جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزتاریخ کے روشن ستارے شہید فیض و شہید خدائیداد :تحریرمحراب مہر

تاریخ کے روشن ستارے شہید فیض و شہید خدائیداد :تحریرمحراب مہر

جہد آزادی کے پرخار راستے پر ایسے سینکڑوں و ہزاروں خاندان ہیں جو جہد آزادی کے لیے اپنے لخت جگر قربان کر چکے ہیں اور ایسے خاندان ہیں جن کے گھر کے کئی افراد ریاستی ظلم و جبر و اذیتیں سہہ کر شہید ہو چکے ہیں اور غلامی کے خلاف کمر بستہ آزادی کی امید لیے آج بھی وہ میدان عمل میں ہے اس طرح وندر میں قابض فورسزز نے محمد خان مری کے پورے خاندان کے سولہ بزرگ کماش و نوجوانوں کو گرفتاری کے بعد انھیں شہید کر کے انکی لاشیں بلوچ سرزمین کے میدانوں میں پھینکتے رہے اور ایسے بہت سے دیگرخاندان ہیں جو جہد آزادی کے اس سفر میں اپنا سب کچھ قربان کرچکے ہیں اور ریاستی ظلم و جبر کے خلاف کسمپرسی میں اپنے دن رات گزار رہے ہیں جنکے لخت جگر وطن کی آزادی کی امید لیے میدان جنگ میں اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوئے شہادت کے عظیم رتبے تک پہنچ گئے شہید سگار امیر بخش کا گھر ہو یا کہ ڈاکٹر اللہ نظر و محمد خان مری یا شہید رمضان زہری و اختر ندیم کی خاندان ہو ایسے ہی صدیوں گھر ہیں جنکے کئی افراد اس وقت ریاستی عقوبت خانوں میں وطن کی آزادی کے لیے ظلم وستم برداشت کر رہے ہیں اور ایسے کئی گھر ہیں کہ جن کے کئی افراد وطن کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کر چکے ہیں۔ ایسے ہی ایک خاندان جلال خان مری کا ہے جو  1973 کی بھٹو سے آپریشن سے لیکر تاحال جہد آزادی کے لیے پختہ عزم کے ساتھ جہد کر رہے ہیں۔ 1973سے لیکر اب تک وطن کی آزادی کی امید لیے ہر میدان میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جلال خان مری کے دو فرزند بلوچ وطن کے لیے شہید ہو چکے ہیں اور انکے دو صاحبزادہ آج بھی وطن کے لیے مختلف محاذوں پر جہد کر رہے ہیں شہید فیض مری حرف فرید جب جلال خان کے گھر میں اپنی آنکھیں کھولی تو اس وقت بلوچ وطن پر ایوبی آمریت کا دور دورہ تھا اسکی تربیت انھی کرب زدہ و فوجی آپریشنوں کے حالات میں ہوتی رہی وہ وطن پر دکھ و تکالیف کو بچپن سے سہتے رہے محسوس کرتے رہے اور اپنے وطن کو غلامی کے زنجیر میں بستہ پایا ایوبی آمریت کے بعد ذوالفقار بھٹو کی حکومت کے آنے کے بعد بلوچستان پر ایک بار پھر آپریشن کے نئے دور کا آغاز کر دیا گیا۔اور کوہستان میں بلوچوں کا قتل عام بے دردی کے ساتھ جاری رہا اور نواب خیر بخش مری اپنے قبیلے کے ہمراہ جلاوطنی اختیار کی تو جلال خان مری نواب خیر بخش مری کے ساتھ اپنے خاندان کے ہمراہ افغانستان جلاوطن ہوئے اور افغانستان میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے لگے شہید فیض اس وقت قریبا  دس سال کے تھے اور شہید فیض کے چھوٹے بھائی شہید خدائیداد اس وقت قریبا دو سال کے تھے شہید فیض وطن سے دور جلاوطنی میں اپنی زندگی گزارتے رہے وہ اپنے دیگر تینوں بھائیوں کے ساتھ وطن کی آزادی کے لیے پُر کھٹن حالات میں زندگی گزارتے رہے جلاوطنی کے تکلیف دہ و کربناک حالات میں آزاد وطن کی امنگ لیے زندگی کو دھکیلتے رہے لشکر گاہ کیمپ میں سیاسی ماحول میں اسکی تربیت ہوتی رہی وہ دن رات آزادی کا خواب لیے لشکر گاہ کیمپ میں آتے جاتے رہے اسکے بڑے بھائی قومی آزادی کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے وہ بڑے بھائی کے ساتھ کیمپ کے ماحول میں گھل مل گئے اور خاندان کے سبھی افراد جہد آزادی سے جڑے رہے شہید فیض جلاوطنی کی دکھ تکلیف عذابی کے کئی بہاریں افغان وطن میں دیکھتے رہے غریبی و عذابی میں اپنی زندگی کو دھکیلتے رہے وقت گزرتا گیا وہ نوجوانی میں قدم رکھ چکے تھے تو سنگت حیر بیار مری کی سربراہی میں قومی وسائل کو بلوچ وطن تک پہنچانے کے لیے حیربیار مری اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ اپنی کوشش کرتے رہے اور شہید فیض اور اسکے دیگر دوست لشکرگاہ کیمپ سے لیکر ریگستان تک پیدل قومی وسائل کو ٹھکانے تک پہنچاتے رہے اور یہ سلسلہ قریبا پانچ سال تک اسی طرح جاری رہا اور وہ پختہ عظم کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے جبکہ بلو مری و شہید غلام دین مری و شہید نورا مری سمیت دیگر دوست وہاں سے سامان بلوچ وطن کے کونے کونے تک پہنچاننے میں اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے شہید فیض جیسا فرض شناس وطن کی آزادی کے لیے ابتدا سے ہی جڑے رہے کیونکہ انکا پورا خاندان شروعاتی دنوں سے تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے باپ سے لیکر بڑے بھائی تک سبھی قومی آزادی کی جہد میں اپنا حصہ دیتے رہے افغانستان سے وطن واپسی سے پہلے انھوں نے قومی وسائل کو بلوچ وطن تک پہنچا چکے تھے اور کچھ عرصے کے بعد وہ اپنے وطن میں غلامانہ سماج میں سانس لینے لگے وہ خاموشی کے ساتھ وطن کے رہنماؤں کی طرف دیکھتے رہے کہ اتنے سال جلا وطنی و دربدری کی زندگی گزارنے کے بعد پنجابی کے دست نگر رہنا کسی باشعور بلوچ کو قابل قبول نہ تھا لیکن انھیں معلوم تھا کہ وہ قومی اسلحہ جات وطن کے بعض علاقوں تک پہنچاننے کا مقصد سمجھ چکے تھے اور نواب خیر بخش مری کی خاموشی کے پیچھے جہد آزادی کے لیے صف بندی کو حیر بیار مری میں دیکھ رہے تھے وہ اسی امید کے ساتھ اپنی زندگی میں مشغول رہے اور جہد آزادی کے لیے صف بندی کرتے رہے لیکن جسٹس نواز مری کے قتل کے بعد دشمن نے سو سے زائد بلوچوں کو مری کیمپ نیو کاھان سے اغواء کر لیا ان میں شہید فیض بلوچ و اسکے بڑے بھائی بھی تھے ریاستی فورسزز نے کچھ دنوں کے بعد صرف چودہ بندوں کو قید میں رکھا اور دیگر کو چھوڑ دیا گیا اور سولہ ایم پی او کے تحت ان چودہ بندوں میں شہید فیض و اسکے بڑے بھائی سمیت شہید غلام دین و دیگر ساتھی زندان میں رہے اور شہید فیض اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ زندان میں آزادی کی خواب دیکھتے رہے ریاستی ظلم و جبر کو زندان میں سہتے رہے قریبا سات آٹھ مہینے کے بعد انھیں رہا کیا گیا اور شہید فیض پھر جہد آزادی کے لیے تنظیمی کاموں میں جٹے رہے۔چھ جنوری 2001قلات میں ریاستی آپریشن جس میں بی ایل اے کے ذمہ دارساتھی شہید گلبہار و شہید صوبدار شہید واحد بخش کی شہادت کے بعد شہید فیض مری شہر سے نکل کر پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا اور وہاں کوہستان کیمپ میں اپنے قومی فرائض انجام دیتے رہے وہ ایک مخلص محنتی فرض شناس و ذہین ساتھی تھے وہ ہر وقت قومی کاموں میں جٹے رہے وطن کی آزادی کے لیے ہر محاذ میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ان کے چھوٹے بھائی شہید خدائیداد شہر میں اپنی تنظیمی ذمہ داریاں نبھاتے رہے وہ ایک مخلص ساتھی تھے اور شہر میں اپنے مختلف قومی ذمہ داریوں کو سرانجام دیتے رہے اور شہید فیض کوہستان سے قومی کام کے حوالے سے قلات کے قرب و جوار کے پہاڑوں میں بیج دیے گئے تاکہ وہ وہاں تنظیمی کاموں کو ترتیب دے سکیں اور شہید فیض وہاں اپنے قومی کاموں کو مخلصی و ایمانداری کے ساتھ سر انجام دیتے رہے اور شہید خدائیداد شہر میں دوستوں کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے شہید فیض قریبا تین چار سال قلات کے قرب و جوار کے پہاڑوں میں تنظیمی کاموں کو سنبھالنے کے بعد شہید فیض شہید بالاچ مری کے ساتھ افغانستان چلے گئے وقت نے اپنا رنگ بدل دیا تھا شہید فیض پہلی جلاوطنی کے بعد اب واپس افغان سرزمین پر موجود تھے ماضی میں جلاوطنی کی وہ یادیں پھر سے تازہ ہونے لگے وہ قبرستان جو اب بھی خستہ حالت میں جہد آزادی کا انمول علامت بن چکا تھا وہ کردار جو جلاوطنی کی دربدری کی زندگی گزارتے ہوئے حالات کے تاب نہ لاسکے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور بچپن کے وہ خوشنما دن جو بھوک بے بسی میں گزرے تھے ایک بار پھر شہید فیض کے سامنے آتے رہے وہ ماضی کے انھی خیالات میں ڈوب کر مستقبل کے لیے اپنے سوچ پر ثابت قدمی کے ساتھ پیش قدمی کرتے رہے اور شہید فیض حرف فرید قریبا تیس سال کے بعد افغان سرزمین میں وطن کی آزادی کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور ایمانداری مخلصی کے ساتھ تنظیمی کاموں کو کرتے رہے اور اپنے بال بچوں و اپنے وطن سے دور وطن کی آزادی کے لیے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے اور ان کے چھوٹے بھائی شہید خدائیداد وقتا فوقتا شہر کے ساتھ پہاڑی کیمپوں پر جاتے رہے لیکن وہ زیادہ تر شہر میں رہے اور انکے سپرد شہری کاموں کی ذمہ داری تھی شہید فیض افغانستان میں مخلصی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔گھر بال بچوں سے دور رہ کر شہید فیض وطن میں اپنے بچوں سے ملنے کے لیے آئے تھے 4سال کے بعد گھر آمد و اپنے بچوں کی دیدار اسے نصیب ہوئی وہ ابھی تک بچوں کے ساتھ گھل مل رہے تھے وہ بچے جھنیں چار سال پہلے شہید فیض دیکھ چکے تھے اب وہ اپنے باپ کو پہچان نہیں پا رہے تھے وہ ابھی تک بچوں سے گھل مل رہے تھے۔ کہ تیسرے روز 6و 7نومبر 2010کی درمیانی شب کراچی میں انکے گھر سے اسے اغوا کیا گیا اور شہید تین مہینے تک زیر حراست رہے اسکی اغواء نما گرفتاری کے بعد وہ دشمن کے اذیت خانوں میں وطن کے لیے اذیتیں سہتے رہے اور 2 جنوری 2011 کو شہید فیض حرف فرید کی لاش کو دشت اسپلنجی میں پھینک دی گئی ریاستی فورسزز نے اسے شدید تشدد کے بھی گولی مار کر شہید کردیاتھا اور وطن کا ایک دلیر بہادر محنتی و ایماندار ساتھی ہم سے جدا ہوا اور شہید خدائیداد بھائی کی شہادت کے بعدکھبی کھبار کیمپ جاتے تھے اور ساتھ ساتھ شہر میں تنظیمی ذمہ داریوں کو سنبھالتے رہے وہ 27 جون 2013 کو اپنے کزن شہید بجار مری کے ساتھ کیمپ سے گھر جارہے تھے کہ انھیں بس سے اسکے ساتھی بجار مری سمیت فورسزز نے اغواہ کرلیا اور اگلے دن شہید خدائیداد کو شہید کرکے اسکی لاش پھینک دی اور تین مہینے کے بعد اسکے کزن بجار مری کو شہید کر کے اسکی لاش پھینک دی گئی اور جلال خان مری اس بزرگی میں اپنے دو نوجوان بیٹوں کی شہادت کو لیکر بھی پر عظم رہے اور آزادی کے کاروان میں اپنا حصہ ڈالتے رہے اور شہید کے دیگر بھائی آج بھی جہد آزادی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں وطن ایسی ماں پر نازاں ہیں جسکے بیٹے قومی جہد میں اپنا مخلصانہ کردار ادا کرتے ہوئے شہادت نوش کر گئے تاریخ کے اوراق میں ایسے ہی کردار زندہ رہیں گے جو ثابت قدمی کے ساتھ وطن کی آزادی کے لیے ہمیشہ میدان عمل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں آج وہ ہمارے بیچ نہیں لیکن ان کی قربانیاں ہمارے سامنے کھلی کتاب کی مانند روز روشن کی طرح عیاں ہیں جن پر بلوچ تاریخ فخر کرتی ہیں جو قابض کی غلامی کے خلاف و اپنی وطن کی آزادی کے لیے ہر کھٹن و تکلیف دہ حالات سے گزر کر ثابت قدمی کے ساتھ دشمن کے خلاف سینہ سپر رہ کر امر ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز