جمعه, مارس 29, 2024
Homeخبریںبلوچ سماج میں سردار ظلم کا نشان بنا ہوا ہے : ڈاکٹر...

بلوچ سماج میں سردار ظلم کا نشان بنا ہوا ہے : ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ

کوئٹہ ( ہمگام نیوز)بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے بلوچ عسکریت پسندوں کیساتھ’’ حصول آزادی اور انصاف کے تقاضے ‘‘کی موضوع پر ایک لیکچر نشست میں کہا ہے کہ ہماری اس موجودہ جنگ کا مقصد ایک ریاست کی تشکیل کے ساتھ ساتھ انصاف اور آزادی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری قوم کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے اسی لئے ہم لڑ رہے ہیں۔ ہماری قومی ثقافت کیساتھ انصاف نہیں ہوا، اسے ختم کیا جا رہا تھا، اس نا انصافی کیخلا ف ہم لڑ رہے ہیں۔ ہماری سرزمین کیساتھ انصاف نہیں ہورہا ہے، اسی لئے ہم آج لڑ رہے ہیں۔ لیکن ایک قوم کو انصاف نہ دینے کے ساتھ ساتھ فردکو بھی اس ریاست نے انصاف نہیں دیا۔ اور ہمارا کام اسے انصاف کی فراہمی ہے۔مورخہ 12جنوری 2016کو بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ نشست کی دوسرے سیشن میں انہوں نے اپنے لیکچر میںآزادی اور انصاف کا تجزیہ و ان کا احاطہ کیا اورانہوں نے آزادی و انصاف کی اہمیت پر خصوصی روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ جس دن شروع ہوئی تب سے یہ آگے بڑھ رہی ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں ہمارے ساتھی جنگی محاذ پر شہید ہوئے۔ ہزاروں بلوچ فرزند دشمن کی اذیت گاہوں میں قید ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ جتنی تیزی جنگی محاذ میں آرہی ہے اتنی ہی دشمن ریاست، کہ جس نے ہم پر قبضہ کیا ہوا ہے، کے ظلم و بربریت میں بھی شدت آرہی ہے اور اس میں مزید شدت آئے گی۔ وہ ظلم و جبر کے نت نئے طریقوں سے بلوچ قوم کی نسل کشی کر رہا ہے۔اس جنگ کا مقصد ایک ریاست کی تشکیل کے ساتھ ساتھ انصاف اور آزادی ہے۔ آزادی اور انصاف۔ انصاف کیونکر ضروری ہے؟ انصاف کا اصل مفہوم کیا ہے؟ اور ہر کوئی انصاف کے معنی کو کس طرح لیتا ہے؟ پہلی بات یہ ہے کہ ، جیسا کہ ہم ہیں، ہماری قوم کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے اسی لئے ہم لڑ رہے ہیں۔ ہماری قومی ثقافت کیساتھ انصاف نہیں ہوا، اسے ختم کیا جا رہا تھا، اس نا انصافی کیخلا ف ہم لڑ رہے ہیں۔ ہماری سرزمین کیساتھ انصاف نہیں ہورہا ہے، اسی لئے ہم آج لڑ رہے ہیں۔ لیکن ایک قوم کو انصاف نہ دینے کے ساتھ ساتھ فردکو بھی اس ریاست نے انصاف نہیں دیا۔ اور ہمارا کام اسے انصاف کی فراہمی ہے۔منصف اور جج بننا بہت مشکل کام ہے کیونکہ قاتل کے نقطہ نظر میں انصاف کا مفہوم و معنی یہی ہے کہ میں نے جو کچھ بھی کیا صحیح کیا اس لئے مجھے معاف کیا جائے۔ اس کے نزدیک یہ انصاف کی تعریف ہے۔ جبکہ مقتول کے لواحقین کے پاس انصاف یہی ہے کہ قاتل پکڑا جائے۔ انصاف کے حوالے سے ہر کوئی ایک دلیل دیتا ہے۔ دانشور اور فہمیدہ لوگوں کا ماننا ہے کہ وقت بہترین منصف ہے۔ دور، عہد یا زمانہ خواہ کوئی بھی ہو انصاف کی فراہمی کسی معاشرے میں بسنے والے لوگوں پر منحصر ہوتا ہے۔ منصف وہیں کے عوام ہوتے ہیں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں جس سماج میں عدل و انصاف نہیں ہے اس سماج میں دہشتگردی، قتل و غارت گری، لوٹ مار، ناخواندگی سمیت تمام خرابیاں موجود ہیں۔ اور ناانصافی کی وجہ سے ان خرابیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ جب تک کہ ایک فرد، جوکسی معاشرے کی اکائی یا حصہ ہوتا ہے، کو انصاف نہیں ملتا وہ ایک سے دوسرے،دوسرے سے تیسرے اور تیسرے سے چوتھے اور پھر پورے معاشرے میں پھیل جاتا ہے۔ یا تو وہ اپنے معاشرے میں انصاف کی جنگ کو آگے بڑھاتے ہیںیا پھر ان کے پاس انصاف کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو لوٹ لیا جائے۔ کیونکہ وہ ناانصافی کیخلاف باغی ہوتے ہیں۔ مطلب آج جو چور ہے، وہ باغی ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ مجھے کیوں انصاف نہیں مل رہا ہے ۔ آج وہ لوگ جو مختلف سماجی و معاشرتی بیماریوں منشیات وغیرہ کا شکار ہیں وہ زندگی سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ ناانصافی کی وجہ سے زندگی کی خوشیوں سے محروم ہوتے ہیں۔ اور وہ انصاف کو منشیات، چوری، ڈکیتی اور دوسری سماجی ومعاشرتی برائیوں میں تلاش کرتے ہیں۔ دوسری طرف جب شعور تکمیل کو پہنچتا ہے تو وہاں انصاف کے حصول کا طریقہ کار الگ ہوتا ہے۔ جیسا کہ آج ہم مشترکہ طور پر بہ حیثیت ایک قوم کے حصول انصاف کیلئے لڑ رہے ہیں۔ انصاف، جس کیلئے ہزار سالوں سے دانشور، باشعور طبقہ، قومی رہنما، عالم سب نے جدو جہد کی ہے، جنگ کی ہے لیکن مکمل انصاف ابھی تک دنیا کو نہیں ملا۔ اگردنیا کی ساڑھے سات یا آٹھ ارب آبادی میں سے ایک ارب انسان کو انصاف ملا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ باقی سات ارب انسانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ انصاف وہی ہے جو پورے معاشرے کو ملے۔ ہماری آج کی یہ جدو جہد فرد کو انصاف دینے کے لئے بھی ضروری ہے ۔ ہمارے نزدیک انصاف یہی ہے کہ حصول انصاف کیلئے ہمارے اندر شعور کا ایک پیمانہ ہو۔ ایک ایسا پیمانہ ہو کہ انصاف کی سطح کیاہے کہ جہاں ہم انصاف کرسکتے ہیں۔ انصاف یہی ہے کہ میں ایک انسان ہو ں اور میری ضروریات کیا ہیں۔ بنیادی طور پر ایک انسان کیلئے صحت مند ہونا ضروری ہے۔ مجھے صحت کی سہولیات میسر ہوں۔ شعور انتہائی ضروری ہے جو تعلیم سے حاصل ہوتی ہے، مجھے تعلیمی سہولیات ملنی چاہئیں۔ میرے معاشرے میں ہر طرح کے رسم و رواج ہیں جو میری شناخت یا عقیدہ ہے، مذہب یا میرے ذہن و شعور میں جو کچھ کہ آتا ہے میں اس کا اظہار کروں تو کوئی مجھے نہ روکے۔ میرا انفرادی انصاف یہ ہے کہ میرے لئے روزگار کے ذرائع ہوں۔ لیکن ان سب چیزوں کا مطالبہ ہم کس سے کرتے ہیں ؟آج ہم اس انصاف کی فراہمی کیلئے یہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ مطلب آزادی اور انصاف کا رشتہ ایک دوسرے سے ناخن اور گوشت کا ہے۔ اگر آپ نے آزادی حاصل کی اور وہاں انصاف نہ ہو تو وہ جنگ بے سود ہوگی۔ آج کوریاکو مثال لے لیں۔ آزاد ہوا ہے۔ جس طرح آج ہمارے گھروں کو نذر آتش کیا جارہا ہے ان کے گھر بھی اسی طرح جلائے گئے۔ جیسا کہ ہمارے لوگوں کو لاپتہ اور قتل کیا جارہا ہے اسی طرح کوریا کے لوگوں کو قتل کیا گیا۔ پہلے کم ال سنگ اقتدار میں آئے، پھر ان کا بیٹا آیا اور بعد ازاں پوتا اور پڑپوتا، یہ سلسلہ کب تک یونہی چلتا رہے گا۔ مطلب یہ کہ کورین عوام کی جو حالت زار ہے، حصول آزادی کے ساتھ انہیں کتنا انصاف میسر رہا یا نہیں لیکن دنیا کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہائیڈروجن بم ہے جو انسانیت کو تباہ کرتا ہے۔ آج اس نے یہ ٹیسٹ کیا ہے۔ یا ہم دیکھ رہے ہیں بہت سارے ممالک میں، جیسا کہ چین میں چینی لیڈروں کا انقلاب اور آزادی جنہوں نے دنیا کو انصاف کی فراہمی کا نعرہ لگایا تھا لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ چینی ہماری سرزمین پر وارد ہوئے ہیں۔ ہمارے سمندر اوراس کے وسائل سمیت زمینی وسائل پر قبضہ کر رہے ہیں۔ ہماری سرزمین کو اپنے ذاتی اور قومی مقصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ اور اپنی آبادی کو ہم پر مسلط کرکے ان کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ شاپک شہرک سے لیکر بالگتر تک روڈ کنارے آباد ڈیڑ ھ لاکھ کی آبادی کو جبری نکال باہر کیا گیا ہے۔ اور کولواہ سے آنے والے روڈ پرآبادیاں ہٹادی گئیں۔ یہ 46ملین ڈالرکا منصوبہ ہے لیکن گوادر میں پانی نہیں ہے۔ لوگ پانی کی بوند بوند کے لئے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ کئی لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ اس وقت دشت میں بھی فوجی آپریشن کیا جارہا ہے جہاں سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ان اقدامات میں چین برابر کا شریک ہے۔ ماؤزے تنگ کا جو فلسفہ تھا اور اس نے جو جدوجہد کی تھی آج اس کے پیرو کار اس کی پیروی نہیں کررہے جو کہ انصاف نہیں ہے۔
آزادی کے ساتھ انصاف۔ ایک کو کہتے ہیں برابری۔ برابری خود انصاف سے ایک قدم آگے ہے۔ انصا ف یعنی جو ہمارا حق ہے، جو کچھ ہمارے کردار کے مطابق ہمارا حق بنتا ہے وہ ہمیں ملنا چاہیے۔ دنیا میں جو بنیادی حقوق ہیں وہ ہمیں ملنی چاہئیں، یہ انصاف ہے۔ برابری یہی ہے کہ سب لوگ برابر ہوں لیکن ایسا ممکن نہیں۔ ہوسکتا ہے کسی کو کم سہولیات میسر ہوں اور کسی کو زیادہ۔ یہ اضافی چیزیں ہیں۔ لیکن ہم انصاف کیلئے لڑ رہے ہیں۔ برابری کیلئے بھی لڑ رہے ہیں لیکن اس کیلئے مزید کئی صدیاں لگیں گی۔ کامل انصاف کے حصول کیلئے کامل شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج جو ہمارے دوست یہ جدوجہد کر رہے ہیں یہ ایک کامل شعورو آگہی کے حصول اور اسے کارگر بنانے کیلئے ہے۔ یہ دوستوں کی جدو جہد کی مرہون منت ہے کہ آج بلوچ سماج میں ایک ایسی تبدیلی دیکھ رہا ہوں جس کے اثرات آئندہ سو سال تک،دونوں کامیابی یا اللہ نہ کرے کمزوری کی صورت میں بھی، موجود رہیں گے اور مثبت اثرات رہیں گے۔
آج بلوچ سماج سے انصاف یہی ہے کہ اس پر شخصی حکومت کا خاتمہ ہو، یعنی سرداری ختم ہو۔ عام بلوچ کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیں۔ کوئی شخص آتا ہے جسکے تین چار بچے ہیں، اس کے نام کیساتھ سردار لگا ہوا ہے، ریاست اُس کو مراعات اور وسائل فراہم کرتا ہے اور وہ پورے عوام پر حکومت کرتا ہے۔ اس کا خاتمہ کرنا چاہئے۔ یہ ظلم کا نشان ہے۔ جیسا کہ ہم جس علاقے میں ہیں، یہاں ایک سردار ہے جو خالی زمینوں پر لوگوں کو گھر بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ جن لوگوں کی اپنی جدی پشتی اراضی نہیں ہے تو وہ کہاں جائیں؟ آسمان میں تو نہیں جاسکتے اور نہ ہی زیرزمین جاسکتے ہیں۔ انہیں زمین پر ایک معاشرے اور ایک گھر کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے انصاف یہی ہے۔ لہٰذا ہمیں انصاف کے حصول کیلئے ظلم کی اس علامت کو ختم کرنا ہوگا اور اس کیلئے ہمیں شعوراور جانکاری حاصل کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔
آج جو سفر ہم کاٹ رہے ہیں یہ سفر آسان نہیں ہے ۔اگر یہ اتنا آسان ہوتا تو سرداروں پہلے ہی کر لیتے اور ہمیں موقع نہ دیتے۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔ مطلب یہ کہ چند افراد ان سب کیلئے قربانی دیتے ہیں جو نافہم ہیں۔ جو فہمیدہ لوگ ہیں انہیں آگاہی دینے کی کوشش کرتے ہیں اگر نہیں کرپاتے تو اپنی جہدِ مسلسل کی ذریعے ان نا پختہ ذہنوں کو پختہ کرتے ہیں۔ اور یہ کم تعداد والے لوگ کون ہیں؟ ہم ہیں۔ مطلب اگر کہیں کی آبادی ایک لاکھ ہے تو ایک لاکھ میں سے پانچ دس ہزار لوگ تو ہمارے ساتھ شامل ہونگے نا۔ باقی نوے ہزار تو بیٹھے رہیں گے، محض دس ہزار لوگ قربانی دینگے۔ مطلب زیادہ لوگوں کیلئے ہم دس فیصدلوگ جدو جہد کر رہے ہیں۔ باقی لوگوں کو ہم اپنی جدوجہد سے متاثر کرینگے کہ آپ لوگ بھی نا انصافی کے شکار ہیں خواہ جدو جہد کرو گے یا کہ نہیں۔ بے شک ہم قربانی دے رہے ہیں ۔ اور ہم اپنی جہد مسلسل سے انہیں قائل کرینگے کہ وہ بھی حصول انصاف کیلئے ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں۔
ہم ایک ایسی آزادی چاہتے ہیں جسے بعد میں چند افراد اپنے لئے کاروبار نہ بنالیں۔ ایسا نہ ہو کہ سرزمین آزاد ہو جائے لیکن ہر علاقے میں کوئی کمانڈر یا سردار بن جائے اسی پرانے نظام کیساتھ، یا کوئی فوجی اہلکار یا اسمبلی کا ممبر آجائے اور پھر سے باقی ماندہ بلوچ کی وہی پرانی طرز زندگی ہوگی جو سو سال قبل تھی، تو یہ ناانصافی ہے۔ آج ہمیں یہیں سے یہ طے کر لینا ہے، اسی سفر کے دوران شعوری طور پر یہ کام شروع کرنا ہے کہ یہ تمام تر تکالیف، مصائب، بھوک، پیاس، ننگے پیر، سردی و گرمی، آپریشن و بمباری، جو بھی ہم پر گزر رہی ہے، ان سب کو ہم برداشت کر رہے ہیں ایک منصفانہ اور خوبصورت نظام کی خاطر۔ تنہا آزادی بے ثمر ہے۔ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آزادی انصاف کیساتھ خوبصورت ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم اپنے عوام کو قائل کریں اپنے اندر شعور کی بیداری کیلئے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہمیں کس سے انصاف کرنا ہے؟ اول ہمیں اپنی ذات سے انصاف کرنا ہے۔ کہ مجھے اپنے جو وجود، اپنی ہستی کے ساتھ کس طرح سے انصاف کرنا ہے؟ مجھے اس سے کیا کام لینا ہے؟ مجھے اس کو کس طرح محفوظ کرنا ہے؟ کس کے لئے قربان کرنا ہے؟ اگر میں اس کو انصاف کیلئے بچا لوں اورآزادی کے لئے قربان کرلو ں تو میں اپنے وجود کے ساتھ انصاف کر رہا ہوں۔ اگر میں اپنے علم و دانش کو سچائی، نیکی اور بھلائی کیلئے استعمال کر رہا ہوں تو میں اپنے علم ودانش کے ساتھ انصاف کررہا ہوں۔ جب کوئی اپنی وجود سے انصاف کی ابتداء کرتا ہے تو پھر وہ اپنے بھائی، خاندان، سماج اور تمام لوگوں کو انصاف دے سکتا ہے۔
آج آپ لوگوں کا ہر قدم، ہر لمحہ تاریخ کا ایک ایسا حصہ ہیں جنہیں کوئی مٹا نہیں سکتا۔ آج ہمارا جو وقت ہے اسے ہمیں ایسی ہی چیزوں کیلئے استعمال کرنا چاہیے کہ ظلم، زیادتی، یہ چیزیں آزادی کے ساتھ خلط ملط نہ ہوں۔ آزادی انصاف کے ساتھ ہونی چاہیے۔ آزادی ہمیں نا انصافی کے ساتھ پسند نہیں ہے۔ ہم آزادی بھی لیں گے اور اس کے ساتھ انصاف بھی۔ تب جاکے آزادی خوبصورت ہوگی اور اس کے ثمرات و فوائد ہمارے پورے سماج اور قوم کو ملیں گی۔ اور تب ہم خود کو دنیا میں ایک بہتر سماج یا قوم کہلا سکیں گے۔ اوراگر ہم انصاف یا منصفی کے پیمانے کو نہ سمجھیں توہم نقصان کی جانب جائینگے۔ اگر انصاف کے حصول اور منصفی کو ہم جان لیں، چونکہ ہمارا راستہ سیدھا ہے، تو ہماری پوری قوم اس کا فائدہ اٹھا سکے گی اور اس کی حاصلات کو اپنی آنے والے نسلوں کیلئے بھی استعمال کرسکے گی۔ اور ہماری یہ جدوجہد ایک مشعل راہ بن جائے۔
جس رستے پر ہم چل رہے ہیں اس میں کیا ہے؟ قدم قدم پرموت ہے اور وہ کسی بھی طرف سے آسکتی ہے، اوپر سے، نیچے سے، آگے پیچھے، مشرق مغرب، ہر سمت سے۔ آپ ایسا محسوس کرتے ہیں کہ میں اور موت ہمسفر ہیں یا وہ میری طرف آرہی ہے۔ جب آپ ان چیزوں کو اپنے ذہن میں لاتے ہیں کہ میری روح کیونکر بے چین ہے؟ مطلب یہ کہ میں ہر قدم پر موت کو دیکھ رہا ہوں لیکن اسکے باوجود میری روح مجھے سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ یعنی کچھ لوگ یہی چاہتے ہیں کہ میں ایک بہترین گھر میں رہوں اور آرام دہ زندگی گزاروں اور اپنی زندگی کو اپنے ڈھنگ سے گزاروں۔ لیکن ہم جو آج یہاں بیٹھے ہیں ان لوگوں سے بالکل مختلف ہیں۔ ہر پل ہرلمحہ ہم موت کا سامنا کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری روحوں کو یہاں تسکین حاصل ہے۔ لیکن ایسی ہی بیٹھے رہنے سے ہماری روحیں کیوں بیقرار ہوجاتی ہیں۔ وہاں ضرور کسی نہ کسی چیز کی کمی ہے۔وہ ہے انصاف کی کمی۔
اپنے شہدا ء سے انصاف کرنا۔اپنی جدوجہد سے انصاف کرنا۔ آج کے اس دور سے انصاف کرنا۔ اور اپنے لئے انصاف حاصل کرنے کی خاطر ہمارے شعور و احساس کا پیمانہ کیا ہونا چاہیے؟ اس بارے میں ہمیں سوچنا چاہیے۔ جسے ہم اپنے لئے انصاف سمجھتے ہیں دوسروں کیلئے اسے کیا سمجھتے ہیں، آزادی کے ساتھ ساتھ؟ آزادی انصاف کے بغیر نامکمل شے ہے۔ نہ صرف نامکمل بلکہ بعض اوقات انسان یہی سمجھتا ہے کہ انصاف کے بغیر آزادی غیر ضروری شے ہے۔ اگر آزادی کا مطلب یہ ہو کہ ظلم، زیادتی اورقتل و غارت گری برقرار رہے تو یہ ایک اضافی اور منفی شے ہے۔ آزادی اگرانصاف کے ساتھ ہو تو اسکے معاشرے اور قومی زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہونگے۔ تب جاکر آپ اپنی قوم، زندگی، زبان، شناخت وثقافت، اپنے وجود اور آنے والی نسلوں سے انصاف کر سکتے ہیں۔
آج ہم جو مسافت طے کر رہے ہیں ہمارے ذہنوں میں کامل انصاف کیلئے ایک نقشہ ہونا چاہیے۔ اگرچہ ہم نہ رہیں لیکن نقشہ ہونا چاہیے۔ اس طرح کی ہماری مجالس میں بہت سارے ایسے دوست ابھی نہیں ہیں جو شہید ہوچکے ہیں۔ کئی بار تو ایسا ہوتا کہ ایک وقت میں ہم دس، بیس، تیس، چالیس یا پچاس دوست اکھٹے بیٹھتے تھے، ان دوستوں میں سے آج بہت کم زندہ بچے ہیں۔ آج ہم جو قربانی دے رہے ہیں، وہاں پر بھی ہم یہی بات کیا کرتے تھے کہ ہمارے بعد جو لوگ آئیں گے ان کا ایک ایسا مقصد ہونا چاہیے اور ان کی منزل کے حصول میں وہ انصاف کی فہم رکھتے ہوں۔ ہمارے بعد جو لوگ اس سفر میں اور آزادی کی جدو جہد میں شامل ہونگے انہیں یہ جانکاری ہونی چاہیے کہ انصاف کیا ہے؟ آزادی کے فوائد کیا ہیں؟ وہ آزادی کی خوبیوں کو انصاف کے ساتھ جان لیں۔

– See more at: http://dailysangar.com/home/page/2099.html#sthash.rhV0zROg.dpuf

یہ بھی پڑھیں

فیچرز