لندن ( ہمگام نیوز)بلوچ رہنما حیربیار مری نے برطانیہ کے پارلیمان میں بلوچستان کے مسئلے پر منعقد سیمنار میں اپنے پیغام میں کہا بلوچستان دو الفاظ پر مشتمل ہے۔ بلوچ اور استان، یعنی بلوچ ہماری قوم کا نام ہے اور استان کے معنی سرزمین ہیں جیسے کہ انگ اور لینڈ۔ جبر و قبضے کے خلاف ہماری جد و جہد عزم اور قربانیوں کا متاثر کن تاریخ رکھتی ہے۔ بلوچ نے منگول، مغل اور انگریز سمیت تمام طاقتوں کے خلاف مزاحمت کیا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال برطانیہ کے خلاف بلوچوں کا مزاحمت ہے۔ برطانیہ بلوچ سرزمین کے راستے سے افغانستان پر حملہ کرنا چاہتا تھا مگر بلوچ قوم نے اپنے برادرانہ ہمسایہ قوم کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد برطانوی افواج نے 13 نومبر 1839 کو قلات پر حملہ کیا ۔ میر محراب خان، وزیر خزانہ دیوان بچہ مل سمیت سینکڑوں بلوچوں نے برطانوی فوج کے خلاف مزاحمت کرکے جام شہادت نوش کیا۔
برطانیہ نے بلوچستان پر قبضہ جمانے کےلئے پاکستان کی حوصلہ افزائی کی: حیر بیار مری
1947 انگریزی انخلا کے بعد پاکستان نے محمد علی جناح اور خان قلات کے درمیان اسٹینڈ اسٹل معاہدہ کےتحت بلوچستان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا اور بعد میں بلوچستان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ بلوچستان اور برطانیہ کے تعلقات اور تعاون کی بنیادیں ان معاہدوں پر اسطوار تھیں جن پر بلوچ اور برطانوی حکمرانوں کی طرف سے دستخظ کیے گئے تھے۔
ان معاہدوں میں ایک 1854 کا معاہدہ ہے جس کی توثیق 1876 میں کی گئی۔ ان معاہدوں کے تحت بلوچستان کی سرزمین کے استعمال اور بلوچستان کی برطانیہ سے مکمل تعاون کے بدلے برطانیہ بلوچستان کو کسی بھی بیرونی مداخلت کی صورت میں اس کے دفاع کیلئے مدد و کمک کا پابند تھا۔ اسکے باوجود بھی برطانیہ نے ظاہری اور خفیہ طور پر بلوچستان پر قبضہ جمانے کیلئے پاکستانی ریاست کی حوصلہ افزائی سے گریز نہیں کیا۔ برطانیہ کا یہ کردار بلوچستان اور برطانوی راج کے درمیان طے ہونے والے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی تھی۔ جب ہندوستان کو تقسیم کرنے کے لیے اور اسلام کے نام پر پاکستان بنانے کے لیے برطانوی پارلیمان میں قانون آزادی ہند ۱۹۴۷ بل کی قانون سازی کی جارہی تھی تب برطانوی پارلیمان کے ایک باشعور ممبر گوڈ فرے نیکولسن نے پارلیمانی اجلاس کے دوران اس بات پر زور دیا کہ اس بل کے اگر اندر برٹش بلوچستان کو نئی بننے والی ریاست پاکستان کا حصہ بنانے کی شق کو نکالا نہیں گیا توسارے بلوچستان پر پاکستان جبری قبضہ کرسکتا ہے۔ نیکولسن کے الفاظ یہ تھے ’’ اگر بلوچستان پاکستان کا حصہ بننا نہیں چاہتا، جبری طور پر بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکے گی اور یہ قانون اسی صورت میں پاس ہوجاتا ہے، اور یہ بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے‘‘
مذکورہ معاہدوں کے تحت برطانیہ بلوچستان کا اتحادی تھا۔ بہر حال برطانیہ نے بلوچستان کے ساتھ دھوکہ کیا۔ دوسری طرف ایک پیشہ ور وکیل، محمد علی جناح جو کہ بلوچستان کا نوکر تھا بعد میں پاکستان کا گورنر جنرل بنایا گیا اور اس کی سربراہی میں بلوچستان پر قبضہ کیا گیا۔
برطانیہ کی مدد کے بغیر پاکستان کبھی بھی بلوچستان پر قبضہ نہیں جما سکتا تھا۔ پاکستانی قبضے کے خلاف بلوچ قومی جدوجہد روز اول سے جاری ہے اور جب تک ہم آزادی حاصل نہیں کرتے تب تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ بلوچ قوم کی جدوجہد اس بات کی تصدیق ہے کہ ہم اس کرپٹ اور ظالم ملک کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے ہیں۔
جس نام نہاد الحاق معاہدے کا پاکستانی جعلی دانشور اور میڈیا بار بار حوالہ دیتے ہیں اس دستاویز پر جناح اور خان قلات نے دو الگ الگ تاریخوں میں دستخط کیے۔ اس بات کا کوئی ثبوت وجود نہیں رکھتا کہ کس طرح، کسی کی موجودگی میں اور کس جگہ ان پر دستخط کیے گئے۔ اس معاہدے کا ایک بھی گواہ موجود نہیں ہے۔ بلا اس طرح کا کوئی معاہدہ قانونی ہوسکتا ہے ؟ دو ریاستوں کے درمیاں معاہدہ ہوتا ہے اور ایک گواہ تک نہیں ؟ اس سے مزید مضحکہ خیز بات بلا کیا ہوسکتی ہے ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک گھر بھی کرایہ پر لینے کے لیے دو گواہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ان ہی گواہوں کی موجودگی میں کرایہ کے معاہدے پر دستخط کرنے ہوتے ہیں۔
آج کسی بھی دوسری ملک سے زیادہ پاکستان کو دنیا سے فوجی اور انسانی مدد کی بنیاد پر مالی مدد مل رہی ہے. یہ پنجاب اور فوجی حکمرانوں پر خرچ ہوتے ہیں اس کے باوجود پاکستان حکمرانوں نے بیس سالوں تک بنگال کا استحصال کیا اور گزشتہ ساٹھ سالوں سے بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا کا استحصال کر رہا ہے۔ آج کل بلوچستان پسماندگی کا شکار ہے کیونکہ قبضہ کرنے کے بعد سے بلوچستان کو ایک کالونی بنادیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان معاشی بدحالی ، غربت اور محرومی کا شکار ہے۔
بلوچ جدوجہد آزادی ایک فطرتی تحریک ہے اور کوئی چیز غیر فطرتی ہے تو وہ پاکستانی جہادی ریاست کا وجود ہے جس کی رہنمائی پنجابی فوج کررہی ہے۔ ہر باشعور انسان اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ بلوچ کی جدوجہد اپنی پہچان، آزادی ، جمہوریت اور قانون کی بحالی کے لیے ہے، یہ تحریک دہشتگردی نہیں ہے۔ پنجابی فوج کو جتنا چیخنا ہے وہ چیخ لے، دہشتگردی کی تعریف یہ ہے کہ اپنے سیاسی، مذہبی اور نظریاتی مقاصد کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے۔ یہی سب کچھ پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں کیا جارہا ہے۔ اسی لیے بلوچستان میں آزاد میڈیا موجود نہیں اور وہاں پر انسانی حقوق کے اداروں کو براہ راست زمینی حقائق حاصل کرنے پر پابندی ہے۔
اس کے علاوہ بلوچ رہنما حیربیار مری نے اپنے پیغام میں بلوچ نسل کشی، پاکستان کی طرف سے سیاسی مقاصد کے لیے اسلام کا استعمال ، پاکستانی گروپوں کی طرف سے نیٹو ٹرکوں پر حملہ، چین کی بلوچستان آمد سمیت دوسرے معاملات پر روشی ڈالی۔