شنبه, آوریل 20, 2024
Homeخبریںبلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو میڈیا کوریج نہیں دے...

بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو میڈیا کوریج نہیں دے رہا ہے :اشرف غنی

نیویارک (ہمگام نیوز) انسٹیٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ اینلائسز میں بدھ کے روز میڈیا نمائندوں، اسٹریٹیجک ماہرین اور تجزیہ کاروں سے بات چیت کرتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا کہ “پاکستان کے شمال مغربی علاقوں اور بلوچستان میں برپا تنازع، جس نے اب باقاعدہ “جنگی صورت” اختیار کر لی ہے۔ لیکن پاکستان کی جانب سے ان علاقوں میں فوجی طاقت کے بے دریغ استعمال کو میڈیا میں مناسب کوریج نہیں دیا جا رہا ہے۔” انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کو دو جنگوں نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ایک جنگ افغانستان میں چل رہا ہے۔ جس کو “خانہ جنگی” کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور دوسری جنگ پاکستان میں۔ تاہم پاکستان میں جاری جنگ کو میڈیا میں نمایاں اور مناسب جگہ نہیں دیا جارہاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں اور بلوچستان میں بڑی تعداد میں فورسز کی نقل و حرکت اور پرتشدد جنگ کے حقائق کو سامنے لایا جائے۔ میڈیا اس کو لوگوں تک پہنچائے تاکہ کھل کر اس پر بات چیت ہوسکے۔ بلوچستان میں “تحریک آزادی” کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کے ایک سوال کے جواب صدر غنی نے کہا کہ ان کی حکومت اور ان کا ملک کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو بین الاقوامی اصول و قواعد کے منافی گردانتا ہے۔ ہم بین الاقوامی ضوابط کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان علاقوں کے لوگ پاکستان سے خوش نہیں ہیں۔ اور نہ ہی پاکستان آئینی فریم ورک میں رہے کر اس مسئلے سے نمٹ رہا ہے۔ بلکہ پاکستانی فورسز طاقت کا بےدریغ استعمال کرتے ہوئے وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ افغان صدر نے کہا کہ ہمیں انتہا پسندی اور دہشتگردی کے مختلف پہلوؤں سے نمٹنے کیلئے سالوں لگے۔ کیونکہ کسی ملک یا خطے میں امن و استحکام لانے اور اسے برقرار رکھنے کیلئے بندوق پر انحصار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہی وقت میں اچھے اور برے دہشت گردوں کے درمیان پاکستان کی جانب سے امتیازی لکیر کھینچنا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا اچھے دہشتگرد وہ ہیں جو آپ کے ہمسایہ ممالک میں جاکر حملہ کرتے ہیں، اور برے دہشت گرد وہ جو تم پر حملہ کرتے ہیں۔ کیا یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ نہیں ہے؟ جس سانپ کو پاکستان پالتے ہوئے کھلا پلا رہا ہے وہ اسے ڈس لے گا۔ پنجاب کے واہگہ بارڈر سے انڈیا اور افغانستان کے درمیان ہونے والی تجارت میں پاکستان کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے سوال کے جواب میں صدر غنی نے کہا کہ اس سلسلے میں نئی دہلی اور کابل کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ افغانستان نے انڈیا، چین اور ایران سے ملکر خطے میں دوستی و استحکام کیلئے جو کوششیں کی تھی۔ جو ملک اس میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرے گا۔ افغانستان اور بھارت کے عظیم اقوام اس سے اچھی طرح نمٹنا جانتے ہیں۔ نئی دہلی اور کابل کے درمیان تجارتی تعلقات مغل دور سے قائم ہیں۔ اس تاریخی تجارت کو مسدود کرنا خود پاکستانی معاشی مفادات کیلئے سودمند ثابت نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز