جمعه, آوریل 19, 2024
Homeاداریئےبلوچ وسائل کی لوٹ مار

بلوچ وسائل کی لوٹ مار

ہمگام اداریہ
بلوچستان کی وسیع ساحل ، بیش بہا وسائل اور اہم جغرافیائی محل وقوع ہمیشہ سے اس کا خاصہ رہے ہیں اور یہی ہر دور کے طاقت وقت کے دل میں بلوچستان فتح کرنے کی امنگیں جگاتے رہیں ، نوشیروان عادل سے لیکر پاکستان تک تمام طالع آزما اس زمین پر اپنے جھنڈے گاڑھنے اور لوٹ مچانے کیلئے لاو لشکر کے ساتھ وارد ہوتے رہے ہیں اور دوسری طرف اس سر زمین کے حقیقی مالک بلوچ پوری تاریخ کبھی اپنے دفاع تو کبھی اپنے آزادی کیلئے بیرونی حملہ آوروں سے نبرد آزما رہے ہیں ۔ جدید نوآبادیاتی نظام میں لوٹ مار کے روایتی معنی و تشریح بدل چکے ہیں لیکن آج بھی بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے بنیادی اسباب جاننے کی کوشش کریں تو اسکے محرکات یہی زر و ذمین کی لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ۔ گذشتہ 66 سالوں کے استحصالی تاریخ پر غور کیا جائے کہ سوئی سے لیکر گوادر ، چمالنگ سے لیکر سیندک تک اور ریکو ڈک سے لیکر گڈانی شپ بریکنگ یارڈ تک فائدے صرف قابض حاصل کرتا رہا ہے اور ایک عام بلوچ کی زندگی قرون وسطیٰ کے کسی چرواہے سے بڑھ کر اپنا معیار نہیں بڑھا سکا ۔ ایک تخمینہ کے مطابق اس وقت بلوچستان میں کم از کم 20کروڑ میٹرک ٹن کوئلہ ، 2 لاکھ میٹرک ٹن کرومائیٹ، 3لاکھ میٹرک ٹن بیرائیٹ ، 1 لاکھ میٹرک ٹن سلفر ، بہت ہی کثیر تعداد میں ماربل، 2کروڑ میٹرک ٹن جپسم ، 27 کروڑ 50 لاکھ میٹرک ٹن کے برابر آئرن اور، 16 کروڑ میٹرک ٹن زنک،300 میٹرک اونس سے زائد سونا ، 50 میٹرک ٹن سے زائد چاندی اور صرف ضلع چاغی میں ایک ارب 23 کروڑ میٹرک ٹن تانبا موجود ہے۔ان کے علاوہ بلوچستان میں ڈولومائیٹ ، فلورائیٹ ، لائم اسٹون ،پیونائس سمیت 60 سے زائد اور معدنیات کے علاوہ کم از کم 19ٹریلین مکعب فٹ گیس اور 6 ٹریلین بیرل تیل موجود ہے ۔ اس وقت پاکستان ،صرف تیل و گیس کے مد میں بلوچستان سے 42 بلین ڈالر سالانہ لوٹ رہا ہے، یہ بلوچستان کے لوٹتے وسائل کا محض ایک خفیف تخمینہ ہے اس سے اندازہ ہوتا پاکستان کیوں بلوچوں کے نسلیں مٹانے پر تو راضی ہے لیکن اپنے قبضے سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا ۔
گذشتہ کچھ دنوں سے بلوچستان کا علاقہ ریکو ڈک موضوع بحث ہے ، بلوچستان کے شمال مغربی ضلع چاغی میں واقع ریکوڈک کے بارے میں تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ یہاں سے سالانہ 200000 ٹن تانبا ، 250000 اونس سونا اور 600000 ٹن دوسرے معدنیا ت کی پیداوارمتوقع ہے اور عالمی منڈی کے موجودہ قیمتوں کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو ریکوڈک سے سالانہ 3.64 بلین ڈالر کی آمدنی متوقع ہے ۔ اس معدنی ذخیرہ کی عمر 55 سال بتائی جاتی ہے اور اس دوران اس سے 200 بلین ڈالر سے زائد کی آمدنی متوقع ہے ۔ایک طرف ان وسیع ذخائر کے حقیقی مالک بلوچ آج بھی ان وسائل اور انکے آمدنی سے وسائل پر اختیار نا رکھنے کی وجہ سے محروم ہے تو دوسری طرف قابض پاکستان ان وسائل کو عجلت میں کوڑیوں کے دام بیچ رہا ہے ۔ابتداء میں ریکوڈک کا ٹھیکہ ٹیتھیان کاپر کمپنی کو دیا گیا لیکن بعد میں اطلاعات کے مطابق ریکوڈک کے لوٹ مار کیلئے پاکستانی فوج اور چین کی گٹھ جوڑ کی وجہ سے یہ بہانہ بناکر کہ ٹیتھیان نے مقررہ وقت تک علاقے کے وسائل کا فیزیبلٹی رپورٹ پیش نہیں کیا اور وسائل کی قیمت بہت کم بیان کی ان کا یہ ٹھیکہ منسوخ کردیا پھر چار پاکستانی اور چینی کمپنیوں کو اسکا ٹھیکہ دے دیا گیا ، ان چاروں کمپنیوں کو جب یہ ٹھیکہ دیا گیا تھا تو اس وقت انہیں بنے صرف ایک ماہ گذرا تھا جس سے ظاھر ہوتا ہے کہ ان کمپنیوں کو صرف ریکوڈک کے غرض سے بنایا گیا تھا ۔ اس کے بعد ٹیتھیان کاپر کمپنی نے اس بابت عالمی عدالت میں کیس دائر کردیا ہے ۔ ایک طرف عدالتوں میں یہ کیس چل رہا تھا تو دوسری طرف درون خانہ قابض پاکستان اور بلوچستان میں اسکی گماشتہ کٹھ پتلی ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی ان وسائل کو کوڑیوں کے دام بیچنے کیلئے ساز باز کررہے تھے ۔ اس معاملے نے اس وقت ڈرامائی رخ اختیار کرلیا جب پاکستان کے ایک سینئر صحافی ڈاکٹر شاھد مسعود نے یہ انکشاف کیا کہ ٹیتھیان کی ڈیل ہوچکی ہے جس کے تحت ٹیتھیان کمپنی کسی اور نام سے یہ ٹھیکہ حاصل کرے گی اور اس کے عوض وہ 216 ملین ڈالر کی خطیر رقم رشوت کے صورت میں نواز شریف کو دے گی جو لندن میں اسکے بیٹے کے اکاونٹ میں ٹرانسفر ہونگے ، اسکے علاوہ کٹھ پتلی وزیر اعلی ڈاکٹر مالک کو 29 ملین ڈالر ملیں گے جو دبئی میں اسکے کسی رشتہ دار شاھد بلوچ کے ٹوئٹا شوروم کے اکاونٹ میں منتقل ہونگی، اسکے علاوہ حاصل بزنجو ، ثناء اللہ زہری اور محمود خان اچکزئی کو اس میں سے دو دو فیصد رقم ملے گی ، پاکستانی صحافی فوج کا نام لینے کی جسارت نہیں کرسکا لیکن یہ بات واضح ہے کہ ایسی کوئی بھی ڈیل پاکستانی فوج کے بغیر ممکن نہیں اور یقیناًان کا بھی ایک خطیر حصہ ہوگا جو ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ اس لین دین اور لوٹ مار سے ایک طرف قابض کے عزائم بھی صاف ظاہر ہورہے ہیں کہ وہ بلوچستان میں آزادی پسندوں کے ابھرتے قوت سے خوفزدہ ہوکر عجلت میں بلوچستان کے وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو دوسری طرف نام نہاد ریاستی گماشتہ قوم پرستوں کی بھی اصلیت ظاھر ہوتی ہے کہ ان کو اقتدار میں لانے کا مقصد صرف یہ ظاھر کرنا ہے کہ اس ڈیل میں بلوچوں کی رضا شامل ہے ۔
تاہم حقیقی بلوچ قوم پرست قوت جو ہمیشہ سے بلوچ استحصال کو نمایا ں کرتے نظر آئیں ہیں نے اس بابت موقف اختیار کیا ہے کہ بلوچوں کا ان استحصالی منصوبوں میں بالکل بھی رضا و منشا شامل نہیں اور انہوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں اور خاص طور پر چین کو تنبیہہ کی ہے کہ وہ بلوچوں کے منشاء کے بغیر پاکستان سے کسی بھی قسم کا معاہدہ نا کریں بلوچ کسی بھی ایسے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنے نہیں دیں گے اور یہ کمپنیاں اپنے سرمایہ کاری کے نقصان کا ذمہ دار خود ہونگے ، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بلوچستان کے آزادی کے بعد جب بلوچ اپنے اختیارات کا خود مالک ہونگے تو وہ خود دوسرے ممالک اور کمپنیوں سے اپنے شرطوں پر معاہدات کریں گے تب تک وہ پاکستان کے کیئے کسی بھی معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز