پنج‌شنبه, آوریل 18, 2024
Homeخبریںبلوچ نوجوانوں کی تحریک میں جوق در جوق شمولیت حوصلہ افزاء عمل...

بلوچ نوجوانوں کی تحریک میں جوق در جوق شمولیت حوصلہ افزاء عمل ہے : بشیر زیب بلوچ

کوئٹہ ( ہمگام نیوز)بی ایس او آزاد کے سابق چیئرمین بشیرزیب بلوچ نے کہا کہ نام نہاد اسلامی ریاست پاکستان چین کی توسیع پسندانہ اور وسیع تر نوآبادیاتی تسلط پسند عزائم کو پائے تکمیل تک پہنچانے بطور عالمی ایجنٹ اپنی وفاداریوں کو نبھانے کی خاطر بلوچ قومی تحریک کے خلاف شدت کے ساتھ کاؤنٹر انسرجنسی کے پالیسی پر عمل پیرا ہے تاکہ بلوچ سرزمین پر چین کے تمام منصوبے آسانی کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہوں اور بلوچ سرزمین پر چین کی اجارہ داری کو قائم کیا جائے تاکہ بلوچ مکمل طور پر قومی مرگ سے دوچار ہو۔
آج قابض پاکستان بلوچ وطن پر اپنی قبضہ گیریت کو دوام دینے کے لیے چین جیسے عالمی طاقت سے مکمل تعاون و کمک حاصل کر رہا ہے تاکہ بلوچ وطن میں تحریک آزادی کو کچلا جا سکے اور پاکستان ماضی کی نسبت موجودہ تحریک آزادی کے خلاف شدت کے ساتھ منفی و من گھڑت پروپیگنڈوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تاکہ بلوچ عوام میں بلوچ تحریک آزادی کے حوالے سے جو جوش و ولولہ پایا جاتا ہے اس کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرکے وہ بلوچ عوام کو تحریک سے بدظن کرے تاکہ وہ مایوسی کی تاریکیوں میں تحریک کو تباہی کے دہانے پر لایا جا سکے. انہوں نے بلوچ قوم اور خصوصاً تحریک آزادی سے منسلک بلوچ نوجوانوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ دشمن کی مکارانہ پالیسیوں و کاؤنٹر انسرجنسی کو مکمل سمجھنے کی اپنے اندر صلاحیت پیدا کرتے ہوئے ذہنی و فکری حوالے سے تیار رہیں کہ ریاست تحریک کو کمزور کرنے کے لیے ہر نئے دن نئے شکل و حربوں کے ساتھ سامنے آئے گا اور ریاست کا ہر حربہ و پالیسی ہمارے لیے ایک نیا تجربہ ہوگا. اب وقت کا تقاضا یہی ہے کہ دشمن کی پالیسیوں کو سمجھنے کی قوت و انھیں برداشت کرنے کی طاقت پیدا کریں نہ کہ اس دوران جو بھی بلوچ کاؤنٹر انسرجنسی کے دوران نفسیاتی دباؤ و انسرجنسی کے دوران حالات و دشمن کے حربوں سے بے خبر رہتے ہوئے روایتی انداز یا ماضی پسند ہوکر سوچتا ہوگا وہ پھر انفرادی حوالے سے شکست سے دوچار ہوگا.
انھوں نے کہا کہ دشمن کے ہر منصوبہ اور سرگرمی کو باریک بینی سے سمجھنا اور پھر حکمت عملی مرتب کرنا دشمن کو آسانی سے کمزور کرنے کا بہترین ہنر ہے.
انھوں نے کہا کہ دشمن اپنے میڈیا کے زریعے جو بلند و بانگ دعوے کرتا ہے انھیں زرہ برابر بھی عار محسوس نہیں ہوتا کیونکہ انکی قابلیت، صلاحیت، بہادری اور ایمان کو ہم دوران جنگ میں قریب سے دیکھ چکے ہیں. فکرِ آزادی ، دھرتی ماں کی حب الوطنی کے سوچ کے سامنے قبضہ گیر ریاست کے تمام ظلم و جبر، بربریت ہمارے ذہنوں میں بے اثر ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ ہمارا مقصد مادرِ وطن کی آزادی ہے.
انہوں نے کہا کہ آزادی کے فکر سے منسلک ایسے افراد ہونگے جو شروع دن سے فکری کمزوری یا لاشعوری طور پر تحریک کا حصہ بن چکے ہیں اب ایسے کٹھن حالات میں ان کا تحریک کے ساتھ ثابت قدم رہنا نا ممکن ہے کیونکہ فکری حوالے سے کمزور انسان ہمیشہ کٹھن و سخت حالات میں دشمن کے سامنے سر جھکا کر لالچ و حرص کی زد میں آ کر زندگی کو عزیز سمجھتے ہوئے ہمیشہ کے لیے غلامی کے طوق کو اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے جو کہ بہادر انسان کی شان کے خلاف ہے وہ کسی بھی صورت وطن کی غلامی قبول کرنے کے لیے کسی بھی حالت میں تیار نہیں ہونگے بلکہ ایک باوقار و باعزت موت کو غلامی کی زندگی پہ ترجیح دینگے.
انھوں نے کہا کہ تحریک کے اس موڑ پر نا اہل، کم صلاحیت، خود غرض، بزدل، لالچی و قبائلی سوچ رکھنے والوں کا تحریک سے علیحدہ ہونا یا دستبرداری تحریک آزادی کے لئے نیک شگون ہے کیونکہ اچھائی و برائی، نیکی و بدی کی پہچان انہی حالات میں ممکن ہو پاتا ہے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی جب ہوگا تو بلوچ قوم میں کوئی کنفیوژن باقی نہیں رہے گی خاص کر عالمی رائے عامہ کے سامنے اصلی و جعلی آزادی پسندوں کا فرق واضح ہو گا جو کافی عرصے سے بلوچ قوم و خاص کر عالمی برادری کو ریاست پاکستان کی ایما پر بلوچ آزادی پسندوں کے روپ میں کسی حد تک گمراہ کرنے کی کوشش کر چکے تھے اور عالمی فورم پر حقیقی آزادی پسندوں کو بلوچ قومی موقف پیش کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا ہو رہا تھا اور بلوچ وطن میں ایسے گروہوں کی سرگرمیوں سے بلوچ قوم میں بلوچ قومی تحریک کے خلاف بدزنی کافی حد تک پیدا ہوچکی ہے یعنی وہ افراد جو آج واپس ریاست کے گود میں بیٹھ چکے ہیں اور جو بیٹھنے کے لئے راہ ہموار کررہے ہیں وہ ریاست کے ایما پر تحریک کا حصہ بنے تھے اور آج واپس ریاست کے پاس جا رہے ہیں.
انھوں نے کہا کہ حقیقی آزادی پسند نہ سرنڈر ہوا اور نہ ہی سرنڈر ہونے کا سوچ سکتا ہے ہاں ضرور کچھ لوگ جذباتی، تصوراتی بنیادوں پر تحریک کا حصہ بنے لیکن کٹھن حالات میں خوف زدہ ہو کر یورپ و خلیجی ممالک کی طرف روزگار اور ذاتی غرض کے لئے بھاگ گئے وہاں مقیم بلوچ اْن میں ضرور فرق کریں، بعض آزادی پسند حکمت عملی کے تحت دیگر ممالک میں اپنے قومی فرائض سرانجام دیتے ہیں لیکن بعض انقلابی سخت حالات کو برداشت کا سکت نہ رکھتے ہوئے بزدلی کا شکار ہوکر اب بیرون ممالک میں خود کو آزادی کی تحریک سے جوڑ کر اپنے لیے ہمدردیاں پیدا کرنے کے تگ و دو میں ہیں ایسے افراد جو شہیدوں کے لہو و وطن کے ساتھ وفادار نہ ہوسکے ایسے بے ضمیر افراد سے تعلق رکھنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ بھی نہیں. انہوں نے کہا کہ تحریک سے منسلک زمہداراں و کارکنان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ موجودہ حالات کا باریک بینی سے مشاہدہ کریں اگر نا سمجھی، نا لائقی و غیر سنجیدہ و غیر زمہ دارانہ رویہ برقرار رہا تو یہ بھول جانا چاہئے کہ آنے والا نسل ہمیں قابلِ احترام و معتبر ناموں سے یاد رکھے گا بلکہ ہمیں نالائق و نا اہل قرار دینے کے ساتھ ہماری قبروں پر لعنت پڑھیں گے لہذا ہمیں ہر قدم شعوری طور پر سوچ سمجھ کر رکھنا ہوگا وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنے اندرونی و بیرونی حالات سے مکمل واقفیت رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی حکمت عملی مرتب کریں کیونکہ آزادی کے لئے ہمیں عالمی دشمنوں سمیت پاکستان کے خلاف قربانیوں کے لامتناہی سلسلہ سے گزرنا پڑے گا. تب جا کر آزادی ہمارا مقدر بن سکے گا، آج بلوچ نوجوانوں کی تحریک آج بلوچ نوجوانوں کی تحریک میں جوق در جوق شمولیت اورقربانی کے جذبہ سے سرشار ہونا ہمارے حوصلوں کو مزید بلند کرتا ہے اور ہم پرامید ہیں اس فیصلہ کن جنگ میں کامیابی بلوچ کی ہوگی اور شکست دشمن کا مقدر ہوگا.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز