جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ سیاست کے پست معیار تحریر: نود بندگ بلوچ

بلوچ سیاست کے پست معیار تحریر: نود بندگ بلوچ

ہر سماج صحیح اور غلط کا تعین اپنے مخصوص قوانین ، نظام ، روایات اور اقدار کے مطابق کرتا ہے ، انہی کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی عمل کے صحیح یا غلط کافیصلہ ہوتا ہے لیکن جب بات انقلابی سیاست کی آجائے تو یہ وہ عمل ہے جو ان موجود روایات ، قوانین اور نظام کو ختم کرکے معاشرے کی تشکیل نو کا بِیڑہ اٹھاتا ہے اس لئے وہ کسی بھی عمل کے جانچ کے ان روایتی پیمانوں سے آزاد ہوتا ہے اور یہی آزادی ہی وہ فیصلہ کن نقطہ ہے جہاں ایک انقلابی اور انقلاب کے معیار کا تعین ہوتا ہے کہ آیا وہ اس لائق ہے کہ معاشرے کی تشکیل نو کرسکے کیونکہ روایتی پیمانوں سے آزاد ہونے کے بعد ایک انقلابی شخص یا تنظیم باہر سے پابند نہیں رہتا بلکہ وہ خود اپنے لئے ایک معیار بناتا ہے ، وہ خود اپنے لیئے حدیں کھینچتا ہے ، وہ خود اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے اور خود کو خود ہی پابند کرتا ہے اور یہی ازخود کھینچے ہوئے لکیریں ہی اسکے کردار کا تعین کرتے ہیں اور یہ اسکا کردار ہوتا ہے جو لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کا سبب بنتا ہے ،کسی بھی تحریک کی عوامی حمایت اور کسی حد تک حتمی کامیابی بھی اسی کردار اور عمل سے وابسطہ ہوتا ہے وگرنہ یوٹوپیائی خیالات ، خوبصورت کتابی باتیں ، مثالی نظریات تو کوئی بھی پیش کرسکتا ہے۔ بلوچ قومی تحریک کو کچھ یار دوست انقلابی تحریک کہنے سے کتراتے ہیں معلوم نہیں انکے دلائل کتنے بھاری ہونگے لیکن جب میں نئے آزاد اور خوشحال بلوچ سماج اور اسکے خدوخال کے بارے میں سوچتا ہوں یا سنتا ہوں تو وہ کم از کم موجودہ یا قدیم بلوچ معاشروں سے یکسر مختلف اور نیا ہے اس لیئے میں اپنے لیئے انقلاب کی تشریح ان الفاظوں میں آسان کرکے کہ \” پرانے کو ختم کرکے نیااور بہتر لانا \” بلوچ قومی تحریک کو انقلابی تحریک ہی کہوں گا۔ انقلابی تحریک کہنے کے ساتھ ہی ایک بار اپنے بلوچ سیاست کو صحیح اور غلط کے تمام پیمانہ جات سے آزاد کرکے سوچیں یعنی قتل ، چوری ، ڈاکہ ، زنا ، جھوٹ ، گالی ، دھوکہ ، منافقت ، بے ایمانی وغیرہ غلط نہیں اور سچ ، ایمانداری ، مخلصی ، وفا ، خدمت ، محبت وغیرہ صحیح نہیں بلکہ نا کوئی چیز صحیح ہے اور نا ہی کچھ غلط اور ایک بار آزاد ہونے کے بعد خود اجتماعی یا انفرادی سطح پر حدود کا تعین کرنا شروع کریں ان میں سے کونسی چیز غلط ہے ، کب غلط ہے ، کس صورتحال میں غلط ہے ، کس حد تک غلط ہے، کس کیلئے غلط ہے اور کب تک غلط ہے اور اسی طرح صحیح کے پیمانہ جات مقرر کرتے جائیں ، یہ یقیناً ایک ٹیبل پر بیٹھ کر چند گھنٹوں کے میٹنگ کے دوران طے ہونے والے اقدار نہیں بلکہ مسلسل عمل اور رویے ہی انکا تعین کرتے ہیں اور جب بالآخر آپ کے پاس ایک معیار آجائے وہی آپ ہو اور وہی آپکی اصلیت ہے اور وہی آپکا نیا معاشرہ ہوگا۔ چلو جلد بازی نہیں کرتے ہیں اور بلوچ قومی انقلابی سیاست کو اس سطح پر فرض کرتے ہیں جہاں پیمانے ابتک مقرر ہورہے ہیں اور ہر عمل کو کسی بھی روایتی پیمانے سے باہر نکل کرسوچتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے ہر عمل کو پیمانہ سازی کا عمل گردانتے ہیں پھر ہم سمجھ پائیں گے کہ ہم خود کو کتنا پابند اور ذمہ دار کررہے ہیں اور ہمارا معیار کیا ہے۔ اس حد تک پہنچنے کے بعد پھر اس معیار کو بھی ماضی یا حال کے کسی پیمانے پر جانچنے کے بجائے پرکھ کا معیار اس کے افادیت اور عدم افادیت اور اپنے مقصد کے تقاضوں سے ہم آہنگی بنائیں تو نتیجہ اخذ کرنے کا عمل تھوڑا گراں لیکن حقیقی اور سائنسی ہوگا۔کلی طور پر معاشرہ چھوڑیں صرف بلوچ معاشرے کے انقلابی سیاست کے تمام جہتوں پر بات کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن جو عوامل ہمارے معمول بن چکے ہیں اور تواتر کے ساتھ دہرائے جارہے ہیں ان پر ذرا غور ہوسکتا ہے یعنی سیاسی تنقید اور مباحثوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو گالی دیکر ، انہیں کسی کا ایجنٹ ظاہر کرکے اور بے بنیاد الزامات لگاکر ان کے دلائل ، تنقید اور اٹھائے ہوئے نقاط کا اثر ضائع کرنے کی کوشش کرنا ایک معیار بنتا جارہا ہے یہاں ایک لمحے کیلئے گالی ، جھوٹے الزامات اور فتوے بازی کو پرانے اخذ شدہ خیالات اور پیمانہ جات پر پرکھے بغیر انکی افادیت اور عدم افادیت پر غور کریں کہ کیا یہ واقعی صحیح ہیں کہ انہیں ہم اپنا معیار بنائیں ؟ کوئی عمل ہمیں صرف یہ بتاتا ہے کہ \” کیا ہوا \” اس پر تنقید اور سوال اٹھانا ہمیں بتاتا ہے کہ \” کیا ہونا چاہئے \” پھر کیا ہوا اور کیا ہونا چاہئے کے بیچ کا فاصلہ جسے تنقید نے ظاہر کیا تھا بہتری اور ترقی کا راستہ ہے جس پر چل کر آپ وہ پاتیہیں جو ہونا چاہئے اور جب سیاست میں آپ وہ کرتے ہیں جو آپ کو کرنا چاہئے تب ہی آپ کامیاب ہوتے ہیں اور منزل کو پاتے ہیں ، اسکا مطلب تنقید تو ترقی ہے ، پھر تنقید یا \” کیا ہونا چاہئے \” کے بعد دو ہی صورتیں سامنے آتی ہیں اگر وہ غلط ہے تو آپ جواب میں دلائل دیتے ہیں کہ نہیں جو ہوا اصل میں وہی ہونا چاہئے تھا اور اگر وہ صحیح ہے تو آپ اسے اپناتے ہیں اول الذکر راستے میں جو تنقید کررہا ہے اسکا اصلاح اور ترقی ہے اور آخرالذکر راستے میں جس پر تنقید ہورہا ہے اس کا اصلاح و ترقی ہے یعنی اس دو دھاری تلوار کے دونوں دھاروں سے غلط ہی کٹتا ہے ، اسکا مطلب تنقید غلط ہو یا صحیح ، جائز ہو یا ناجائز ، سمجھ پر مبنی ہو یا ضد پر اس پر غور کرنا اور اپنی اصلاح یا سامنے والے کی ا صلاح کرنا صرف ترقی اور بہتری کا راستہ ہے یعنی تنقید ہر صورت میں صحیح اور مجموعی قومی مفادات کیلئے بہتر ہے لیکن ساتھ میں اسکا واحد نقصان صرف ان اشخاص کو ہے جنہوں نے غلط فیصلے لیئے ، غلط عمل کیئے یا پھر غلط تنقید کی یعنی اسکا نقصان بھی غلط کو ہے اور ایک بار پھر دیکھیں تو غلط کے نقصان کو بھی فائدہ ہی کہا جائے گا۔ اب اسکی دوسری صورت پر ذرا غور کریں کہ \” کیا ہوا یا ہورہا ہے \” اور \” کیا ہونا چاہئے \” کے فرق کو ظاہر کرنے والی تنقید کا جواب آپ غصہ ، گالم گلوچ ، فتوے بازی ، جھوٹے الزامات سے دیں تو اسکا مطلب ہے آپ اس فرق اور ان کے بیچ کے اس فاصلے کو تسلیم نہیں کرتے جو بہتری اور ترقی کا راستہ ہے یعنی آپ بہتری کو مسترد کررہے ہیں اگر وہ تنقید غلط بھی ہے تو آپ یہ بھی ثابت نہیں کررہے کہ جو ہوا وہ صحیح تھا یعنی سامنے والے کے بھی اصلاح اور بہتری کو آپ مسترد کررہے ہو۔ دونوں جانب سے ترقی کا عمل رک رہا ہے اور جمود پیدا ہورہا ہے ، دونوں جانب سے جو بھی غلط ہے اس کی وضاحت اور تشریح نہیں ہورہا ہے جس سے غلط تقویت پارہا ہے اور غلط کی یہ تقویت یقیناً مجموعی قومی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہے اور جو عمل قومی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہو تو اسے ہم مفید بھی نہیں کہہ سکتے مطلب گالم گلوچ ، فتوے بازی ، جھوٹے الزامات کو اگر ہم پرانے معاشرتی و سیاسی پیمانہ جات سے آزاد ہوکر بھی جانچیں تو انہیں ہم مفید نہیں کہہ سکتے لیکن پھر بھی یہ طریق مشق پاکر ہمارا معیار بنتا جارہا ہے ، اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہم اصل میں یہی ہیں اور جو معاشرہ ہم تشکیل دینے جارہے ہیں اسکا بنیاد یہی ہوگا۔ اب ذاتی طور پر مجھے اس معیار سے اختلاف ہے میں کسی بھی طرح خود کو ان سے الگ ثابت کرنا چاہوں گا، قوم اور دنیا کو بتانا چاہوں گا کہ میں ان سے مختلف ہوں۔ ہوسکتا ہے میرا نتیجہ غلط ہو لیکن یہ محض ہمارے سیاست کا ایک جز ہے اب بلوچ سیاست کے باقی اجزاء پر غور کریں اور اپنے کھنچے ہوئے حدبندیوں کا تخمینہ لگائیں اور جو معیار بنتے جارہے ہیں انکو پرکھیں شاید بات واضح ہوسکے۔ ایک مقصد کے انقلابی لیڈرشپ کا ایک دوسرے کے تعلقات کا معیار دھوکہ، مسلح تنظیموں کا سیاسی جماعتوں سے تعلقات کا معیار ان پر قبضہ کرنے کیلئے بھاگ دوڑ ،عوام سے ہمارے رابطے کا معیار جھوٹے اخباری بیانات ، حاصل شدہ طاقت کے استعمال کا معیار اپنے لوگوں پر استعمال کرنا، سیاسی مخالفوں سے رویوں کا معیار دشمنی ،احتساب کا معیار تنظیموں کی تقسیم در تقسیم ، اسی طرح بلوچ سیاست کے تمام وظائف پر غور کریں اور اسکے معیار کا جانچ کریں پھر سوچیں کے جو ہم بنتے جارہے ہیں کیا ہمیں واقعی اسطرح بننا چاہئے اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جو ہم بنتے جارہے ہیں کیا اس میں کامیابی مل سکتی ہے۔
ایک دو اور مثالیں دینا چاہوں گا ، بی ایل ایف اور بی ایل ایف کے قائد ڈاکٹر اللہ نظر اپنے بیانات میں سنگت حیربیار کو تحریک کیلئے نقصان دہ یعنی دبے الفاظ میں بین السطور غدار کہہ رہے ہیں اور اسی طرح خان قلات کو تو کھلے بندوں غدار کہہ رہا ہے ، اب مذکورہ اشخاص کے کردار کا آپ غیرجانبداری سے جائزہ لیں کہ انکا کونسا عمل انہیں غدار بنارہا ہے ، کیا سنگت حیربیار نے بنگان بگٹی کی طرح ہتھیار ڈال دیا ہے ؟ نہیں ، کیا وہ رازق اور جالب کی طرح قابض کے کیمپ کا چناو کرچکا ہے ؟ بالکل نہیں ، کیا انہوں نے قوم کی سودے بازی کی ہے ؟ ہرگز نہیں ، پھر کیوں غدار ہے ؟ صرف اسلئے کہ وہ سیاسی اور نظریاتی طور پر کچھ اصولی اختلافات رکھتے ہیں جنکی نوعیت بھی کلی طور پر سیاسی ہے ، اب اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی ایل ایف کا غدار قرار دینے کیلئے معیار سیاسی مخالفت ہے ، اس معیار کو سمجھنے کے بعد اس بات پر تعجب بھی نہیں ہوتی کہ مکران میں بی ایل ایف کے ہاتھوں اتنے متنازعہ قتل کیوں ہوئے اور وہ قتل بی ایل ایف کی نظر میں جائز اور ہماری نظر میں ناجائز کیوں ہیں ظاہر ہے بی ایل اے نے غداری کا معیار کچھ اور رکھا ہے جس پر مکران میں قتل ہوئے کئی اشخاص پورا نہیں اترتے۔ پچھلے دنوں ایک دوست سے بات ہورہی تھی تو وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ کاش بی آر پی کا چارٹر کو مسترد کرنے اور سنگت حیربیار سے اختلاف رکھنے کی وجہ مکمل نظریاتی ہوتا کیونکہ مسئلہ یہاں صرف خاندانی اور ذاتی ہے ، براہمداغ اور خان قلات کے آپس میں خاندانی رنجشیں ہیں اور براہمداغ چاہتے ہیں کہ خان قلات کا کسی طور سنگت حیربیار سے قربت ناہو اور سنگت حیربیار خاندانی رنجشوں کو تحریک میں فیصلوں کی بنیاد بنانے کے خلاف ہیں پھر اسی کو لیکر چارٹر مسترد ہوجاتاہے ، اب یہ بھی ایک معیار ہے کہ اپنے خاندانی مسئلوں کے بنیاد پر قوم اتحاد توڑے جاسکتے ہیں اور خاندانی رشتوں کے بنیاد پر نئے اتحاد بنائے جاتے ہیں۔ اب ان معیاروں کو روایتی طور پر مسترد کیئے بغیر صرف افادیت ، عدم افادیت اور قومی مقصد کے تقاضوں سے ہم آہنگی کے بنیاد پر جانچیں پھر یہ صحیح اور غلط کے پیمانے پر کہاں آئیں گے؟۔
حال ہی میں وقوع پذیر کچھ اور واقعات پر غور کرنے سے ہم مزید سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت ہم قوم اور ایک نئے معاشرے کے تشکیل کیلئے صحیح اور غلط کے کیا معیار بنارہے ہیں ، غنی نامی شخص کو سنگت شبیر بلوچ اور بیبگر بلوچ سے بات کرایا جاتا ہے اور کچھ دوست کہتے ہیں کہ دھمکی اور کچھ کہتے ہیں کہ لالچ دیکر اسے اس بات پر قائل کیا جاتا ہے کہ وہ مذکورہ دوستوں کی باتیں ریکارڈ کرکے پہنچائے یعنی دشمن کے طرز پر اندر مخبر بھیجنا اور اندر بھیجنے کا مقصد بھی ایسا نہیں کہ اس سے کوئی قومی مفاد حاصل ہو بلکہ مقصد یہ تھی کہ کسی نا کسی طرح ان دوستوں سے کوئی ایسی بات اگلوائی جائے جس سے انہیں بدنام کیا جاسکے ، اب جو کچھ سوشل میڈیا میں ریکارڈنگ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ان کو سن کر تو ایسا لگتا ہے کہ شبیر بلوچ اور بیبگر بلوچ وہی باتیں پیچھے بھی کررہے ہیں جو انہوں نے ہمیشہ اپنے تحریروں میں اور دوستوں کے سامنے کی ہے ، یعنی ایک شخص اندر صرف باتیں حاصل کرنے کیلئے آتا ہے اور اسے باتیں بھی ایسی ملتی ہیں جو مجموعی موقف سے قطعاً مختلف نہیں ، جو باتیں سوشل
میڈیا پر شائع ہوئیں وہ سب ایڈیٹنگ کے بعد ایسے جملے ہیں، جو انکی نظر میں متنازعہ ہوسکتے تھے ، مطلب انکی نظر میں جو حد سے زیادہ متنازعہ باتیں ہیں وہی سامنے لائے گئے اور وہ باتیں بھی ایسی تھی کہ ان پر نا ان دوستوں کو پریشان ہونے کی ضرورت پڑی اور نا ہی کسی وضاحت کی کیونکہ وہ تمام باتیں انکے موقف کا بھی حصہ ہیں جن کا وہ کھلے بندوں اظہار اور اقرار کرتے ہیں۔ مثلاً سنگت شبیر مکران میں بی ایل ایف کی غنڈہ گردی اور رد انقلابی حرکات پر بات کررہے ہیں یہ باتیں تو وہ اپنے آرٹیکل میں بھی کرتے ہیں اور سنگت اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ سنگت حیربیار کہتے ہیں کہ جو بھی فیصلہ آپ دوست کریں مجھے قبول ہے ، یہ موقف تو ظاہر کرتا ہے کہ سنگت جمہوریت پسند لیڈر ہے ، ایک طرف ہمارے سامنے وہ لیڈر ہیں جو جمہوری ادارے تشکیل دینے کے بعد بھی وہاں سے غیر سیاسی طور پر اپنے من پسند فیصلے قبول کرواتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے سامنے سنگت حیربیار ہیں جو روایتی جمہوری اداروں کے بغیر ہی تمام فیصلے جمہوریت کے حقیقی روح کے مطابق کرتے ہیں ، اسی طرح سنگت بیبگر کہتے ہیں کہ انہیں اور فیض محمد کو سلام صابر کے طریقہ کار سے اختلاف ہے ، اب یار لوگ شاید یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ تو بہت بڑی بات ہوگئی ان کے بیچ میں اختلافات ہیں وغیرہ لیکن انہیں شاید یہ علم نہیں کہ اس طریقہ کار پر نا صرف سنگت بیبگر اور سنگت فیض اختلاف رکھتے تھے بلکہ سنگت شبیر بھی کچھ تحفظات رکھتے تھے اور یہ باتیں وہ سلام صابر کو سامنے بھی کہتے تھے اور ان اختلافی نقاط پر کوئی ہلڑ بازی نہیں ہوئی بلکہ سیاسی طریقہ سے نشست ہوئے اور تمام باتوں پر کئی کئی دن بحث و مباحثہ ہوا اور اس مباحثے میں \” قائل کرو یا قائل ہوجاو \” کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے دوست ایک دوسرے کو دلائل سے قائل کرنے اور ہونے میں کامیاب ہوئے ، اب جو شخص سیاسی اختلاف پر دشمن اور غدار سمجھتا ہو وہ شخص اس بات کو سمجھ نہیں سکتا کہ دو اچھے فکری دوست بھی آپس میں مختلف نقطہ نظر رکھنے کی وجہ سے اختلاف رکھ سکتے ہیں اور ساتھ میں کام بھی کرسکتے ہیں اور اس اختلاف سے ان کی ذاتی دوستی یا تعلق بھی متاثر نہیں ہوتا ، لیکن ہمارے کچھ سیاسی گروہ تو سیاسی اختلاف کا حل صرف قتل سمجھتے ہیں جن میں سے ایک بی ایل ایف ہے اور یہ ریکارڈنگ بی ایل ایف کے دوستوں ہی نے کی تھی اسلئے وہ اس اختلاف کو اپنے معیار کے مطابق پرکھ کر پتہ نہیں کیا سمجھ بیٹھے ، خیر یہ باتیں الگ میں صرف اس عمل پر آپکی توجہ چاہوں گا کہ ڈاکٹر اللہ نظر جیسا لیڈر غنی کو ذاتی طور پر دھمکی یا لالچ دیکر ، اس سے باتیں ریکارڈ کرواکر اور ان باتوں کی تشہیر کرواتے ہوئے ایک بار بھی نہیں جھجھکے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عمل ان کے کسوٹی پر صحیح کے زمرے میں آتا ہے اب میں ڈاکٹر صاحب کے اس معیار یا اس حد بندی کو روایتی پیمانوں پر جانچے بغیر آپ سے پو چھنا چاہتا ہوں کہ کیا آزادی پسندوں کے بیچ یہ عمل درست ہے یا کیا یہ ایسا معیار ہے کہ جس پر ہم بلوچ معاشرے کی تشکیل نو کرسکیں ؟۔
اسی معیار پر مجھ سے ایک دوست نے پوچھا کہ جب خان قلات اچکزئی سے ملتا ہے تو آپ لوگ کچھ نہیں بولتے لیکن جب ڈاکٹر اللہ نظر اختر مینگل سے مبینہ طور پر ملتا اور یقینی طور پر فون پر بات کرتا ہے تو آپ تنقید کرتے ہیں ، آپ لوگوں کا معیار کیا ہے ؟ یقیناً سوال واجب ہے لیکن یہاں ڈاکٹر اللہ نظر پر ہونے والی تنقید کو کلی طور پر سمجھنا بھی ضروری ہے ، سیاست میں کسی سے ملنا کوئی بھی مسئلہ نہیں ، جرمن اور اتحادی آپس میں لڑرہے تھے لیکن دوسری طرف انکے میٹنگ چل رہے تھے ، تامل اور سنہالیوں کی جنگ جاری تھی لیکن جنیوا میں وہ ملاقات بھی کرتے تھے ، جاپان کا پرل ہاربر پر حملے کے وقت تک انکا اور امریکہ کا اعلیٰ سطحی اجلاس چل رہا تھا، بات یہ نہیں کہ آپ کسی سے مل نہیں سکتے یا بات نہیں
کرسکتے بات یہ ہے کہ آپکے ملنے کا ایجنڈا اور مقصد کیا ہے اور آپ ملاقات میں کیا موقف پیش کررہے ہیں ، کس چیز پر بات کررہے ہیں ، اگر ڈاکٹر اللہ نظر کے ملاقات پر سوال اٹھایا جاتا ہے تو وہ اسلئے کیونکہ انکے اور اختر کے ملاقاتوں اور رابطوں کا مطمع نظر اختر مینگل کو تحریک میں چور دروازے سے داخل کرنے کے ساتھ ساتھ اختر مینگل کو پارلیمنٹ میں جانے کا گرین سگنل دینا ہوتا ہے جو انہیں مل بھی جاتی ہے ، تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ ایجنڈا قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے قابلِ قبول ہے ؟ اور دوسری طرف جب حیربیار کے دوست اخترمینگل سے ملاقات کرتے ہیں تو اس ملاقات کا ایجنڈہ چارٹر کے توسط سے اخترمینگل کو تحریکِ آزادی میں شمولیت کی دعوت دینا ہوتا ہے اسی طرح سنگت حیربیار جب رحمان ملک سے ملاقات کرتے ہیں تو ایجنڈا جان سلویکی ہوتا ہے جس میں رحمان ملک ان سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں جسے سنگت مسترد کرتا ہے ، اس ملاقات کا مطلب کیا ہوا کہ پاکستان مجبور ہوکربلوچ کو ایک جدا اسٹیک ہولڈر تسلیم کررہا ہے، اگر کسی ملاقات سے بلوچ ایک الگ اسٹیک ہولڈر کی حیثیت حاصل کرتا ہے تو پھر آپ ایسے ملاقات کو قومی مفاد کے خلاف کہیں گے یا ہم آہنگ؟ اسی طرح سنگت حیربیار نے اپنے ملاقات کو چھپانے کے بجائے کھلے عام میڈیا میں اظہار کردیا اور ڈاکٹر آج تک ماننے سے انکاری ہیں ، اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کس کے ملاقات کی نوعیت ایسی ہے جو اس کے بارے میں نہیں چاہتا کہ قوم کے سامنے آجائے، سلیمان داود بھی کوئی چھپ کر ملاقات نہیں کررہا سب کے سامنے ملاقات کررہا ہے اور ملاقات کے تصاویر میڈیا میں آتے ہیں ، اب تک یہ معلوم ہونا باقی ہے کہ اس ملاقات کا مقصد اور ایجنڈا کیا ہے ، اب ہوسکتا ہے اسے مراعات پیش کی گئی ہوں اور سلیمان داود بِک گیا ہو اور واپس چلا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خان اسکے مراعات کو مسترد کردے ، اب ان دونوں قیاسات پر آپ غور کریں کے ایک میں بِک جانا ہے یعنی غداری اور دوسرے میں مراعات ٹھکرانا ہے یعنی انقلابی پن ، اب ان دونوں نتائج غداری اور انقلابی پن میں کتنا بڑا فرق ہے ، تو کیوں ہم جلد بازی کریں پتہ نہیں وہ بِک گیا ہے اور ہم اسکا دفاع کرکے اسے ہیرو بنانے کی کوشش کریں اور پتہ نہیں اس نے مراعات ٹھکرا دی ہیں اور ایک انقلابی کا کردار ادا کیا ہے اور ہم اسے مفت میں غدار کہیں ، تو میری نظر میں جلد بازی کے بجائے اس ملاقات کے نتیجے کو دیکھیں تو بہتر ہوگا جس طرح اختر مینگل اور اللہ نظر کے ملاقات کے نتیجے نے اختر کا پارلیمنٹ میں راستہ کھول دیا اور اس لیئے ان پر تنقید ہوتی ہے اور اگر خان کے ملاقات کا نتیجہ کچھ اس طرح نکلا یا اسی طرح کا گمان گذرا تو سب سے پہلے ہم اس پر تنقید کریں گے بہر حال صرف ملاقات یا ملنے کو کم از کم میں سیاست میں شجر ممنوعہ نہیں سمجھتا لیکن اسی مخصوص مذاکرات کے مسئلے پر یار لوگوں کا موقف کچھ اور ہی ہے اور اس پر غور کریں تو انکا ایک اور سیاسی معیار سامنے آجاتا ہے ، یعنی ڈاکٹر اللہ نظر کھلے عام کہتے ہیں کہ اختر مینگل سے ملاقات کروں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن ان کے کارکن اسی عمل پر خان قلات پر تنقید کرتے ہیں اب وہ تنقید کیوں کررہے ہیں ، کیا تنقید صرف ملاقات کرنے پر ہے ؟ تو پھر اس جرم کا ارتکاب ڈاکٹر صاحب خود کررہے ہیں ، کیا تنقید ملاقات کے ایجنڈے یا نتیجے پر ہے تو پھر اختر والے ملاقات کا نتیجہ پارلیمنٹ کے صورت میں برآمد ہوگیا لیکن ابھی تک خان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ، اصل بات یہ ہے کہ یہاں معیار یہ بنا ہے کہ جب تک ایک چیز میں کروں وہ صحیح ہے اور کوئی دوسرا کرے تو غلط۔ خیر اس بات کو بھی چھوڑیں خان قلات کے ملاقات کو بھی یار لوگ سنگت حیربیار سے جوڑ رہے ہیں ، پہلے قیاسات پر سلیمان داود کے ملاقات کا نتیجہ غداری اخذ کرکے اسے سنگت سے جوڑ کر ایک بار پھر سنگت کو دبے الفاظ میں
غدار اور نقصاندہ قرار دینے کی کوشش ، میں یہی سوچ رہا ہوں کہ مثال کے طور پر خان قلات واپس چلا بھی جائے تو اس میں سنگت حیربیار کیسے مورد الزام ٹہر سکتے ہیں یہ عوامی تحریک ہے اس میں کوئی بھی آسکتا ہے کسی کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا اسی طرح کسی کو جانے سے بھی کوئی روک نہیں سکتا جب ساتھ ہیں تو ساتھ کام کرنے کی نوعیت آتی ہے تو ساتھ کام بھی کیا جاتا ہے ، خیر فرض کرتے ہیں کہ کل کو اگر خان قلات واپس چلا جاتا ہے اور آپ اس پر سنگت حیربیار کو اسکے کردار کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں تو کیا پھر ڈاکٹر اللہ نظر بی ایل ایف سے جانے والے مقبول شمبے زئی اور راشد پٹھان کے کردار کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہونگے ؟ یا پھر خان قلات واپس نہیں جاتے اور کل کو تحریک کے بابت ایک بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو کیا پھر اس کامیابی کا سہرا سنگت حیربیار کے سر پر سجے گا ؟ نہیں ہر کوئی اپنے کردار کا جوابدہ ہے ، یہ پھر بھی قیاسات ہیں اور ان قیاسات پر باتیں ہیں حقائق کیا ہیں شاید جلد سامنے بھی آجائیں لیکن یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہاں اس مسئلے کو اچھالنے کا مقصد صرف ہوئے تنقید پر سے توجہ ہٹانا اور سچ و جھوٹ کو باہم اسطرح مدغم کرنا کہ انکے مابین تمیز کرنا مشکل ہوجائے ، یعنی اپنے کسی خطا پر تنقید کے ردعمل کا معیار ہمارا یہ ہے کہ اصلاح اور جوابدہی کے بجائے الزام تراشی اور دروغ گوئی کو اپنا ڈھال بناکر بضد رہنا کہ ہمارے غلط کو صحیح کہہ کر پکارو وگرنہ تم بھی غلط ہو ، اب یہ معیار ہمارے معاشرے کے تشکیل نو کیلئے کیسی ہے اس کی بھی افادیت اور عدم افادیت جانچ کر آپ خود اندازہ لگالیں۔
بحث مختصر یہ کہ آج بلوچ سیاست جس کے کندھوں پر ایک قوم کو آزاد کرنے اور ایک نئے معاشرے کی تشکیل کی بھاری ذمہ داری ہے ، وہ بلوچ انقلابی سیاست جس نے صحیح اور غلط کے روایتی معیارات کو مسترد کیا ہے ، اسکا اپنے لیئے حدو بند تفویض کرنے ، خود کو پابند کرنے ، ذمہ داری اٹھانے اور صحیح و غلط کے پیمانے تشکیل دینے کا معیار کیا ہے اور کیا بن رہا ہے ؟ کیا یہ بنتے معیار ایک آزاد اور روشن خیال معاشرہ تشکیل دینے کی سکت رکھتے ہیں ؟آج یہاں صرف سیاسی اختلاف پر گالم گلوچ ، الزام تراشی ، غداری کے تمغے ، ایجنٹ کاری ، دروغ گوئی وغیرہ غلط تصور ہی نہیں کیئے جاتے ، اب اسی معیار کو آزادی حاصل کرنے اور طاقت حاصل کرنے کے بعد اہل اقتدار کا معیار بنا کر دیکھیں تو یہی لوگ کیا محض سیاسی اختلاف پر لوگوں کو روڈوں پر زندہ نہیں جلائیں گے؟ ، اگر ان معیارات کو انسان کے تہذیبی تسلسل کے تناظر میں دیکھیں تو پھر اسے پستی کے سوا کچھ نہیں کہا جائے گا ، آج یہی وجہ ہے کہ بہت سے سیاسی کارکنان ان معیارات کو مسترد کرتے ہیں اور آپکے معیار کے صحیح اور غلط کو نا مانتے ہوئے ہر عمل اور چیز کی ازسر نو تشریح کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کہ ہم جو معیار تشکیل دینے میں کامیاب ہوتے ہیں اصل میں ہم وہی ہوتے ہیں باقی سب باتیں ہیں اب ان معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں کہنا چاہوں گا کہ میں ایسا نہیں بننا چاہوں گا اس لیئے میں آخر تک ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ میں اور میرے فکری دوست آپ سے الگ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز