شنبه, آوریل 20, 2024
Homeآرٹیکلزبی این ایم اور ڈاکٹراللہ نذر "إنا لله وإنا إليه راجعون"،تحریر :حفیظ...

بی این ایم اور ڈاکٹراللہ نذر “إنا لله وإنا إليه راجعون”،تحریر :حفیظ حسن آبادی

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا ٹیوٹ پیغام پڑھ کر بہت افسوس ہوا جس میں آپ نے حیربیار مری کے بلوچ خواتین کی ماورائے عدالت گمشدگی پر مذمتی بیان کو مذہبی انتہا پسندوں و سعودی عرب کی حمایت سے تعبیر کیا ہے اس سےپہلے کہ جھوٹ سچ آنے سے پہلے کئی بستیاں ویران کرے اور اس پر کچھ کہا جائے پہلےحیر بیار مری کے بیان کے وہ حصے پیش کرنا ضروری ہے جن پر مبینہ اعتراض ہے تاکہ صاحب عقل خود فیصلہ کر سکیں کہ کہاں دہشت گردوں کی حمایت کا گمان ڈاکٹر کو گزرا ہے یا ایسا تاثرپیدا کرنا کسی کا زہنی اختراع ہے ؟ حیربیار مری کا بیان ہے “کہ جناح کی زیر قیادت سامراجی حربوں و مفادات کے تحت اسلام کے نام پرجس پاکستان کو وجود میں لایا گیا۔ وہ آج پوری دنیا کیلئے ایک ناسور بن چکا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک ملٹری اسٹیبلشمنٹ و حکمران اسلام کے نام کو اپنے مفادات و مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ اور مذہبی دہشت گرد گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں۔ طالبان اور دوسرے گروہ، جو پورے خطے کے لیے خطرہ ہیں۔اس تناظر میں اگر گزشتہ چند مہینوں کی پاکستانی سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیا جائے تو کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ ضیاء کے دور میں پاکستانی آئین میں شامل کئے گئے اسلامی شقوں میں تبدیلی کی بات کر نے پر پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی ایماء پر جماعتہ الدعوت جیسی جہادی تنظیم نے امریکہ اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور ان شقوں کے تحفظ کیلئے سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی دیوبندی، بریلوی اور جماعت اسلامی والے میدان میں کود پڑے۔ جبکہ پاکستانی مفادات کے پیش نظر اس ملک کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں کے ساتھ ان سب اسلامی تنظیموں کو چین کے ایغور مسلمانوں پر جبر و استبداد اور مذہبی عبادات پر پابندی لگانے، زبردستی نماز و قرآن پڑھنے سے روکنے کے عمل پر سانپ سونگھ جاتا ہے۔ جو پاکستان کے دوغلے پن کا کلم کھلا اظہار یے۔ جبکہ یہی چینی حکمران ایک جانب سنکیانگ صوبے میں مسلمانوں پر جبر کرتے ہیں، اور دوسری جانب اقوام متحدہ میں جیش محمد اور اس کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے والے انڈیا کی جانب سے پیش کردہ قرارداد کو ویٹو کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ حیربیار مری نے سعودی عرب کی معتدل اسلام کی واپسی کی کوششوں کو خطے کے لیے مثبت قرار دیا انھوں نے کہا کہ بلوچوں کی بڑی تعداد خلیجی ممالک میں زندگی بسر کررہے ہیں اور ان ممالک کا تاریخی طور پر بلوچوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رہے ہیں انھیں خود قابض قوتوں نے ایک قوم ہوتے ہوئے کئی ممالک میں تقسیم کیا ہوا ہے اس لیے خلیجی ممالک ایرانی اور پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کی آزادی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بلوچوں کی اخلاقی سفارتی مدد کریں کیونکہ پاکستان ،ایران اور چین خطے میں اپنے مفادات کی خاطر اسلامی اور سوشلزم کے لبادے میں اصل میں اپنی نوآبادیاتی عزائم کی تکیمل کر رہے ہیں”
