شنبه, آوریل 20, 2024
Homeخبریںبلوچ عوام پاکستان اور کاپر کمپنی (ٹی۔سی۔سی) کے معاہدے کو اہمیت نہیں...

بلوچ عوام پاکستان اور کاپر کمپنی (ٹی۔سی۔سی) کے معاہدے کو اہمیت نہیں دیتے۔بی۔این۔ایم

کوئٹہ(ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے عالمی بینک کی ٹریبونل  انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس(آئی سی ایس آئی ڈی)کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے فیصلوں کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں اور یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ بلوچ قوم کیلئے پاکستان و پاکستانی کمپنی اور ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کا ریکوڈک پر معاہدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ورلڈ بینک اور دوسرے ادارے کیا فیصلے دیتے ہیں۔ یہ وسائل بلوچ قوم کی ملکیت ہیں اور انہیں بلوچ قوم کی مرضی و منشا کے بغیر کوئی بھی قوم، ملک یا کمپنی نہیں لے جا سکتا۔ اگر کوئی زبردستی ایسا کرے تو یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس پر ذمہ دار اداروں کو ایکشن لینا چاہیے۔ ترجمان نے کہا کہ ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان ایک قابض ملک ہے اور اس نے بلوچستان میں ہزاروں سالہ تاریخ رکھنے والی بلوچ قوم کی ریاست پر بزور شمشیر قبضہ کرکے ستر سالوں میں ہزاروں بلوچوں کا خون بہا کر وسائل کی لوٹ مار کی ہے۔ ایسے عالم میں کوئی بھی کمپنی یا سرمایہ کار پاکستان کے ساتھ مل کر بلوچستان آئے گا تو وہ بلوچ نسل کشی میں پاکستان کا حصہ دار شمار ہوگا۔ ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی)بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وسائل کے بدلے بلوچ قوم کا خون بہانے میں ساتھ دینے سے اجتناب کرے۔ ترجمان نے مردم شماری پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کی جانب سے مسترد شدہ مردم شماری کو فوجی طاقت کے ذریعے پراسس کیا جا رہا ہے۔ بلوچوں کے شناختی دستاویزات کو چھین کر زبردستی اندراج پر مجبور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کئی گاؤں کو محاصرے میں لیکر آپریشن کے نام پر چادر و چار دیواری کی پامالی کے ساتھ شدید تشدد کا عنصر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس سے بے شمار لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ سینکڑوں افراد کو اُٹھا کر لاپتہ کیا گیا ہے۔ جن میں خواتین اور کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔ مشکے تنک اور بنڈکی سے لاپتہ بلوچ خواتین ابھی تک نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔ اسی طرح ڈیرہ بگٹی، کوہلو، آواران، تربت، مند اور گوادر سمیت تمام چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں فوجی بندوقوں کے زیر سایہ ایک نام نہاد مردم شماری کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔جہاں کئی افراد کو اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا ہے۔ تین دن پہلے آواران پیراندرسے ایک کسان واحد ولد عبدالکریم کو پاکستانی فوج نے اُٹھا کر لاپتہ کیا اور اُس کی لاش آواران ہسپتال پہنچا دی گئی ہے۔ تین دنوں سے آواران کے کئی گاؤں میں کرفیو کا سماں ہے۔ ان گاؤں میں پیراندر، گزی، کچ، زیلگ، زومدان، اعظم گوٹھ، زیارت ڈن، لباچ، گرگی، کریم بخش بازار شامل ہیں۔ ان گاؤں کے مکینوں کو خوراک اور دوسری ضرورت اشیاء کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ کچ نامی گاؤں کے اسکول سے اساتذہ ا ور طلبا کو نکال کر اسکول پر قبضہ کیا گیا ہے اور لوگوں کو علاقہ خالی کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ عالمی برادری کو پاکستانی بربریت کا فوراََ نوٹس لیکر بلوچ نسل کشی کو روکنے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز