پنج‌شنبه, مارس 28, 2024
Homeآرٹیکلزبی این ایم کی تصوراتی دنیا حسن جانان

بی این ایم کی تصوراتی دنیا حسن جانان

جدید صنعتی ترقی کی برق رفتاری نے دنیا کو سکٹر کر ایک ویلج بنا دی ہے اور پوری دنیا ایک ہی لمحے میں ایک دوسرے کے حالات و واقعات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں اور تمام ممالک ایک دوسرے سے مکمل طور پر اپنے مفادات کے تحت جڑ جاتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے مفادات کو مدنظر رکھ کر اپنے پالیسیوں کو تشکیل دیتے ہیں اور ایک دوسرے سے برادرانہ و مخصمانہ رویہ اپنے مفادات کے تحت رکھتے ہیں۔ اور موجودہ دور میں کسی بھی ملک یا قوم کی سب سے اہم و بنیادی کام خارجی پالیسی ہی ہوتی ہے جو معاشی معاشرتی سیاسی ثقافتی حوالوں سے کسی دوسرے ملک سے دوستی و دشمنی کی بنیاد پر ہی ہو پاتی ہے۔ اور اس قوم و ملک کاچھوٹی و بڑی سیاسی یاثقافتی کوئی عمل کسی دوسرے ملک و قوم سے آپ کے تعلقات کو دوستی سے دشمنی تک پہنچا سکتا ہے ۔ اور اسی سوچ کے تحت دنیا اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر اپنی پالیساں بناتے ہیں اور ایک دوسرے سے اپنے تعلقات کو استوار کرتے ہیں۔اکیسوی صدی کے برق رفتار ٹیکنالوجی کی ترقی نے پورے دنیا میں ہلچل پیداکرد کردی ہے چین و جاپان امریکہ و دیگر ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہو کر سبقت لے جانے میں لگے ہوئیں ہیں اور ساتھ ہی سیاسی و معاشی رشتوں کو مضبوط کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ اور اس دور میں بحیثیت قوم بلوچ جو کہ دنیا کے معاشی سیاسی سماجی ادبی مسائل کو جاننے اور سمجھنے سے زیادہ اپنے سیاسی تحریک آزادی کے لیے رائے ہموار کرنے کی ہر ممکن کوشش میں مگن ہے۔اور اس میں کامیابی و ناکامی سے قطع نظر دنیا میں حالیہ تحریکوں کی ناکامی کی وجوہات بھی بلوچ تحریک کے لیے مشعل راہ ہے۔ کیونکہ انھی تحریکوں کے حالات و واقعات سے سیکھ کر ہی اپنے لیے کوئی راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔ اور اس برق رفتار ترقی میں ملکوں کے مفادات وقت و حالات کے ساتھ برقی رفتار سے بدلتے ہیں اور انھی مفادات کی جنگ میں بعض مسائل حل کی طرف و بعض پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں جیسے کشمیر و فلسطین کا مسئلہ جو کوئی نتیجہ دئیے بغیر ایک ہی حالت میں ہے ۔اور اس کے ناکامی کے پیچھے مذہبی اپروچ کے ساتھ دنیا میں مذہبی بنیاد پر نئے ملکوں کے تخلیق کو انتہا پسندی سے تعبیر کرتے ہیں جو کہ کبھی بھی افغانستان و پاکستان کی طرح انتہا پسندی کا گڑھ بن سکتے ہیں البتہ اسکے علاوہ بھی بہت سے دیگر وجوہات بھی ان ممالک کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ اور اسی تناظر میں چیچن تحریک کی ناکامی کی وجہ بھی مذہبی انتہا پسندی سے تعبیر ہو ئی اور جب چیچنیا پر روس نے مکمل حملہ کردیا تو پوری دنیا کے مہذب ممالک خاموش رہے بلکہ خاموش حمایتی رہے ۔ اسی طرح حالیہ تامل وطن کی تحریک کی ناکامی کی وجوہات کچھ مذہبی پہلوؤں کے ساتھ عسکری و خارجی پالیسی رہی۔ اور جب سری لنکا نے تامل تحریک کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا تو تامل وطن کے ہمدردی پر تمام سپر پاور خاموش رہے ۔ اور انکے انتہا پسندانہ اعمال طریقہ کار و پالیسیوں نے انھیں کامیابی سے روکے رکھا۔ اور اسی طرح دوسری جنگ عظیم میں ویت نام ‘الجزائر کوریا کیوبا نے اپنے مفادات کو دنیا کے مفادات سے ہم آہنگ کرکے کامیابی حاصل کرلی۔ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جو ممالک آزاد ہوئیں وہ یا توسوشلسٹ سوچ کے تحت ہوئےّ ّیا پھر کیپٹلسٹ۔ اس کی وجہ اس وقت کی سپر پاور روس امریکہ کا مدمقابل ہونا تھا اور سوشلسٹ سوچ کو روکنے کے لیے دنیا کے ممالک ایک دوسرے جڑّ گئے اور دو بلاک ایک دوسرے کے مدمقابل ہوئیں۔ ایک بلاک حمایتی تو دوسرا مخالف۔ اس وقت سوشلزم ایک خیال بن کر بلوچ سیاست پر اثرانداز ہوا اور بلوچ وطن میں ریڈ بکس کی بھرمار ہوئی اور سوشلسٹ سوچ کو سامنے رکھ کر اپنے وطن کے زمینی حقائق کا تجزیہ کیے بغیر بلوچ تحریک کو سوشلزم سے جوڑ دیا گیا۔ اور امریکہ نے پاکستان کے زریعے بلوچ وطن و افغانستان میں مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دی اور بلوچ تحریک کے سامنے ملاازم کولا کھڑا کیا۔ اس طرح قبائلی سرداروں سے لیکر مذہبی حلقے تمام بلوچ جہد آزادی سے منحرف ہوئیں اور ساتھ ہی سوشلسٹ ریاست سے بھی اپنے نااہلی کی وجہ سے وہ کمک حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئیں اور تحریک دو عشرے کے بعد ایک خواب سا لگنے لگا۔منتشر سوچ کی کمزوری کے ساتھ اندرونی قبائلی سوچ و دیگر چھوٹے مسائل تحریک کو کامیابی کی طرف پیش قدمی سے روکے رکھا۔ اور آج بھی وہی صورتحال ایک منظر پیش کررہی ہے۔ صرف وقت وحالات میں فرق ہے لیکن سوچ و فکر اور سوچنے و سمجھنے کا انداز و ادراک وہی ہے کہ سرمایہ دار و سامراج مردہ باد۔حالیہ بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے سیشن پر ایک بیان جاری کیا ۔ بیان کا متن کچھ اسطرح تھا،کہ پارٹی دنیا کے سرمایہ دار ملکوں کو بلوچ تحریک کے بارے آگاہی دینے میں اپنے سفارتی تعلقات بنانے میں کامیاب ہوا ہے اور عالمی طاقتیں خصوصا ملٹی نیشنل کمپنیاں بلوچ سیاست کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس سرزمین پر اپنے مفادات کو آسان شرائط پر منوانے کی تگ و دو میں ہے اور سرمایہ دار ممالک کے ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے خواہشات کے تحت بلوچ تحریک میں دراڑیں پیدا کرنے کی کوشش میں ہے ۔اور حیر بیار مری نے 2009میں بیان دیا کہ بلوچ آزادی پسند قوتوں کے درمیان اختلافات ہیں حالانکہ بلوچ آزادی پسندوں کے درمیان اختلافات موجود نہ تھے۔اور یوبی اے کے بننے کی وجوہات کو بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سازش سے قرار دی اورساتھ ہی بی ایل ایف کو ختم کرنے کا خیال اسی خیال کے ساتھ پیش کیا ہے کہ بی ایل اے بی ایل ایف کو ختم کرنے کے درپے ہے اوریوبی اے کے خلاف بی ایل اے کے اقدام سے ریاست کے پروپگنڈے کوتقویت ملی ہے کہ جو قتل و غارت ریاست کررہی ہیں اسے بی ایل اے کے اقدام
سے جواز مل گیا ہے کہ یہ آپسی قتل غارت ہے نہ کہ ریاستی۔۔
بی این ایم کے بیان کی کڑی بی ایل ایف کے بیان سے منسلک ہے جب بی ایل ایف نے حیر بیار مری کو قومی تحریک کے لیے نقصان قرار دیا، اور اب حیربیار مری کی طرف سے کھل کر ان تضادات و مسائل کی نشاندہی کے بعد دنیا کے سامنے اور بلوچ قوم کے سامنے کچھ ایسے تصوراتی خیالات کو پیش کرنیکی ضرورت بی این ایم کو اس وجہ سے درپیش آئی،کہ تحریک کے تضادات سے انکاری لوگ آخر تضادات کو ماننے پر مجبور ہوگئے لیکن ان کے حل و ان مسائل پر سنجیدہ نہ ہوئیں اور ان مسائل و تضادات کی بنیاد یں کچھ بی ایل ایف و بی این ایم سے جڑے ہیں،تواپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے کاونڑ سیاست کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے ،تاکہ ہر قومی پروگرام کو قوم کے سامنے متنازعہ کرے کیونکہ اگر وہ اس میں ناکام ہوئے تو پھر ان کے پاس ایسا کوئی مضبوط پروگرام نہیں جس پر وہ چل سکیں،موجودہ بی این ایم و بی ایل ایف کے رشتے کے تناظر میں انکے بیانات کی کڑی ایک ہی ہے اور انکے سوچ ومحور بھی ایک ہی ہے۔
بی این ایم نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے سے جو تصوراتی خیال پیش کی ہے اور ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو خدابادان کا کوئی دکاندار سمجھ کر پیش کیا ہے کہ سود پر قرض دے کر اپنا کاروبار چلاتا ہے۔ ویسے بی ایل ایف کی مرکزی کونسل نے کافی غور وخوض کے بعد جو بیان دیا تھا اور انکا تجزیہ کسی دیہاتی انجمن جیساہیں اور یہی حال بی این ایم کے مرکزی کونسل سیشن وبی این ایم کے چیئرمین کے بیان کا ہے۔ویسے بی این ایم اس بات سے انکاری بھی نہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں بلوچ سرزمین میں دلچسپی لے رہے ہیں اور وہ مہذب دنیا میں اپنے نمائندوں کو بھیجنے اور وہاں پر اپنے پروگرام کو آگے بڑھانے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اگر بی این ایم ملٹی نیشنل کمپنیوں سے اتنی بد دل ہیں تو پھر کیونکرسرمایہ دار و ملٹی نیشنل ملکوں میں اپنے نمائندوں کو بیج کر ان سے کمک کی درخواست کررہا ہے، یہ وہی ملاوں والی بات ہے، کہ اپنی ویڈیو ریکارڈنگ کرواتے ہیں لیکن عوام کو ٹی وی دیکھنے سے منع کرتے ہیں۔ ہمارے سیاست میں بھی سیاسی ملاوں کی اب کمی نہیں رہی، اور آج کے دور میں کوئی بھی شخص کوئی چھوٹا سا کاروبار کرتا ہے تو اسکے تمام پہلووں کو مدنظر رکھ کر لاکھ دو لاکھ انویسٹ کرتا ہے۔ جبکہ ملٹی نیشنل کمپنی کروڑوں روپے کی مالیت بغیر سوچے سمجھے انویسٹ کرتے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر ملٹی نیشنل کمپنی بلوچ خطے میں سرمایہ کرنا چاہتے ہیں، تو حیر بیارسے کس بنیا د پر وہ زمین خرید سکتے ہیں یا اسے اعتماد میں لیتے ہیں؟ کیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ بلوچستان حالت جنگ میں ہیں اور آزادی کی تحریک چل رہی ہے اور بلوچ کے پاس اس وقت اتنی طاقت نہیں کہ وہ کسی کمپنی و فردکو تحفظ دے سکے اور پھر اس کمپنی کے ملازمین سمیت اس کمپنی کے کام کی دفاع کرسکے،دنیا میں یہ ایک یونیورسل قانون کی طرح ثابت شدہ ہے،کہ کوئی بھی کمپنی چاہے وہ لوکل ہو یا ملٹی نیشنل ہو،اسے سرمایہ کاری کے لیے پرامن ماحول کی ضرورت ہوتی ہے بصورت دیگر وہ کسی بھی صورت سرمایہ نہیں کرتے، اب بی این ایم اسکی مکمل وضاحت کریں اور قوم کے سامنے اپنے پروپگنڈے کو حقیقت بنا کر حقائق و ثبوت کے ساتھ پیش کرے ویسے بھی یہ ان کے روایتی سیاست کا خاصہ رہا ہے کہ پروپگنڈہ کر کے ثبوت فراہم نہیں کر سکتے اور کسی کمپنی کے ساتھ کسی نے بھی ڈیل کی ہے تو وہ ظاہر کیے جائیں، اور دوسری طرف بی این ایم سے ایک عرض مندانہ سوال بھی ہے کہ اس کمپنی کو کیا ضرورت کہ وہ بلوچ کے ساتھ ڈیل کرے، کیونکہ اس کے ہر ڈیل کو پاکستان بہ خوشی آسان نرخوں میں قبول کرنے کو تیا ر ہے اور وقت حاضر میں ڈاکٹر مالک بلوچ کی صورت میں یہ زیادہ آسانی کے ساتھ ہو سکتی ہے تو پھر وہ حیر بیار کے ساتھ کیوں ڈیل کرینگے۔ویسے بھی اس میں کوئی پیچیدگی نہیں اگر کوئی سمجھنے کی کوشش کرے،کیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کو مکمل یقین ہے کہ آنے والے وقتوں میں بلوچ وطن آزاد ہوگا اور ملک کا سربراہ حیر بیار ہوگا؟اور موجودہ سیاسی صف بندیاں جس رخ جارہی ہے کیا یہ طے شدہ ہے کہ بلوچ حکومت کی تشکیل اسی مناسبت سے ہوگی جس کا بی این ایم نے خدشہ کی صورت میں ذکر کی ہے؟ پاکستان جیسے طاقت سے چشم پوشی کرکے کوئی تصوراتی خیال پیش کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن حقائق ،وقت و حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ 2004 سے لیکر 2010 تک مختلف ادوار میں مختلف نقشے منظر عام پر آئے جن میں پاکستان کا نقشہ نہیں تھا۔ کیا یہ ممکن ہوا؟ یہ تمام تصوراتی تھے جو کہیں پر حوصلہ بڑھانے کا سبب ضروربنے۔لیکن حقائق اسکے بالکل برعکس تھے اور ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ابھی تک ہم اس نہج پر نہ پہنچ سکے ہیں کہ ہم اپنے تحریک کو انٹرنیشنلائز کرسکے تاکہ دنیا ہمارے تحریک میں دلچسپی لے سکے ابھی بلوچ قومی تحریک عالمی مسئلے کی صورت اختیار نہیں کی ہے جو دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرسکے،اور ریاست پاکستان جو کہ دنیا کے لیے ایک ناسور کا درجہ رکھتا ہے لیکن دنیا کے ہر پسند و ناپسند پر لبیک کہتا ہے تو ایسی صورت میں جہاں بلوچ تنظیمی و قومی حوالے سے منتشر ہیں تو ایسی صورت میں وہ کونسا کم عقل کمپنی و ملک ہوگا جو بلوچ وطن کے حوالے سے ڈیل کرے گا؟دنیا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی کی مدد کرتا ہے تو کسی سے دشمنی مول لیتا ہے لیکن بلوچ اس سطح تک پہنچے ہی نہیں کہ جہاں سے دنیا ہمارے ہاتھ میں کچھ دے دیں جب تک ہم قومی حوالے سے اپنی منقسم طاقت کو یکجا کریں اور منظم شکل میں دنیا کے سامنے آئیں تاکہ ہم کچھ سنبھال سکیں نہ کہ ہم پھر ایک دوسرے کے مدمقابل ہونگے اور جس گروہی سوچ کے تحت براہمدغ بگٹی ‘ڈاکٹر اللہ نظر و مہران مری جارہے ہیں تو یہ عین ممکن ہے۔ آج ہمارے پاس کچھ بھی نہیں اور ہم نے ابھی تک تحریک کے حوالے سے اتنی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی ہے ہم بٹتے جارہے ہیں جب تحریک کے لیے بیرونی دنیا سے مدد و کمک آئے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہماری حالت صومالیہ جیسی ہوگی
ویسے سیاست میں پروپیگنڈہ وہ مضبوط ہتھیار ہوتا ہے جہاں سے آپ اپنے مخالف کو کمزور کرنے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اسی سوچ کے تناظر میں بی این ایم نے کاونڑ سیاست کا کھیل شروع کر رکھا ہے تاکہ کسی نہ کسی طرح حیر بیار مری کو کاونڑ کرسکے تاکہ ڈاکٹر اللہ نظر کے لیے راستہ ہموار کرسکے۔بی این ایم نے باربار اس کا اعتراف کر چکا ہے کہ حیر بیار مری ایک فر د ہے اور اسے قومی تحریک میں ایک فرد کی حیثیت سے مانتا ہے۔ تو پھر یہ ملٹی نیشنل کمپنی کس طرح ایک فرد سے ڈیل کرتے ہے۔ کیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بی این ایم خدابادان و مشکے کا ایک دکاندار سمجھ رکھا ہے۔ اگر نہ سمجھتے تو شاہد اس طرح کا پروپگنڈ ہ نہ کرتے۔ اصل میں بی این ایم و
بی ایل ایف کے مرکزی کونسلوں میں بھیٹے ہوئے افراد جو پالیساں بناتے ہیں اس سے ان کی قابلیت و اہلیت کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں‘جو اپنے ہی فیصلوں پر تین مہینے کے بعد پشیمان ہوتے ہیں جو ایک سال کی پالیسی نہیں بنا سکتے ‘وہ کیا خاک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پالیسیوں کو سمجھ پائیں گے۔ صرف لفاظی سے اگر کوئی لیڈر یا زانت کار بنتا تو آج دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہوتی۔بلوچ جہد آج جس حالت میں ہے اندرونی مسائل و تضادات سے لیکر عالمی دنیا میں تحریک کے حوالے سے ہمدردی تک‘ اس تمام مراحل میں تحریک کی جو حالت ہے۔ خوش فہمی سے ہٹ کر حقیقی بنیاد پر دیکھیں تو ہمیں یہ اقرار کرنا پڑے گا۔کہ ہم اس سطح پر نہ پہنچ سکے ہیں کہ جہاں سے کردوں کی طرح عالمی دنیا ہمیں مدد دے ۔ کیونکہ عالمی دنیا کی ضرورتیں پاکستان سے بہ خوشی پورے ہو رہے ہیں اگر بلوچ تحریک مکمل منظم و پختہ شکل اختیا ر کرلے تو یہ جلد از جلد ممکن ہے بصورت دیگر یہ گوریلا جنگ صبر آزما ہے یہ پھر طویل عرصے کے بعد ہی کوئی واضح نتیجہ دے سکتا ہے،اور اس وقت پورے دنیا میں سوشلزم و کپیٹلزم کی نہ کوئی سرد جنگ ہے وہ نہ ہی گرم۔ البتہ طاقت و توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے ممالک اپنی کوششوں میں ضرور لگے ہیں اور اس طاقت کے جنگ میں معاشی حوالے سے مقابلہ جاری ہے۔ ان حالات میں اگر بی این ایم یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ امریکہ و یورپ کو سامراج سمجھتا ہے اور ان کے خلاف کمربستہ ہے۔ تو یہاں پر ضرور نظریاتی تضادات واضع شکل اختیا ر کرینگے۔ جس طرح ماضی میں سوشلزم کے سراب میں ہمارے لیڈروں نے بلوچ عوام کو اس آگ کی بھٹی میں دھکیل دیا اور وہ لوگ جو سوشلزم کے ماننے والے اور اس نظام کے لیے سرتھوڑ کوششیں کررہے تھے وہی سارے لوگ اب سرمایہ دار بن چکے ہیں وہ فکر و سوچ ایک خواب بن کر رہ گیا۔ عارضی طور اپنے مفادات کو مدنظر رکھ تصوراتی دنیا سے لوگوں کو جوڑنے میں کامیابی حاصل کرنے بعد خود اس فکر سے کنارہ کش ہوکر سرمایہ دار بننے کے خواب دیکھنے لگے۔ اب اگر بی این ایم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ڈیل کو پروپیگنڈے کی صورت میں بلوچ عوام میں جس طرح پھیلارہا ہے اس سے کھل کر واضع ہو رہا ہے کہ بی این ایم شمالی کوریا ‘چین و کیوبا سے مدد حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرے گا۔ لازم ہے یہاں پر دو فکریں مدمقابل ہونگے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بی این ایم نے جس انداز سے اس خیال کو تقویت دی ہے تو اسکے پیچھے ضرور کچھ مقاصد ہونگے کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ڈیل کو جواز بنا کر اپنے کچھ ورکروں کو ضرور ورغلا رہا ہے اور انھیں اپنے منفی پروپیگنڈے و گمراہ کن خیالات سے حقائق و جہد سے دورکرنے کی کوشش کر رہا ہے۔تاکہ بلوچ جہد میں ڈاکٹر اللہ نظر کی اجارہ داری کو قائم رکھے۔اسی بناپر بی این ایم نے تحریک میں بنیادی مسائل پرکچھ بحث ہی نہیں کی ہے خصوصا بی این ایل ایف کے بننے اور بی این ایم کے ٹوٹنے کی وجوہات کو ہر ممکن چھپانے کی کوشش کی ہے۔ اسی سوچ کے تحت انھوں نے ڈاکٹر اللہ نظر و بی این ایم کی کمزوریوں و غلط پالیسیوں کو پردہ دینے کے لیے بی ایل اے پر یوبی اے کے کندھوں پر بندوق رکھ کر نشانہ لگایا ہے ۔ یوبی اے کے بننے اور مہران مری کے کرپشن پر آج تک بی این ایم نے کبھی لب کشائی نہیں کی۔ کیونکہ وہ اس تاڑ میں ہے کہ کس طرح بی ایل اے کو متنازعہ بنا سکے اور بی ایل ایف کی دفاع کرسکیں۔ اور اب آثار نمایاں ہو رہے ہیں جب چیئرمین بشیر زیب ڈاکٹر اللہ نظر کے کیمپ میں تین ماہ تک یو بی اے کے مسئلے کے حوالے سے انھیں ثالث بنایا لیکن ڈاکٹر اللہ نظر نے اس پر پردہ ڈال کر اس انتظار میں رہے کہ یہ مسئلہ بگڑ جائے تاکہ انھیں کچھ ہاتھ آسکے یہی وجہ تھی اور اب کچھ آثار سے یہی لگ رہا ہے کہ یہ ڈاکٹر اللہ نظر کے سوچے سمجھے منصوبے کا ایک حصہ تھا جس میں وہ کسی حد تک کامیاب ہوا۔ اور یوبی اے سے ان کے تعلقات پر پہلے کئی بار لکھا گیا ہے لیکن وہ انکاری رہے لیکن اب سب کچھ واضع ہوچکا ہے کہ یہ سارے ایک ہی کھڑی میں پروئے ہوئیں ہیں اور ہر عمل کے پیچھے ایک سازش بُن رہی ہے۔ اس سوچ کے عامل افراد جب ایک منظم و مضبوط شکل اختیار کرتے ہیں تو حالت یہی ہوگی، کہ آج قومی تحریک مختلف علاقائی و گروہوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے ، اور حالیہ براہمدغ بگٹی ‘بختیار خان ڈومکی ‘بی این ایم‘بی این پی مینگل ‘یوبی اے کا جینیوا میں اتحاد اس سوچ کا کھلم کھلا اظہار ہے ۔کہ کسی تنظیم کے مجرم کو اپنے ساتھ ملا لینا اور تمام حقائق کو پس پشت ڈال کر اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر قومی مفادات سے پہلو تئی کرنا تحریک کو نقصان دینے کے سوا کچھ نہیں، اور یوبی اے کے تمام منفی اعمال پر چشم پوشی کر کے اس گروہی روایت کو مضبوط کرنا کہ کل کوئی بھی گروہ علیحدہ ہو کر اپنے لیے تحریک میں علیحدہ شناخت بنا لے اور اسے کوئی بھی تنظیم اصل حقائق و علیحدگی کے بنیادی وجوہات کو جاننے کے بعد بھی مسئلے کے حل میں کردار ادا نہ کرے بلکہ اسے مزید مضبوط ہونے کا موقع دے اس کے غلط اعمال پر واہ واہ کرے تو نتیجے انتہائی بھیانک ہونگے جس کا اندازہ وقتی طور بی ایل ایف و بی این ایم کو نہیں، اور موجودہ حالات میں ہم ایک ریاست سے لڑنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں اس کا اندازہ بخوبی بی این ایم و بی ایل ایف کو ہے اور آنے والے وقتوں میں بی این ایم و بی ایل ایف دنیا کے سپر پاور سرمایہ دار ریاستوں کے مدمقابل ہونے کا خواب دیکھ رہا ہے یہ بلوچ عوام کے سامنے ایسے پروپیگنڈہ کر کے اپنی سیاسی نابالیدگی کا ثبوت دے رہے ہیں بلوچ تحریک کی حالت یہ ہے کہ ہم اپنے ان غداروں کا صفایا نہیں کرسکے ہیں جن کے ہاتھ سرمچاروں کے خون سے رنگے ہیں اور خواب امریکہ و برطانیہ و ملٹی نشینل کمپنیوں سے لڑنے کا دیکھ رہے ہیں۔ یہ بی این ایم کی اختراحی سوچ ہے جس کا مقصد صرف اور صرف تصوراتی خیالات بن کر بلوچ عوام کو بے وقوف بنانا۔ البتہ اگر وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مدمقابل ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ اس حوالے سے کھل کر اپنا اظہار کر لیں تاکہ تحریک کے اندر نظریاتی تضادات کی نشاندہی میں آسانی ہو سکے ۔او ر بلوچ قوم کے تحریک کی اصل شکل سامنے آ سکے کیونکہ جب خیالات مبہم ہوں تو اس کے درپردہ سازشوں کا جال بچھا ہوگا اب ان سازشوں کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ تحریک ہی اصل روح مسخ ہو گی

یہ بھی پڑھیں

فیچرز