چهارشنبه, آوریل 24, 2024
Homeآرٹیکلزالناسُ علیٰ دین مُلوک ھ م ،تحریر :کردگار بلوچ

الناسُ علیٰ دین مُلوک ھ م ،تحریر :کردگار بلوچ

ہم گزشتہ دنوں اپنے ایک عزیز کے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں کوئٹہ سے زاھدان پہنچے۔ دوسرے دن نکاح خوانی تھی جو زاہدان کی سب سے بڑی اور خوبصورت ’’مکی مسجد‘‘ میں منعقد تھی۔سینکڑوں لوگ بھاگ شریک تھے۔میں لوگوں کی آمد اور کسی کے خوشیوں میں اس قدر شریک ہونے کو
قدر کی نظر سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر اپنے ایک سینئر دوست پر پڑی جب پاکستانی بربر بھوتوں نے اُن کے گھر کا راستہ ڈھونڈ نکالاسو وہ وہاں سے ہجرت کرکے یہاں آئے اور اب وہ تقریبا کئی سالوں سے یہیں پہ مقیم ہیں میں سیدھا اُن کے پاس چلا گیا، بلوچی دست و دروت ہونے کے بعدایک کونے میں بیٹھے باہم محو گفتگو ہوئے نکاح خوانی کے رسم کی ادائیگی کے بعد میں نے ان سےملاقات کے لئے وقت مانگا اور اُن کا ٹھکانہ معلوم کیا،وہ اپنے ایک عزیز کے گھر میں پناہ لئے ہوئےتھےمیں اپنے چند عزیزوں کے ہمراہ تیسرے دن اُن کے ہاں چلا گیا۔

کُنچت لگی موزاتی کجھور کےساتھ سبز چائے کی اصلیت کا پہلی بار علم ہوا۔بلوچی حال واحوال پر ہم نے بلوچستان میں پاکستانی فوجیوں کی بربریت اور اپنے بلوچ بھائیوں کی اپنے ہی ماد روطن کے خلاف دشمن کے لئے دلالی اور مخبری کرنے کے کئی واقعات سنائے، گوادر میں سی پیک کے حوالے سے اُن کو بتایامیری باتیں سُن کر وہ ایک پھیکی ہنسےاور جب ہم سب اُن کی طرف متوجہ ہوئے سو انہوں نے دو مسحورکن باتیں بتائیں چونکہ یہ دونوں باتیں میری ذہن پہ سوار تھیں سو سوچا کہ ان باتوں کو اپنے قارئین کے ساتھ شئر
کروں۔البتہ اُن کی فصیح بلوچی اور میری سطحی اردو کی وجہ سے وہ مٹھاس جو اُن کی باتوں میں تھی وہ شاید یہاں نہ ہو ۔
سی پیک سے متعلق سُن کر بولے’’۔۔۔۔اللہ تبارک و تعالٰی کی
قدرت اور حکمت انسان کی سمجھ سے بالاتر ہیں ، انسان سوچ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی ایسی حیرت انگیزیاں کیونکر کرتا ہے جنہیں دیکھ کر انسان کا ذہن ماؤف ہو جاتا ہے۔۔۔۔‘‘ پھر انہوں نے مثالیں دے کر ہمیں بتایا کہ ’’۔۔۔میں اللہ تبارک و تعالٰی کی دو باتوں سے پڑا پریشان ہوں ہر چند سوچتا ہوں مگر آج تک یہ دونوں باتیں میری سمجھ میں نہیں
آئیں ایک یہ کہ اللہ تعالٰی نے ایک وسیع و عریض ملک بحر عرب اور بحر ہند کے درمیان ’’بحیرہ بلوچ ‘‘کے ساحلی پٹی پر بناکر دنیا کی اقتصادی اور معاشی شہ رگ کو اسی ملک کے ہاتھوں میں دی۔ اُس میں کوئلے سے لے کر سونے تک کے کوئی سینتیس قیمتی معدنیات کا ذخیرہ کیا جو کھربوں ڈالرکی مالیت کے ہیں اور پھر اس عظیم ملک کو ایک ایسی قوم کے حوالے کیا جس کو اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ ان کے ملک کی اہمیت کیا ہے اُن کی اس نالائقی کی وجہ سے یہ عظیم ملک کے حصے بخرےہوئے۔ شُوم کی ملکیت شگالوں کے ہاتھ آئی اور یہ شگال آج اُ نُُ کے مادر وطن کا نام و نشان تک مٹارہے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ جب چندباغیرت نوجوان اپنے مادر وطن کی وجود کو باقی رکھنے کی کوششوں میں لگے ہوتے ہیں تو دوسرے اُن کے اپنے بھائی جس طرح آپ نے کہا دشمن کے ساتھ ملکران باغیرت جوانوں کی سرکوبی کروا رہے ہیں۔ بلوچ کہتے ہیں کہ وطن ماں ہوتی ہے مگر ان کا اپنا وطن ان کی ماں نہیں ہے وہ بنگ و بروت ہوکر اپنے وطن کی دلالی میں مست ومگن ہیں اور وطن گیلی لکڑی
کی طرح چیختے چلاتے جل رہی ہے۔دوسری یہ بات کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے ایک عظیم الشان دین بنایاجس میں دنیا جھان کی عافیب اور سلامتی کے سامان بھر دیے ، اس کائینات میں کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل اسلام میں نہ ہو۔ ظلم، بربریت، منافقت، دروغ گوئی ،مکاری، بے غیرتی اور دیگر تمام برائیوں کو جڑ سے ختم کرنے کی صلاحیت کا حامل دین کو بنانے کے بعد اس کو ’’ ملاؤں اور مولویوں‘‘ کے ہاتھ میں تھما دیاجنہوں نے اس عظیم الشان دین کی وہ درگت بنائی اور اس کو اتنے فرقوں اور
گروھوں میں تقسیم کیا کہ اب اس بات پر کہ اصل اسلام کونسی ہے برادر کشی ہو رہی ہے۔ اسلام نے تمام
مسلمانوں کو آپس میں بھائی قرار دے کر ان کی جان اور مال ، عزت و آبروکو ایک دوسرے پر حرام قرار دیا لیکن یہ ملا مولوی ان بھائیوں کی جان و مال کا یا تو خود استحصال کر رہے ہیں یا پھر ظالم اور جابر حکمرانوں کے ہاں میں ہاں ملا کراستحصال کر وارہے ہیں اب اسلام کو اسی خطرے کا سامنا ہےجو بلوچ وطن کو ہے اور یہ ملا ،مولوی بھی بلوچوں کی طرح بنگ و بروت اسلام کے خلاف سازشوں میں دشمن کے آلہ کار ہیں۔ اب ان دونوں باتوں میں اللہ تبارک و تعالٰی کی کیا حکمت پوشیدہ ہے ،کم از کم آج تک میری سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔
اورہاں آپ نے گوادرمیں سی پیک کے بارے میں جو باتیں کیں اور بین اقوامی سطح پر بلوچوں کے خلاف پاکستانی بربریت پر انسان دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی خاموشی پر جو حیرت کا اظہار کیا۔وہ در اصل یہ ہے کہ یہ Cpec بذات خود ایک بین الاقوامی منصوبہ ہے جسے پاکستانی فوج اور اشرافیہ کی ٹھیکیداری میں دی گئی ہے۔پاکستان نے اپنے وجود سے لے کر آج تک اسلام کا جو بھیانک نقشہ
کھینچ کر دنیا کے سامنے پیش کیا اور اسلام کے نام پر جو جو خرمستیاں کیں جس سے بین الاقوامی سطح پر یہ بات شد و مد سے محسوس کی گئی ہے کہ اسلام ایک دہشت گرد دین ہے اور دنیا کو پُرامن بنانے کے لئے اس دہشت گرد دین کو ختم کرنا چاہیے اور اب اسلام دین کو ختم کرنے کے لئے جو خطہ چنا گیا ہے وہ بلوچستان کا یہی خطہ ہے جو کسی بھی حوالے سے موزون ترین ہے۔جہاں پاکستان، ایران اور عرب ممالک کے مختلف حصوں سے اسلام کو علاقہ بدر کرنے میں کسی بھی دوسرے خطے کے بہ نسبت آسانی رہتی ہے اور اس کام کے لئے پاکستان اور چین کو اسی لئے چنا گیا ہے کہ پاکستان پیسےکی خاطرکوئی بھی گھٹیاسے گھٹیا کام کرنے کو تیار ہے اور چین ایک تو اس کی آبادی دنیا کی سب سے
بڑی آبادی ہے وہ اگر اپنی آبادی کی کوئی پانچ فیصد لوگ اس خظے میں منتقل کردے تو بھی اس خطےمیں اسلام کی علاقہ بدری کے لئے کافی ہوں گی اور دوسری یہ بات کہ چین اسلام دشمن دوسری ممالک کے بہ نسبت اس خطے سے زیادہ قریب ہے اور چین کی ضروریات بھی اور دلچسپیاں بھی اس خطےسے وابستہ ہیں جس سے چین ہی اسلام کے خلاف اخراجات کرنے کی پوزیشن میں ہے اور پھر چین ہی
ایک ایسا ملک ہے جس کا کوئی دین ایمان نہیں ہے اور وہ کسی بھی دین و مذہب کا سب سے بڑا دشمن ہے اسی طرح اسلام کا بھی ہے چین کے صدر کی اسلام دشمنانہ پالیسی سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کے حوالے سے دیکھی جا سکتی ہے ۔

چند دنوں پہلے ایک آڈیو کلپس چل رہی تھی جس میں ایک مذہبی اجلاس میں ایک مولوی صاحب اپنے کارکنوں کو بتا رہا تھا کہ کس طرح گوادر میں چینیوں نے مسجدکے سامنے شراب پیا اور مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جانے نہیں دیا اور پھر کس طرح انہوں نے مسلمانوں کی داڑھیوں کو کھینچ کر آگ لگا دی ۔یعنی چینی لوگ اسلام کے ساتھ آج ابتدائی دنوں میں بھی اپنی نفرت کا کھلے انداز میں اظہار کر رہے ہیں۔لیکن دنیا کسی بھی دھشتگرد’’ اسلام ‘‘سےپرامن ’’لادینیت‘‘ کو بہتر سمجھتی ہے۔اس لئے بلوچوں کی مزاحمت جوگو بلوچستان کی آزادی کےحوالے سے ہے مگر در اصل بلوچوں کی یہ جنگ اس خطے میں اسلام کی بقا کا بھی جنگ ہے ۔ اگر اس جنگ میں بلوچ کامیاب رہے تو اسلام کو علاقہ بدر کرنے کی عالمی منصوبہ بندی خاک میں مل جائےگی اور خدا نخواستہ اگر بلوچ ہار گئی اور پاکستانی بربریت کامیاب رہی تو اسلام دشمن طاقتیں اسلام کو بخوبی اس خطے سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہوں گی۔ اس لئے انہوں نے بلوچوں کی مزاحمت کو اسلام کی حمایت میں واحد طاقت قرار دے کر پاکستانی فوج کی بربریت پر چپ سادھ لی ہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی فوج بڑی آرام اور بغیر کسی عالمی دباؤ کے بلوچ قومی نسل کشی میں مصروف
ہے۔۔۔‘‘ وہ یہاں تک پہنچے ہی تھے کہ میں نے سوال کیا کہ ایسے میں ہمارے علماء کرام کیوں خاموش ہیں، کیا ان کو اس بات کا ادراک نہیں ہے؟ وہ بولے۔۔۔ہاں کیوں نہیں ہے، مگر پاکستان کے علماء کرام پاکستانی خفیہ اداروں کے پیداوار ہیں ان کو جو بھی ہدایات ان خفیہ اداروں سے ملتی ہے وہی کچھ کریں گے۔ اور آپ کو علم ہے کہ خفیہ اداروں اور پاکستانی فوج کی فکر و نظر میں ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ہے اور پاکستان کے مقابلے میں اسلام کی ثانوی حیثیت ہے اس لئے پاکستانی علمائے کرام کی نظروںمیں بھی پہلے پاکستان اور پھر اسلام ہے۔آئیے پہلے آپ کو اس کی عملی ثبوت دوں کہ ہمارے علمائےکرام اسلام کو پاکستان کے لئے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ شاید آپ کی نظروں میں جناب مفتی غلام
فرید حقانی صاحب کی کتاب’’۔۔۔ پاکستان اور افواج پاکستان کا تذکرہ قرآن اور احادیث میں۔۔۔‘‘ گزری ہو، یہ کتاب دارالفنا و قضا ء پشاور نے شائع کیا۔جس طرح اس کے نام سے ظاہر ہے یعنی قرآن پاک اور احادیث شریف میں پاکستان سے متعلق تذکرہ ہے حالانکہ پوری عربی زبان میں ’’پ ‘‘ کا حرف سرے سے موجودنہیں ہے پاکستان یا پاک فوج کا تذکرہ کیا خاک ہوتی ہے۔ یہ کتنا بڑا الزام ہے اسلام کی وحدانی اور آفاقی دین پر جس میں انگریز کی بنائی ہوئی ایک ملک کا تذکرہ ہو۔یوں تو اس کتاب میں دوسری بہت کچھ جھوٹی روایات گڑھ لی گئی مگر میں آپ کو اقبال کے ایک شعر کے حوالے سے اس کی جھوٹ کو سامنے لاتا ہوں ۔۔۔‘‘ یہ کہ کر وہ اٹھے اور دوسرے کمرے میں گئے واپسی پر اُن کے ہاتھ میں وہی کتاب
تھی انہوں نے اس کتاب کی صفحہ 81 کھول کر ہمارے سامنے رکھا اور پڑھنے لگے ،لکھاتھا’’۔۔۔۔۔حضرت امام حاکم نے اپنی مستدرک میں حضرت علی)رض(سے روایت کی ہے کہ )اُن اطراف سے جھان آج پاکستان کھڑا ہے (نبی کریم)صلى الله عليه وسلم (کو ٹھنڈی ہوا آئی۔) اب دیکھیں کس شاطریت سے یہ بات لکھی ہے ، کہ جہاں آج پاکستان کھڑا ہے اس لئے کہ کل پاکستان دو حصوں میں تھی مشرقی اور مغربی اس لئے آج صرف مغربی حصے سے نبی کریم کو ٹھنڈی ہوا آئی۔( آگے لکھتے ہیں کہ ’’۔۔۔۔۔۔اور

علامہ اقبال نے اسی حدیث کا مفہوم اپنی اس شعر میں فرمائی ’’۔۔
’’ ۔۔۔۔۔۔۔میر عرب کوآئی ٹھنڈی ہوا جھان سے۔ میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے۔۔۔ ‘‘ اب آئیے آگے اسی نظم کے چند شعر درج کرتے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ اقبال کایہ نظم کس طرف اشارہ
کرتی ہے اور مفتی صاحب کیاکہتے ہیں۔
’’ ۔۔۔۔۔۔۔چشتی نے جس زمین میں پیغام حق سنایا۔نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا۔
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا۔جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا ۔
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے۔
اب کوئی خود انصاف کرے کہ ہمارے علمائے کرام پاکستان کی خاطر اسلام کو کس بے دردی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔اور یہ اس لئے کہ اسلام کی حیثیت پاکستان کے آگے ثانوی نوعیت کی ہےمیں نےپوچھا کہ اگر پاکستان نے اس منصوبے سے اپنا ہاتھ کھینچا تو۔۔؟۔ واجہ بولے۔ممکن نہیں ہے۔ اس لئے کہ پاکستان اسلام دشمنی میں عالمی منصوبہ سازوں کی صف اول کی اتحادی اور ٹھیکیدار ہے۔ ۔اب اگر
پاکستان نے Back کیا اور عالمی منصوبے بندی میں ساتھ نہ دیا تو چین ہی کے ذریعے پاکستان کےحصے بخرے کئے جائیں گے اور اگر پاکستان نے اسلام کو علاقہ بدر کرنے میں عالمی منصوبہ سازوں کی اسی طرح ساتھ دیا جو اب تک دیتی آرہی ہے تو اس کو اپنے علمائے کرام کے منہ مینیوں ہی تالا
ڈالے چُپ کرانا ہوگا۔اور آپ یہ توقع ہی نہ رکھیں کہ پاکستانی علماء کرام خواہ وہ جماعت اسلامی جیسی فوج کے براہ راست آلہ کار ہوں یا جمعیت علمائے اسلام جیسی درپردہ آلہ کار وہ بلوچوں اور اسلام کےکسی کام آئیں گی بلکہ وہ بلوچوں کے خلاف اسی طرح اپنے جیش اور کیش کو استعمال کیا کریں گےمیں نے ان سے ایک اور سوال کیا کہ کیا اسلامی ممالک جیسے ایران اور سعودی عربیہ بھی اسی طرح
خاموش تمائی بنیں گی۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس لئے خاموش ہے کہ اسلام کواس خطے سے علاقہ بدر کرنے می سنّیوں کا سب سے بڑا کردارہے۔ پاکستان ایک سنی اسٹیٹ ہے،پاکستانی فوج بظاہر ایک سنی فوج ہے گو کہ وہ قادیانیوں کی سربراہی میں ہے۔اسی طرح سنّی علمائےکرام کی معاونت ان کو حاصل ہے اور کل جب تاریخ اس خطے سے اسلام کی دربدری کے بارے میں معلومات دی گی تو اس میں اسلام کے خلاف واضح طور پر سنیوں کا کردار نظر آئے گا اور مسلمان دنیا سنیوں کے اس کردار کو لعنت ملامت کرے گی۔اور سعودی عربیہ اپنے معشوق پنجاب کی محبت میں اس قدر مبتلا ء ہے کہ اسے اس بات پر یقین ہی نہیں ہے کہ پنجابی ذہنیت اسلام کے خلاف عالمی سازشوں کا
آلہ کار ہے حالانکہ اسی سعودی عربیہ کے خلاف ساٹھ ) 8691 ( ہی دھائی میں اسی پنجابی ذہنیت نے ایک
بہت بڑی سازش کے تحت قادیانیوں کو سعودی عرب فوجی تربیت کے لئے بھیجا تھا جھاں ان پاکستانی آفیسروں نے سعودی حکومت کی خفیہ معلومات اسرائیل کے ہاتھوں فروخت کئے تھے۔آج جو سعودی عربیہ کروڑوں سعودی ریال پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھ میں دے کر جیش العدل، لشکر خراسان،لشکرطیبہ جیسے دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے ایران اور بلوچ قومی تحریک کے خلاف استعمال کروا رہی
ہے در اصل اسلام کی حفاظت کی خاطر سعودی عربیہ کو یہ رقم پاکستان کے خلاف استعمال کرنی چاہیے تھی مگر سعودی عیاش حکمرانوں کو کون سمجھائے۔اب کیا ہوگا ۔۔۔؟ میں نے ایک اور سوال کیا بولے، کیا ہوگا۔
آپ نے معروف برطانوی اخبار ’’انڈیپنڈنٹ‘‘کی وہ رپورٹ پڑھی جس میں کہاگیا تھا کہ چین ہر سال چار لاکھ چینی باشندے گوادر منتقل کرتی رہےگی۔ جب کوئی چالیس سالوں بعد دو ڈھائی کروڑکی آبادی چین کے ’’لادینیت‘‘ کا اس خطے میں منتقل ہوگی اور پھر تمام اقتصادی، معاشی، معاشرتی ادارے ان کے پاس ہوں گے تو عربی زبان ہی کا یہ مقولہ درست ثابت ہوگا کہ ’’ ۔۔۔الناسُ علیٰ دین مُلوک ھم۔۔۔۔ ‘‘ اس میں کوئی
شک نہیں کہ اُس وقت اس خطے میں کوئی بلوچ نہیں ہوگا لیکن بین الاقوامی منصوبہ سازوں کا اصل ہدف اسلام کا بھی اس خطے سے کوسوں دور نام و نشان نہیں رہے گا مشرقی و مغربی بلوچستان سمیت عرب امارات، مسقط بھی لادینت کے پھیلاؤ میں آئیں گے۔اُس وقت اگر دوچار بلوچ یا یکا دکا مولوی صاحباں رہ بھی گئے تو وہ چینی ریستورانوں میں سوّر یا کتے کا گوشت کھاتے ملیں گے اور کیا ہوگا۔اور مجھے ان کی یہ باتیں سو فیصد درست لگیں اور آپ بھی اس بات پر غور کریں کہ آپ کو آزاد بلوچستان کی مسلمان ریاست چاہیے یا کہ ’’ Lettle China‘‘ کی اسلام دشمن لا دینت۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز