شنبه, آوریل 20, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ تحریک کو شعبہ انتہائی نگداشت کی وارڈ سے نکالنا ،تحریر...

بلوچ تحریک کو شعبہ انتہائی نگداشت کی وارڈ سے نکالنا ،تحریر :میران بلوچ

قوم اور جہدکاروں کو ایک فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ جدوجہد کی کامیابی چاہتے ہیں یا کہ جہدکاروں کی نمود ونمائش،بھڑک بازی،ذہنی عیاشی،جنگی منافع خوری اور لیڈری،اگر قوم اور جہدکار قومی تحریک کی کامیابی چاہتے ہیں تو قومی تحریک کی کامیابی موجودہ طریقہ جدوجہد سے ناممکن ہے۔

جس طرح جوسر مشین میں سیب ڈالنے سے وہاں سیب کا جوس نکلتا ہے ،مالٹا ڈالنے سے مالٹے کا جوس نکلتا ہے اسی طرح جدوجہد بھی اگر صحیح فارمولے کے تحت کیا جائے تو متوقع نتائج کا ملنا بھی یقینی ہے ورنہ سیب کی جوسر مشین
میں پتھر ڈالنا اور توقع مالٹے کی جوس کا کرنا تو وہاں سے مالٹا نہیں نکلے گا آخر کار جوسر مشین ناکارہ ہوگا لیکن
انکو پتھر کے بدلے مالٹا نہیں دیگا بلکل قومی آزادی کی جدوجہد بھی صحیح فارمولے کے بغیر ایسا ہی ہے کہ جوسر میں پتھر ڈال کر مالٹے کا امید لگانا ،اس لیے قوم اور جہدکار اس طریقہ سے جتنی بھی قربانیاں دیں جتنا بھی کوشش کریں فارمولا صحیح نہیں ہونے کی وجہ سے متوقع نتائج کا ملنا ناممکنات میں شامل ہے ۔

گریک شاعر نے کہا تھا کہ جس روڑ پر آپ سفر کررہے ہو آپ چاہتے ہو کہ وہ لمبا ہو ،مہم جو ہو،اور چیزوں سے بھرا ہوجس سے سیکھا جاسکے ۔ہماری جدوجہد کا موجودہ سفر 17 سال کے دورانیہ کا ہے اس سے ہم نے کیا سیکھا کیا تبدیلی لائی یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔کتاب East Timor: A Memoir of the Negotiations for Independenceمیں لکھا ہے کہ مشرقی تیمور 32000اسکور کلومیٹر رقبہ پر مشتمل ہے ،بلوچستان کا رقبہ کئی گناہ اس سے بڑا ہے اسے بھی بلوچستان کی طرح مختلف قابضین نے قبضہ کیا ہوا تھا 17ویں صدی میں ڈچ نے اس پر یلغار کیا ہوا تھا جونہی 1949میں ڈچ سے اپنی آزادی مشرقی تیمور نے لیا اس پر پرتگال نے قبضہ جمانا شروع کیا لیکن 1975میں پرتگال سے آزادی لینے کے بعد ان پر انڈونیشیاء نے قبضہ کیا اور اس قبضہ کے خلاف ان لوگوں نے جدوجہد کیا لیکن صحیح فارمولے کے بغیر انکی جدوجہد نے خاطر خواہ نتائج نہیں دیا اور قابض کی زیادتی اور انکے لیڈرشپ کی نادانی نے انکے مصائب ،مشکلات،اور مصیبت میں اضافہ کیا جہاں انکی بھڑک بازیوں،نمود نمائش،سستی شہرت،جنگی منافع خوری اور آئیڈیلسٹ اپروچ نے انکے مصائب میں اضافہ کیا اور انکو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح جدوجہد کو کامیاب کیا جاسکتا ہے پھر شانا نا گوژماؤ نے اپنی پارٹی سے آئیڈیلسٹ اپروچ،بھڑک بازی،نمودنمائش اور20سال سے اپنی مدد آپ جنگ کرنے کی بھڑک بازیوں پر اختلافات رکھا اور کہا کہ تم لوگ اس طرح 100سال تک جنگ لڑو اور لاکھوں لوگوں کو مروا لو لیکن تم لوگ اس طرح سے جدوجہد کو کامیاب نہیں کرسکو گے اور تم لوگ میری قوم کے مصائب ومشکلات میں اضافہ کروگے مگر جنگ کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکو گے باقی لوگوں نے شانانا گوزماؤ کی پالیسیوں ،اسٹینڈ اورموقف کو رد کیا تو رد عمل میں اسکی پارٹی تقسیم ہوا اسکی پارٹی کے چند لوگ انکے ساتھ ہوئے باقی سب بھڑک بازوں کے ساتھ شامل ہوئے انھوں نے جنگ کیا انکے 50ہزار لوگ مارے گئے کئی گھروں سے بے گھر ہو گئے اور چند لوگ بچ گئے پھر ان لوگوں نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ شنانا نے جو کہا اگر اس وقت ہم انکی بات مان لیتے تو آج اتنے نقصانات کا سامنا نہ کرتے انکے سارے جہدکار مار دئیے گئے پوری دنیا خاموش تماشائی بنا رہا لیکن بعد میں شنانا نے اپنی سیاست قومی فارمولے کے تحت کیا اور اس نے کم لوگوں کی قربانی سے اپنی جدوجہد کو دنیا کی مدد وکمک سے آزاد کروایا 12نومبر 1991میں سینٹا کروز نسل کشی کو شنانا نے خوب اچالا کیونکہ یہ لوگ پرامن احتجاج کررہے تھے اور ان پر انڈونیشیاء نے فائرنگ کی جہاں تقریباََ 199لوگ مارے گئے تھے اور اسکو اس لیڈرنے خوب اچالا اور دنیا نے اس مسئلے پر پھروہاں مداخلت کی اور اس نے اپنی قوم کو کم قربانی سے آزادی دلوائی کیونکہ اس میں لیڈرشپ کی کوالٹی تھی اوروہ جدوجہد کو کامیاب کرنے کے ہنر سے واقف تھا اوراسی فارمولے کے تحت اس نے اپنی جدوجہد کو کامیاب کیا

اس نے بھڑک بازی کھبی بھی نہیں کی اسے بھڑک بازی سے بے حد نفرت تھا اور بھڑک بازی کوجدوجہد کے لیے ناسور سمجھتا تھا ،ہماری جدوجہد موجودہ دور میں مشرقی تیمور کی بھڑک باز دور کی طرح ہے یہاں اب بھڑک بازوں کی بھرمار ہے ،جدوجہد کو کامیاب کروانے کا صحیح فارمولا ماسوائے حیربیار مری کے کسی کے پاس نہیں ہے باقی تمام کی پالیسیاں،موقف،اور طریقہ انھیں دلدل کی طرف دھکیل رہا ہے یہ اپنی ان حرکتوں سے خود تو نقصان اٹھائیں گے لیکن پوری تحریک کو بھی نقصان سے دوچار کردیں گے ۔ان لوگوں نے صحافیوں کے قتل عام کا بیان دیکر بین لاقوامی سطح پر بلوچ قومی تحریک کو جنگی جرائم کے زمرے میں شامل کیاہے اب سوات جیسے کئی آپریشن پاکستان کریں انکو جواز ان لوگوں نے خود دیا ہے اب اس گھٹیا آئیڈیا پر اگریہ تحقیق کریں کہ کس نے انکو یہ آئیڈیا دیا ہے اور ان لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے اس پر عمل کس طرح کیا جس نے بیرونی سطح پاکستان کو بہت رلیف دیا ہے اور یہی پالیسیاں پاکستانی ریاست کے قبضہ کو برقرار رکھنے کے لیے سودمند ہیں اب وہ بدبخت کون ہے جو بلوچ کے لبادے میں پاکستانی ریاست کے لیے پالیسیاں بنا رہا ہے اس پر غیر جانبدارانہ تحقیق کی ضرورت ہے ۔

دوسرا قومی جنگ تین ستونوں گوریلا جنگ ،سفارتکاری،اور سیاسی میدان سے لڑا جاتا ہے تینوں میں ہم آہنگی ہونے کی صورت میں جدوجہد کامیاب ہوسکتا ہے لیکن بلوچ تحریک کے بھڑک باز خود بہت سے لوگ باہر بھی بیھٹے ہوئے ہیں لیکن گراؤنڈ گراؤنڈ کا رٹا لگا رے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو باہر پوری کرنے کی بجائے ذہنی عیاشیاں کررے ہیں ایسے منافق نما لوگ جدوجہد کا کونسا تقاضہ پورا کررہے ہیں جو گراؤنڈ میں ہیں وہ اپنی پالسیوں سے تحریک کا جوس نکال چکے ہیں اور جو باہر ہیں وہ اپنے کام سے مطمئن نہیں ہیں لیکن گراؤنڈ سے مطمئن ہیں لیکن وہاں جانے کے لیے یہ اپنے آسائش،روزگار،بیوی بچوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں اس لیے صبح شام ذہنی عیاشیاں کررہے ہیں ۔کیا کوئی بھی حقیقی سرمچار،قوم کا درد رکھنے والا شخص ،قوم اور تحریک کو اسی طرح شعبہ ا نتہائی نگداشت وارڈ میں رکھے گا یا بلوچ قومی تحریک کے شانانا گوژماؤ کا ہاتھ مضبوط کر کے جدوجہد کوکامیاب کروائے گا کیونکہ حیربیار مری کو بھی شنانا گوزماؤ کی طرح بھڑک بازی سے نفرت ہےاورحیربیارمری نے شنانا کی طرح ہر وقت حقیقت پسندانہ پالیسیاں اپنائی ہیں اور یہ بھی قومی تحریک کو فارمولاکے تحت منزل تک لے جانا چاہتے ہیں ایک طرف بھڑک باز ہیں جو خود دلدل میں پھنس چکے ہیں اب قومی تحریک کو دلدل میں پھنسانا چارہے ہیں تو دوسری طرف حیربیار مری ہے جو شنانا گوژماؤ کی طرح جدوجہد کو بھڑک بازیوں نمودنمائش،آئیڈیلسٹ اپروچ،اور شعبہ انتہائی نگداشت کی وارڈ سے نکال کر کامیابی کی طرف لے جاناچاہتا ہے اب لوگ فیصلہ کریں کہ جدوجہد کو کامیاب کروانا ہے یا کہ بھڑک بازیوں پر گزارہ کرنا ہے ۔

حیربیار مری اور باقی لیڈرشپ میں بہت زیادہ فرق ہے بی ایل ایف کا قانون پاکستان کا قانون ہے جہاں صرف اور صرف چھوٹے اور غریب لوگوں پر وہ قانون لاگو ہوتا ہے اور انھیں معمولی سی معمولی غلطیوں پر موت کی سزا دیا جاتا ہے جس طرح وارث بلوچ ،خلیل ساچان،فضل حیدرجیسے لوگوں کو تنظیم قتل کرتا ہے اور بڑے ایک بھی آدمی کو آج تک بی ایل ایف نے سزا نہیں دیا اور وہاں ڈسپلن کو لاگو نہیں کیا کیونکہ وہ ایک دوسرے سے بلیک میل ہیں اور پاکستانی سیاست دانوں کی طرح ایک دوسرے کی گناہوں کو چھپا رہے ہیں تاکہ انکے راز افشان نہ ہوں انکے برعکس بی ایل اے کے سربراہ حیر بیار مری کاقانون اور ڈسپلن حقیقی ہے جس نے ہمشہ بڑے بڑے کمانڈروں اور لیڈران کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے شروع میں قادر مری ،مہران اب اسلم جیسے لوگوں کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سزائیں دی گئیں اور وہ بی ایل ایف جو اپنے لوگوں کو مارتا تھا اب ان مجرموں کو سپورٹ کررہا ہے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ بی ایل اے اس عمل سے وقتی طور پر کمزور ضرور ہوگا لیکن بعد میں ڈسپلن اصول،قانون کا عملی نمونہ بن کر ابھرے گا ۔بی ایل اے انصاف کا بول بالا کررہا ہے کیونکہ انصاف کی نظر میں اگر چھوٹا بڑا ،امیر غریب سب برابر نہیں ہونگے اس وقت تک حقیقی اور شفاف انصاف نہیں ہوگا ۔جس ملک اور نظام میں انصاف اور قانون پر صحیح طریقہ سے عمل نہیں ہوتا ہے وہاں کا نظام ریشہ دوانیوں کی نذر ہوتا ہے ۔حضرت محمد کے زمانہ میں ایک بااثر قبیلے کے عورت کی چوری کا مسئلہ آیا تو لوگوں نے کہا کہ اس کو سزا دینے سے اسلام کو دشواری ہوسکتا ہے اس لیے اسکو معاف کیا جائے لیکن پیغمبر اسلام نے اسکے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اور کہا کہ میری بیٹی فاطمہ بھی اگر اسکی جگہ ہوتی تو انصاف کے لیے اس کے بھی ہاتھ کاٹ دئیے جاتے اسکو بھی یہی سزا دی جاتی کیونکہ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ قانون جب سب کے لیے یکساں نہ ہوگا تو تنظیموں ،اور معاشرے بے چینی اور انتشار کا شکار ہونگے ،بااثر آدمی کو اطمینان رہے گا میں کچھ بھی کرلوں کچھ بھی نہیں ہونا اور بلکہ اس سے شہرت ملے گی اور بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا ۔
اب اگر ایک پارٹی تنظیم تبدیلی لانے کا سمبل بن چکا ہے اور وہ آدھا انصاف کریں چھوٹے لوگوں کو کسی چھوٹی غلطیوں پر موت دیں پارٹیوں اور تنظیموں سے نکال دیں اور اسلم جیسے لوگوں کو اس لیے ہاتھ نہ لگائیں کہ یہ پارٹیوں اور تنظیموں میں لابینگ کرکے چند لوگوں کے ساتھ پارٹیاں توڑیں گے تو پھر ان غریب اور چھوٹے لوگوں پر پھر یہ اصول اورقانون کیونکر لاگو کرتے ہیں اور انھیں کیونکر سزائیں دی جاتی ہیں کیا وہ انصاف مکمل انصاف کہلایا جاسکتا ہے بلوچ تحریک میں حیربیار مری کا انصاف مکمل انصاف ہوتا ہے وہ چاہے مہران ،قادرمری کے خلاف ہوں یا اسلم کے خلاف اسکی قانون میں بڑے چھوٹے سب برابر ہیں اس لیے تو وہ لوگوں کی دلوں میں حکمرانی کررہا ہے یہی تنظیمی برابری یکساں انصاف بعد میں مکمل ریاستی انصاف کی شکل اختیار کرسکتا ہے ۔

بی ایل اے کل کی ریاست کے لیے مکمل اور یکساں انصاف کی بنیادیں رکھ رہا ہے کہ آزاد بلوچستان میں انصاف برابری اور یکساں طریقہ سے لاگو ہوگا جس ملک میں اگر انصاف کا راج ہوگا وہاں ترقی اور خوشحالی یقینی ہوگی

یہ بھی پڑھیں

فیچرز