جمعه, آوریل 19, 2024
Homeآرٹیکلزانسرجنسی کیسے تسلیم کی جاتی ہے:تحریر : کماندار بلوچ

انسرجنسی کیسے تسلیم کی جاتی ہے:تحریر : کماندار بلوچ

اس سے پہلے کہ میں موضوع بالا پر کچھ تحریر کروں، قارئین کیلئے Recognition کی تعریف کو لازمی سمجھتا ہوں۔ Recognition کی لفظی معنی ہے تسلیم کرنا۔ جبکہ اس کی تعریف کچھ اس طرح ہے کہ وہ عمل جس میں ایک یا ایک سے زائد ریاستیں کسی دوسرے ریاست ، حکومت یا کسی قوم کی آزادی کیلئے جاری تحریک یا انسرجنسی کی وجود کو تسلیم (Recognize)کرتے ہیں۔
دنیا میں نئی ریاستوں کی وجود میں آنا، ریاستوں کی صفحہ ہستی سے مٹنا یا ریاستوں کا ٹوٹنا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستقل عمل ہے جو قدیم عہد سے جاری و ساری ہے جس وقت دنیا میں ریاست کے concept کو عمل جامعہ پہنایا گیا یعنی ریاست وجود میں آئی۔ ریاستیں اس طرح وجود میں آتی ہیں جب پہلے سے کچھ قائم ریاستیں اپنی جداگانہ ریاستی حیثیت سے دستبرداری کے بعد مل کر ایک نئی ریاست بناتے ہیں جیسا کہ موجودہ امریکہ ۵۲ ریاستوں سے ملکر وجود میں آیا، یا کسی پہلے سے قائم ریاست سے علیحدہ ہوکر بطور ریاست تشکیل پاتے ہیں یا کسی colony سے کوئی قوم آزادی حاصل کرکے اپنے ریاست کو تشکیل دیتی ہے۔
ریاستی سطح پر ان تبدیلیوں نے بین الاقوامی کمیونٹی(international community)کیلئے مسائل کو جنم دیے ہیں۔ان مسائل میں سے ایک مسئلہ جو international community کیلئےاہمیت رکھتا ہے وہ ہے نئی ریاستوں، نئی حکومتوں یا کسی قومی آزادی کی جنگ یا انسرجنسی کو تسلیم کرنا۔ لہذا پہلے سے قائم ریاستیں اس مسئلہ سے اس وقت دوچار ہوتے ہیں جب خاص طور پر ان کیلئے ان نئی وجود میں آنے والے ریاستوں ، حکومتوں یا قومی آزادی کیلئے برسر پیکار باغی گروپوں سے تعلقات قائم کرنا ناگزیر ہوتی ہے۔
تاہم اس وقت recognize (تسلیم کرنا) بین الاقوامی قانون (International law) میں دیے گئے اصولوں سے زیادہ ریاستی پالیسی کا حصہ ہوتی ہے جس کی دو وجوہات ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)ریاستوں کے عمل یا اعمال سے یہ ظاہر ہوتی ہے کہ recognize قانون سے زیادہ ریاستوں کے پالیسی کا حصہ ہوتی ہے۔ کوئی ریاست اس وقت recognize کو اپنی پالیسی میں شامل کرتی ہے جب وہ اپنی مفادات کو تحفظ دینے کیلئے کسی نئے ریاست ، نئی حکومت یا نئی باغی گروپ سے اپنی تعلقات بناتی ہیں، مطلب اسے تسلیم یا recognize کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ جو دوسرے سیاسی معاملات ہوتے ہیں مثال کے طور پر تجارت، فوجی معاملات اور سفارت کاری کا عمل بھی کسی ریاست کو مجبور یا متاثر کرتی ہیں کہ وہ نئے ریاست یا حکومت یا بر سر پیکار مزاحمت کار قوتوں (insurgents) کو تسلیم کرے۔ بہرحال آج کل تسلیم کرنے والے ریاستوں میں ایک ناقابل مزاحمت رجحان موجود ہے جس سے وہ قانونی اصولوں کو اپنی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
(2) نئی ریاست ، یا نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے علاوہ کچھ اور بھی ہستیاں ہوتے ہیں، جنہیں دوسرے ملکوں کو تسلیم کرنے پڑتے ہیں۔ ان میں سے مزاحمتی قوتیں، قومی آزادی کی تحریکیں ، علاقائی تبدیلیاں اور معاہدے قابل ذکر ہیں۔ ان سارے اداروں یا entities کو تسلیم کرنے سے پہلے جوشرط و شرائط ہوتے ہیں وہ یہاں زیر بحث نہیں۔ علاوہ وہ شرط و شرائط کے جو کسی مزاحمتی گروپ یا آزادی کی تحریک کے متحرک آرگنائزیشن یا قوت کو اپنے آپ کو تسلیم کروانے سے پہلے لازمی طور پر پورے کرنے پڑتے ہیں۔ بہرحال یہاں بحث کو ہم دوبارہ maintitle پر لاتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ انسرجنسی یا مزاحمتی گروپ یا کسی تحریک آزادی کیلئے متحرک عسکری قوت کیسے تسلیم کئے جاتے ہیں۔
عام طور پر جب کسی ملک میں کوئی خانہ جنگی، انسرجنسی یا کوئی تحریک آزادی کی جنگ چلتی ہے تو عموماََ دوسرے ممالک عدم مداخلت کی پالیسی اپناتے ہوئے اس جنگ کو اس متاثرہ ریاست کا اندرونی مسئلہ سمجھ کر اس میں مداخلت سے اجتناب کرتے ہیں، تا وقتیکہ ان دوسرے ممالک کے مفادات اس جنگ کی وجہ سے خطرے میں نہ ہوں یا ان ممالک کے عملی سیاست پر عدم مداخلت کی پالیسی کی وجہ سے منفی اثرات نہ پڑیں۔ اور جب ان کے مفادات اس جنگ کی وجہ سے خطرے میں ہوں یا ان کی سیاسی عمل کیلئے مداخلت اہمیت کا حامل ہو تو وہ یقیناََ مداخلت کرتے ہیں، جس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔
(۱)مداخلت کی پہلی وجہ یہ ہے کہ جس علاقے میں مزاحمتی قوتیں لڑ رہے ہوں وہ علاقہ کافی حد تک ان کے کنٹرول میں ہو جہاں پر انہوں نے اپنا حقیقی قبضہ (dejecto authority) قائم کی ہو جس علاقے پر پہلے حریف طاقت کا قبضہ ہوتا تھا۔ تو ان حالات میں مزاحمتی قوتوں کے زیر کنٹرول علاقے میں جب کسی تیسرے یا بیرونی ممالک کے تجارتی مفادات، قومی مفادات اور سمندری بیپار خطرے میں ہوں تو ان کی تحفظ کیلئے وہ جنگ میں مداخلت کرتے ہیں اور ان مزاحمت کار گروپوں سے، اپنے بالا مفادات کو تحفظ دینے کیلئے معاہدہ کرتے ہیں جس سے یہی اخذ کی جاتی ہے یا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان بیرونی طاقتوں نے مزاحمتی قوتوں کو ان کے زیر قبضہ علاقے تک تسلیم کیا۔
جیسا کہ 1937 میں تاج برطانیہ نے اسپینی خانہ جنگی (Spanish civil war) میں نہ صرف انسرجنٹس کو ان کے زیر قبضہ علاقے تک تسلیم کیا بلکہ ان کے ساتھ اپنے نمائندوں کا بھی تبادلہ کیا۔ اگر اس تناظر میں ہم بلوچ انسرجنسی یا بلوچ تحریک آزادی کو دیکھیں تو میرا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلوچ عسکری قوت نے بلوچستان کے کچھ علاقوں پر اپنا کمزور dejecto authority یا حقیقی قبضہ برقرار رکھا ہے۔ جس سے بیرونی طاقتوں کو اپنے اپنے سیاسی ، معاشی ، فوجی اور سمندری مفادات خطرے میں نظر آرہے ہیں جس کی واضح مثال کچھ دن پہلے دس فوجی اہلکاروں کی ہلاکت ہے جب بلوچ عسکری قوت یا بلوچ سرمچاروں نے پاکستانی فوجی ادارہ FWO کے دس اہلکاروں کو ہلاک کیے۔ اس واقع کے دو یا تین دن بعد پھر بلوچ سرمچاروں نے FWO کے چار اہلکاروں کو ہلاک کیے۔ان واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان میں چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) میں سرمایہ لگانے والے ریاست چائنا نے پاکستان پر دھمکی آمیز لہجے میں زور دیتے ہوئے کہا بلوچ مزاحمت یا انسرجنسی کو کچلنے کیلئے فوجی آپریشن میں مزید تیزی لایا جائے۔ چین کے اس دھمکی آمیز لہجے سے یہی اخذ کی جاتی ہے کہ اگر پاکستان چینی سرمایہ کاری کیلئے بلوچستان میں راستہ ہموار نہیں کرسکتی تو چین مجبوراََ اپنی چھیالیس 46 ملین ڈالر کی گوادر پروجیکٹ سے دست بردار ہوگی۔ یا بلوچستان میں اپنی سیاسی، تجارتی اور فوجی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بلوچ عسکری قوتوں کے ساتھ معاہدہ کرے گی۔ جس سے مراد بلوچ انسرجنسی کو ایک حقیقی طاقت تسلیم کریگی جو بظاہر چین کیلئے بہت مشکل ہوگی۔ اب یہ ذمہ داری بلوچ عسکری قوتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اور کس حد تک بلوچستان میں بیرونی طاقتوں کے مفادات کو نقصان پہنچاتی ہیں یا ان سے معاہدہ کرکے ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ تاکہ بلوچ انسرجنسی یا تحریک آزادی کو ان بیرونی ممالک سے تسلیم کرواسکیں۔ اس کیلئے بلوچ عسکری قوت کو اپنے حملوں میں مزید شدت لانی پڑیگی۔
(۲)بیرونی قوتوں کو کسی جنگ میں مداخلت کرنے کیلئے دوسری وجہ یہ ہے کہ جب (قومی آزادی کیلئے بر سر پیکار) مزاحمتی قوتوں اور حکومت یا ریاست کے درمیان جنگ اس نہج تک پہنچ جائے کہ بیرونی طاقتیں مجبور ہوکر اس جنگ کو ایک علاقائی جنگ یا آپسی جنگ قرار دینے کے بجائے اسے دو حریف طاقتوں کے درمیان جنگ سمجھے اور تسلیم کرے، یا مزاحمتی گروپ اپنے زیر کنٹرول علاقوں سے یہ ثابت کرسکے کہ میں اس علاقے میں کسی حد تک ایک حریف طاقت ہوں اور بظاہر تو دونوں حریفوں کو جنگی قوانین کی پاسداری کرنے ہونگے خاص کر مزاحمتی ادارے کو تو Recognition سے پہلے ہی ایک disciplined آرمی، ایک قابل فوجی کمانڈر کی سربراہی میں تشکیل دینی ہوگی۔ حتی کہ یہ ساری شرائط پوری ہونے کے باوجود بھی کبھی بیرونی طاقتیں انسرجنسی یا تحریک آزادی کو تسلیم نہیں کرتے۔ جیسا کہ 1936 میں Spanish civil war کے دوران جب یورپی طاقتوں نے عدم مداخلت کی پالیسی کو اپناتے ہوئے اس بغاوت کو تسلیم نہیں کیا۔ کیونکہ بغاوت کو تسلیم کرنا کسی ریاست پر فرض نہیں ہے بلکہ یہ ان کی خارجہ پالیسی میں ان ممالک کی رضامندی شامل کی جاتی ہے تاکہ اس سے ان کو سیاسی مفادات حاصل ہو۔
مثال کے طور پر برطانیہ کے law officers نے سن 1867 میں انسرجنسی کو تسلیم کرنے کے حوالے سے یہ کہا کہ محض مزاحمت کاروں کی طرف سے یہ اعلان کہ ہم نے عارضی حکومت قائم کی ہے۔ ان کو بطور انسرجنٹ تسلیم کرنے کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ تسلیم کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ انسرجنسی یا جنگ کا دورانیہ کتنا ہے۔ اس میں عسکری قوتوں کی افرادی قوت کتنی ہے، ڈسپلن موجود ہے اور مزید برآں کیا مزاحمتی قوتوں کی نئی حکومت یا طاقت میں یہ قابلیت موجود ہوگی کہ بیرونی ممالک سے بین الاقوامی تعلقات پیدا کرسکیں۔
اب اگر بلوچ انسرجنسی کو وجہ نمبر ۲ کے تناظر میں دیکھا جائے تو بلوچ انسرجنسی یا تحریک آزادی وجہ نمبر ۲ کے شرائط پر کچھ حد تک پوری اترتی ہے اور ان شرائط سے مطابقت رکھتی ہے مثلاََ بلوچ عسکری قوت نے بلوچستان کے کچھ علاقے اپنی زیر کنٹرول میں لائی ہیں۔ بلوچ جنگ آزادی کو آپسی یا لوکل جنگ کی بجائے اسے بین الاقوامی سطح پر دو حریفوں کے درمیان جنگ منوانے میں کافی حد تک سوب مندی ہوئی ہے جس کی واضح مثال امریکی کانگریس مین ڈینا روہرا باکر کی قیادت میں دو تین دفعہ امریکی ایوانوں میں آزاد بلوچستان کے حوالے سے بل پیش ہوئی ہے۔ ریاست افغانستان اور ہندوستان کی طرف سے سرکاری سطح پر بلوچ جنگ آزادی کو کسی حد تک تسلیم کرنا یقیناََ بلوچ عسکری قوت اور بیرون ملک بلوچ قیادت کی مرہون ہے۔ رہی افرادی قوت اور ڈسپلن کی شرط، بلوچ عسکری فوج اور بلوچ جنگ آزادی میں افرادی قوت نمایاں ہے جس کی کثیر تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ تحریک کے شروع دن سے لیکر آج تک پچیس ہزار 25000 سے زیادہ بلوچ تحریک کے حامی اور کارکن شہید و غائب کیے گئے ہیں۔ جب کہ اتنے نقصان کے باوجود بلوچ تحریک آزادی روز بروز بہتر جوش و جذبے سے جاری و ساری ہے۔ لیکن ڈسپلن کے حوالے سے کچھ عسکری تنظیمیں کمزور ہیں اور کچھ تھوڑا بہت مضبوط۔ تو اسی لیے ان کو اپنے ڈسپلن پر خاص توجہ مرکوز کرنی پڑے گی تاکہ بیرونی قوتیں ان کی فوجی ڈسپلن سے قائل ہوکر ان سے تعلقات بنائیں۔
بہرحال ابھی بلوچ آزادی کی جنگ یا انسرجنسی تسلیم ہونے کے عمل سے گزر رہی ہے بلکہ تسلیم ہونے کی بالکل قریب پہنچ گئی ہے اور جب بھی اس بغاوت کو باقاعدہ اور واضح طور پر تسلیم کی گئی تو اس کو (بلوچ انسرجنسی) کو International law کے تحت کچھ حقوق حاصل ہوتے ہیں جو کہ دنیا میں ہر تسلیم کیے گئے مزاحمت یا انسرجنسی کو حاصل ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس پر کچھ فرائض بھی لاگو ہوتے ہیں کہ وہ اپنے زیر قبضہ علاقے میں انٹرنیشنل لاء (International law) کے پاسدار رہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز