفیق مینگل کی تعریف کرتے وقت منہ سے رال ٹپکاتا گیا بات کرتا گیا. یہ اس وقت کی بات ہے جب شفیق مینگل ظلم کی دنیا میں ہلاکو خان کو مات دے رہا تھا جمیل نے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہنے لگا امیر صاحب( شفیق ) کے بیان میں آپ کو بیٹھنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی ہے کبھی بیان سننے کا موقع ملا تو چھ گھنٹے کے بیان میں کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرو گے بلکہ رحمت و برکت کا ایسا نزول ہوگا کہ آپ کو نیند آئے گی. کان پکڑ کر میں وہاں سے نکلا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا. اسی بات کو سنجیدگی سے لیکر میں مزید تحقیق کرنا چاہا. پرانے اخباری بیانات کے صفحے چھان مارا، سوشل میڈیا کی مدد لی، چلتے چلتے یو ٹیوب پر بھی ایک نظر دوڑائی تب مجھے بہت سی چیزیں حاصل ہوئی. اخباری بیانات سے کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں علم ہوا جو طالبان تھے یا کشمیر جہاد میں حصہ لینے والے افراد تھے جنھیں مزاحمتی تنظیموں نے قتل کر کے ذمہ داریاں قبول کی تھیں یا تنبیہ کرکے کہا تھا کہ وہ پنجابی کے آلہ کار بننے سے گریز کریں. انھیں ناموں میں سے کچھ نام سراج رئیسانی، جنگی خان مینگل، گدر کے رہائشی حافظ قیوم اور قلات کے رہائشی رحیم ساسولی کے تھے. میں نے بی ایل اے کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے عرفان گرگناڑی نامی مخبر کے انکشافات پر مبنی ویڈیو دیکھی، پھر اسی تنظیم کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے مجرم میر جان ساسولی کے انکشافات سننے کو ملے جس میں میر جان ساسولی کہہ رہا ہے کہ ہم لوگ طالبان ہیں. نیٹو ٹرالروں کو آئی ایس آئی کے کہنے پر مارتے ہیں، سرلٹھ میں امریکہ کے خلاف کارروائی کرتے ہیں اور شفیق مینگل کی سربراہی میں بلوچ مزاحمت کاروں کی مخبری، اغواء اور قتل کرتے ہیں. وہ کہتا ہے کہ بی ایل اے کے سرمچاروں کو مارنے کے لیے میرے دوستوں رحیم ساسولی نے نیمرغ ندی میں گھات لگا کر حملہ کیا لیکن غلطی سے دو بے گناہ نوجوان مارے گئے جو سناڑی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے. اس کے بعد بلوچ مزاحمت کاروں کے راستے میں بارود بچھائی جس پر سے غلطی سے ایک راہ گیر نوجوان اپنی ماں کے ساتھ گزر کر اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جن کا تعلق سمالانی قبیلے سے تھا پھر اس کے بعد ساروان جھالاوان کے مختلف علاقوں سے انھی طالبان کو جمع کرکے شفیق مینگل اور رحیم ساسولی نے بی ایل اے کے قلات کیمپ پر حملہ کیا جس میں ایک بلوچ سرمچار شھید ہوا معلوم کرنے پر یہ نوجوان حق نواز کے نام سے پہچانا گیا. پھر اس کے بعد گزشتہ ماہ بی آر اے مکران کے ونگ کمانڈر گلزار امام کی ایک تحریر نظروں سے گزرا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طالبان نے ہمارے تنظیم کے دو اہم کمانڈروں سمیت دس سرمچار سرلٹھ سے دھوکہ دہی سے گرفتار کر کے پاکستان آرمی کے حوالے کیا ہے. تب مجھے سمجھنے میں آسانی ہوئی کہ کوئٹہ سے لیکر تفتان تک بلوچستان کا یہ بارڈر پنجابی کے زیر تسلط کیوں کر ہے ا ور وہ مقاصد بالکل واضح ہیں کہ پنجابی نے اپنے اس نیم فوجی دستے کو اس بارڈر پر کیوں بٹھایا ہے؟
دوستو یہ تمام واقعات کو لیکر میں پھر سے ایک بار اْسی سابقہ مجاہد کے پاس پہنچا اور ان سرکردہ آئی ایس آئی فنڈڑ مسلمان طالبان کے بارے میں جاننا چاہا. میرے دوست سابقہ طالبان مجاہد نے کہا کہ دوست آپ کی معلومات بالکل درست ہیں اور میرے علم میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ حافظ قیوم کو بی ایل اے نے دو ہزار چودہ میں قتل کیا ہے جبکہ سرلٹھ کے کیمپ میں ایک دو بار میری ملاقات رحیم سے ہوئی ہے جسے وہاں سخی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
دوستو اس پورے بحث کو اس امید پر سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں کہ آپ سب اپنے اپنے زرائع استعمال کر کے اس نام نہاد جہاد کے متعلق مزید معلومات جمع کر کے قوم کو آگاہ کریں گے اور اپنے پیاروں کو اس آگ میں جلنے سے بچائیں گے. جاتے جاتے میں آپ دوستوں کے سامنے کچھ سوالات پیش کرتا ہوں آپ ان کے متعلق غور کریں.
کیا جہاد صرف افغانستان میں فرض ہے؟ اگر امریکیوں کو مارنا مقصود ہے تو کیا پاکستان میں امریکی موجود نہیں ہیں؟
کیا پاکستان میں ہی صرف سچے مسلمان رہتے ہیں جو افغان قوم کے درد کو محسوس کر کے تڑپ اٹھتے ہیں؟
کیا پنجابی ہم بلوچوں پر کم ظلم کرتا ہے جو یہ مجاہد حضرات دیکھ نہیں پاتے اور الٹا اسکے لیے مر مٹنے پر تلے ہوئے ہیں؟
کیا ظلم کو دیکھ کر خاموش رہنا اور پھر ظالم کی ہی پشت پناہی کرنا خود جہاد کی نفی نہیں کرتا؟؟؟؟

یہ بھی پڑھیں

فیچرز