سه‌شنبه, مارس 19, 2024
Homeخبریںلاشیں پھینکنے کا سلسلہ بند کرنے کا دعویٰ جھوٹ کے سوا کچھ...

لاشیں پھینکنے کا سلسلہ بند کرنے کا دعویٰ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں :ماما قدیر

کوئٹہ ( ہمگام نیوز (بلوچ اسیران ، شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 2243دن ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں آئی ایس ایف صوبائی صدر داود شاہ صوبائی جنرل سیکرٹری نور لونی شنیئر نائب صدر رشید مینگل آئی ایس ایف ضلعی صدر ندیم خان اورت تمام کابینہ کے لوگوں
نے لاپتہ افراد ، شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کی اور بھروپور تعاون کا یقین دلایا اورانہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کے لواحقین شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہ جو مسخ شدہ لاشیں ملتی ہے ۔ کہیںیہ لاپتہ افراد کے تو نہیں اگر کوئی لاش ملے دفنانے سے پہلے اس کی شناخت کے تمام ذرائع استعمال کریں تاکہ وہ مسخ شدہ لاشیں لواحقین کو ملے اس طرح بغیر ٹیسٹ کے دفنانا صوبائی کومت کا یہ روئیہ لاپتہ افراد کے زخموں پرنمک پاشی کے مترادف ہے مسخ شدہ لاشوں کا مسئلہ انسانی مسئلہ ہے ان لاشوں کو دی این اے ٹیسٹ کے بغیر دفنانا اچھا عمل نہیں ہے ان کی شناخت کے لئے تمام ذرائع استعمال کئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آپریشن اور لاشوں کا پھینکنے کا سلسلہ بند کرنے کا دعویٰ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں گزشتہ دنوں رخشان ، ناگ، راغے ، بسیمہ میں آپریشن ہو ا تو اس آپریشن میں کافی لوگوں کو لاپتہ کیا گیا اور دو کی لاشوں کو ناگ انتظامیہ کے بغیر شناخت کروانے کے دفن کردیا اور ان کے لواحقین تک اطلاع نہیں کی انہوں نے کہا کہ درجنوں کے حساب سے لوگوں کو اغواء کیا گیا ہے یہ لاشوں کا جو سلسلہ ہیں جو کلفل ، گدر ٗ سے چھ لاشیں ملی ہیں وہ یہی اغواء شہدہ لوگوں کی ہیں جو کہ بیسیمہ اور ناگ راغے سے اغواء کئے گئے تھے یہ واقعات روزانہ کی بنیاد پر دہرائے جارہے ہیں بلوچستان میں میڈیا بلیک آوٹ ہے اور انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی نے فورسز کو بلوچ نسل کو سزا سے استثنیٰ قرار دیکر اس عمل کو آسان بنا دیا ہے سوراب کلفل میں ستمبر کو چھ لاشیں ملیں ماما نے کہاکہ یہ لاشیں ناگ راغے ، بسیمہ آپریشن میں اغواء کئے جانے والوں کی ہوسکتی ہیں جہاں جہاں نہتے بلوچوں کو حراست میں لیکر لاپتہ کیا گیا تھا جس سے گزشتہ دو ہفتے میں شہید ہونے والے بلوچوں کی تعداد بیس سے پچیس ہوگئی ہے اس بربریت اور غیر انسانی اعمال سے چشمہ پوشی انسانی حقوق کے اداروں کی غیر جانبدار حیثیت پر سوالیہ نشان ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز