جمعه, مارس 29, 2024
Homeاداریئےبریدہ لاشوں کا انبار بلوچستان سے سندھ تک

بریدہ لاشوں کا انبار بلوچستان سے سندھ تک

ہمگام اداریہ
بلوچستان میں 2009 میں بلوچ رہنما شہید غلام محمد بلوچ کی مسخ شدہ لاش پھینکنے سے قابض پاکستان نے مارو اور پھینکو کی ایک ایسی غیر انسانی پالیسی کا آغاز کردیا جو پانچ سال گذرنے کے باوجود مکمل زور و شور سے جاری ہے۔ اس دوران 1500 سے زائد بلوچوں کی تشدد زدہ مسخ شدہ لاشیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں سے 169 تو صرف ایک اجتماعی قبر سے برآمد ہوئی ہیں ۔ ایک طرف مسخ شدہ لاشوں کا یہ اندوہناک سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف بلوچ سیاسی کارکنان کے جبری اغواء کا تسلسل جاری رہتے ہوئے تعداد 20000 تک پہنچ چکی ہے۔ یہ یقیناًاکیسویں صدی کی بدترین نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے ۔ بلوچ آزادی پسند جماعتوں سمیت انسانی حقوق کے عالمی تنظیمیں ان واقعات کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے رہے ہیں جہاں پاکستان آرمی کے خفیہ ادارے بلا واسطہ اس قتل عام کا مرتکب ہورہا ہے۔
بلوچستان میں ان بے رحمانہ پالیسیوں کے بعد اب پاکستانی خفیہ ادارے اسی مارو اور پھینکو پالیسی کو سندھ میں من و عن نافذ کرتے ہوئے سندھی آزادی پسند قیادت اور سیاسی کارکنان کو شہید کرنے کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں ۔ پاکستان کے اس انسانیت سوز پالیسی کا شکار زیادہ تر جیئے سندھ متحدہ محاذ ، جیئے سندھ قومی محاذ (بشیر قریشی) ، جیئے سندھ قومی محاذ (آریسر)، جیئے سندھ تحریک اور انکے ذیلی طلباء تنظیم بن رہے ہیں ۔ خفیہ ادارے طویل عرصے سے سندھی آزادی پسند کارکنوں کو اغواء کررہے تھے لیکن جیئے سندھ متحدہ محاذ کے سینئر وائس چیئرمین سرائی قربان اور اس کے پانچ ساتھیوں کو شہید کرکے زندہ جلانے سے شہادتوں کا بھی سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ اس وقت تک جیئے سندھ متحدہ محاذ کے سیکریٹری جنرل مظفر بھٹوکو شہید کرکے مسخ شدہ لاش پھینکنے ، جیئے سندھ قومی محاذ کے چیئرمین بشیر قریشی کو مبینہ طور پر زہر دیکر شہید کرنے سمیت کئی کارکنان کو اغواء کرکے انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاچکی ہے ۔ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2014 کے اندر ابتک 100 زائد سندھی آزادی پسند سیاسی کارکنان کو اغواء کیا جاچکا ہے ۔ اسی ماہ نومبر میں پاکستانی خفیہ ادارے مہران یونیورسٹی کے ایک طالبعلم اور متحدہ محاذ کے کارکن کملیش سندھی کو یونیورسٹی سے جبکہ سندھ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین فیاض شیخ کو کراچی سے اغواء کرچکے ہیں۔ اسی طرح 7 نومبر کو متحدہ محاذ کے کشمور زون کے رہنما پریال شاہ کی مسخ شدہ لاش رحیم یار خان سے منظر عام پر آئی جسے 15 اکتوبر کو پاکستانی خفیہ اداروں نے اغواء کیا تھا ، ان کے بھائی ضامن شاہ کو اس سے پہلے خفیہ اداروں نے ایک جعلی مقابلے میں شہید کردیا تھا ، یاد رہے پریال شاہ کو دھمکیوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب انہوں نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے لانگ مارچ کے دوران ایک دن کیلئے انکی کشمور میں مہمان نوازی کی تھی ۔ اسی طرح جیئے سندھ قومی محاذ (آریسر ) کے رہنما عبدالوحید لاشاری کی بھی مسخ شدہ لاش اسی ماہ پھینکی گئی تھی اسے خفیہ اداروں نے شہادت سے 15 روز قبل دورانِ سفر بس سے اتار کر اغواء کیا تھا ۔ تازہ ترین واقعے میں 25 نومبر کو متحدہ محاذ کے ضلعی رہنما آصف پہنور کی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی انہیں 15 اگست کو پولیس نے اسکے ایک دوست کے گھر سے چھاپہ مار کر گرفتار کیا تھا جسے بعد میں خفیہ اداروں کے تحویل میں دیا گیا جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شہید کرکے انکی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی ۔ ان واقعات کے خلاف جیئے سندھ متحدہ محاذ نے 10 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے اور 30 نومبر کو سندھ بھر میں پہیہ جام شٹرڈاون ہڑتال کی کال دی ہے جس کی حمایت باقی تمام قوم پرست سندھی تنظیموں کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم پرست پارٹی بی این ایم اور بی آر پی نے بھی کی ہے ۔ اسی ضمن میں حال ہی میں ایشین ہیومن رائٹس کمیشن نے ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے پاکستان کو ان غیر انسانی مظالم کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے یہ الزام عائد کی ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے اب بلوچستان کی طرح سندھ میں بھی قوم پرستوں کو کاونٹر کرنے کیلئے مذہبی انتہاء پسند گروہوں کو کھلی چھوٹ دیکر وہاں مضبوط کررہی ہے اور ساتھ میں یہ اپیل کی ہے پاکستان یہ ماورائے عدالت و قانون قتل کے سلسلے کو ختم کردے ۔
بلوچ آزادی پسند تنظیمیں ایک طویل عرصے سے پاکستان پر یہ الزام عائد کررہے ہیں کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان اغواء اور سینکڑوں شہید کرچکا ہے اسی ضمن میں وہ عالمی برادری سے اپیل کرتے رہے ہیں کہ وہ اس انسانی المیہ کے روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں لیکن اب تک نہ عالمی برادری اور نہ ہی کسی بھی انسانی حقوق کے عالمی ادارے کی جانب سے کوئی مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے اب اسی سفاکانہ سلسلے کا سندھ میں آزادی پسند کارکنان کے خلاف آغاز ظاہر کرتا ہے کہ اگر عالمی ادارے اسی طرح مہر بہ لب رہے تو اس خطے میں ایک اور ہولوکاسٹ کی تاریخ لکھی جائیگی اور اس بار گسٹاپو کا کردار پاکستانی خفیہ ادارہ آئی ایس آئی ادا کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز