جمعه, مارس 29, 2024
Homeخبریںبی ایس او آزاد پر چند منظور نظر و چاپلوس لوگ قابض...

بی ایس او آزاد پر چند منظور نظر و چاپلوس لوگ قابض ہوگئے ہیں

کوئٹہ ( ہمگام نیوز)بی ایس او آزاد سے گذشتہ ایک سال کے دوران مستعفی ہونے والے چھ سابق سی سی ممبرز نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کریمہ بلوچ کی قیادت میں آج جس تنظیم کو بی ایس او آزاد کہا جاتا ہے یہ وہ تنظیم نہیں جس کیلئے ذاکر مجید جیسے درجنوں سر گرم کارکنان قید و بند کی صعوبتیں اور شفیع و سنگت ثناء بلوچ جیسے سنگتوں نے اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، بی ایس او آزاد پر آج ایک باجگزار گروہ قابض ہوکر نا صرف تنظیم کی حیثیت کو مسخ کررہا ہے بلکہ اپنے غیر جمہوری اور غیر سیاسی روش سے تنظیم کو آج ایک ایسے دہانے تک پہنچا دیا ہے کہ تمام بے غرض و مخلص کارکنان ایک ایک کرکے تنظیم سے کنارہ کش ہورہے ہیں جن میں سے اکثر مایوسی کا شکار ہوکر نا صرف بی ایس او آزاد بلکہ تحریک سے بھی کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں اور تنظیم پر محض چند منظورِ نظر چاپلوس لوگ قابض ہوگئے ہیں، یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا مرتکب بی ایس او آزاد پر قابض گروہ المعروف مرکز ہورہا ہے ۔ہمارے بی ایس او آزاد سے مستعفی ہونے کی وجوہات بھی یہی تھے کہ جس بی ایس او آزاد کو ہم جانتے ہیں اس کو یرغمال بناکر ایک گروہ اپنے گروہی مفادات کے بجاآوری کیلئے استعمال کررہا تھا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ تنظیم کے ابتدائی بحرانوں اور بعد میں مرکزی انفارمیشن سیکریٹری کے مستعفی ہونے کے باوجود ہم نے تنظیم کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرنے کا فیصلہ محض اس لیئے کیا تھا کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ بی ایس او آزاد کو کوئی نقصان پہنچے لیکن اس تنظیم پر قابض کریمہ بلوچ و منظور نظر کابینہ ماضی کی غلطیوں سے نا سیکھتے ہوئے اپنی من مانی ، اختلافِ رائے کا گلہ گھونٹنے اور تنظیم کاری و تربیت سے پہلو تہی کرکے اپنے پرانے روش پر ہی چلتے رہے ، غیر سنجیدگی محض تنظیمی داخلی معاملات تک ہی موقوف نہیں تھا بلکہ ایک مخصوص گروہ کی تابعداری میں غیر ضروری طور پر ایک مسلح تنظیم کے خلاف بھی بیانات دیکر طلبہ سیاست کے حدوں کو پھلانگ کر کسی مسلح جماعت کی حمایت و کسی کی مخالفت شروع کردی ۔ جو نا صرف قطعی طور پر غیر ضروری تھا بلکہ طلبہ سیاست اور ہمارے منشور و آئین کی بھی کھلی خلاف ورزی تھی ۔ دوسری طرف بی این ایف کی صورت میں بی این ایم کے ساتھ جس حد و سطح کا اتحاد رچایا گیا اس سے ناصرف بی ایس او آزاد کی آزاد حیثیت مکمل طور پر چیلینج ہوگئی بلکہ بی این ایم کے جلسوں میں چندوں سے لیکر جھنڈوں تک کی ذمہ داری بی ایس او آزاد کے کارکنان کے کندھوں پر ڈال کر طلبہ پر ایک ایسا غیر ضروری بوجھ ڈال دیا گیا جس کی چنداں ضرورت نہیں تھی ۔ ان بلواستہ اور بلا واستہ اتحادوں بلکہ تابعداریوں کی وجہ سے دشمن کیلئے یہ آسان ہوگیا کہ وہ بی ایس او آزاد کے کارکنان کو مسلح تنظیموں سے جوڑ کر انہیں ایک ایک کرکے نشانہ بنائیں ۔ ان بچگانہ پالیسیوں کی وجہ سے تنظیم کو نا قابلِ تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا جس کی سب سے بڑی مثال تنظیم کا چیئرمین اور سیکریٹری جنرل تھے لیکن باوجود اسکے کہ ان غلطیوں سے سیکھ کر بی ایس او آزاد کو ایک شفاف ، جمہوری اورانقلابی طلبہ تنظیم بنایا جاتا اس گروہ نے تنظیم کو تابعداری کے ایک ایسے بھنور میں پھنسا لیا کہ جہاں تنظیم کے بھوک ہڑتال جیسے معمولی فیصلے بھی باہر سے ایک ایسے جگہ سے ہونے لگیں جہاں سے ہرگز نہیں ہونے چاہیئے تھے ۔ انہوں نے مزید کہا شروع سے پیدا ہونے والے بحرانوں اور مذکورہ بالا مسائل کو لیکر ہم شروع سے تنظیم کے اداروں کے اندر رہتے ہوئے ایک یونٹ باڈی سے لیکر سینٹرل کمیٹی تک میں اٹھاتے رہے لیکن بجائے اسکے کہ بہتری کی گنجائش پیدا کی جاتی پہلے ہم میں سے دو کو محض اسلیئے معطل کیا گیا کیونکہ ہم نے تنظیم کے اپنے آئینی کارکنوں کے سامنے ان مسائل کا ذکر کیا تھا اور بعد میں غیر آئینی و غیر جمہوری طریقے سے تنظیم سے نکال دیا گیا ۔ حد یہ ہے کہ اگر کارکنان کے سامنے تنظیمی مسائل پر بات کرنا گناہ تھا تو اسکا سزا تین مہینے معطل کی صورت میں دے دیا گیا لیکن اسکے باوجود نا ہم میڈیا میں گئے نا استعفیٰ دیا لیکن ہر آئین اور اخلاقی قائدے کو توڑ کر سزا کے اوپر ایک اور خود ساختہ سزا دیکر ہمیں تنظیم سے نکالا گیا ۔ اس مسئلے اور دوسرے مسائل پر بات کرنے کا سلسلہ نہیں روکا اور باقی مذکورہ مستعفی ارکان ہر فورم پر ان مسائل کو اجاگر کرکے ان پر سوالات اٹھاتے رہے ، لیکن تنظیم پر اپنے ناجائز گرفت کو مضبوط رکھنے کیلئے تنظیم کو چند افراد کے ہاتھوں میں یر غمال کرنے والے گروہ نے ہر میسر طریقہ استعمال کرکے اختلاف اور رائے کے اظہار کے تمام راہیں مسدود کردیئے اور تنظیم کو بدستور اپنے من مانی اور غیر سیاسی و غیر اخلاقی طریقے سے چلاتے رہے ، اس گروہ کا مقصد و مطمع نظر صرف یہی تھا کہ کسی طور ہر مخالف آواز کو دباکر اپنا تسلط مضبوط کرکے تنظیم کے نام کو اپنے ہاتھوں میں رکھا جائے اور اپنے ساتھ ایک تاریخی تسلسل اور قربانیوں کا طویل سلسلہ رکھنے والے اس تنظیم کے نام کو استعمال کرکے رائے عامہ کو گمراہ کیا جائے ۔اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد کہ اب تنظیم کے ان نام نہاد اداروں کے اندر رہتے ہوئے ہم نا تبدیلی لاسکتے ہیں نا ہماری آواز سنی جائیگی ہم نے احتجاجاً اپنا استعفیٰ دے دیا ، لیکن ان استعفوں کے بعد بھی اس گروہ کے طرز عمل میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی جس کے ثمرات ہم آج تنظیم کے نو بڑے زونوں سمیت مزید ایک سینٹرل کمیٹی کے استعفیٰ کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں ۔ مستعفی ارکانِ مرکزی کمیٹی نے مزید کہا ہے کہ اب اس مقدس تنظیم کا مزید اس گروہ کے ہاتھوں میں ہونا تنظیم کی موت ہے جس کا ناصرف بی ایس او آزاد بلکہ بلوچ قوم ہر گز متحمل نہیں ہوسکتی لہٰذا تنظیم کو اسکے روح کے مطابق ڈھالنے اور اسے آزاد کرکے حقیقی انقلابی خطوط پر استوار کرنے کیلئے ہم سابق مستعفی ارکانِ مرکزی کمیٹی حال ہی میں مستعفی نو زونوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور اس بابت بی ایس او آزاد کے آرگنائزنگ کمیٹی سابقہ آئینی بلاک کے اس دعوت کا خیر مقدم کرتے ہیں جس میں انہوں نے تنظیم کو حقیقی معنوں میں بحال کرنے کیلئے ساتھ مل کر جدوجہد کی دعوت دی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز