سه‌شنبه, مارس 19, 2024
Homeخبریںبی ایل اے ہائی کمان کی طرف سے اسلم بلوچ اور بشیرزیب...

بی ایل اے ہائی کمان کی طرف سے اسلم بلوچ اور بشیرزیب کو معطل کردیا گیا

بلوچ لبریشن آرمی کی ہائی کمان نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہا کہ ہم بلوچ قوم کو 24 جولائی کوجاری ہونے والے بیانات، اس کے بعد رونما ہونے حالات اور بی ایل ایف کی طرف سے اتحاد حوالے بیان سے متعلق تمام حقائق سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ یکم جون کو اسلم بلوچ تنظیمی ہائی کمان کی اجازت کے بغیر ہندوستان روانہ ہوئے۔ یہ بی ایل اے کی پالیسی اور ڈسپلن کی سنگین خلاف ورزی تھی جس کی وجہ سے اسلم بلوچ کے اس عمل پر تفتیش اور جواب طلبی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی کی طرف سے ہائی کمان کو یہ تجویز دی گئی کہ اسلم بلوچ کا انتظار کیا جائے گا اور ان کی واپسی پر ان سے جواب طلبی کی جائے گی۔ تنظیمی ہائی کمان نے کمیٹی کی تجویزکے مطابق اسلم بلوچ کا انتظار کیا تاکہ ان کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع ملے۔ حکمت عملی کے تحت اس تنظیمی تفتیشی کمیٹی کے بارے میں عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا۔اسی دوران تنظیم اسلم بلوچ کے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی انتظار میں تھی کہ ہائی کمان کو قابل اعتماد ذرائع سے معلومات حاصل ہوئی کہ اسلم بلوچ تنظیم میں انتشار پیدا کرنے اور تنظیم کے خلاف سازشوں میں سرگرم ہے۔
اس معاملے کی سنگینی کی بنیاد پر ہائی کمان کی طرف سے تنظیمی ذمہ داروں سے صلح و مشورے کے لیے 24 جولائی کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ یہ مسئلہ غیرمعمولی اور تنظیم و تحریک کی بقا سے متعلق ہے اسی لیے بلوچ قوم کو اس بات سے آ گاہ کیا جائے گا کہ اسلم بلوچ بغیر اجازت ہندوستان چلے گئے ہیں۔24 جولائی کے ہنگامی اجلاس کے دوران جئیند بلوچ والے تنظیمی نام کو بھی عارضی طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اسلم بلوچ کے بغیر اجازت ہندوستان جانے کے متعلق بیان کو ہائی کمان کی اجازت کے بعد ہی ترجمان آزاد بلوچ کے ذریعے میڈیا کو ارسال کیا گیا۔ بی ایل اے کے تنظیمی ڈسپلن کے تحت ترجمان افرادکے نام نہیں نہ ہی یہ نام تنظیمی ارکان کے فرضی نام ہیں، اسی وجہ سے ماضی میں تنظیمی ترجمان کے ایک ہی نام کو الگ الگ ذمہ داران کے حوالے کیا جاچکا ہے۔ ان نکات کی وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ ان حالات میں تنظیمی ترجمانوں کے نام کو ڈ سپلن اورواضح اصولوں کے برعکس زیر تفتیش افراد اپنے ذاتی لقب اور اپنے ذاتی فرضی نام کے طور پر استعمال کررہے ہیں ۔
آزاد بلوچ کے بیان کے چندگھنٹے بعد تنظیمی رکن بشیر زیب نے ہنگامی اجلاس میں طے ہونے والے تمام فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معطل شدہ تنظیمی ترجمان جئیند بلوچ کے نام کو تنظیم کے خلاف استعمال کیا اور اس کے ساتھ ساتھ تنظیمی ارکان اور بلوچ قوم کو دھوکہ دے کر گمراہ کرنے کی کوشش کی تنظیمی ہائی کمان اور ترجمان آزاد بلوچ کو پاکستان کا ایجنٹ قراردے کر قائم شدہ تنظیمی نظام میں انتشار لانے کے جرم کا ارتکاب کیا یادرہے کہ آزاد بلوچ بی ایل اے کا ترجمان اعلی ہے جو ابتدائی دور سے بی ایل اے کی نمائندگی کررہا ہے جبکہ ترجمان میرک اور ترجمان جئیند کو بعد میں جنگی حکمت عملی کے تحت ہائی کمان نے زمہ داریاں سونپی تاکہ تر جمان اعلی کی معاونت ہوسکے۔ اسلم بلوچ کو جوابدہی سے بچانے کے لیے بشیرزیب نے معطل شدہ تنظیمی نام جئیند بلوچ کا استعمال کیا اور بیان دے کر تنظیم میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تما م اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے اور عملی طور پر کودتا کرنیکی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ غلط بیانی کی کہ تنظیمی سوشل میڈیا اکاونٹ ہیک ہوچکے ہیں اور بعد میں تنظیم کے اندر تنظیم بنانے کی کوشش کرتے ہوئے جعلی سوشل میڈیا اکاونٹ اور ویب سائٹ بنائے ۔حالانکہ ان زیر تفتیش افراد کو سوشل میڈیا اکاونٹ اور تنظیمی ویب سائٹ پر قانونی اختیارات حاصل نہیں تھے ان افراد کا کام بی ایل اے کے درجنوں کمانڈ روں کی طرح مزاحمتی ذمہ داریاں سنبھالنا تھا ۔اگر ان زیر احتساب دو کمانڈروں کی طرح بی ایل اے کے تمام کمانڈر جوابدہ ہونے پر جعلی ویب سائٹ بناکرڈسپلن اور قانون کو روندنے لگیں تب کیا تنظیمی وجود کو برقرار رکھنا اور دشمن کو شکست دینا ممکن ہوگا؟
ان دو زیرتفتیش افراد کی طرف سے کودتا کا مقصد ایک طرف تنظیمی قیادت پر قبضہ کرنا تو دوسری طرف بی ایل اے جیسی قومی تنظیم کو بلوچستان میں موجود ایک مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ اور دوسری تنظیموں میں موجود انتشاری کمانڈروں کی طرح ایرانی پراکسی بنانا تھا اس سیاسی ایجنڈے کو آگے لیجانے کے لیے نائیلہ قادری کی طرف سے بھی بی ایل اے کے زیر تفتیش افراد کی مدد کی گئی ۔ معطل شدہ تنظیمی ترجمان جئیند بلوچ کواستعمال کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں بھی لائی گئیں جن کو بی ایل اے کی قیادت قو م دشمن پالیسیاں سمجھتی ہے۔ ہائی کمان کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ بی ایل ایف کی طرف سے میڈیا دشمن پالیسی اور مبینہ دھمکیوں اور بائیکاٹ کی ہم نے حمایت نہیں کی اور چھ اکتوبر کو معطل شدہ ترجمانجئیندبلوچ کا میڈیا پر طاقت کے استعمال اور بی ایل ایف کی پالیسی کی مکمل حمایت کی کوئی تنظیمی حیثیت نہیں کیونکہ بلوچ لبر یشن آرمی ایسی کسی پالیسی پر یقین نہیں رکھتی کہ جس سے طاقت کا رخ بے گناہ صحافیوں اور بلوچ عوام پر موڑ دیا جائے۔ معطل شدہ ترجمان جئیندبلوچ کی اس حمایتی بیان کے بعد حب اور نوشکی میں صحافیوں اور کیبل آپریٹر پر ہماری تنظیمی اصولوں و پالیسیوں کے برعکس کاروائیاں کی گئیں جن سے ہم تنظیمی طور پر لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور تنظیمی سطح پر بے گناہ لوگوں کے خلاف طاقت کے استعمال پرمکمل تحقیقات و تفتیش کا اعلان کرتے ہیں اور اس بیان کے ذریعے اس بات کی وضاحت کرنا لازمی سمجھتے ہیں کہ 24 جولائی کے بعد تمام واقعات جو معطل ترجمان جئیند بلوچ کی طرف سے قبول کیے گئے وہ تنظیمی طور پر کالعدم ہیں ان تمام کاروائیوں کو اسلم بلوچ اور بشیر زیب کے خلاف بننے والی تنظیمی چارج شیٹ میں شامل کیا جائے تاکہ ہر ایک نا جائز عمل پر ان زیر تفتیش افراد کو جوابدہ کیا جاسکے۔ ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ ان کاروائیوں اور پالیسیوں کی کوئی تنظیمی حیثیت نہیں کیونکہ یہ تمام پالیسیاں تنظیمی اتھارٹی اور ہائی کمان کے بجائے زیر احتساب ارکان کی ذاتی پالیسیاں تھیں۔
ہائی کمان نے کہا کہ پاکستانی ریاست ایک غیرفطری اور غیر جمہوری ریاست ہے جہاں پر اظہار راے کی اجازت نہیں۔ کئی صحافی تمام تر پابندیوں اور ریاستی دباؤ کے باوجود بلوچ قومی تحریک کے خلاف برائے راست استعمال ہونے سے گریز اں رہے ہیں۔ بلوچستان صحافیوں کے لیے دنیا کا خطر ناک ترین اور غیر محفوظ علاقہ ہے۔ اس کی وجہ بلوچ عوام یا بلوچ تحریک نہیں بلکہ قابض ریاست پاکستان کی جابرانہ پالیسیاں ہیں جہاں آزاد صحافت کے تمام گنجائش وامکانات مسدود کئے جاچکے ہیں ۔گز شتہ سات برسوں کے دوران لالا حمید، رزاق گل، جاوید نصیر رند، منیر شاکر، صدیق عیدو اور الیاس نذر سمیت سینکڑوں بلوچ صحافیوں کو پاکستانی ریاست نے شہید کیا مگر اب بدقسمتی سے آزادی کے نام پر جدوجہد کرنے کی دعوے دار تنظیمیں تنگ نظری کی اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ وہ لوگوں کے مسائل اورقابض کے دباؤ کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ آزادی پسند تنظیموں کے ارکان کے سوائے تمام بلوچ عوام کو قوم دشمن و غدار اور بے گناہ لوگوں پر طاقت کے استعمال کو جائز سمجھتے ہیں جوکہ ہماری وسیع النظری اور مفاہمانہ رویوں سے متصادم ہے ۔ ہا ئی کمان نے کہا کہ ہم زمینی حالات سے اچھی طرح واقف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صحافیوں کو ریاستی اداروں کی طرف سے کس حد تک دباؤکا سامنا ہے لیکن دوسری طرف صحافیوں کو بھی ا خلاقی طور پر اپنی پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کرنا چاہیے تاکہ مکمل سچائی عوام تک پہنچ سکے ۔ بلوچ تحریک کا آئیڈئل پاکستانی ریاست نہیں بلکہ ہم ایک آزاد اور جمہوری بلوچستان کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اسی لئے ہمارا ہر عمل مستقبل میں اس بات کی نشاندی کرے گا کہ بلوچ لبریشن آرمی ایک ذمہ دار طاقت ہے جو ذمہ دار طریقے سے اپنی طاقت کو فقط دشمن اور ان کے آلہ کاروں کے خلاف استعما ل کرتی ہے نہ کہ نہتے اور بیگناہ پیشہ ور لوگوں اور عام عوام کو نشانہ بناتی ہے۔
ہائی کمان نے کہا کہ 24 جولائی سے لیکر اس بیان کے جاری ہونے تک ہم نے ڈسپلن کی سنگین خلاف ورزی اور اسلم بلوچ و بشیر زیب کے تمام اعمال کے باوجود صبر و تعمل کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے اسلم بلوچ کو کئی دفعہ پارٹی کے سیٹلائٹ فون، جعلی ویب سائیٹ اور سوشل میڈیا اکاونٹ پارٹی کے ذمہ داروں کو تحویل دینے کا کہا اور ان سے کہا گیا کہ وہ ڈسپلن کے تحت تنظیمی اتھارٹی کو جواب دیں تاکہ تنظیمی اصولوں اور ڈسپلن کوبرقرار رکھا جاسکے لیکن اس تمام عرصے کے دوران جوابدہ ہونے کے بجائے مذکورہ زیر تفتیش ارکان نے تنظیم کو مزید نقصانات سے دوچار کرنیکی کوشش کی ۔ اسلم بلوچ نے اس دوران تنظیمی اصولوں اور ڈسپلن کے برعکس اسلامی شدت پسندوں کی تعاون کرتے ہوئے ان کو کیمپ بنانے میں مدد کی۔اس عمل سے نہ صرف بی ایل اے کی ساکھ کو عالمی سطح پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی بلکہ اس کے مستقبل میں براہ راست سنگین منفی اثرات بلوچ قومی تحریک پر پڑیں گے اسی لیے بی ایل اے اسلم بلوچ کی ایسے تمام ذاتی پالیسیوں کو تحریک مخالف اقدامات قرار دیتے ہوئے ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور تنظیم کی طرف سے اسلم بلوچ کی اسلامی شدت پسندوں کو کیمپ بنانے کے لیے مدد کرنے پر مکمل جوابدہ کرنے کا اعلان کرتی ہے ۔ بلوچ لبریشن آرمی کی مذہبی تنظیموں کے حوالے سے پالیسی ہمیشہ غیرجانبدار رہی ہے اسی پالیسی کے تحت نہ کبھی ہم نے ان کی مدد کی نہ ہی کبھی ان سے نبردآزما ہوئے ماضی میں صرف ا ن مذہبی تنظیموں اور افراد کے خلاف ہماری تنظیم نے اقدامات کئے ہیں جو کہ پاکستان کی ایماء پر بلوچ عوام اور بلوچ سرمچاروں کے خلاف کاروائیوں میں شامل رہے ہیں۔
ہا ئی کمان نے کہا ہے کہ ہمارے علم میں یہ بات بھی تھی کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کی لیڈرشپ سمیت ایران بی ایل اے کو توڑنے اور کمزور کرنے کی شازش میں شامل ہے ۔ اس دوران بہت سی کاروائیاں جن کو معطل شدہ تنظیمی ترجمان جئیند بلوچ کی طرف سے قبول کیا گیا ان میں سے کچھ کاروائیوں کو دراصل بی ایل اے کے ارکان کے بجائے دوسرے تنظیموں کے ارکان نے انجام دیا اور ہائی کمان کو دباؤ میں لانے کے لیے ان کی قبولیت معطل شدہ ترجمان جئیند بلوچ کے ذریعے کروائی گئی۔ ان تمام حقائق کو جانتے ہوئے ہم اس لیے خاموش رہے تاکہ بلوچ قوم کے سامنے ان کرداروں کا پردہ فاش ہوسکے۔ ہائی کمان نے کہا کہ آج زیراحتساب تنظیمی ارکان کی طرف سے اتحاد اور اشتراک عمل کو بحیثیت ایک جواز استعمال کیا جارہا ہے تاکہ جوابدہی سے بچا جاسکے۔ اتحاد حوالے تمام حقائق کو ہم بلوچ قوم کے سامنے لانا چاہتے ہیں تاکہ ہماری موقف کی وضاحت ہوسکے۔ بی ایل اے نے ماضی میں ہر وقت کوشش کی کہ بلوچ مسلح تنظیموں کے درمیاں ماضی کی طرح تعاون اور اشتراک ہوسکے لیکن ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے تنظیم کی طرف سے اصولوں اور نکات کی بنیاد پر اتحاد کی پرچار کی گئی۔ اصولی تعاون اور اشتراک کو ممکن بنانے کے لیے بی ایل اے کی ہائی کمان کی طرف سے ایک سال پہلے تین رکنی کمیٹی بنائی گئی۔
اتحاد کے لیے ہمارے واضح نکات تھے ان کے تحت کمیٹی کو بی ایل ایف کی لیڈرشپ سے مذاکراتی عمل آگے لیجانا تھا، بی ایل ایف اور بی ایل اے کی کمیٹی کی طرف سے بات چیت تو کی گئی لیکن ان بات چیت میں بی ایل ایف کی طرف سے بی ایل اے کے دو نکات پر پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ان نکات کے تحت بے گناہ بلوچ عوام پر طاقت کے استعمال اور دوسرے ممالک کے پراکسی بن کربلوچ مفادات کے خلاف استعمال ہونے جیسی پالیسیوں کو ترک کرنا بھی شامل تھا۔ اس کمیٹی کے تین ارکان سے ایک رکن بشیر زیب تھا اور کمیٹی کے بنیادی قانون کے تحت یہ ضروری تھا کہ تنظیم کی طرف سے دی گئی نکات پر مکمل بات چیت اور رضا مندی کے بعد تینوں ارکان کااتحاد کے لیے مشترکہ فیصلے پر اتفاق کو تنظیمی سطح پر قانونی حیثیت حاصل ہوتی لیکن 24 جولائی کے بعد اس بنیادی طریقہ کار اور قانون کو روند کر پہلے سے زیر احتساب رکن نے ایک معطل شدہ تنظیمی ترجمان جئیند بلوچ کو کئی دفعہ اتحاد حوالے پالیسی بیانات کے لیے استعمال کیا۔ ہائی کمان نے کہا کہ ہم نے تمام آزادی پسند وں سے اتحاد کے لیے کوششیں کی ہیں مگر قومی تحریک کے لیے ہماری کوششوں کو بی ایل ایف کی لیڈرشپ نے ہماری کمزوری سمجھ کر اتحاد پر مذاکرات کے بجائے بی ایل اے کے چند زیر تفتیش ارکان کی مکمل پشت پنائی کی اوربی ایل اے کے خلاف شازشوں میں شامل رئے۔ ان تمام حقائق کو جانتے ہوئے بھی ہم نے بی ایل ایف کے اس رویے پر صبر وتحمل کامظاہرہ کیا تاکہ بلوچ قوم کے سامنے تمام حقائق خود آشکار ہوسکیں ۔ بی ایل ایف کی لیڈرشپ اس بات سے مکمل طور پر آگاہ تھی کہ اسلم بلوچ اور بشیر زیب پر تنظیم کی طرف سے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر تحقیقات جاری ہے لیکن اس کے باوجود اتحاد کے نام کو اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کرتے ہوئے بی ایل ایف کی لیڈرشپ نے بلوچ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے 30 اکتوبر کو اتحاد کے نام پر جھوٹا بیان جاری کیا۔ تنظیمی طور پر ان افراد کو کسی طرح کا اختیار حاصل نہیں تھاکہ یہ اتحاد یا پارٹی پالیسی حوالے فیصلہ کرسکیں یا کوئی پالیسی بیان جاری کرسکیں۔
ہائی کمان کی طرف سے کہا گیا کہ بی ایل ایف سے اس وقت تک اتحاد و اشتراک عمل ممکن نہیں جب تک وہ بے گناہ بلوچ عوام پر طاقت کے استعمال کو ترک نہیں کرتے اور ایرانی پراکسی ہونے سے مکمل دستبردار نہیں ہوجاتے ۔ مزید یہ کہ گذزشتہ چار مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات اور بی ایل ایف کی لیڈرشپ کی طرف سے بی ایل اے کے خلاف شازشوں اور زیر احتساب افراد کی مکمل پشت پنائی کے پیش نظر ان حالات میں ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ بی ایل ایف سے اتحاد کے لیے مزید کوششیں کریں اسی لیے ہائی کمان گذشتہ سال تشکیل پانے والی تین رکنی مذاکراتی کمیٹی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کرتی ہے۔ مستقبل میں بی ایل ایف سے اتحاد کے حوالے سے مذاکرات اور تعاون ان کی لیڈرشپ کی سیاسی رویے ، ان کی تنظیمی پالیسی اور بدلتے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔ آج زیر احتساب ارکان کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ اتحادی عمل کو بغیر کسی بنیادی نکات کے انجام دیا جائے ، وہ اور ان کے چند حمایتی کہتے ہیں کہ کسی بھی اتحاد کے لیے نکات اور شرائط درکار ہی نہیں !۔ اگر ایسا ہے اور ہم کسی پالیسی و طریقہ کار پر بی ایل ایف سے اختلاف نہیں رکھتے توپھر الگ الگ تنظیمی نام پر اتحاد کے بجائے کیوں ہم ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوجاتے؟ کیونکہ کہ اگر سب ایک رائے اور ایک حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ، کسی پالیسی پر اختلاف نہیں رکھتے،کسی نکتے پر اعتراض نہیں ہوتا ،ایک دوسرے کے تمام طریقہ ہائے کار پر ہم متفق ہوتے تو الگ الگ تنظیمی ڈھانچے اور پہچان کا کیاجواز ہوتا ؟ طریقہ کار، پالیسی اور حکمت عملی میں اختلاف نہ ہونے کے باوجود کیا بلوچستان میں الگ الگ مسلح تنظیموں کی وجود اور پہچان کا کوئی سیاسی جواز قائم رہتا ؟
ہائی کمان نے کہا کہ ہمارے بی ایل ایف سمیت دوسرے تنظیموں سے واضح اختلافات ہیں جن میں سے ایک واضح اختلاف بے قصور لوگوں پر طاقت کا استعمال ہے ۔ کئی سالوں سے بی ایل ایف بلاوجہ بلوچ قوم کے خلاف طاقت کا استعمال کررہی ہے۔حالیہ دنوں میں بی ایل ایف کی طرف سے بلوچستان میں پہیہ جام ہڑتال کے نام پر عام لوگوں کے گاڑیوں پر حملہ کرکے ٹائر برسٹ کرنے کے عوام مخالف پالیسیاں سامنے آئی ہیں جن کا کسی طرح بھی حمایت نہیں کیا جاسکتا ۔آیا بی ایل ایف غریب بلوچ عوام کے گاڑیوں کے ٹائر برسٹ کرکے پاکستان کو شکست دینے اور بلوچستان کو آزاد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ؟ ہمارے نزدیک ان کے غیر زمہ دارنہ وغیر سنجیدہ پالیسیو ں کی وجہ سے بلوچ عوام تحریک سے بدزن ہوئی ہے اور بے گناہ لوگوں کا جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ ہمارے نزدیک طاقت کا سرچشمہ فقط بلوچ قوم ہے اور ہماری تنظیم بلوچ قوم کے نام پرطاقت کاغلط استعمال نہیں کرتی ہے ۔بلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی ایسی تنظیم سے اتحاد کیا جائے جس کی موجود ہ لیڈرشپ اپنی تنظیمی طاقت کا رخ اپنی ہی قوم کے خلاف موڑ چکی ہو؟ آج بلوچستان میں موجود تمام آزادی پسند مسلح تنظیموں کی طاقت کی گنجائش کسی نیم فوجی دستے سے زیادہ نہیں جہاں اُن کے پاس خودکار رائفل، میشن گن اور آر پی جی جیسے ہتھیار ہیں۔ مگرآج بی ایل ایف سمیت دیگر تنظیمیں اس محدود طاقت کو برداشت نہیں کرپارہی ہیں اور اس طاقت کا استعمال بلوچ قوم کے خلاف کیا جارہا ہے۔ اگر کل ٹینک ، جیٹ اور ہیلی کاپٹر ان غیرذمہ دار تنظیموں کو دستیاب ہونگے تو یہ بلوچ قوم کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ ہائی کمان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہمیں اس بات کا بھی علم ہے کہ بی ایل ایف میں موجود بہت سے مخلص سرمچار ان پالیسیاں کو تبدیل کرناچاہتے ہیں اورہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں وہ اپنی لیڈرشپ کی موجودہ تنظیمی پالیسیوں کو درست سمت دینے میں کامیاب ہوسکیں گے تاکہ بی ایل ایف کی طاقت بلوچ قوم کے بجائے دشمن کے خلاف استعمال ہوسکے ۔ بیان میں کہا گیا کہ بی ایل اے نے ہمیشہ رابطوں کے ذریعے ان پالیسیوں کی مخالفت کی اور ہمیشہ طاقت کے غلط استعمال پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن ہماری تمام کوششوں کے باوجود بی ایل ایف کی لیڈرشپ اس بات کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے کہ بے گناہ عوا م پر طاقت کا استعمال جدوجہد آزادی کے اصولوں کے سریحاً خلاف ہے۔
ہائی کمان نے کہا کہ بی ایل اے کی قیادت نے موجود جدوجہد آزادی کو شروع کرنے سے پہلے گزشتہ ادوار میں ہونے والے جدوجہدوں کی غلطیوں کو روکنے کے لیے نئے طریقے سے جدوجہد کا آغاز کیا۔
جدوجہدکے گذشتہ ادوار میں تحریک میں تنظیمی ڈسپلن ، رازداری کا فقدان تھا جس کی وجہ سے تحریک کی پالیسیاں آہستہ آہستہ ریاست کی طرف سے پارلیمانی سیاست کی طرف موڑ دی گئیں۔دوسرے لفظوں میں مستقل پالیسیوں کی عدم موجودگی ہی سابقہ ادوار میں تحریک کے ناکامیوں کا سبب بنا ہے ۔مذکورہ بالا تمام غلطیوں اور حقائق کو سامنے رکھنے کے بعد بی ایل اے کی قیادت نے موجودہ جدوجہد کو شروع کرتے ہوئے تنظیمی ڈسپلن ، زارداری اور آزادی کے واضح پالیسی کو تحریک کا ستون بنایا۔ تحریک شروع ہونے سے لیکر تقریبا 2008 تک بلوچ قومی تحریک کی تمام پالیسیاں بی ایل اے کی قیادت بناتی رہی لیکن اس کے بعد ہر تنظیم اپنی طور پر تنظیمی سطح پر پالیسی سازیاں کرنے لگا۔الگ الگ پالیسیوں کے باوجود بی ایل اے نے ہر ممکن کوشش کی کہ تمام تنظیمیں ایک دوسرے سے تعاون کے ماحول کو برقرار رکھیں لیکن آہستہ آہستہ اختلافات کی وجہ سے دوریاں پیدا ہوئیں اور جن پالیسیوں پر ہم نے اختلاف رکھا وہی پالیسیاں جدوجہد کی کمزوری کا سبب بنیں۔ جدوجہد شروع ہونے سے لیکر آج تک ہزاروں بلوچوں کو شہید کیا گیا اور ہزاروں اب تک دشمن کے زندانوں میں اذیت برداشت کررہے ہیں ۔ہم نے بلوچ قوم کی تعاون سے موجود جدوجہدِ آزادی کا آغاز کیا اس لیے یہ ہماری زمہ داری ہے کہ کسی بھی صورت اس تحریک کو ناکامی سے بچائیں۔موجود دفاعی جنگ کو شروع کرنے کی وجہ سے جدوجہد کی کامیابی یا ناکامی کی ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے اس لئے یہ بی ایل اے کے قیادت کی زمہ داری ہے کہ وہ تحریک کو اس حد تک مضبوط کرے کہ ایک آزاد بلوچ ریاست کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ جن تنظیموں سے ہم اختلاف رکھتے ہیں اور جن ارکان کو تنظیم اور تحریک کو نقصان دینے کی بنا پر جوابدہ کیاجارہا ہے ان کی سیاسی اور مزاحمتی پالیسیوں کی جھلک24 جولائی کے بعد بلوچ قوم دیکھ چکی ہے ۔ بی ایل اے ہائی کمان کے ہاں اب تک یہ افراد اور تنظیمیں شعوری طور پر اس حد تک بالغ نہیں کہ بلوچ قوم کے لیے ایک آزاد ریاست کی تشکیل کرسکیں۔ تحریک کی تمام کمزوریوں ، بی ایل اے کے خلاف سازشوں ، تنظیمی ڈسپلن کی خلاف ورزیوں اور تنظیمی پالیسیوں کے برعکس کاروائیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچ لبریشن آرمی تنظیمی ڈھانچے میں مکمل تبدیلی اور تنظیمی ڈسپلن کو مزید سخت کرنے کا اعلان کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بی ایل اے موجود ہ جنگی ڈاکٹرین میں بھی مکمل تبدیلی لانے کا اعلان کرتی ہے تاکہ آنے والے وقتوں میں بی ایل اے کو ایک طاقت ور اور موثر قومی دفاعی طاقت کے طور پر اُبھاراجاسکے۔بی ایل اے اس بیان کے ذریعے مندرجہ ذیل اقدامات کا اعلان کرتی ہے۔
اول) تنظیمی ترجمان میرک بلوچ اور پہلے سے معطل شدہ ترجمان جئیند بلوچ کو ہائی کمان مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کرتی ہے۔
دوئم)اس بیان کے جاری ہوتے ہی صرف ترجمان اعلی آزاد بلوچ بی ایل اے کا ترجمان رہے گا ۔ آزاد بلوچ کے علاوہ کسی بھی نام سے بی ایل اے کی ترجمانی نہیں ہوسکتی۔
سوئم) اسلم بلوچ اور بشیر زیب بلوچ کو غیر معینہ مدت کے لیے تمام تنظیمی ذمہ داروں سے د ستبردار کرتے ہوے اس وقت تک معطل کیا جارہا ہے جب تک وہ تنظیمی اتھارٹی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتے ۔ جوابدہی کے عمل کے بعد ہی ان کے تنظیمی اختیارات پر باقاعدہ فیصلہ کیا جائے گا۔
چہارم) بی ایل اے کی موجودہ جنگ آزادی کی ڈاکڑین اور تنظیمی دھانچے میں مکمل تبدیلی لائی جائے گی

یہ بھی پڑھیں

فیچرز