یہ تھے وہ جملے جہاں دہشتگردی کے حوالے بات کی گئی ہے جبکہ سعودی عرب کانام تین مختلف موضات پرمختصر بات کرتے لی گئی ہے پہلہ سعودی عرب کی معتدل اسلام کی طرف لوٹنے کاارادہ ایک مثبت عمل ہے دوسرا عرب ممالک کے بلوچوں کیساتھ تاریخی اچھے رشتے رہے ہیں تیسرا سعودی عرب سمیت دیگر ممالک پاکستان،ایران اور چین کے نوآبادیاتی منصوبوں کے خلاف بلوچوں کے جدوجہد آزادی کی مشرقی و مغربی بلوچستان میں اخلاقی و سفارتی مددکریں۔ جہاں تک میں سمجھ پارہا ہوں یہاں کہیں بھی دہشت گردوں کا حمایت نظر نہیں آرہا اس کے برعکس بیان میں حیربیارمری کا موقف دہشت گردوں کے خلاف اور پاکستان کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ کا واشگاف الفاظ میں ذکر ہے.اگر ڈاکٹر کو حیربیار مری کا یہ بات پسند نہیں آیا ہے کہ آپ نے سعودی عرب میں معتدل اسلام کی طرف لوٹنے کو مثبت قرار دیا ہے تو یہ مری کے روشن فکری اور عرب ممالک میں مقیم بلوچوں کی طرف سے نیک خواہشات کا اظہار ہے کیونکہ اگر وہاں قانون عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں اُس سے لاکھوں بلوچوں کو بھی فائدہ ہوگا. ویسے ہم مریخ پر نہیں زمین پر زندگی گزار رہے ہیں تو ایسی چیزوں سے لاتعلق بھی رہ نہیں سکتے۔ آج پوری دنیا سعودی عرب کے اس معتدل اسلام کی طرف لوٹنے کے عمل کو غور سے دیکھ رہی ہے اور حوصلہ افزائی بھی کررہی کیوں کہ جس دہشت گردی سے بلوچ متاثر ہے اس سے پوری دنیا متاثرہوئے بنا نہ رہ سکا ہے اوراس سے چھٹکارا بھی چاہتی ہے امریکہ کے نائن الیون میں سعودی عرب کا نام سرفہرست رہا ہے روس چیچن اور داغستان میں دہشتگردوں کو فنڈنگ کرنے میں سعودی عرب کا نام اعلیٰ سطح پر بارہا لے چکا ہے پاکستان میں بھی تمام ترقی پسند و آزادی پسند بارہا کہہ چکے ہیں کہ سعودی عرب و دیگر خلیجی ممالک کے فنڈز مسجدوں اور اسلام کی تبلیغ کے نام پر آتے ضرور ہیں لیکن وہ خرچ دہشت گرد بنانے پر ہوتے ہیں اگرسعودی حکومت اپنی غلطیوں کا احساس کرکے اُنھیں ٹھیک کرنے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے تو ہمیں کچھ اور نہیں کم از کم اس عمل کو تو درست کہناچائیے۔ امریکہ روس یورپی ممالک ساری ترقی پسند دنیا نےسعودی شہزادے کے مذکورہ بیان کی حمایت کی ہے ۔ایسے میں اگرعالمی قوتوں کیساتھ ایک بلوچ لیڈرنے بھی ایک مثبت قدم کو ٹھیک کہا تو کیا بُراہوا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ اور آپ کے ہمنوا آئندہ اُن تمام یورپی ممالک ،کینیڈا،اسٹریلیا،اسرائیل،روس و امریکہ سے اخلاقی و سفارتی مدد کی اپیل نہیں کریں گے کیونکہ اُنھوں نے بھی سعودی عرب کے اس ایک عمل کودرست کہنے کی غلطی دہرائی ہے۔تو آپکے اپیل کیلئے صرف چین اور ایران ہی رہ جاتے ہیں جو ابھی اس سلسلے میں خاموش ہیں۔
ایک ڈاکٹر کی حثیت سے اگرگوئی بُری عادتوں سے مریض بن کر ڈاکٹرکے پاس آتا ہے توڈاکٹر اُسے گذشتہ سےدوررہنے اور بھول جانے کا کہتا ہے یااُسے کہتاہے روزانہ دس باراپنے گذشتہ کو یاد کرو؟یا لوگوں کو ہدایت کرتا ہے اسکے درست ہونے کی کوششوں کو حقیرسمجھ کرنظرانداز کرو اور کوئی موقع ضائع کئے بغیراس کے ماضی کے غلطیوں کا طعنہ دیتے رہو؟ اُمید ہے بحیثیت ڈاکٹر آپ اولذکرتجویز دیں گے حیربیارمری نےبھی سعودی عرب کے اس مثبت عمل کودرست کہاہے اورطعنہ دینے کے بجائے اسلام کے مقدس نام کو روبروخطرات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
دوسرا بلوچوں کی بڑی تعداد عرب ممالک میں مقیم ہے اورہمارے آپس میں گہرےتاریخی اورایکدوسرے کے احترام پر مبنی دوستی کے روایات ہیں بلوچوں نے ہرمشکل وقت میں عربوں کاساتھ دیا ہے اب اگر بلوچ قوم مشکل میں ہے تو اُن کا حق بنتا ہے کہ وہ پاکستان چین اور ایران کے بجائے اپنے حقیقی اور تاریخِ دوست بلوچوں کا اخلاقی و سفارتی مدد کریں ؟بلوچوں میں آپ بھی آتے ہیں اورباقی ہرعام و خاص بلوچ آتا ہے یہاں اُس نے کسی مخصوص فرد یا ٹولے کی مدد کی اپیل نہیں کی ہے جو کسی کے خاطرپر ناگوار گذرے۔
مری کے بیان میں صرف سعودی عرب کے فقط ایک عمل کو درست کرنے کی کوشش کو ٹھیک کہاگیاہے جوپوری دنیا میں بنیادپرست و دہشتگرد بنانے اور اسلام کے بدنام ہونے کاسبب مانا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ اس بیان میں اُن تمام تنظیموں اور پاکستانی پالیسی ساز اداروں کا ذکرہے جن کوسعودی عرب سمیت درجنوں اسلامی ممالک کےمخیرحضرات اور کئی یورپی و افریقی ممالک دل کھول کر مددکرتے رہے ہیں اُن کو بلوچ لیڈرنے خبردار کیا ہے کہ آپکا پیسہ نہ اسلام کی بھلائی کیلئے خرچ ہورہا ہے نہ دہشتگردی کے خلاف اسعتمال ہورہا ہے یہ پیسہ مظلوموں کو دبانے پاکستان ایران و چین کے توسیع پسندانہ عزائم کے تکمیل کیلئے استعمال ہورہاہے ۔کیا یہ آپ بھی موقف نہیں رہاہے؟
مضمون سمیٹنے سے پہلےایک بات انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ بلوچ خواتین کادشمن کے ہاتھوں اغواء ہونا ایک ایسا قومی المیہ ہےجس پرجتنا کہا جائے کم ہے ایسے واقعات کے تدارک کے لئے حقیقی یکجہتی کی ضرورت ہے نہ کہ ایک دوسرے کے جوابدہی سے گریزاں بھگوڑوں کوجاہ پناہ دے کرفریق بنا جائے ۔ ہم آزادی پسند تمام دوستوں کو کھل کر کہتے ہیں کہ یہ غلطی ماضی بعید و ماضی قریب میں تمام تنظمیں یکساں کرچکی ہیں سب کیلئے اُن کا انجام ہرصورت میں بھیانک نکلا ہے۔آج ایک شخص اپنے تنظیم سے صرف اس لئے بھاگ کر تمہاری باہوں میں آرہاہے کہ وہ اپنے کرتوت کا جواب دینے سے قاصرراہ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے تو کل کیا وہ آپ کے کسی بات پرجوابدہی سے بھاگ کرکہیں اور چلا نہیں جائیگا؟
خواتین کا اغواء جہدکاروں کے رشتہ داروں کوزیر عتاب لاناجیسے واقعات ک مکمل روک تھام شاہد ممکن نہ ہو لیکن اگرحیربیارمری ،براہمدغ خان بگٹی ۔ڈاکٹراللہ نذربلوچ اور خلیل بلوچ آپس میں سنجیدہ گفتگوکرکے مشترکہ لائحہ طے کریں توایسے ظالم ،وحشی و کم ظرف دشمن کے سامنے مناسب مزاحمت منظم کی جاسکتی ہے اور ایسا موثراشترک عمل ایسے غیرسنجیدہ بیانوں سے بُری طرح متاثر ہوگا بنے گا کبھی نہیں ۔ ایک دن پہلے آپ کا نمائندہ گوہرام بی ایل اے سے اتحاد کا جھوٹا اعلان کرتے ہیں جبکہ اگلے دن آپ حیربیارمری کے خلاف بیٹھے بٹھائے ایسی بات منسوب کرکے اُس کی مذمت کرتے ہیں جس کا وجود ہی نہیں ہے۔
آزادی پسند تنظیم بی این ایم کا بیان بھی اسی سیاق و سباق میں لکھا گیا ہے اگر بیان ذیلی سطح پر کسی کم علم نوجواان نے بغض معاویہ کے تحت لکھاہے تو یہ ڈاکٹراللہ نذر اور بی این ایم کے ساکھ کیلئے بہت بُرا شگون ہے وہ اپنے ناموں کے ساتھ ایسی مذاق کاتدارک کریں اگر یہ بیان اُوپری سطع پر دیاگیا ہے تو اُس میں دو باتیں کی جاسکتی ہیں پہلہ ان دوستوں نے خود بیان نہیں پڑھا ہے کسی نے سیاق سباق سے ہٹ کر اُنھیں کچھ کہا ہے جس پر اُنھوں نے یہ بیان دیا ہے اگر ایسا نہیں ہے اور اُنھوں اپنے ہوش و حواس میں یہ بیان دیا ہےتو بی این ایم اور ڈاکٹراللہ نذر کیلئے “إنا لله وإنا إليه راجعون ” کہا جائے باقی دوست برائے مہربانی حیربیامری کابیان ایک بارپھرغور سے پڑھیں اور خود فیصلہ کریں کیونکہ یہ اُن کا بنیادی حق ہے۔
{ختم شُد}

یہ بھی پڑھیں

فیچرز