سه‌شنبه, آوریل 23, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ طلباءپر ریاستی دہشت گردی ، تحریر. الیاس کشمیری

بلوچ طلباءپر ریاستی دہشت گردی ، تحریر. الیاس کشمیری

گزشتہ کۂی دنوں سے قائداعظم یونیورسٹی کے طلباء اپنے جاہز حقوق اور مطالبات کے لیے پر امن احتجاج کر رہے ہیں گزشتہ سال بلوچ اور سندھی طلباء کے درمیان کسی وجہ سے تصادم ہو گیا تھااور پھر یہ معاملہ حل ہو گیا تھا تصادم سے پہلے بلوچ طلباء اور دیگر طلباء تنظیموں نے ایڈمنسٹریشن کو یہ بتا دیا تھا کہ طلباء کو اکٹھا نہ ہونے دیں اس صورت میں تصادم ہو سکتا ہے لیکن ایڈمن نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جسکے نتیجے میں تصادم ہوااب کئی بلوچ اور سندھی طلباء کو یونیورسٹی سے نکالا جا رہا ہےکچھ طلباء کے آخری سمسڑر چل رہے ہیں اس وجہ سے یونیورسٹی کے طلباء نے پر امن احتجاج شروع کیااس احتجاج میں طلباء کے گیارہ مطالبات تھےاور طلباء کی تمام یونینز اس احتجاج میں شریک تھیں بعد میں کچھ یونینز کے مطالبات منظور کر لیے گئے اور انھوں نے احتجاج ختم کر دیاکل گیارہ مطالبات میں سے ایک مطالبہ جو طلباء کی بحالی کا مطالبہ تھا اسے تسلیم نہیں کیا گیاطلباء کے اس احتجاج کا آج سولواں دن تھا.جب اسلام آباد کی پولیس اور انتظامیہ نے احتجاجی طلباء کے خلاف کریک ڈاون کرتے ہوے ستر سے زاہد طلباء کو گرفتار کر کے ان کو مختلف تھانوں میں منتقل کر دیاگرفتار کیے جانے والے طلباء میں 38طلباء کا تعلق بلوچ کونسل سے ہےیہ نہتے پر امن طلباء اپنے تعلیمی مستقبل کو بچانے کے لیے پر امن احتجاج کر رہے تھے جو ان کا جمہوری آہینی اخلاقی ہر لحاظ سے حق بنتا ہے لیکن بالادست طبقے کی ریاست محنت کشوں اور غریب طلباء کو اس جاہز حق کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور بلوچ طلباء کے ساتھ یہ نا انصافی پہلی بار یا آج سے نہیں ہے بلکہ 2010میں پنجاب کے بہاولپور اور ملتان میں ٹیکنیکل کالجیز میں زیر تعلیم بلوچ طلباء پر اس نوعیت سے کہیں بدتر حملے ہوے تھے.جس میں وہاں کی کالج انتظامیہ سمیت مذہبی انتہا پسند گروہ بھی شامل تھےاور گزشتہ ایک عرصے سے ہر چند مہینوں بعد پنجاب کے مختلف شہروں میں زیر تعلیم بلوچ طلباء پر ایسے حملے ھوتے رہے ہیں.دوسری طرف بلوچستان میں پڑھے لکھے بلوچوں کو چن چن کر مارا گیا اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں پر سیکورٹی فورسز کی چوکیاں قاہم کی گئی ہیںیہ ساری صورتحال اس حکمت عملی کی غمازی کرتی ہے کہ ریاست کے بالادست طبقات اور ریاستی اداروں نے طہہ کر رکھا ہے کے بلوچوں کو دیگر حقوق کی طرح تعلیم کے حق سے بھی محروم کرنا ہے.لیکن بلوچ قوم اب اپنے حقوق کے لیے اتنی منظم ہو چکی ہے کہ اسے کسی طرح کے جبر و تشدد سے شکست نہیں دی جا سکتی.قاہداعظم یونیورسٹی کے طلباء کا یہ احتجاج سولہ دن جاری رہا لیکن بد قسمتی سے ما سواے سوشل میڈیا پر اس احتجاج کی حمایت کرنے کے علاوہ عملآ کسی ترقی پسندکسی انقلابی طلباء تنظیم نے تنظیمی طور پر اس احتجاج کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کسی کالج یا یونیورسٹی میں کلاسیز کا باہیکاٹ نہیں کیا انتہاہی افسوس کے ساتھ کہ آج اس ہڑتال کے 16دن گزرنے اور احتجاجی طلباء پر بد ترین ریاستی دہشت گردی ہونے تک اکثریتی طلباء تنظیموں کی لیڈر شپ کو احتجاجی طلباء کے مطالبات کا مکمل ادراک و علم نہیں تھا بشمول انقلابی اور ترقی پسندی کی دعویدار تنظیموں کے.جو کہ ہم سب کے لیے بہت بڑا لمہہ فکریہ ھے.ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کشمیر،گلگت بلتستان،سندھ ِ،پختونخواہ،کراچی،پنجاب کے تعلیمی اداروں بلخصوص کالجیز اور یونیورسٹیوں میں انقلابی اور ترقی پسند طلباء تنظیموں کو اپنی بساط کے مطابق احتجاج کر کہ ریاست پر دباؤ ڈالنا چاہیے تھا کہ احتجاجی طلباء کے مطالبات کو تسلیم کیا جائےاور ساتھ میں ان تعلیمی اداروں کے طلباء کو احتجاجی طلباء کے حق میں جدوجھد کے لیے تیار کیا جاتا تو آج ریاست احتجاجی طلباء پر اس طرح کا تشدد کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوتیان احتجاجی طلباء پر اس طرح ریاستی تشدد باہیں بازو کی تمام پارٹیوں اور طلباء تنظیموں کے لیے لمہہ فکریہ ہےاس ساری صورتحال پر اپنی غفلت کا تجزیہ کرتے ہوے باہیں بازو کی تمام قوتوں کو کراچی،سندھ سے لیکر کشمیر،گلگت بلتستان تک ان طلباء کی غیر مشروط راہی اور طلباء کی بحالی کے لیے عملأ احتجاج کو منظم کرنا ہوگا.اس وقت ان نہتے طلباء کو جبر و تشدد سہنے کے لیے اکیلے چھوڑ کر صرف سوشل میڈیا پر مزمت کافی نہیں ہےان طلباء کی غیر مشروط رہاہی اور بحالی کے لیے ہر طرح کے احتجاجی عمل سے گزر کر ہی خطہ بھر کے طلباء کے اندر اس نظام کے خلاف موجود نفرت کو انقلابی رنگ اور حوصلے میں بدلہ جا سکتا ہے.ایک طرف ریاست تعلیمی اداروں کی ایڈ منسٹریشن.مزہبی انتہاپسندوں.پولیس.انتظامیہ یہاں تک کہ فوج کو بھی عملأ گزشتہ ایک عرصے سے ترقی پسند طلباء بلخصوص بلوچ طلباء کے خلاف استعمال کر رہی ہےہر طرح کا جبر و تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے.دوسری طرف باہہیں بازوں کی ترقی پسند اور انقلابی قوتیں ان طلباء کے لیے عملأ کوہی اثر چھوڑنے والا یا نتیجہ خیز احتجاج تو دور کی بات ہے لائحہ عمل تک نہیں دے سکیں.آخر کیوں……؟؟؟اس کیوں پر ہمیں سوچ کر تجزیہ کر کہ فورأ ان طلباء کے حق میں احتجاج منظم کرنا ہوگا.بلوچ طلباء اور بلوچ عوام کی منظم جدوجھد ہم سے یہی تقاضا کرتی ہے.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز