جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزبراہمدغ پسپائی ممکنہ وجوہات اور قومی رد عمل ,تحریر:گل زمان بلوچ

براہمدغ پسپائی ممکنہ وجوہات اور قومی رد عمل ,تحریر:گل زمان بلوچ

کل کسی دوست سے تحریک کی موجودہ صورتحال پر بحث چل رہی تھی اور خاص کر براہمدغ بگٹی کی حالیہ نرم موقف اور مزاکراتی دعوت کے نقطوں پر سنگت تبصرہ کرکے بار بار کہہ تھا کہ براہمدغ قومی تحریک میں موجود اہم اور طاقتور شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں جسکے زیر اثر تین چار تنظیمیں کام کررہے ہیں ، سنگت انہی تین چار تنظیموں ، طاقت اور شخصیت کو جواز بناکر یہ کہہ رہا تھا کہ کہ براہمدغ کی پسپائی قوم کیلیے قومی تحریک آزادی سے مایوسی کی سبب بن سکتی ہے جسکا متحمل فی الحال قومی تحریک نہیں ہوسکتی ـ
درج بالا تحریر سنگت کے تبصروں اور خواہشات کو لیکر اگر ہم تھوڈی دیر کیلیے سطحی بنیادوں پر موجودہ سیاسی صورتحال ، بیرونی ظلم وبربریت و اندرونی انتشار کے بارے میں سوچیں تو ہمیں بھی سنگت کی کہی ہوئی باتیں سچ اور حقائق سے نزدیک لگنے لگتی ہیں جو تقریبا فی الحال زیادہ تر تحریکی دوزواہ اور بلوچ تحریک آزادی سے دلچسپی لینے والے ہر نئے سیاسی کارکن کی سوچ سے مطابقت رکھتی ہیں لیکن انہی باتوں تبصروں اور خواہشات کے بارے میں اگر ہم معمول سے ہٹ کر تمام پہلوؤں کو زیر غور کرکے ماضی اور حال میں قومی تحریک کے اندر آنے والے نشیب و فراز اور مستقبل میں ممکنہ کامیابیوں اور ناکامیوں کی روشنی میں دیکھیں تو ہماری سیاسی نفسیات میں لگے شخصیت پرستی اور واقعات کے گرد گھومنے والی سیاست کے پردے جنہوں نے اب تک ہمیں حقائق اور سچائی کی روشنی سے محروم کرکے رکھ دی ہے ، ہٹ کر حالات اور اسکے نتیجے میں وقوع پزیر ہونے والے واقعات کو کھلی کتاب کی مانند رکھ کر ہمیں روشنائی سے فیضیاب کرنے میں کردار ادا کرینگے اور یہاں ہم براہمدغ کی پسپائی سنگت کے تبصروں اور خواہشات اور ممکنہ وجوہات سمیت عوامی ردعمل کو انہی حقائق کی روشنی میں تمام پہلوؤں پر غیر روایتی انداز سے تبصرہ کرنے کی کوشش کرینگے ـ
تحریک میں براہمدغی کردار ،
ویسے کچھ لوگ حالیہ بلوچ تحریک کو آغا کریم ، بابو نوروز ، ستر کی دہائی میں سوشلسٹ طرز پر جہد کرنے والے سرمچاروں کے جدوجہد کا تسلسل قرار دیکر اسکو وہی چشمے سے آنے والی روانی کی صورت مءں یاد کرتے یا کہتے آرہے ہیں اور کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حالیہ تحریک پچھلے تمام مزاحمتی تحریکیں جو پاکستان کے خلاف لڈی گئیں انسے یکسر مختلف ہے کیونکہ پچھلے ادوار میں سر اٹھاتی تحریکیں یا مزاحمتیں کسی خاص واقعے کے ردعمل میں شروع ہوئے جو ہر مرتبہ کسی خاص علاقے مخصوص قبائل کے گرد گھومتی رہیں اور وژن کے حوالے سے وہ کلیئر نہ ہونے کیساتھ ساتھ مکمل طور پر شخصیات کے زیر اثر بھی رہے ہیں اسکے برعکس حالیہ تحریک مکمل منصوبہ بندی ، سیاسی عسکری سمیت تمام محازوں اور خطوط پر استوار ہونے اور موجودہ عالمی بدلتی ہوئی صورتحال کو مدنظر رکھ کر ایک خاص ، مظبوط و کلیئر موقف کیساتھ شروع کی گئی اور شروع سے لیکر آج تک اسی موقف اور ایجنڈے کے تحت آگے بڈھ رہی ہے مگر بدقسمتی یہ رہی کہ ہمارے دانشور اور سیاسی لیڈران موجودہ تحریک کو پچھلے تحریکوں سے باقی تمام ناکامی و کوتائیوں سے مختلف رکھنے کے باوجود کچھ ایسے باریک مسائل جو آج اس تحریک کو پچھلے تحریکوں کی طرح دیمک بن کر کھانے کی کوشش کررہے ہیں ان پر خاص دیہان نہیں دی گئی ، بلوچ سیاسی نفسیات جو شخصیت پرستی اور واقعات کے گرد گھومتی آرہی تھی آج بھی اس حالیہ تحریک میں سرگوشی سے چند قدم آگے جاکر ڈھیرا جمائے بیٹھی نظر آرہی ہے جی ہاں یہی وہ پہلو ہے جو براہمدغ کو چند ہی مہینوں میں لیڈر کے طور پر متعارف کرکے طاقتور بناچکی ہے اور وہی ستر سالہ سیاسی نفسیاتی خامی ہی ہے جو براہمدغ کو خود مظبوط وطاقتور بناکر اپنے لیے سردرد کا سامان بناچکی ہے کیونکہ براہمدغ کی دس سالوں سے تحریک میں موجودگی پر اگر نظر دوڈایا جائے تو براہمدغ میں ایسی کوئی کرشماتی خوبیاں نہیں تھے یا ہیں جسکو بنیاد بناکر ہم اسکو چار چار تنظیموں کا اکلوتا سربراہ بنائیں ، جسطرح پچھلی تمام مزاحمتیں کسی خاص موقف سے دار رہ کر واقعات کے گرد گھوم گھوم کر شخصیاتی بڈھوتری اور طاقت پہ آکر رک کر ختم ہوگئیں تھیں بالکل اسی طرح براہمدغ بھی موجودہ تحریک میں کسی مخصوص واقعے کے ردعمل میں شامل ہوئے اور جب سے شمولیت کی تب سے کسی مخصوص علاقے ، قبیلے اور گروہ کے گرد چمکتا ستارہ بن کر خود نمائی میں مصروف عمل رہتی آرہی ہے وہ تو بھلا ہو بلوچ ستر سالہ سیاسی نفسیات کی کہ جسکی بدولت براہمدغی شخصیت میں چار چاند لگانے بلوچستان بھر سے نوجوانوں نے اسکے ہاتھ مظبوط کیے اور اسکو اتنا طاقتور بنایا کہ آج وہ ان ہی لوگوں کے خون کی سودا کرنے پر تلے ہوئے ہیں ـ
یہاں ایک بات میں بتاتا چلوں کہ میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہمارے نوجوانوں نے براہمدغ کو مظبوط کرنے کیلیے اپنے بیش قیمتی جان قربان کیے کہنے کا مقصد یہ بھی نہیں کہ براہمدغ اس حد تک طاقتور بن چکے ہیں کہ جب چاہے بلوچ قوم کے نوجوانوں کے خون کا سودا کرسکے بلکہ میں تو کہہ رہا ہوں کہ براہمدغ کی اتنی حیثیت ہی نہیں تھی جتنی عزت دی گئی ، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیوں نا ہم ستر سالہ سیاسی نفسیات اور اس میں موجود خامیوں سے کنارہ کش رہ کر براہمدغ یا تحریک میں آنے والے ہر نوجوں خواہ وہ نواب ہو یا بزگر اس سے صرف اتنا تعلق رکھیں کہ قومی مفاد اور تحریک کیلیے ضروری ہوں یہ سوچ جر انکی برابری میں بیٹھ جائیں یا انسے سوالات و رنقید کریں کہ بلوچ تحریک پر ، بلوچستان پر بلوچ نوجوانوں کی خون سے ارتقاء پانے والی سوچ پر سب بلوچوں کا یکساں حق ہے یہ سوچیں کہ جب آج براہمدغ جیسے لوگ کچھ ہی سالوں میں چار چار تنظیموں کے مالک ، ہماری دی ہوئی طاقت کا رعب دکھاکر نوابی کے دعوے ، ہمیں سوال تنقید حقائق سے آشنائی کی جدوجہد سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو کل جب ہماری ہی قربانیوں کے نتیجے میں بلوچستان آزاد ہوگا تو یہ ہم کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں ؟ کل انکے سامنے ہماری حیثیت کءا ہوگی ؟ آج سوالات سے روکھنے والے کل ہمارے حقوق کیسے دے سکتے ہیں ؟
میرے قابل احترام دوست کی دوسری سطحی تبصرہ جس میں سنگت کہتے ہیں کہ براہمدغ کی پسپائی قوم کی مایوسی کی سبب بنے گی
تو میں یہاں پر عرض کروں کہ جہاں تک میرا نقطہ نظر ہے یا حالیہ تحریک کے حوالے جتنا میری جانکاری ہے اسکی بنیاد ہر میرا سوچ یہی ہے کہ براہمدغ پسپا ہوجائے یا پارلیمنٹ کی منزل تک پہنچ جائے قوم کا کچھ جانے والا نہیں اگر جاتی ہے براہمدغ کی سیاسی زندگی قومی غیرت اور بلوچ تاریخ میں مثبت اور جہدکاری کا نام ـ
اسکو ثابت کرنے کیلیے میں یہاں چند مثالیں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں ـ
۱ـ براہمدغ جس وقت پہاڈوں میں اپنے دادا کیساتھ پاکستانی لشکر سے لڈرہے تھے کیا اس کے بعد صرف براہمدغ نکلنے میں کامیاب ہوئی جسکو ایک اعلی قومی اثاثہ سمجھ کر بلوچ قوم نے اعلی سے اعکی تر بنایا ؟
جی نہیں بلکہ اس وقت بہت ایسے نام تھے جو وقت ڈھلنے کیساتھ ساتھ سلامی دیتے رہے اور بلوچ سیاسی منظر نامے پر انکے نام و نشان مٹتے رہے ان میں سے ایک شخص میر عالی تھے جسکا نام نواب صاحب کی حیات میں براہمدغ سے بھی پہلے اور زیادہ احترام سے لیا جاتا تھا مگر جب اس نے راہ راست کو چھوڈ کر دشمن کے سامنے سلامی ٹھوک دی تو وہ دن اور آج کا دن ہے بلوچ قوم اسکا نام اپنے بچوں کیسامنے اسلیے نہیں لیتی کہ کہیں بچہ بدقسمت نہ رہے میر عالی آج بدقسمتی اور غداری کا اعلی مثال بن چکا ہے بالکل اسی طرح اگر براہمدغ اپنے کزن کے نقش قدم پر چل کر آقا کو سلامی ٹھوک دیتی ہے تو ردعمل میں بلوچ قوم اسکو عالی اور رازق بگٹی سے بھی خطرناک اور منحوسیت کی مثال بناکر پیش کرنے میں کچھ دیر بھی نہیں لگائیں گے ـ
۲ـ کیا براہمدغ کی پسپائی بلوچ نوجوانوں کی خون کو رائیگاں کرنے کا سبب بن سکتی ہے ؟
میں کہتا ہوں بالکل نہیں وہ اسلیے کہ ایسے بہت سے مثالیں ہمیں اپنے ہی تاریخ سے ملتی ہیں بابو نوروز کے خاندان سے تعلق رکھنے والا زہری آج سرزمین سے غداری کرکے دشمن کے ساتھ ملی ہوئی ہے تو کیا نواب نوروز کے نام لینے والے نہیں رہے ؟ کیا نواب نوروز کی سوچ زہری یا خاندان و علاقے کا محتاج ہے ؟
شہید فدا احمد کے تمام ساتھی ایک ایک ہوکر دشمن کے صفوں میں شامل ہوتے گئے تو کیا آج شہید فدا احمد کی سوچ رکھمے والے موجود نہیں رہے ؟
کیا شہید فدا احمد کی سوچ اور ہم فکر آج ڈاکٹر مالک کے مقابلے میں زیادہ مظبوط نہیں ہیں ؟
ایسے بہت سے مثالیں ہیں جنکو سمجھ کر ہم با آسانی جان سکیں گے کہ شہیدوں کی جد وجہد اور تحریک آزادی کھبی کسی شخصیت یا گروہ کے آنے جانے پر متاثر نہیں ہوتیں بلکہ وقت کے ساتھ تمام چہرے آہستہ آہستہ نمودار یوتے چلے جائینگے اور مستند سوچ اپنی جگہ پر قائم دائم رہتی ہے اور ہر آنیوالا قومی ہمدرد اسی سوچ پر محو سفر ہوکر منزل کو کھوجنے کی جدوجہد کرتا جائیگا ـ
۴ ـ چھوتا اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا براہمدغ کے پاس ایسی کوئی طاقت ہے جسکی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ براہمدغ کی پسپائی قومی تحریک کیلیے نقصان کا سبب بن سکتی ہے ؟
جہاں تک میری سمجھ و زانت میں ہے براہمدغ کے پاس نہ اب پہلے والی عوامی طاقت ہے جس سے ہم.یہ کہہ سکیں کہ اسکی پسپائی قومی تحریک کیلیے نقصان کا سبب ہوسکتی ہے اور نا ہی براہمدغ کوئی ایسے زانت و علم و دور اندیش سوچ کے مالک ہیں کہ ہم اسکی پسپائی سے پریشانی کے عالم میں سر پیٹھیں سیاسی شعور رکھنے والی ہر کارکن کو بخوبی معلوم ہیکہ شروعاتی دور سے لیکر آج تک براہمدغ اپنی مشکوک اعمال اور کمزور و بے لچک موقف کی وجہ سے ہر وقت تنقید کے زد میں رہتی آہی ہے اور آج تک نہ وہ اپنے موقف کو درست کرسکے ہے اور نا ہی مشکوک اعمال کے حوالے سے خود کو قوم کے سامنے کلیئے کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے ـ
۵ ـ براہمدغ پسپائی اور ممکنہ صورت میں پھیلتی عوامی مایوسی کی بات کم از کم مجھے تو بہت عجیب لگتی ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ تحاریک کو چھوڈ کر اگر ہم صرف حالیہ تحریک کی بات کریں تو بھی یہ تقربا براہمدغ کی عمر سے بھی زیادہ تاریخ رکھتی ہے ، براہمدغ تو بیچ رستہ کاروان میں شامل ہوا اس سے پہلے کاروان کا ساربان کون تھا اور کیسے تمام مصیبتوں اور خاردار راستوں سے ہوتی ہوئی بڈی ڈھٹائی اور یونٹی کے ساتھ آگے بڈھ رہی تھی ؟
میں تو کہتا ہوں ہمارے ہاں بہت سے ایسے رہبر ، دانشور ، سیاسی شخصیات و قومی جہدکار اب بھی بڈی تعداد میں موجود ہیں جنکے نام میں چن چن کر لینا نہیں چاہتا مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ براہمدغ سے زیادہ سیاسی سمجھ بوج تو ہمارا عام سیاسی کارکن رکھتا ہے جو شروع سے لیکر آج تک حالات کو قومی مفادات سے ہم آہنگ رکھنے کی جدوجہد میں بڈی کامیابی سے جہد کرتے آرہے ہیں ـ منت وار

یہ بھی پڑھیں

فیچرز