پنج‌شنبه, آوریل 25, 2024
Homeاداریئےبلوچوں کی دیدہ دلیرانہ نسل کشی اور عالمی اداروں کی خاموشی۔ ...

بلوچوں کی دیدہ دلیرانہ نسل کشی اور عالمی اداروں کی خاموشی۔ ہمگام اداریہ

بلوچستان میں جس وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں بھی جس طرح ایک نسل یعنی بلوچوں کے خلاف ہورہی ہیں ظاھر کرتی ہیں کہ بلوچستان میں ایک حکمت عملی کے تحت بتدریج بلوچ نسل کشی جاری ہے ۔ اس نسل کشی کو مکمل کرنے اور اس مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کیلئے مختلف الجہتی پالیسی اپنائی گئی ہے ، جس میں ایک طرف آرمی اور دوسرے فوجی و نیم فوجی ادارے براہ راست آپریشن کررہے ہیں جس میں فضائی بمباری ، دور مار توپوں کا استعمال ، ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ اور بلا امتیاز فائرنگ وغیرہ شامل ہیں ، دوسری طرف ریاستی نگرانی میں مذہبی بنیاد پر ایسے ڈیتھ اسکواڈ بنائے گئے ہیں جو نمایاں قوم پرست سیاسی کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ میں مشغول ہے اور تیسری جہت جس میں فوج اور یہ ڈیتھ اسکوڈ دونوں براہ راست ملوث ہیں وہ بلوچ سیاسی کارکنان اور ہمدردان کو ماورائے عدالت اغواء کرکے خفیہ عقوبت خانوں میں منتقل کرنا جن کی تعداد محض گذشتہ ایک دہائی کے دوران 20000 ہزار تک پہنچ چکی ہے ۔ ان عقوبت خانوں میں ان بلوچوں کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بعد ازاں انہیں گولیوں سے چھلنی کرکے انکی لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھینک دیا جاتا ہے ، ایسے مسخ شدہ تشدد زدہ لاشوں کی تعداد اب دو ہزار سے تجاوز کرچکی ہے ۔ یہ ان افراد کی تعداد ہی جن کی لاشیں مل چکی ہیں ورنہ توتک اجتماعی قبروں سے یہ قیاس کرنا غلط نہیں ہوگا کہ ایسے کئی اجتماعی قبریں بلوچستان میں موجود ہیں ۔
ان مظالم اور نسل کشی کی فہرست مرتب کی جائے تو اسکی شدت اور تعداد کسی طور بھی مشرقی تیمور ، کوسوو ، بوسنیا، جنوبی سوڈان اور حال ہی میں میکسیکو کے گمشدہ طلباء سے کئی گنا زیادہ ہے جن کے بابت اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی قوتیں نوٹس لیکر عملی اقدامات اٹھاچکے ہیں۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا اقوام عالم اس بلوچ نسل کشی سے واقف نہیں ہیں یا پھر وہ اسکے ذمہ داروں کو نہیں جانتے ہیں ، یقیناًان سوالات کا جواب نفی میں ہوگا ، کیونکہ بلوچستان میں ہونے والے بلا امتیاز بمباریوں ، ماورائے عدالت گمشدگیوں ، ٹارگٹ کلنگ اور مسخ شدہ لاشوں جسے عرف عام میں ’’ مارو اور پھینکو ‘‘ کہا جاتا ہے مختلف اوقات میں ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ہیومن رائٹس واچ ، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جیسے تنظیموں کی طرف سے رپورٹ ہوچکی ہیں اور اس نسل کشی کی تفصیلات بلوچ میڈیا اور تنظیموں کی طرف سے دنیا کے سامنے رکھا جاتا رہا ہے اور جہاں تک اس نسل کشی کے ذمہ داروں کا تعلق ہے تو یہ بات بھی ثبوت و گواہان کے ساتھ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس میں ریاست پاکستان اور اسکی آرمی براہ راست ملوث ہے جس کا مقصد بلوچ تحریک آزادی کو کچلنا ہے ۔ پاکستان کے مختلف ذمہ داران کئی مواقعوں پر جبری گمشدگیوں میں ملوث ہونے کی تصدیق کرچکے ہیں ، جس میں مشرف دور کے وزیر داخلہ آفتاب شیرپاو بھی شامل ہے ۔ اسی طرح جب 2008 میں پاکستان میں پیپلز پارٹی حکومت سنبھالتی ہے تو ایک نام نہاد آغازِ حقوق بلوچستان پیکج کے نام سے پیکج کا اعلان کیا جاتا ہے جس میں پاکستانی وزیر اعظم تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمام لاپتہ بلوچ عید تک اپنے گھر پہنچ جائیں گے ، جو عملی طور پر کبھی ممکن تو نا ہوسکا لیکن یہ خود ایک اقرارِ جرم تھا کہ یہ لاپتہ بلوچ ہمارے پاس ہیں اور ہم انہیں عید تک چھوڑ دیں گے، حال ہی میں پاکستانی فوج اور نیم فوجی ادارہ ایف سی تسلیم کرچکے ہیں کہ محض اس سال کے دوران تقریباً دو ہزار آپریشن بلوچستان میں ہوچکے ہیں۔
پاکستان جس دیدہ دلیری کے ساتھ بلوچ نسل کشی میں بلا خوف و خطر ملوث ہے اس میں سب سے بڑا ہاتھ عالمی اداروں کی خاموشی ہے جس کی وجہ سے پاکستان خود کو جواب دہ سمجھے بغیر معصوم بلوچ شہریوں کو بے دریغ قتل کرکے ایک نسلی صفائی کررہا ہے۔ اسکی سب سے بڑی مثال گذشتہ دنوں دو بلوچوں شفقت رودینی اور ابراہیم نیچاری کے صورت میں سامنے آیا ۔ ان دو بلوچوں باقی بلوچوں کی طرح اغواء کیا گیا تھا ، لیکن خلاف معمول ان دونوں کو یکم ستمبر 2015 کو پاکستانی میڈیا کے سامنے اقرارِ جرم کرتے ہوئے پیش کیا گیاجہاں وہ بلوچ آزادی پسند تنظیم بی ایل اے سے خود کو جوڑنے کے بعد بی ایل اے پر الزامات لگارہے تھے ، جس سے ظاھر ہوتا تھا کہ انہیں تشدد کے ذریعے یہ بیانات دلوائے جارہے ہیں ۔ ان دونوں بلوچوں کو 28 اکتوبر کو عدالت میں پیش بھی کیا جانا تھا ، یہ دونوں پاکستانی فوج کے براہ راست حراست میں تھے ، لیکن ان دونوں بلوچوں کو ایک اور بلوچ فرزند کے ساتھ مستونگ کے علاقے میں قتل کرکے ان کی تشدد زدہ مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئیں ۔یعنی پاکستانی فوج جن لوگوں کو خود میڈیا کے سامنے ظاھر کرتا ہے پھر کچھ دن بعد دیدہ دلیری کے ساتھ ماورائے قانون و ماروائے عدالت قتل کرتا ہے ، اس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان خود کو انسانی حقوق کے عالمی قوانین سے بالا سمجھتا ہے اور کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا ، پاکستان کو کسی عالمی ادارے سے خوف ہے اور نا ہی مہذب اقوام عالم اور میڈیا دباو سے پریشانی ۔ پاکستان کے ان دیدہ دلیرانہ جرائم کی سب سے بڑی وجہ عالمی اداروں کی مکمل خاموشی اور بلوچ مسئلے سے چشم پوشی ہے ۔ ان رجحانات سے ظاھر ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اپنے ان خطرناک عزائم کو مزید شدت کے ساتھ ظاھر کرے اور بلوچ نسل کشی کو مزید شدت اور وسعت بخشے گا ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز