شنبه, آوریل 20, 2024
Homeآرٹیکلزاَن دیکھا خوف :تحریر۔۔ادیب بلوچ

اَن دیکھا خوف :تحریر۔۔ادیب بلوچ

 
(اس تحریر میں کوئی سیاسی ٹرم شامل نہیں اور نہ ہی کوئی دنیاوی دلیلیں ہیں بس کچھ محسوسات ہیں جو لفظوں میں پروئے گئے ہیں اور نہ ہی کسی کی دل آزاری میرا مقصد ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان کی وادیوں میں بلوچ عسکری قوتوں کی جانب سے اتحاد کی جو بازگشت سنائی دے رہی تھی وہ دھیمے دھیمے سرد لہروں کی لپیٹ میں آ کر منجمد ہونے کو جارہی ہے ،بلوچ عوام کے دلوں میں جو خوشی کے سُر بج رہے تھے وہ آہستہ آہستہ مایوسی کی لمبی چادر کے زیر سائیہ اَن سُنا راگ الاپ رہے ہیں ،جسکی تال پہ صرف جنگ کے تبلے بجتے ہیں اور جنگ کے تبلوں میں کوئی سُر نہیں ہوتا کوئی ساز نہیں ہوتاصرف آواز ہوتی ہے، شور ہوتا ہے، اور خوف ہوتا ہے ۔دشمن سے لڑی جانے والی جنگ میں پھر بھی کوئی تسکین ہوتی ہے،مگر جنگ جب اپنوں سے یا اپنی ذات اور اپنی قوم سے ہو تو پھر اس درد کو اَلاپنے کے لئے کوئی رُدھالی نہیں ملتی اور نہ کوئی راگ کار گر ہو سکتی ہے ،اپنی جنگ کو شکست دینے کی جنگ بڑی کرب ناک ہوتی ہے ،
اتحاد کی ناکامی کے پیچھے مجھے ایک ایسا منظر دِکھ رہا ہے جسکے خوف سے پہلی بار بلوچستان کے پہاڑوں پر لرزہ طاری ہے،وہی پہاڑ جو اپنے جنگجوؤں کو لوری دیکر سُلاتے تھے اَن گنت شہید ہونے والے جوانوں، بزرگوں ،اوربچوں کے لہو کی خوشبو سے تسکین پاتے تھے، مگر آج وہی پہاڑ بھی ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہیں کیونکہ جب تیر بھی اپنا ہو اور نشانہ بھی اپنا ہو تو دلوں کی کیا حالت زار ہوگی؟ عطا شاد نے کہا تھا کہ
آس وتی گس وتی سنگ وتی سر وتی
زیمیں دل ءَ کجا براں تیر وتی جگر وتی
بات ہورہی تھی بلوچ عسکری قوتوں کے اتحاد کی، جس کے لئے منظم بلوچ تنظیم کے کماش حیر بیار نے پیش کش دی تھی ۔کچھ اخباری بیانات اور سوشل میڈیا پرخیر مقدمی بیانات کے علاوہ اس اتحاد کی کوئی عملی شکل قوم کے سامنے نہیں آئی ۔دوسری طرف ریاست اس اتحاد کو ناکام بنانے کے لئے اپنے تمام حربوں کو زیر استعمال میں لاکر اپنا مورچہ مضبوط کر رہی ہے، کیونکہ ریاست بخوبی جانتی ہے کہ اس اتحاد میں اسکی ساہ کندن سانس لے رہی ہے۔ ریاست کو اس اتحاد کے آئینے میں اپنا ٹوٹاہوا عکس صاف دکھائی دے رہا ہے، اس لئے اس نے نام نہاد پارلیمانی لیڈروں سے بلوچ عسکری قوتوں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کی جو ہُنر سازی کی ،جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوچکی ہے ۔جسکی تازہ مثال پنجگور میں نیشنل پارٹی اور جمیعت کا کشمیر ڈے منانا اور نیشنل پارٹی کا تربت چوک پر کھڑے ہوکر بی آر پی اور بی ایل ایف کو للکارنا شامل ہے ،اور یہ کہ نیشنل پارٹی جیسی پارٹی مکران کے دل پر کھڑے ہو کر بلوچ عسکری قوتوں کو للکار کے ریاست کی سلامی لیتی ہے،مگر ہمارے دوستوں کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگتی ،شاید ہماری بلوچ عسکری قوتوں کے لیڈران اب تک یہ سمجھ نہیں پائے ہیں کہ حالات بدل چکے ہیں ،جنگی حکمت عملی میں تبدیلی لانا اب ضروری ہوگیا ہے،اپنے اردگرد اگر نظر دوڑائی جائے تو ایران نے بھی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائی ہے، افغانستان نے بھی کافی حد تک اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائی ہے اور چائنا تو جوتوں سمیت بلوچستان میں گھسنے کی تیاری میں ہے۔ریاستی جراثیم پہلے سے بلوچ عسکری قوتوں کے راز چُرا کر خفیہ ایجنسیوں کے تھال میں ڈال رہے ہیں اور سر مچاروں میں عدم حوصلہ کی وجہ سے روز دو چار کا ریاستی جھولی میں ہتھیار ڈالنے کے عمل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مگر پھر بھی اس اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے سوشل میڈیا پر ایکدوسرے کو کمتر اور نیچا دکھانے کی عمل میں کمی نہیں آرہی ہے اور قوم مایوسی کی طرف جارہی ہے ۔اخبارات اور سوشل میڈیا پر نظر ثانی کی،بہت کم ایسے بیانات ملتے ہیں جو اس اتحاد کو بلوچ قوم کی ضرورت سمجھ کر دلائل سے آگے بڑھنے کی کوشش میں میں ہیں زیادہ تر خود کو پارسا اور دوسرے کو داغدار ثابت کرنے کی جدوجہد میں توانائی خرچ کرتے ہوئے ملتے ہیں،اور ریاستی کارندے صحیح معنوں میں اس جنگ کا لُطف اُٹھانے میں مگن ہیں۔حالانکہ اس اتحاد کے سائے میں پاکستان سمیت ایران اور چائنہ کو ہم اپنی پالیسیوں سے دنیا کے سامنے واضح کر سکتے تھے اسی اتحا د کی آڑ میں پندرہ سالہ جنگ کو تشکیل ریاست کا عملی جامعہ پہنا سکتے تھے جو پاکستانی ریاست کے لئے لوہے کی دیوار کی مانند ہوگی، آج اتحاد کے حوالے سے ہمارے دوستوں کے غیر لچکدارانہ رویوں کی وجہ سے ریاستی جماعتیں مکران میں تاریخی جلسے کر کے سر بازار عسکری قوتوں کو کو للکار کے چیلنج کر رہے ہیں۔ سوچ لیں کل اگر ہماری انہی عسکری قوتوں کی بندوقوں کا رُخ ایکدوسرے کی طرف موڑ لیں تو ریاست کی خوشی کا جشن کہاں تک پھیلے گا ؟یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ اتحاد نہ ہونے کی صورت میں آج ہم میڈیا پر ایکدوسرے پر حملہ آور ہیں، کل میدان جنگ میں پہلے ہمیں ایکدوسرے کو مارنا ہوگا ، جو طعنے جو کشیدگی ابھی لفظوں کی صورت میں نکل رہے ہیں کشیدگی اتنی بڑھے گی، دشمن سے بڑھ کر ہمیں اپنے ہی لوگوں سے زیادہ خوف ملیگا ، ایک نئی جنگ ہوگی جو سر بھی اپنے ہونگے اور تیر بھی اپنے اور چلانے والوں کو یہ احساس تک نہیں ہوگا کہ وہ خود کشی کر رہے ہیں جب ہوش میں آئیں گے تو سب کچھ لُٹا چکے ہونگے۔ چاکر کا دور پھر دہرایا جائیگا، تاریخ پھر اٹھارویں صدی کا روپ دھار لے گی،
زمین کانپ اُٹھے گی ،گلیاں اپنے لہو سے سرخ ہونگی ،اور دشمن اس جنگ کو موسیقی کی طرح انجوائے کر کے بلوچ قوم کی پیشانی پر غلامی کی ایک اور مُہر لگا دے گی، جسکی ذمہ دار ہماری عسکری قوتوں کے لیڈران ہونگے،جو آج قومی مفاد کی بجائے ذاتی پسند ناپسند کی آڑ میں زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ حالات کی نزاکت کو محسوس کرنے کے بجائے اپنے گروہی لکیروں میں قید ہو کر اُس غلامی کی راہیں کھول رہے ہیں جو بلوچ قوم کے لئے صدیوں کی غلامی کا تمغہ لیکر آرہی ہیں،اگر سوچا جائے تو جنگی قوانین میں بہت سی فارمولے ہیں جنکی بنیاد پر اتحاد اور سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔
۱۔۔منزل الگ ہو دشمن ایک ہو تو ایسی صورت میں خود کو مضبوط کرنے کے لئے اور دشمن کو شکست دینے کے لئے اتحاد لازمی ہوتاہے
۲۔منزل ایک ہو مقصد جدا ہوں تب بھی منزل کو پانے کے لئے جنگی قوتوں میں اتحاد اور سمجھوتے کی گنجائش موجود ہوتی ہے
۳۔مقصد ایک ہو منزل جدا ہوں پھر بھی اتحاد اور سمجھوتے کار گر ہوتے ہیں۔۔
دشمن ایک، منزل ایک ،اور مقصد ایک، پھر بھی اتحاد کی گنجائش پیدا نہ کرنا کیا پیغام دیتی ہے ؟؟یہی وجہ ہے کہ کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اب بلوچ عوام اپنی عسکری قوتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے ،مایوسی اور بے اعتباری کی فضا میں سانس لے رہی ہے اور یہ کہ اگر یہ جنگ ہماری آزادی کے لئے ہے تو آپس کی رسہ کشی کا کیا مطلب ؟خود کوپارسا اور دوسرے کو داغدار ثابت کرنے کے عمل کا کیا غرض ؟جیساکہ میں نے پہلے کہا کہ خدا نہ کرے اگر یہ اتحاد نہ ہوا تو ہمارے دوست اس خوش فہمی سے نکل جائیں کہ وہ اسی طرح رہ کر جنگ کو جاری رکھیں گے،آپس کی جنگ کا ہونا سو فیصد فطری حقیقت ہے۔مجھے خوف آرہا ہے کہ آج جن ماؤں نے اپنے کلیجوں کی مسخ شدہ لاشیں دیکھ کر ایک قطرہ آنسو تک نہیں بہایا،بلکہ فخر سے انکو وطن کی خاطر قربان ہونے والے شہیدوں کا درجہ دیکر دھرتی ماں کے حوالے کیا ،کل ایسا نہ ہو کہ یہی مائیں اپنے بچوں کی موت پر افسو س ا ور شرمندگی کا ماتم کریں ۔کیونکہ جنگ جب رُخ بدلتی ہے اور دشمن کے بجائے بندوق اگر اپنے بھائیوں کی پیشانیوں پر ہو تو کہانیوں کے مفہوم بدل سکتے ہیں۔ قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں ، اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو بلوچ تاریخ میں کچھ نام نفرت کی سیاہی سے لکھے جائیں گے۔ اُن میں ڈاکٹر اللہ نظر، براہمندگ بگٹی، اور خلیل بلوچ کے نام سر فہرست ہونگے ۔اس لئے ایک عام بلوچ کی حیثیت سے میں اپنی تمام عسکری قوتوں کے لیڈران سے اپیل کرتا ہوں کہ اُ س اَن دیکھے خوف کو محسوس کریں اور بلوچ قوم کی بقا کے لئے آج ہی لائحہ عمل ترتیب دیکر آنے والی مصیبتوں سے بلوچ قوم کو بچا لیں کیونکہ آپس کے اتحاد میں پناہ ہے اور اسی پناہ میں جیت،،،،،،،
(نوٹ -: ادارے کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)
یہ بھی پڑھیں

فیچرز