جمعه, مارس 29, 2024
Homeخبریںبلوچ مہاجرین کیلئے آواز اٹھانے کیلئے بین الاقوامی میڈیا بھی موجود نہیں.بی...

بلوچ مہاجرین کیلئے آواز اٹھانے کیلئے بین الاقوامی میڈیا بھی موجود نہیں.بی آر پی

کوئٹہ ( ہمگام نیوز)بلوچ ری پبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیرمحمد بگٹی نے اپنے جاری ہونے والے بیان میں کہا ہے کہ بلوچ قوم کے خلاف ریاستی مظالم تمام حدوں کو پار کرچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی ظلم و جبر میں تیزی کے ساتھ ساتھ بلوچستان سے باہر افغانستان میں بے یار و مددگار اپنے آپ کے تحت کھٹن زندگی بسر کرنے والے بگٹی مہاجرین پر ایک بار ریاستی خفیہ اداروں نے حملہ کردیا۔ سرحدی علاقے سپین بولدک میں علی الصبح خفیہ اداروں کے اہل کاروں نے بگٹی مہاجرین کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں بی آر پی ڈیرہ بگٹی کے صدر ریاض گل بگٹی اور بی آر پی سوئٹزرلینڈ چیپٹر کے صدر شیرباز بگٹی کے چچا زاد بھائی اور بہنوئی پائند خان بگٹی کو شہید کردیا گیا۔ شیرمحمد بگٹی نے بتایا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ بیرون ملک مقیم بی آر پی رہنماؤں اور کارکنوں کے اہل خانہ اور افغانستان میں موجود بگٹی بلوچ مہاجرین کو ریاستی خفیہ اداروں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہو۔ 25 مارچ 2011 کو پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے افغانستان کے علاقے سپین بولدک میں بگٹی بلوچ مہاجرین کے گھروں پر بم سے حملہ کیا جس سے ایک بلوچ درخان بگٹی اور ان کی کمسن بچی شہیدجبکہ متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد 7 جولائی 2013 کو اسی علاقے میں بی آر پی رہنما ریاض گل بگٹی اور شیرباز بگٹی کے گھر پر حملہ کیا گیا جس میں انکی ماں اور بچی زخمی ہوگئے تھے۔ 15 دسمبر 2013 کو پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اہلکاروں کی جانب سے اس وقت فائرنگ کرکے دو بلوچ فرزندان نہال خان بگٹی اور زر خان بگٹی کو شہید کیا گیا جب وہ اپنے گھر کے باہر کھڑے تھے۔ اسی طرح 13 نومبر 2014 کو ایک بار پھر پاکستانی فورسز کے خفیہ اہلکاروں نے کار بم کے ذریعے بگٹی مہاجرین پر حملہ کردیا جس کی زد میں آکر دو راہگیر ہلاک جبکہ خواتین اور بچوں سمیت چھ بگٹی مہاجرین زخمی ہوگئے۔ رواں سال 13 جون کو ریاستی فورسز نے بی آر پی سوئٹرزلینڈ چیپٹر کے سابقہ سیکٹری جرنل عزیزاللہ بگٹی کے چچا کولمیر بگٹی اور بھائی امتیاز بگٹی کو علاج کیلئے کوئٹہ جاتے ہوئے اغواہ کرلیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔ شیرمحمد بگٹی کا کہنا تھا کہ 2000 کے عشرے سے بلوچستان خاص کر ڈیرہ بگٹی سے شروع ہونے والے فوجی آپریشن اور ڈاڈائے قوم نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد ایک لاکھ پچیس ہزار بگٹی بلوچوں نے ڈیرہ بگٹی سے ہجرت کی اور بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ریاستی فورسز کی جانب سے لگاتار نشانہ بننے کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں بگٹی مہاجرین افغانستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے لیکن ادھر میں ان کو محفوظ زندگی نصیب نہیں ہوئی اور لگاتار ریاستی خفیہ اداروں کی طرف سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ شیرمحمد بگٹی نے عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور خاص کر مہاجرین کیلئے کام کرنے والے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ شام، عراق اور مشرق وسطی کی جنگ زدہ ممالک کے مہاجرین کیلئے آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ بلوچ مہاجرین کی جانب بھی توجہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بلوچ مہاجرین کیلئے آواز اٹھانے کیلئے بین الاقوامی میڈیا بھی موجود نہیں ہے جس کے ایک بچے کی ڈوبنے کی تصویر کو دنیا کو دکھانے سے مغربی ممالک مہاجرین کیلئے اپنے تمام بارڈرز اور دروازے کھول دیتے ہیں۔ بلوچستان کے حالات اور شام اور عراق کے حالات میں صرف اتنا فرق ہے کہ شام اور عراق میں مغربی ممالک اور میڈیا لگاتار نظریں جمائی بیٹھیں ہیں جبکہ بلوچستان کو یکسر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مہذب دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کچھ مظالم ہوتا ہوئے نہیں دیکھ رہے ہیں یا ان سے دانستہ طور پر نظریں پھیر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ مظالم نہیں ہورہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز