سه‌شنبه, آوریل 16, 2024
Homeآرٹیکلزایران اور پاکستان کی گٹھ جوڑ اور بلوچ قومی مفادات، تحریر: صوبدار...

ایران اور پاکستان کی گٹھ جوڑ اور بلوچ قومی مفادات، تحریر: صوبدار بلوچ

قابضین (پاکستان و ایران) کے ہاتھوں اگر کوئی بلوچ شہید کیا جاتا ہے تو اسے قابض طاقتوں کی جانب سے ظلم وجبر کا تسلسل ہی ہے اور ان متاثرہ بلوچوں کی وارثی کرنا ہم سب بلوچوں کا قومی فرض بنتا ہے۔

دشمن قوتوں کے ہاتھوں مارے جانے والے بلوچ بھائیوں اور بہنوں کی شہادت کے محرکات کیا ہیں؟

بلوچ گلزمین پر پاکستان اور ایران نے بزور طاقت قبضہ کیا ہے، اس دن سے آج تک وہ بلوچوں کو معاشی، سیاسی، سفارتی، سماجی، ثقافتی اور ہر طرح سے غلام بنائے ہوئے ہیں، وہ جب چاہیں ہمارے بہنوں اور بھائیوں کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں اور ہم دشمن کی گولیوں کے شکار اپنے جگر گوشوں کی شہادت پر احتجاج اور اٹھ کھڑے ہونے کی بجائے اسے خدا کی رضا ومنشاء کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔

ہمیں اپنی بیانیہ درست سمت اور سوچ کو وسعت دینا ہوگا، اگر ہم اپنی گلزمین کی آزادی اور اپنے بلوچ قوم کی دفاع کے لئے اٹھ کھڑے نہیں ہوئے اور ہر واقعہ کو معمول کا حادثہ سمجھ کر اگر در گزر کرتے رہے تو پھر ہم سب ایک ایک کرکے مارے جائیں گے، اور دشمن ہماری موت کو ذاتی رنجش، حادثی موت کہہ کر کسی بھی عوامی رد عمل کو زائل کردیتا ہے اور پھر ان واقعات کو ذاتی سطح پر تصور کرکے اپنے اپنے گھر چلے جاتےہیں اسی طرح اگلے دن کسی اور بھائی کا لخت جگر چھین لیا جائے گا۔

مجھے شہید بالاچ مری کا وہ تاریخی جملے یاد آرہے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ دشمن ہر ہتھیار ہمارے خلاف استعمال کررہا ہے، بھوک کا ہتھیار، نا اتفاقی کا ہھتیار، لالچ کا ہھتیار شامل ہیں۔

شہید بالاچ کے ان الفاظ نے سمندر کو کوزے میں بند کرکے رکھ دیا، ان کے الفاظ آج سچ ثابت ہورہے ہیں کیونکہ لازمی نہیں دشمن ہمارے خلاف بندوق کی گولی چلاکر ہمیں قتل کرے، دشمن ہمیں لالچ دے کر ایک دوسرے سے الگ تھلگ کررہی ہے، بھوک کا ہتھیار استعمال کرکے ہمارے عوام کو نان شبہنہ کا محتاج بنا رہی ہے تاکہ لوگ بلوچ قومی غلامی کو بھول کر اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کو اولین مسئلہ تصور کرے۔

اب اگر کوئی بلوچ معاشی مجبوری سے، یا کسی بھی وجہ سے ایران اور پاکستانی دہشت گرد ممالک کے افواج کے ہاتھوں شہید ہوتی ہے تو کیا ہم بحثیت بلوچ اس جبر اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا سکتے؟

گہرام بلوچ کا تعلق چاہے کسی بھی پارٹی، تنظیم یا قبیلے سے ہو لیکن وہ تھا تو بلوچ ناں، تو ہمیں اس واقعے کو ایک فرد کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے بحثیت بلوچ قوم دیکھنے اور اس کے پس پردہ محرکات کا جائزہ لیکر سوچنا ہوگا۔ کیا ایرانی دہشت گرد بارڈر فوج کے ہاتھوں گہرام بلوچ کی شہادت کو معمول کا واقعہ قرار دے کر ہم ایران کی جرائم کو دھونے کا اور ان کی بلوچ قوم کے خلاف جبر کو قانونی جواز فراہم نہیں کررہے؟

ہم کب اپنی ذاتی، پارٹی، گروہی مفادات کو ترک کرکے بلوچ قومی اجتماعی مفادات کو ترجیح دیں گے؟ بلوچ عوام کی دفاع اگر ہمارے مزاحمتی تنظیمیں نہیں کریں گے تو پھر کون کریگا ، دشمن تو یہی چاہتی ہے کہ وہ بلوچوں کوکوئی بھی لیبل لگاکر ایک ایک کرکے راستے سے ہٹائے اور قابضین کی ریاستی دہشت گردی پر خاموش راہ کر ہم ان کے کام کو اور بھی آسان کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز