پنج‌شنبه, مارس 28, 2024
Homeانٹرویوزبلوچ قومی تحریک انتہاء پسندی کا مکمل ضد ہے، بی ایل اے...

بلوچ قومی تحریک انتہاء پسندی کا مکمل ضد ہے، بی ایل اے کمانڈر بلوچ خان

بلوچ قومی تحریک انتہاء پسندی کا مکمل ضد ہے، بی ایل اے کمانڈر بلوچ خان
انٹرویو۔ کارلوس زرتوزا
ذرائع ابلاغ بلوچستان کو محض ایک شورش زدہ علاقہ ظاہر کرنے پر تکیہ کئے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے اس حصے میں ایک حقیقی جنگ چل رہی ہے۔ بلوچستان بلوچوں کی سرزمین ہے جسے آج وہ تین ملکوں پاکستان ، ایران اور افغانستان میں منقسم پاتے ہیں ، اسکا وسیع رقبہ فرانس جتنا ہے جو قدرتی معدنیات گیس ، سونا ، تانبا ، تیل اور یورنیم وغیرہ کے ذخائر سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ آبنائے ہرمز کے بالکل منہ پر ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحل کے بھی مالک ہیں ۔پاکستان کے زیرقبضہ بلوچستان نے اگست 1947 میں برطانوی راج سے اپنی آزادی کا اعلان کیا لیکن محض نو ماہ بعد پاکستانی آرمی نے بلوچستان پر چڑھائی کرکے اسے بزور قوت اپنے ساتھ شامل کیا جس سے اس مزاحمت کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ اب تجربہ کار باغی کمانڈروں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان داعش کے جنگجووں کو بلوچ سرزمین پر اڈے فراہم کرکے ان کی تربیت کررہا ہے۔
آئی پی ایس نے پاکستان اور افغانستان کے سرحد ی علاقے سر لٹ کے علاقے میں ایک خفیہ مقام پر بلوچ جہد کاروں سے ملاقات کی ۔یہ علاقہ طالبان کا افغانستان کے جنوب مشرقی مضبوط گڑھ قندھار اور پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ سے مساوی فاصلے پر واقع ہے ۔ جنگجووں نے دعویٰ کیا کہ وہ آئی پی ایس کے رپورٹروں سے ملاقات کرنے کیلئے 12 گھنٹے کا مسافت طے کرکے آئیں ہیں ۔وہ چار تھے جن میں بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر بلوچ خان ، ماما ، حیدر اور محمد شامل تھے جو اپنی اصل شناخت ظاہرنہیں کرنا چاہتے تھے ۔
کمانڈر بلوچ خان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اس علاقے میں طالبان کی کثیر تعداد ہے لیکن وہ اپنے رستے پر ہوتے ہیں اور ہم اپنے رستے پر ہمارا بمشکل ہی کبھی ایک دوسر ے سے سامنا ہوتا ہے ‘‘انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بلوچ قومی تحریک انتہاء پسندی کا مکمل ضد ہے ،آج ہم بلوچوں کے سات مختلف مزاحمتی تنظیموں کا ذکر کرتے ہیں جو بلوچستان کے آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں لیکن ان سب کے ہدف ایک، مکمل قومی آزادی ہے ‘‘41 سالہ بلوچ کمانڈر نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی ایک بلوچ گوریلا جنگجو کے حیثیت سے گزاری ہے انکا کہنا ہے کہ انہوں نے زمانہ طالبعلمی میں ہی اس محاذ کا چناو کیا تھا ۔سینئر بلوچ کمانڈر بلوچ خان نے جنگجووں کی تعداد ظاہر کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے کہا کہ محض پاکستان کے زیر قبضہ مشرقی بلوچستان میں انکے 25 کیمپ ہیں۔
کمانڈر بلوچ خان نے اپنے تنظیم اور کردستان ورکرز پارٹی PKK کے مشترکہ اقدارکو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم خود کو کردوں سے بہت قریب سمجھتے ہیں ، آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے کزن ہیں ہماری طرح انکی سرزمین پر بھی انکے ہمسایوں نے قبضہ جمایا ہوا ہے ‘‘ انہوں نے بلوچوں اور کردوں کو یک نسلی ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ آخرالذکر کا چار ریاستوں ایران ، عراق ، شام اور ترکی میں بٹ جانے پر بھی روشنی ڈالی ۔
تاریخی طور پر خانہ بدوش قوم بلوچ اسلام کے بارے میں ایک معتدل نظریہ رکھتے ہیں لیکن بلوچ خان نے الزام لگایا کہ اسلام آباد اب یہاں ایک منصوبے کے تحت فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنا چاہتا ہے ۔ ’’ سال 2000 تک بلوچستان میں ایک بھی شیعہ قتل نہیں ہوا تھا، لیکن آج پاکستان ہر طرح کے مذہبی شدت پسندوں کا رخ بلوچستان کی جانب موڑ رہا ہے جن میں سے بہت سوں کا تعلق بلاواسطہ طالبان کے ساتھ ہے ‘‘ بلوچ جنگجو نے اس دعویٰ کے ساتھ مزید اضافہ کیا کہ ’’ لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ اور جبری گمشدیاں اب ہماری سرزمین پر عام ہوچکی ہیں ‘‘
گمشدہ بلوچوں کے لواحقین کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ مسنز جو پر امن طریقہ سے لاپتہ افراد کے بازیابی کیلئے جدوجہد کررہا ہے وہ بلوچستان میں سنہ 2000سے جبری طور پر لاپتہ کیئے گئے بلوچوں کی تعداد 19000 بتاتی ہے حالانکہ بالکل درست تعداد بتانا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ آج تک کوئی بھی آزاد تحقیق اس بابت نہیں ہوئی ہے ، لیکن اس سال اگست میں انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان سے اپیل کی ہے کہ ’’ پاکستانی حکومت فوری طور پر اپنے خفیہ اداروں کے ان بہیمانہ کاروائیوں کو روکے جن میں وہ ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو بغیر بتائے اغواء کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کرتے ہیں‘‘تاہم بلوچ مسلح تنظیموں پر بھی عام شہریوں کو قتل کرنے کے الزامات ہیں ، اگست 2013 میں بلوچ لبریشن آرمی نے 13 لوگوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی جنہیں بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے تقریباً 50 کلومیٹر دورمچھ کے مقام پر جنگجووں نے بسوں سے اتار کر قتل کیا تھا ۔ پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بے گناہ شہری تھے جو پنجاب اپنے گھروں کو رمضان کی چھٹیاں منانے جارہے تھے لیکن کمانڈر بلوچ خان تصویر کا دوسرا رخ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ وہاں دو بسوں میں 40 افراد سوار تھے ان میں سے 25 کو ہم نے گرفتار کرکے ان سے تحقیقات کی پھر آخر میں ان میں سے 13 کو سزائے موت دی گئی کیونکہ ان سب کا تعلق پاکستان کے فوج سے تھا ‘‘ انہوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی میڈیا مکمل طور پر پاکستانی حکومت کے بیانات پر انحصار کرتی ہے اسلئے حقائق سے آگاہ نہیں ۔
جب پوچھا گیا کہ ’’ کیا اسکاٹ لینڈ طرز کا کوئی بھی ریفرنڈم بلوچستان کے مسئلے کو حل کی جانب لے جاسکتا ہے ؟‘‘ تو کمانڈر بلوچ خان نے تشکیک آمیز جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ اگر ایسا کوئی بھی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس سے پہلے ہمیں اپنے قومی اور جغرافیائی سرحدوں کا دوبارہ تعین کرنا ہوگا کیونکہ ہمارے زمین کا ایک بڑا حصہ سندھ اور پنجاب میں تقسیم کی گئی ہے ، اسکے علاوہ بلوچستان میں آبادکاروں کی کثیر تعداد آباد کی گئی ہے اور پورا بلوچستان بشمول انتخابی نظام مکمل طور پر آرمی کے ہاتھوں میں ہے‘‘ ، صرف حمایت کے بجائے اقوام عالم سے مکمل اخلاقی ، عسکری اور معاشی مدد اور مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے بلوچ خان نے کہا کہ ’’ مہذب اقوام عالم کو پاکستان کے بجائے ہماری مدد کرنی چاہئے ، اس ملک کی آخر کیوں پرورش کی جائے جو شدت پسندوں کی پوری دنیا میں پرورش کررہا ہے ‘‘ یہ مطالبہ کرنے کے بعد کمانڈر بلوچ خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے کیمپ کی طرف واپسی کے سفر کا آغاز کردیا ۔
بلوچستان اور اس سے آگے :۔
بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر سے ملاقات صرف افغانستان کے ذریعے ہی ممکن تھی کیونکہ پاکستان نے اس جنوب مغربی صوبے کو ایک ’’ نوگو ایریا‘‘ بنادیا ہے ۔ احمد راشد جو پاکستان کے ایک اعلیٰ پایے کے دانشور اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے معروف مبصر ہیں ، جو اپنے نوجوانی میں بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے ایک متحرک کارکن رہے ہیں نے آئی پی ایس کو بتایا ’’ پاکستان میں صحافیوں کے حوالے سے سب سے خطرناک خطہ بلوچستان ہے ،یہاں بہت سے صحافی قتل ہوئے اس لیئے یہاں کے مقامی صحافی جیل ، دھمکی اور قتل سے بچنے کیلئے خبروں کو سینسر کردیتے ہیں ، دریں اثناء عالمی صحافیوں کو بلوچستان میں جانے کی کوشش کی صورت میں فوری طور پر ملک سے بیدخلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘‘۔
اس رپورٹر پر ویزہ پابندیوں کے باوجود انہوں نے بلوچ لبریشن فرنٹ کے کمانڈر انچیف ڈاکٹر اللہ نظر سے ان کا نقطہ نظر سیٹلائٹ فون پر معلوم کی ۔ اس سابقہ میڈیکل ڈاکٹر نے کمانڈر بلوچ خان کے موقف کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’ پوری بلوچ قومی تحریک کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے ‘‘ مزید انہوں نے اسلام آباد کا شدت پسندوں کی پشت پناہی کے تجزیے پر بی ایل اے کے کمانڈر کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’’ پاکستان بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کیلئے شدت پسندوں کی پرورش کررہا ہے لیکن وہ اس میں مکمل طور پر ناکام ہورہا ہے ، اب وہ مذہبی کو ایک آلہ استعمال کرکے دنیا کی توجہ بلوچ قومی تحریک سے ہٹانا چاہتا ہے ‘‘ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر اللہ نظر نے مکران کے ایک نامعلوم مقام سے کیا جسے بی ایل ایف کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔اس سربراہ کے مطابق شدت پسندی کا یہ خطرہ بلوچستان کے سرحدوں سے باہر جاسکتا ہے ، کمانڈر نظر نے چار ایسے ٹریننگ کیمپوں کا محل وقوع بیان کیا جہاں پاکستانی فوج کے پشت پناہی میں داعش کے جنگجووں کو تربیت دے کر مشرق وسطیٰ روانہ کیا جاتا ہے ، انہوں نے کہا ’’ ایک کیمپ یہاں مکران میں ہے اور دوسرا وڈھ میں ہے جو کوئٹہ سے بالترتیب 990 اور 315 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں، تیسرا زہری کے علاقے مِشک میں ہے جو کوئٹہ کے جنوب میں 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے یہاں سو سے زیادہ مسلح لوگ ہیں جن میں زیادہ تر عرب ، پشتون اور پنجابی ہیں جنہیں وہاں کے مقامی سردار اور پاکستانی وزیر ثنا ء اللہ زہری کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور چوتھا کیمپ کوئٹہ کے علاقے چلتن میں واقع ہے ‘‘ ڈاکٹر نظر نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ پاکستانی خفیہ ادارہ آئی ایس آئی نا صرف داعش کو متحرک کررہی ہے بلکہ انکی مدد بھی کرتی ہے ، داعش یہاں بالکل موجود ہے حتیٰ کے وہ ہمارے گلی کوچوں میں اپنے پمفلٹ بھی پھینکتے ہیں تاکہ یہاں سے بھرتیاں کرسکیں ‘‘
اکتوبر 2014 میں پاکستانی طالبان کے چھ کمانڈروں جن میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان بھی شامل تھے نے داعش کے ساتھ اپنے اتحاد کا اعلان کیا تھا ، انسانی حقوق کے کارکن میر محمد علی تالپور نے آئی پی ایس کو بتایا کہ ’’ داعش طالبان کی ترقی یافتہ شکل ہے جو فطری طور پر پاکستانی اسٹبلشمنٹ سے ہمدردی حاصل کررہی ہے ‘‘ ، تالپور جنہیں سچ لکھنے کی پاداش میں مسلسل حملوں اور دھمکیوں کا سامنا ہے طالبان کے قیام کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ یہ اس ریاست کا بنیادی پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ پوری دنیا پر اسلام کی حکومت دیکھتے ہیں ‘‘
تواتر کے ساتھ پاکستانی حکام کو کال اور ای میل کرنے کے باوجود انہوں نے آئی پی ایس سے بات کرنے سے انکار کیا تاہم پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار کے پارلیمنٹ میں اس بیان کہ بعد یہ ایک کھلا راز بن چکا ہے جس میں انہوں کہا تھا کہ ’’ حتیٰ کے پاکستان کے کراچی نیول بیس میں بھی مذہبی شدت پسند گروہوں کے کاروائیوں کیلئے ہمدردی پائی جاتی ہے ‘‘

یہ بھی پڑھیں

فیچرز