پنج‌شنبه, مارس 28, 2024
Homeآرٹیکلزایک تھی الٹ پلٹ تاریخ: تحریر۔شاہ جی بلوچ

ایک تھی الٹ پلٹ تاریخ: تحریر۔شاہ جی بلوچ

بچپن میں بچوں کو انار سیب اورانگورکو سمجھانے کیلئے کتابوں میں ان پھلوں کی بڑی بڑی تصاویر رکھی جاتی ہیں۔چنانچہ پہلے پہل کسی چیز کوسمجھنے کیلئے علامتی طورپر اسے سمجھنا ہمارے روزمرہ کامشاہدہ ہے تاہم جوں جوں بچپنا جاتا رہے گا علامتیں ختم ہوکر حقیقتیں علامتوں کی جگہ لے لیتی ہیں۔بچپن سے لے کر لڑکپن تک سیب انار اورانگور کی تصاویر علامتی طورپر دیکھ کرزبان پران کے ذائقے تک کا شائبہ ہوتا تھااورمنہ میں پانی بھر آتا تھا‘لڑکپن میں بھی علامتی طورپر ہیر کٹنگ کیلئے جاتے تو حجام کی دکان میں طرح طرح کے انگریزلڑکوں کے ہیرکٹنگ اسٹائل کی تصاویر آویزاں ہوتی تھیں اورا ب بھی ہیں جہاں دل للچاتے ہوئے ان کی طرح ہیر کٹنگ کی فرمائش کرتے۔البتہ بعد میں یہ علامت اور حقیقت میں زمین آسمان کافرق دیکھ کر شرمندگی کا احساس سا ہوتا‘چنانچہ علامت اور حقیقتوں میں بنیادی فرق کو بچپن اورلڑکپن سے لے کرپختہ عمر تک پہنچنے تک روزمرہ کے مشاہدوں کے بعد ہی جانچا جاسکتا ہے۔اب پختگی اور حقیقت کا ادراک کرنے کے بعد انگور اور سیب انار کی تصاویر لاکھ سامنے لائی جائیں لیکن منہ میں پانی بھرآنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ وہ حقیقت میں سامنے نہ ہوں‘لیکن اگر کوئی پختگی کو(عمر کے لحاظ سے) پہنچنے کے بعد بھی محض علامتوں اور تصاویر(مراد تصور) سے ہی دل کی مرادوں کے بھر آنے کی امید کرے تواسے یقیناً حقیقتوں کے ادراک میں مسائل کا سامنا ہے‘وہ حقیقتوں کو علامتوں سے ہٹ کردیکھے۔ہمارے ہاں یہ اصول کہ اچھا کروگے اچھائی پاؤگے‘برا کروگے برائی پاؤگے‘یاجیسی کرنی ویسی بھرنی‘یا مزید یہ کہ جیسا باپ ویسا بیٹاجیسے مصداق ایمان کی حدتک پختہ دکھائی دیتے ہیں۔براہوئی لوک کہانیوں میں یہ مشہورہے کہ ایک لڑکے نے لڑکی کوبھگا کرشادی کرنے پر راضی کرلیا۔لڑکی نے رضامندی کیساتھ ساتھ اپنے گھر سے ہی اپنے باپ کے اونٹوں میں سے ہی ایک اونٹ کو اپنے ساتھ لے لیا تاکہ بھاگنے میں آسانی ہو۔راستے میں اونٹ نے بہتے ہوئے پانی کو دیکھ کر فوراً ہی پانی میں بیٹھ گیا۔لاکھ کوششوں کے باوجود اونٹ پانی سے اٹھنے کانام ہی نہیں لے رہا تھا۔تب لڑکی نے کہا‘یہ بدبخت اونٹ اپنی ماں پر گیاہے اس اونٹ کی ماں بھی جہاں پانی دیکھتی پانی میں بیٹھ جاتی اورآگے جانے کانام ہی نہیں لیتی۔کہانی گھڑنے والے آگے کہتے ہیں کہ لڑکے نے کہا اگر اونٹ میں یہ خصلت ماں سے بیٹے میں منتقل ہوسکتی ہے تو پھرآج میں اس لڑکی کو بھگا کربیوی بنا رہا ہوں تو کل کو اس لڑکی سے میری جوبیٹی پیدا ہوگی وہ بھی اپنی ماں کی خصلت کولے کر بھاگ کرشادی کرلے گی۔چنانچہ راوی کے مطابق لڑکا لڑکی کو وہی چھوڑ کر واپس آجاتاہے۔خصلتوں کا دلچسپ ملاپ۔ان خصلتوں کی کھینچا تانی کا ہنر آج اپنے زوروں پر ہے۔لوگوں کے مطابق بلوچ برادرکش واقع ہے۔تو پھر بات ہی ختم ۔پھرخصلتوں اور جبلتوں کے سفر کو شعور اور قومی نصب العین نیشنلزم نے کوئی زک نہیں پہنچایا تو مجھے شعور اور نصب العین کا معنی رکھنے والے نیشنلزم پر بھی شک ہورہاہے۔
عمومی انسانی تاریخ کی طرح بلوچ تاریخ بھی جنگوں سے بھری پڑی ہے۔انسان نے جب سے سماجی حیثیت اختیار کی ہے لڑائی اورجھگڑے عمومیت اختیار کرتے رہے ہیں‘بھائیوں کی آپس کی لڑائی آج معاشرے میں عمومیت اختیار کرگئی ہے۔اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ دنیاکی تمام اقوام بھائیوں کی طرح رہیں۔اس پر ازراہ مذاق اوشو نے خوب کہا ہے کہ اقوام متحدہ اپنے چارٹر میں جب قوموں کو بھائیوں کی طرح رہنے کی تلقین کرتا ہے تب ہی سمجھ لو کہ اس نعرے کی سمت کس قدرٹیڑی ہے۔کیونکہ بھائیوں کی طرح رہنے کا مطلب لڑائی کی حالت میں رہنا ہے‘جھگڑے کی حالت میں رہنا ہے‘بھائیوں کی آپسی تاریخ جنگوں سے بھی عبارت ہے البتہ زیادہ حصہ امن ومحبت ہوسکتی ہے‘خواہش بھی یہی ہے‘ضرورت اور مقصد بھی یہی ہے لیکن جہاں جہاں بھائی ساتھ رہے وہاں لڑائیاں ہوئیں۔بھائیوں کی تاریخ کے حوالے سے بلوچ تاریخ میں بھائیوں کے ہاں لڑائیاں ہوئی ہیں لیکن امن ومحبت کے زمانے طویل رہے ہیں۔بات سیاسی نظریات اور قومی نصب العین نیشنلزم کا ہوتو بھائی بندی اور بھائی چارہ کے معنی کیا رہ جاتے ہیں؟قومی مفادات گروہی مفادات ‘محدودیئے چند مفادات کیلئے قومی مفادات پر سمجھوتہ کے معنی بھی سمجھنے ہونگے؟ چاکر وگہرام کی لڑائی اپنی جگہ‘نوری نصیر خان کی بلوچ قومی تشکیل کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا‘بلوچ بلوچستان اور بلوچی وبراہوئی کنفیڈریسیوں کا ملاپ۔چنانچہ بھائیوں کی آپسی تاریخ میں تلخ وشیریں کے پہلوؤں کودیکھاجائے تو آپسی جنگوں کے حوالے سے چاکر وگہرام قابل ذکر ہوسکتے ہیں جبکہ شیریں اور امن وآشتی کے حوالے سے نوری نصیر خان قابل ذکر ہیں۔کیا نوری نصیر خان کے قومی تشکیل کے مراحل میں مکران میں جاکرلڑائی لڑناقومی تشکیل کے نام پر سامنے نہیں آتے ؟یہاں نوری نصیر خان ‘ خاران اور مکران پر قلات کی جانب سے جاکر جولڑائی ہوئی‘لوگ مرے۔ایک طرف قلات کے حکمران اور دوسری طرف مکران۔گویا خاران مکران قلات اور لسبیلہ کیسے ایک بلوچ قومی ریاست بنے ؟رضاکارانہ قومیانہ ہوا یا یا باہمی لڑائی۔ کہنے والے تو اس کو بھی برادر کشی کہہ سکتے ہیں لیکن چونکہ اس عمل نے وہ نتائج دیئے جو قومی تشکیل کیلئے معاون ثابت ہوئے جبکہ آج کے شفاف نظریہ اور قومی تنظیم اور ڈسپلن اور نیشنلزم جیسے نصب العین کے ہوتے ہوئے برادرکشی کی اصطلاح میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ورنہ مکران کے ان خاندانوں کی داستانوں کو بھی کوئی نام دینا ہوگا جو روز اپنے پیاروں کو مخبر قرار دے کر مارنے کو برادرکشی کانام دیتے ہیں ۔ہم آج چاکر وگہرام اور نوری نصیر خان کے وقت کی تاریخ سے بہت دوربیٹھے ہیں۔اچھائی اور برائی کے پہلو تلاش کرنا بہت آسان ہے لیکن آج ایک تاریخی عمل جاری ہے اور یہ عمل ایک سیاسی قومی نظریات اور قومی تنظیم اس کے ڈسپلن اور نیشنلزم کے نصب العین کے تحت جاری ہے۔ اس کے نتائج کو پرانے نتائج سے موازنہ کرکے کوئی نام دینا شاہد عجلت جلد بازی اور جذبات ہی کہلائے گا۔ہمیں صبر اور برداشت کے درس کو اپنے عدم برداشت پر بھی لاگو کرنا ہوگا ۔اگر بغیر پرکھے اور انتظار کئے کوئی بنے بنایااور گڑا ہوا نتیجہ ہمارے پاس پہلے سے موجود ہے تواس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس تو مسلمانوں کے مقدس کتاب کی مانند ایک کتاب(تاریخ کی الٹی پلٹی کتاب کی مانند) ہے جس سے ہم صدیوں پہلے بتائے ہوئے نتائج کو آج کے حالات میں دیکھ کر قیامت کے آثار بتاتے ہیں۔جب لوگ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ جہاز کا ذکر تو قرآن میں آیاتھا‘سائنسی ایجادات سمیت تمام چیزوں کے بارے میں بتلایاگیا ہے‘محنت کی کیا ضرورت‘تجربات کی کیاضرورت‘سب کچھ پہلے سے ہی معلوم ہے‘پڑھواور نتیجہ نکالو ۔ اب میں حیران ہوں کہ تاریخ کا کونسا کردار میرے لئے بہترین حوالہ ہیں‘نوری نصیر خان جس کی خاران اور مکران پر لشکر کشی قومی تشکیل کا باعث بنی ۔اوردوسرا چاکر وگہرام ایک دوسرے کو شرط شرائط اور قول کے ذریعے انا پرستی کے بھینٹ چڑھاتے ہیں ۔چاکر وگہرام کسی قومی ذمہ داری پر فائز تھے ’نوری نصیر خان کس قومی ذمہ داری پر مامور تھے کہ ہم ان کو قومی تناظر میں دیکھیں۔قومی تناظر الگ ہوسکتا ہے کسی سماجی تناظر کے ‘جہاں ہم روز مرہ قبائلی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے ہیں ‘ ایک ہی جگہ پر سماجی اور قومی ذمہ داریوں یا معمولات سے حاصل نتائج کو گڈمڈ نہیں کیاجاسکتا۔چاکر وگہرام اور نوری نصیر خان کی ذمہ دا ریوں کو الگ الگ دیکھنا ہوگا‘تب ان کے نتائج کو ذمہ داریوں کے حوالے سے ہی پرکھاجاسکتاہے ۔آج کے سیاسی نظریات اور قومی نصب العین نیشنلزم کے حوالے سے چاکر وگہرام کی گمراہی کے حوالے کہاں تک صادق آتے ہیں اس پر بحث ہونی چاہئے ۔یہ منفرد پہلو بحث ہوگا۔ تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں لیکن اگر یہی کتاب بچے کے ہاتھ میں ہو تو وہ انار انگور سیب کے خوش کن تصاویر دیکھنے اور نہ ملنے پر ان اوراق کوعین بچے کی مانند الٹ پلٹ کردیکھاجائے گا‘چاجائیکہ کہ وہ کتاب ری پبلک ہو‘ داس کیپیٹل ہو‘یا بلوچ تاریخ ہو‘اس کے اوراق منہ میں پانی بھر آنے کی خواہش کے تحت دیکھے جائیں گے تو اس میں خوش کن تصاویر سے زیادہ تلخ حقائق سامنے آئیں گے تب ان اوراق کے الٹ پلٹ اورغلط ہونے کے امکانات قطعی زیادہ ہوسکتے ہیں۔چنانچہ ذہن کی نشوونمامیں جس چیز کو زیادہ دخل ہوتی ہے وہ ماحول ہوتا ہے‘ماحول اگر ہندوستان کا ہوگا ہریالی ہوگی‘پیداوار ہوگی‘چرند پرند چہچاتے ہونگے تویقیناًذہن کی نشوونما سات جنموں تک زندہ رہنے کاتصور گھڑ لے گا‘ہرموت کے بعد نئی پیدائش‘لیکن کسی خیالی جنت میں نہیں بلکہ ہندوستان جیسی جنت میں‘باغ عدن میں‘اگر ماحول عربستان کے صحرا کا ہوگا‘ہر طرف صحرا‘پیداوار نہیں‘چرند پرند چہچہانے سے رہے‘صحرامیں چلتی ہوا سے پیدا ہونے والی خوفناک آواز کا راج ہوگا وہاں جلدی مرنے اور کسی خیالی جنت کا تصور ذہنوں کو گھیر لے گااس جنت کا اس کائنات سے تعلق نہیں ہوگا۔تب آج ہندوستان میں روحانیت کا وہ خزانہ ہے کہ اگر دنیا استفادہ کرے تو دنیا جی اٹھے اور نئی انگڑائی لے‘جبکہ عربستان کے ذہنی تصورات آج خیالی دنیا کے تصور میں زندگی کی فناء کرنے پرتلے ہوئے ہیں(اسامہ کی خودکش ڈاکٹرائن)جنگ کی اپنی نفسیات ہوتی
ہے‘جس میں لوگ حواس کھو بیٹھتے ہیں‘امن کی باتیں ہونے لگتی ہیں‘تلخ یادیں ختم کرنے کی باتیں تیز ہوجاتی ہیں‘ایک بزرگ کو پیغام بھیجاجاتا ہے کہ آؤ پھر سے مل کر کام کریں(حوالہ)شہیدوں کا حوالہ دیاجاتاہے‘ان کا واسطہ دیا جاتا ہے کہ ایسا نہ کرناویسا نہ کرنا‘گویا شہداء پاؤں کی بیڑیاں بنائی جاتی ہیں‘امن وآشتی کی باتیں کی جاتی ہیں‘برادری سنگتی اور ایلمی کی باتیں زدزبان عام ہوجاتی ہیں‘گویا سیب انار اور انگور کے تصاویر دیکھ کر منہ میں پانی بھرآنے کی کیفیت ایک دفعہ پھر عود کرآتی ہے‘ دل بچہ بن جاتاہے پسیج جاتا ہے۔ تلخ حقائق پرے رکھے جاتے ہیں‘انہیں بلانے کی باتیں کی جاتی ہیں ‘جون ایلیاء کا ایک خوبصورت شعرہے کہ ہم ہزار برس سے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کررہے‘‘ بلوچ تناظرمیں اس کو جون ایلیاء سے معذرت کیساتھ تبدیل کرکے دیکھاجائے کہ بلوچ کی نامعلوم صدیوں کی تاریخ میں محض تلخ یادیں بھلانے ‘ایلمی اور سنگتی کی بے محل حادثات ہی رونما ہوتے رہے ہیں‘ایلمی وسنگتی کی تاریخ بہت طویل ہے لیکن حاصل کیاہوا؟ یہ سنگتی برادری او رایلمی اسلام کے ایمان جیسا رویہ بن گیاہے‘اس میں تلخ حقائق ہوں نہ ہوں بس ایک بلوچ ہونے پر ایمان( مسلمانوں کے ہاں خدا واحد لاشریک پر ایمان کی مانند)اوربرادری ایک قومی مزاج بن چکا ہے ‘برادری کی باتیں کرنے والے برادری کے نام پر ماضی بعید (یا پھر حال کہہ لیں) تاریخ کیساتھ بھی جبر کررہے ہیں جہاں ایک بزرگ نواب مری کے حوالہ سے تحریر کاآغاز اور انجام تحریردوسرے بزرگ سردار مینگل کے خوبصورت مگر پرفریب فقرے پر کیاجارہاہے‘اب دیکھنا ہوگا کہ ان بزرگوں کا ایک دوسرے کیساتھ خود برادری کا عالم کیاتھا‘پہلے بزرگ نواب مری کہتے ہیں کہ (دوسرے بزرگ)سردار مینگل نہ تو نیشنلسٹ ہیں نا سوشلسٹ‘جبکہ دوسرا
بزرگ(سردار مینگل) تخت وڈھ میں بندوق اٹھانے پر جرمانہ عائد کرنے کا قانون بناتے ہیں‘ جو دوسری جانب کہتے ہیں کہ ’’ لڑو تو خوب لڑو ورنہ ماؤں بہنوں کو مت رلاؤ‘‘اس پرفریب نعرے کے زد میں آنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ خود سردار مینگل نے کہاں خوب جنگ لڑنے کی کوشش کی ناکامی پر اپنی ماں او ربہنوں کی خاطر بندوق کوصندوق میں رکھ دیا؟ایسا کوئی حوالہ موجود ہو تو بتلایاجائے‘کیونکہ پرفریب فقرے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’جم کر اور خوب لڑو ورنہ اپنی ماؤں بہنوں کو مت رلاؤ‘‘اس فقرے کے پہلے حصے کے طورپر تو کہنے والے شخص کی طرف دیکھنا ہوگا کہ اس نے کب اور کہاں کہاں جم کر اور خوب لڑنے کی سعی کی اور ناکامی پر ماؤں بہنوں کو آسودہ حال رکھا‘‘ سردست ماؤں او ربہنوں کی حالت آہ وزاری سراوان جھالاوان تخت وڈھ مکران اور رخشان کوہستان مری میں ایک ہی ہے۔گویااس فقرے کے خالق اوراس کو گن گنانے والے بتاپائیں تو بتائیں کہ کب اور کہاں انہوں نے جم کراور خوب لڑائی لڑی‘‘۔
مجھے ایک اورحوالہ دینے دیجیئے جہاں برادرکشی پر نادام اور سراپااحتجاج حلقے کا اپنے ساتھ کام کرنے والوں کیساتھ رویہ اگر برادرکشی پر مبنی نہیں تو کم ازکم ’’برادر انہ مخاصمت‘‘ پر ضرور محیط ہے۔یونیورسٹی کا ایک ڈیپارٹمنٹ جہاں ایک ہی لمئی زبان کیلئے کام ہورہاہے‘ وہاں برادرکشی کی اصطلاح کو دل وجان سے لگاکر پھرنے والے بھی موجود ہیں وہاں دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے‘ جہاں یہی برادری سنگتی اور ایلمی کا درس دینے والے خود برادرمخاصمتی کا شکار نظر آتے ہیں‘ان کی شب وروز کی سیاست لمئی زبان ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داروں کو برداشت نہ کرنے پر محیط ہوتاہے۔برداشت او رعدم برداشت کے حوالے سے آج درس دینے والے مبلغین کی تعداد تو ویسے ہی زیاد ہے۔دلچسپ صورتحال ڈاکٹر اللہ نذر کے حوالے سے سامنے آئی جہاں انہوں نے بی ایل اے سے بارہا صبر وتحمل اور برادری وایلمی کا ثبوت دینے کی اپیلیں کیں اوراپیلوں کا ورد جاری ہے عین اسی موقع پر خان آف قلات جناب ڈاکٹراللہ نذر کے خلاف بیان داغ دیتے ہیں تو یہی برادری ایلمی اورسنگتی‘سب تلخ یادیں بھولنے‘ایک ساتھ کام کرنے کا درس دینے والے ڈاکٹر نذرسیخ پاہوجاتے ہیں‘برداشت اور سنگتی ایک طرف رکھ کر آستینیں چڑھائی جاتی ہیں۔اسی شب اخبارات میں ڈاکٹرنذر کا جواب پہنچ جاتا ہے‘گویا ایک رات یا ایک دن کا وقفہ بھی جواب دینے میں موصوف توقف نہیں کرتے‘یونیورسٹی کے لمئی زبان دیپارٹمنٹ میں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے‘برادرکشی پر اوراق الٹ پلٹ کرنے والے خود برادر انہ مخاصمت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔چنانچہ یہاں دیکھنا ہوگاکہ کون کہاں کہاں اورکس نوعیت کے معاملات میں الجھاہوا ہے اوراس کے الجھنوں کی نوعیت کیاہے؟وہاں برادری ایلمی اورسنگتی کے معیار کیا ہوسکتے ہیں؟تضادات کم سے کم کہاں پنپ سکتے ہیں؟ایسانہ ہوکہ تاریخ کی کتاب میں بھی تلخ حقائق کی بجائے ثمرات ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے اور اگر وہاں ثمرات کم اور تلخ حقائق زیادہ نظر آئیں تو اوراق ہی الٹ پلٹ کردیئے جائیں۔نواب مری کے پاس جو پیغام ایک ساتھ کام کرنے اور تلخ یادیں بھلانے کا بھیجا گیا‘جواب کیا ملا؟مری نے تلخ یادیں بھلا دیں‘سنگتی اورایلمی کے جھانسے میں آگئے؟مری بلوچوں کو بھائیوں کی بے عزتی کی بجائے فورسز سے بے عزتی کا بدلہ لینے کادرس دینے والے مری نے اپنے ہی برادر اوردیرنیہ سنگت ایلم سردار مینگل کو قوم پرست ماننے سے انکارکردیا۔(برادری اور سنگتی کی حقیقت اور اس کو نبھانے سے انکار ممکن نہیں )یہاں کامریڈ مری کو کہنا والا شاہد کوئی نہیں تھا کہ یہی باتیں اپنے ایلم سردار مینگل کی بجائے فورسز کو کہتے تو برادری اورایلمی کا ساسماں پیدا ہوتالیکن ہمارادل بچہ ہے‘جسمانی بڑھوتری نے ہمارا کچھ نہیں
بگاڑا‘ہمیں تو اب بھی سیب انار اور انگور کے پھلوں کی تصاویر سے ہی لذت لینے کی عادت ہے‘تصاویر دیکھ کر ہی ہم لذت لینے کے عادی ہیں‘حقیقیت میں رس دار پھلوں کے انتظار کی کسے فرصت ہے؟خون کی ندیاں پارکرنے کی کسے ہمت ہے‘ یہاں ہندوستان کے سات جنموں کے تصور کیلئے کہاں جگہ بن سکتی ہے جہاں لوگ حالات سے گھبراتے ہوں‘جہاں اگر تیز ہوا چلے تو قیامت کی نشانی‘کوئی معذور بچہ پیدا ہوتو قیامت کے قریب آنے کی نوید بن جاتا ہے یہ ہماری تعلیمات ہیں رجحانات ہیں‘جنہوں نے ہمیں حقائق کی بجائے تصورات میں ہی زندہ رکھا ہے ۔یہ تصورات خوبصورت ضرور ہیں کہ ہر طرف امن ہو‘برادری ہوایلمی کا سماں ہو‘تلخ یادیں بھلادیئے جائیں‘ساتھ مل کر کام کیاجائے‘لیکن ان میں حقائق کہاں چھپے ہیں؟بلوچ نے مسلح جنگ شروع کی‘کامریڈ مری نے کہاخون کی ندیاں بہانا پڑیگی‘کیا مسلح جنگ میں دامن بچا کرچلنے کی کوئی گنجائش ہے جہاں قتل بھی ہو اوردامن پر خون کے چھینٹے بھی نہ پڑیں۔عجیب دل فریب تصورات ہیں کہ جنگ بھی کرو‘خوب جنگ کرو‘جم کرلڑو‘مائیں بہنیں بھی نہ رونے پائیں‘فراخ دلی اس قدر ہوکہ سخاوت کے معنی بدل جائیں‘سیاسی برداشت اور کھلا پن اس حدتک وسیع ہو کہ اس میں جگہ پانے کیلئے محض بلوچ قرارپانا ہی کافی ہو‘خوداپنی اپنی سطحوں پر بے شک برادرانہ مخاصمت میں ثانی نہ رکھتے ہوں‘مڈی اوروسائل کیلئے چندہ کا بھی تصورنہ ہو‘وہ کسی کادرد سرنہ ہو‘تحریک میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو‘جو جہاں جہاں اور جب جب چاہے ڈیڑھ انچ کی مسجد میں امام بنا جائے‘جس کے ہاتھ جتنا لگے وہ اس کا‘گویا اندھے کے ہاتھ بٹیر آنے کے قانون کا دوردورا ہو‘خوبصورت تصورات کا یہ سلسلہ یہاں بھی نہیں رکتا بلکہ یہ سلسلہ وسیع ہے۔تم نے سوشل میڈیا پر جو تنقید شروع کی ہے وہ قوم کے مفاد میں نہیں‘تم قومی محاذ میں چھید کررہے ہو‘تم تھکاوٹ کاشکارہو‘تم پاکستان کا کام آسان کررہے ہو‘جبکہ دوسری جانب کہاجاتاہے کہ قومی مڈی پر برادروں نے قبضہ کرلیاہے تو کیا ہوا؟برداشت کرلو‘برادروں نے تنظیم ٹھوڑ دی تو کیا ہوا؟برداشت کرلو؟سنگتوں کے راستے برادروں نے بارودی سرنگ بچھایا تو برداشت کرلو‘خود ایک تنقید برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے دوسرے کو کہا جارہاہے کہ قومی تنظیم قومی مڈی اور قومی شعور اور ڈسپلن اورنصب العین نیشنلزم پرکاری ضربوں کو برداشت کرلو۔یہ برداشت حلقے خود اپنے اوپر تنقید پر جس قدر بے برداشت ہوکر سیخ پاہوتے ہیں اس کی مثال ڈاکٹر نذر بخوبی دیتے آرہے ہیں‘ دلچسپ صورتحال تو یہ بھی ہے کہ آپسی مخاصمت اورچور اورقبضہ گیری کی نشاندہی گزشتہ تین سال سے ہورہی تھی‘آج برادرکشی کی اصطلاح استعمال کرنے والوں نے کب اورکہاں کہاں اس کی حل تجویز کی؟کہاں کہاں ان حلقو ں نے اس(ان کی نظر میں غلط) عمل کوروکنے کی کوشش کی؟ دلچسپ حوالہ تو یہ بھی بن سکتا ہے کہ خانہ جنگی کو سب سے پہلے ڈاکٹر اللہ نذر نے ہی خوش آمدید کہا تھا‘‘کیا یہ برادرکشی کی اصطلاح محض سرمچار جیسے مقدس لباس کو اوڑھنے والوں پر لاگوہوگا کیا پھر اس عام بلوچ پر بھی جس کو مخبر اور غدار قرار دے کر ماراجارہاہے؟چنانچہ آگے چل کر یہ برادرکشی کے ہر سطح پرافشاں ہوسکیں گے جہاں جہاں دولوگ ایک مشترکہ عمل کررہے ہوں۔برادرکشی کی اصطلاح استعما ل کرنے والے قومی تنظیم ‘اس کے نعصب العین نیشنلزم اور تنظیمی ڈسپلن سے بغاوت کو کیانام دینگے؟

یہ بھی پڑھیں

فیچرز