سه‌شنبه, آوریل 23, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ جلاوطن حکومت کی بازگشت اور سیاسی رویہ! تحریر:عبدالواجد بلوچ

بلوچ جلاوطن حکومت کی بازگشت اور سیاسی رویہ! تحریر:عبدالواجد بلوچ

جب سے ہندوستان کے وزیر اعظم شری نریندر مودی نے مقبوضہ بلوچستان حوالے اپنی کھلی موقف کا اظہار کیا تھا اس وقت سے لیکر تا ہنوز انڈین میڈیا اور انڈیا کے عوام کی طرف سے بلوچ قومی مسئلے پر دلچسپیاں ظاہر کرنے اور میڈیا کے زریعے بلوچ قومی آزادی بشمول ریاست پاکستان کی ظلم و بربریت کو صحیح معنوں میں اجاگر کیا جارہا ہے۔حتیٰ کہ نوبت یہاں تک بھی پہنچی کہ ہندوستانی وزیر خارجہ امور ششما سوراج نے اقوام متحدہ کے اعلیٰ پلیٹ فارم پر بھی مقبوضہ بلوچستان پر پاکستانی بربرتا کا ذکر بھی کیا۔لیکن دوسری جانب ہندوستانی میڈیا میں پر وقتاََ فوقتاََ بلوچ سیاسی قوتوں جو باقاعدہ سیاسی پارٹیوں(فری بلوچستان موومنٹ،بی آرپی،بی این ایم،بی ایس او آزاد)سے منسلک ہیں اپنا اظہار خیال کرتے رہے جو کہ صحیح معنوں میں ایک باقاعدہ نظم و ضبط کا پابند ہیں اور علاقائی و عالمی سطح پر بلوچ قومی نمائندگی صحیح معنوں میں کررہے ہیں جنہیں آئینی صورت میں یہ جواز حاصل ہے کہ وہ بلوچ قومی آزادی کے نمائندہ پارٹیاں ہیں۔لیکن دوسرے رخ پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو چند ایسے افراد ہیں جو نا باقاعد ہ منظم پروگرام رکھتے ہیں اور نا ہی ان کے پاس صحیح معنوں میں بلوچ قومی نمائندگی کا حق ہے کیونکہ قومی نمائندگی صرف چند اشخاص اپنے منشاء کے مطابق نہیں کرسکتا بلکہ قومی نمائندگی اور قومی سوال کو اجاگر کرنے کے لئے باقاعدہ ایک پروسس اور مضبوط آئیڈیالوجی کی ضرورت ہوتی ہے صرف دو یا تین لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر کسی این جی اوز یا عالمی ادارے کی کسی زیلی ادارے سے منسلک رہ کر بلوچ قومی نمائندگی کا دعوا کرنا بلوچ قوم کو دھوکہ اور فریب دینے کے سوا کچھ نہیں اس سے ہوسکتا ہے کہ نجی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہو لیکن قومی بقاء اور قومی سوال کو کسی بھی طرح فائدہ نہیں پہنچ سکتا الٹا قومی سوال کو مزید متنازعہ بنانے کا موجب بن سکتے ہیں۔بلوچ قومی تحریک آزادی کی حالیہ لہر کا رخ جب سے انٹرنیشنل سطح پر منتقل ہوچکی ہے اس وقت سے لیکر آج تک بہت سے افراد فرداََ ایسے ثانوی ادارے بنا چکے ہیں جو بلوچ قومی آزادی کی نمائندگی کے دعوے دارہیں لیکن در حقیقت ان کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ بغیر بلوچ عوام کی مرضی و منشاء کے کسی بھی جگہ صرف شخصی فائدے کے لئے ادارے تشکیل دے کر اپنے آپ کو قومی نمائندہ ظاہر کیا جائے ۔ایسے افراد ماسوائے موقع پرستی کے اور کسی بھی درد کے دوا نہیں۔ہاں اگر کسی میں مخلصی یا بلوچ قومی آزادی حوالے گہری درد و غم لاحق ہے تو ان کے لئے لازمی ہے کہ جہاں کہیں بھی کسی بھی سطح پر جونسی بھی پروگرام ہو بغیر بلوچ سیاسی پارٹیان جو کہ بلوچ قومی آزادی کے لئے پہلے سے سرگرم ہیں ان کے قیادت کی مشاورت کے بغیر کوئی پروگرام یا Eventsمنعقد رکھنے کا حق نہیں رکھتا۔گزشتہ ستر سالوں سے بلوچ قومی آزادی کی اس جنگ میں انہی موقع پرستانہ رویوں اور شخصی مفادات کی خاطر بلوچ قومی تحریک کو کئی مرتبہ ہائی جیک کیا گیا اور قومی سوال کو متنازعہ بنانے کی قصداََ کوشش کی گئی اور یہی رویہ آج تک جاری ہیں۔قومی تحریک اور سیاسی پارٹیاں جو کہ اپنے آپ کو ایک قوم کی نمائندہ حیثیت دیتے ہیں ان کے پاس منظم حکمت عملی اور باقاعدہ روڑ میپ ہوتا ہے اور وہ مضبوط پروگرام کے تحت دنیا کے ساتھ اپنے روابط قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کہ سنگت حیر بیار مری نے بلوچ قومی آزادی کے لئے ایک نمائندہ حیثیت میں جس طرح سفارت کاری کی اس وقت انہوں نے مقبوضہ بلوچستان میں موجود سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لیکر آگے جانے اور قومی سوال بابت پروگرامز تشکیل دیں اور ان کی باقاعدہ مشاورت سے ہی بلوچ قومی آزادی کے حوالے کامیاب سفارت کاری کی تھی جس کا ثمر آج ہر کسی کو دکھائی دے رہا ہے گو کہ آج طریقہ کار کو لیکر بلوچ سیاسی قیادت کے درمیان تلخیاں موجود ہیں لیکن اس کا قطعاََ یہ مقصد نہیں کہ کوئی تیسری قوت ان کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر بلوچ قومی نمائندگی کا دعوے دار بن کر بلوچ قومی سوال کو متنازعہ کرنے کی کوشش کرے۔ہاں یہ بات سچ ہے کہ بلوچ قومی آزادی کے لئے برسرپیکار مضبوط نمائندہ پارٹیوں کی باہمی اختلافات کا فائدہ ان تیسری قوتوں نے ہمیشہ اٹھایا اور ان حضرات کی یہی کوشش موجودہ وقت میں بھی جاری و ساری ہے اب یہ بلوچ قومی نمائندہ پارٹیوں کی قیادت کی طرف سے یکجہتی کے بعد یا تو ایک مضبوط الائنس کی تشکیل کے بعد ان تیسری قوتوں کا راستہ روکا جاسکتا ہے وگر نا ایسے سانحات رونما ہوتے رہیں گے جن سے ہر کوئی بلوچ قومی تحریک کو خوبصورت عورت سمجھ کر ان سے کھیلنے کی کوشش کریگا۔
اب آتے ہیں اپنے اصل مدعے کی طرف کہ بلوچ قومی آزادی کے لئے جلاوطن حکومت کا قیام کتنی ضروری ہے اس حوالے سے کوششیں تو گزشتہ چند سالوں سے شروع کی جا چکی تھیں لیکن صرف ایک شخص یا ایک پارٹی کی طرف سے اتنی عظیم پروگرام جس کا دارومدار بلوچ قومی بقاء پر ہی آکر ختم ہوتی ہے جو کہ بلوچ قوم کی باقاعدہ نمائندہ حکومت کہلانے کا مجاز ہوگا کو پائے تکمیل تک پہنچائے گو کہ اس عمل کو صرف ایک پارٹی سرانجام دے سکتا ہے لیکن بلوچ قومی آزادی کے لئے سرگرم دوسری مضبوط پارٹیوں کی باہمی مشاورت اور ان کی منظم نمائندگی ہی ایسے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔کچھ لوگ تو صرف یہی سوچ رہے ہیں کہ جلاوطن بلوچ حکومت کی قیام کی ضرورت ہندوستان کے وزیر اعظم شری نریندر مودی کے بیان کے بعد اور ہندوستان کی بلوچستان حوالے گہری ترجیحات کے بعد پیش آگئی لیکن در حقیقت اس طرح نہیں ہے جہاں تک Exile Govtکے قیام کی بات ہے تو اس حوالے سنگت حیربیار مری سے بین الاقوامی سطح پر چند قوتوں نے باقاعدہ کہا تھا کہ جلاوطن بلوچ حکومت کا قیام ضروری ہے اس کی تشکیل کے لئے اعلان کریں لیکن سنگت حیربیار مری نے اس حوالے اپنے ٹھوس موقف کو اس بات پر محیط کیا کہ بلوچ قومی آزادی کے باقی نمائندہ پارٹیوں کی باہمی مشاورت اور مضبوط حکمت عملی کے بغیر اس طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھایا جاسکتا۔ لیکن سنگت حیربیار مری کی دور اندیشانہ پالیسیوں جن میں چارٹر آف لبریشن کا قیام،شہداء ڈے کے لئے 13نومبرکو مختص کرنا اس کے بعد اتحاد کے حوالے سے بلوچ قومی تحریک کی حالیہ لہر کو دیکھ کر بنیادی اور ضروری نقاط پر مشتمل بیان دینا،فری بلوچستان موومنٹ کی پلیٹ فارم پر یورپی سطح پر پہلی مضبوط لانگ مارچ کا اعلان اور اس کے بعد پاک چائینہ اشتراکیت کے خلاف یورپی سطح پر چینی سفارت کے سامنے طویل Demonstratiosکرنا ان Long Term Policiesکا حصہ ہیں جو اب صحیح معنوں میں ظاہری دے رہے ہیں کیونکہ بین الاقوامی سطح پر بغیر مضبوط پروگرام کے کسی بھی طرح کامیابیاں حاصل نہیں کی جاسکتی۔گو کہ ہندوستان ،بنگلہ دیش،افغانستان وہ ممالک ہیں جو برائے راست بلوچ قومی آزادی کی حمایت کررہے ہیں لیکن یہاں اس امر پر غورکرنا بھی ضروری ہے کہ ان ممالک کی بڑھتی ہوئی نرم گوشے کو ان کی Proxyکی صورت میں قبول کرکے خوش رہا نا جائے بلکہ قومی سوال کی اہمیت کو ان کے ہاں بہترین طریقے سے واضع کرکے ان کی باہمی اشتراکیت سے مضبوط دوست بن کر ان کی حمایت کو اپنی جانب دھکیلنے کی کوشش کیا جائے تو بہتر نتائج رونماء ہونے کی قوی امکانات ظاہر ہونگے وگر نا اس طرح بغیر مضبوط حکمت عملی کے بغیر باہمی فیصلوں کے بغیر یکجہتی کے بغیر قومی لائنس تشکیل دینے کے وہ تیسری قوتیں جو بلوچ قومی آزادی کے نام پر کاروبار کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ فعال ہوکر ان ریاستوں میں بلوچ قومی تحریک کو متنازعہ کرنے کی کوشش کرینگے۔گزشتہ دنوں پروفیسر نائلہ قادری کی جانب سے ہندوستان میں بلوچExile Govt کی قیام کے حوالے سے اظہار خیال کیا گیا تھا جس کے بعد بی آر پی اور بی این ایم کی طرف سے اس امر کا اظہار کیا گیا تھا کہ نائلہ قادری بلوچ قومی نمائندہ نہیں ہیں جو جلاوطن بلوچ حکومت کی قیام کی تجویز کو اکیلا دے ،یقیناًاس میں کسی دو رائے کی ضرورت نہیں پہلے تو یہ کہ نائلہ قادری اور ان کے فرزند دلشاد مزدک بلوچ ہندوستان میں کس حیثیت سے بلوچ قومی تحریک کی نمائندگی کررہے ہیں؟؟(گو کہ ان کی کوششیں مثبت اور بلوچ قومی تحریک کے لئے آواز اٹھانے کے عین مطابق ہیں ان کی یہ کوشش قابل تعریف ہے)لیکن وہ کس نظم و ضبط کے پابند ہیں اور نائلہ قادری نے کس حیثیت سے جلا وطن بلوچ حکومت کے بارے ہندوستان سے گزارش کی تھی کہ ان کا قیام عمل میں لایا جائے۔یہاں میں چند سوالات رکھونگا جن کا جواب نائلہ قادری یا ان تیسری قوتوں کو دینا ہوگا جو کسی بھی طرح بغیر کسی نظم و ضبط کے قومی نمائندگی کے دعوے دار ہیں اور بین الاقوامی سطح پر کبھی کبھار پروگرامز کرکے اپنے آپ کو بلوچ نمائندہ پیش کرتے ہیں۔
۔کیا نائلہ قادری نے جلاوطن حکومت کے قیام کی تجویز ورلڈ بلوچ فورم کی سربراہ کی حیثیت سے دی تھی؟WBFکیا ایک این جی اوز ہے یا پارٹی؟
۔کیا دلشاد مزدک بلوچ کی ہندوستان میں بلوچ قومی آزادی حوالے کوششیں کس بنیاد پر کی جارہی ہیں؟کیا نائلہ اور مزدک کی پالیسیاں باہمی ہیں یا علیحدہ؟؟
۔کیا یہ بہتر نہیں کہ نائلہ قادری نے جلاوطن بلوچ حکومت کی قیام کی تجویز سے پہلے بلوچ نمائندہ پارٹیوں (فری بلوچستان موومنٹ،بی آر پی،بی این ایم سے مشاورت کیا ہوتا؟؟ )۔
۔کیا اقوام متحدہ میں وقتاََ فوقتاََ منیر مینگل،ناصر بلیدئی،نورالدین مینگل،مہران مری اور بہت سے دوسرے قوتوں کی جانب سے مقبوضہ بلوچستان حوالے صدائیں بلند کی جاتی ہیں وہ کسی نظم و ضبط کے پابند ہیں؟؟
۔کیا بلوچ قومی آزادی کی مذکورہ نمائندہ پارٹیاں اس اہل نہیں کہ وہ ان حضرات کے بغیر بین الاقوامی سطح پر مذکورہ اداروں میں اپنی نمائندہ بھیجیں؟؟یا ان لوگوں کے عزائم کو آشکار کریں یا کہ ان کو قائل کریں کہ وہ کسی بھی نمائندہ پارٹی کے نظم و ضبط کا پابند بن جائیں۔(گو کہ سنگت حیربیار مری نے ان تیسری قوتوں کی شاطرانہ عزائم کو کئی بار آشکار کیا تھا)۔
اگر اسی طرح بلوچ سیاسی قیادت کے بین خلیج بڑھتی گئیں اور مستقبل قریب میں کوئی مضبوط الائنس یا مضبوط اتحاد کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا یا ان تمام پارٹیوں کو ملا کر ایک منظم سیاسی پارٹی تشکیل نہیں
دی گئی تو کوئی بعید نہیں کہ اس طرح تیسری قوتیں اپنے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے اور اس بات سے کسی انکار کی گنجائش نہیں کہ یہ قوتیں قومی تحریک کو پراکسی بنا کر بلوچ قومی آزادی کے اصل مقصد کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کرینگے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز