جمعه, آوریل 19, 2024
Homeخبریںبلوچ عوام چاہے تو آزادی کے موقف سے دستبرداری پر تیار ہوں،...

بلوچ عوام چاہے تو آزادی کے موقف سے دستبرداری پر تیار ہوں، براہمدغ بگٹی

بلوچ ری بپلکن پارٹی کے سربراہ اور جلاوطنی کی زندگی گزرانے والے بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی نے بلوچستان کے مسئلے پر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بلوچ عوام چاہتے ہیں تو وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری کے لیے تیار ہیں۔

براہمداغ ماضی میں اس معاملے پر مذاکرات کی آپشن کو مسترد کرتے رہے ہیں اور ان کا موقف رہا ہے کہ ’بلوچستان کی آزادی تک جنگ رہے گی۔

بدھ کو بی بی سی اردو سے خصوصی بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے معاملے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ایک لحاظ سے شکست ہوئی ہے اور انھیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کا طریقہ غلط تھا اور پرامن بات چیت کے لیے آگے آنا ہوگا۔

سوئٹزرلینڈ میں موجود براہمداغ نے کہا کہ بلوچستان میں’گذشتہ دس پندرہ سال کے تشدد، قتل و غارت، گرفتاریوں، گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں کے ملنے سے کیا فرق پڑا۔ کیا اس سے بلوچ ذہن تبدیل ہوا یا ان کی سوچ مزید پختہ ہوئی۔‘

اس سوال پر کہ اگر مذاکرات کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے یہ شرط رکھی جائے کہ وہ آزاد بلوچستان کا مطالبہ ترک کر دیں تو ان کا ردعمل کیا ہوگا، براہمداغ نے کہا کہ ’اگر ہمارے دوست، ساتھی، سیاسی حلیف اور عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے تو ہم بالکل پاکستان کے ساتھ رہنے کو تیار ہیں۔

براہمداغ بگٹی نے لندن میں موجود پاکستانی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے تو کسی رابطے سے انکار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام معاملات سیاسی اور پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔

’اگر وہ ہم سے ملنا چاہیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں کیونکہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور مسائل کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔یہ تو بہت بےوقوفی کی بات ہوگی کہ کوئی کہے کہ وہ بیٹھ کر مسائل حل کرنا چاہتا ہے اور ہم کہیں کہ نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ان سے بہت مرتبہ رابطے تو ہوئے لیکن کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔’پیپلز پارٹی کے دور میں رحمان ملک وغیرہ نے بات چیت کی تھی تو اس پر جب زرداری صاحب سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ان لوگوں سے ضرور ملیں لیکن فوج اور اسٹیبلشمنٹ آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔‘

براہمداغ نے کہا کہ مذاکرات کے لیے ماحول سازگار ہونا ضروری ہے۔ ’اگر قتل و غارت جاری ہو تو ایسے میں مذاکرات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اسی لیے ہمارا کہنا ہے کہ آپریشن بند کیا جائے، تمام فورسز کو واپس بلایا جائے تو اس کے بعد ہی بات چیت کے لیے ماحول سازگار ہو سکتا ہے۔‘

اس سوال پر کہ اگر مذاکرات ہوئے تو ان کا ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے، انھوں نے کہا کہ ’ہم تو تو مظلوم قوم ہیں اور نو سال سے آپریشن کا شکار ہیں۔طاقتور وہی ہیں۔ وہ کیا دینے کو تیار ہوں گے؟ وہ کیا ایجنڈا رکھتے ہیں۔اگر وہ آتے ہیں تو ہم انھیں وہی ایجنڈا پیش کریں گے جو ہماری اکثریت کو منظور ہوگا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان پر اور دیگر علیحدگی پسندوں پر بلوچ عوام کا دباؤ نہیں کہ مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کیا جائے تو بلوچ رہنما نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ لیکن دس پندرہ برس بیت چکے ہیں۔ آپ نے ان برسوں میں کب کوشش کی۔ بات صرف اخبارات اور حکومتی اجلاسوں تک محدود رہتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے مائنڈسیٹ کو تبدیل کرے کیونکہ طاقتور وہی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آرمی والے ہر مسئلے کو طاقت سے حل کرنا چاہتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ بلوچستان میں حالات خراب بھی انھوں نے کیے تھے اور اسے صحیح بھی وہیں کریں گے۔ ہمارے پاس نہ طاقت ہے اور نہ اتنی بڑی فوج کہ ہم ان کا مقابلہ کر سکیں۔ اس خون خرابے اور طاقت کے استعمال سے کچھ نہیں ہوگا۔‘

بلوچستان میں حکومت کی جانب سے ترقیاتی سرگرمیوں کے بارے میں سوال پر براہمداغ نے کہا کہ ’بلوچستان میں جو بھی ترقی ہو، وہاں عوامی حکومت ہے ہی نہیں۔ ترقی کے ان فیصلوں میں بلوچ عوام کی مرضی شامل نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان کے صوبے میں کیا ہو رہا ہے۔‘

اس سوال پر کہ حالیہ دنوں میں ان پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ انھیں بھارت سے مدد ملتی ہے، براہمداغ نے کہا کہ اگر بھارت ہماری مدد کرتا ہے تو ہم اس سے انکار نہیں کریں گے کیونکہ اپنے دفاع کے لیے ہر کوئی مدد مانگتا ہے اور ہم اسی طرح اقوامِ متحدہ اور امریکہ سے بھی مدد مانگ سکتے ہیں کیونکہ

’بھارت نے تو بلوچستان میں آپریشن کے لیے نہیں کہا تھا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی ناکامیاں ہیں اور وہ اپنے کرتوت چھپانے کے لیے اس قسم کے الزام لگاتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں

فیچرز