شنبه, آوریل 20, 2024
Homeخبریںتنظیمی سینئر کارکنان و عہدیدران سے 3مہینے کی مسلسل مباحثوں کے بعد...

تنظیمی سینئر کارکنان و عہدیدران سے 3مہینے کی مسلسل مباحثوں کے بعد آرگنائزنگ باڑی اجلاس منعقدمتعدد اہم فیصلے لیئے گئے۔ بی ایس او آزاد

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے زونل نمائندوں اور سینئر عہدیداروں میں تین مہینوں سے جاری گفت و شنید اور بحث مباحثے کے بعد تنظیم کو درپیش بحران کے خاتمے اور آئین کی بحالی اور تنظیم کو انتشار سے بچانے کیلئے نئی آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ آرگنائزنگ کمیٹی تنظیمی آئین کو حقیقی بنیادوں پر استوار کر کے وسیع پیمانے پر تنظیم کاری کرنے اور تنظیم کے آئین کو بحال کرتے ہوئے غیر متنازعہ کونسل سیشن منعقد کرنے کی زمہ دار ہوگی ۔ بی ایس او آزاد آرگنازئزنگ کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ پہلے اعلامیہ میں کہا گیا کہ 2008میں منعقدہ غیر متنازعہ کونسل سیشن کی بعد تین سال تک بی ایس او آزاد نے بلوچ عوام میں اپنی جڑیں مظبوط کر لی تھی اور ایک مختصر مدت میں ہی بی ایس او اور قومی سیاست کو پارلیمانی سیاست کے اثرات سے نکالتے ہوئے انہیں تنظیم کو بحیثیت ادارہ قائم کرنے کی راہ پر گامزن ہوئی تھی لیکن قومی سیاست کو درپیش مسائل اور تنظیم کے اندرونی کمزوریوں کے باعث تنظیم ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہو ا جہاں ریاستی جبر نے سینکڑوں کارکنان اور رہنماوں کو نشانہ بنا کر تنظیمی کے اندر لیڈرشپ کی خلا پیدا کر دیا اور بی ایس او آزاد اپنے ایک کامیاب کونسل سیشن کے بعد اپنے اداروں کو مضبوط کرنے کے جس مرحلے سے گزر رہی تھی وہ بیچ رستے میں رک گئی لیکن ان تمام حقائق کے باوجود تنظیم سے وابستہ نظریاتی کارکنان نے اپنے دن رات ایک کئے اور نہ صرف بی ایس او آزاد کے وجود کو باقی رکھا بلکہ تنظیم کے آئین اور اداروں کے مقام اور حیثیت کو بھی باقی رکھنے میں کامیاب ہوئے جو اس بات کی عکاس تھی کی ریاستی جبر اور اندرونی کمزوریوں کے باوجود تنظیم کے کارکنان میں انقلابی جذبہ اور اپنے تنظیم سے والہانہ وابستگی کبھی کم نہ ہو پائی ہے البتہ جو کام ریاستی جبر نہ کر سکا اسی کام کو چند نا عاقبت اندیش کرداروں نے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا اور عین اسی لمحے جب 2011میں ایک انتشار کے بعد تنظیم دوبارہ منظم ہورہی تھی ان کرداروں نے تنظیم کی حقیقی بنیادوں، تنظیمی اداروں اور آئین کو پس پشت ڈال کر ایک گناونے کھیل کا آغاز کر دیا جس نے ایک سال کے عرصے میں ہی تنظیم کے انقلابی روح کو ختم کر کے انتشار کیلئے راہ ہموار کیا ۔2012میں متنازعہ کونسل سیشن سے قبل ہی تنظیم کے اندر مخلص کارکنان کو مختلف جواز بنا کر تنظیم سے نکالنے یا انہیں تنظیم سے کنارہ کش ہونے پر مجبور کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے بعد ایک غیر یقینی صورتحال میں ایک متنازعہ کونسل سیشن منعقد کر کے نئی قیادت سامنے لائی گئی جس نے مزید تشویش اور سوالات کو جنم دیا جن کی توثیق متنازعہ کونسل سیشن کے بعد ایک سال کے دوران میں تنظیم کے زونوں اور سینئر ممبران کے ساتھ روا رکھی جانے والے رویہ سے ہوتی ہے جس نے تنظیم کے اندر نہ صرف انتشار کا اغاز کردیا بلکہ کونسل سیشن سے قبل ہی آئین کو پامال کرتے ہوئے غیر آئینی اقدامات کے بعد ایک آئینی بحران بھی پیدا کر دیا تھا۔ انہی مخصوص کرداروں پر مشتمل گروہ نے تنظیم کے ایک متنازعہ عمل کے بعد قیادت کا منصب اپنے نام کر کے تنظیم کو آئین سے ماورا چلانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ آج تک جاری ہے جبکہ اس دوران تنظیم کے سنجیدہ کارکنان اور مرکزی و زونل اعہدیداروں نے اس گناونے کھیل کا ادراک کرتے ہوئے قدم بہ قدم آواز اٹھاتے رہے اور اپنے تہیں تنظیم کے اداروں کا تقدس برقرار رکھتے ہوئے تنظیم کے اندر انتشار کو روکنے اور آئینی بحران کو ختم کرنے کیلئے کوششیں کرتے رہے لیکن آئین کو یرغمال کرنے والے گروہ نے تنظیم کے نام کو استعمال کرتے ہوئے ان تمام ممبران اور عہدیداروں کو اپنے راستے سے ہٹاتے ہوئے خود کو مخصوس علاقوں تک مقید کر دیا اور میڈیا کے سہارے تنظیم کے نام کو استعمال کرتے ہوئے اپنی بچی کچھی سیاسی ساکھ کو بچانے کی کوشش کر تے رہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ آرگنازنگ کمیٹی کی اعلامیہ میں کہا گیا کہ اس وقت بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کے نام کر استعمال کرنے والا یہی مخصوص گروہ ہے جنہوں نے گزشتہ سالوں سے ایک تسلسل کے ساتھ تنظیم کے آئین کو پیروں تلے روندھا ہے اور تنظیم کے اداروں کے نام کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں اور اب انہوں نے تنظیم کو ایک وسیع انتشار میں دکھیل کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی ہے ۔ تنظیم کے حقیقی کارکنان، زون اور وہ مرکزی ممبران جو ان کے ساتھ رہتے ہوئے تنظیم کی بقاء کی جدو جہد کرتے رہے وہ اس مخصوص گروہ کے صفو ں سے اب مکمل طور پر نکل چکے ہیں اور اس وقت یہ گروہ چند متنازعہ کرداروں کے ساتھ اپنے من پسند افراد کو ملا کر ایک ڈمی مرکزی کمیٹی کی شکل میں بلوچ عوام اور دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موجودہ ڈمی مرکزی کمیٹی جو کہ اس وقت کریمہ بلوچ اور کمال کے زیر دست صرف من پسند افراد کی ایک گروہ ہے ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ اور اب بھی اسی نقطے پر قائم ہیں کہ ان لوگوں کی کوئی آئینی حیثیت نہیں اور نہ ہی ان کے پاس زونل مینڈیٹ موجود ہے ۔تنظیم کے غیر متنازعہ اٹھارویں کونسل سیشن کے منظور شدہ آئین کے مطابق مرکزی کمیٹی کابینہ اور21 مرکزی کمیٹی کے ممبران پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ اسے متنازعہ انیسویں کونسل سیشن میں تبدیل کر کے مرکزی ممبران کی تعداد 10رکھی گئی موجودہ ڈمی مرکزی کمیٹی کے کابینہ کے متنازعہ چیئرمین کو پر اسرار حالات میں کوئٹہ میں لاپتہ کیا گیا جبکہ سیکریٹری جنرل شہید ہوچکے ہیں اور انفارمیشن سیکریٹری انہی بحرانوں کی وجہ سے مرکزی کمیٹی کی مان مانیوں کا بائیکاٹ کر کے ان سے لاتعلقی کا اعلان کرچکے ہیں اور کابینہ کے ایک اور ممبربھی اب کابینہ کا حصہ نہیں ہے جس کے بعد موجودہ ڈمی کابینہ میں کریمہ بلوچ خود ساختہ چیئر مین بنے ہوئے ہیں جبکہ وہ کمال بلوچ کے ساتھ من پسند افراد کے ایک گروہ کو مرکزی کمیٹی ممبران قرار دے کر خود کو تنظیم کی قیادت کے طور پر مطمئن کیئے ہوئے ہیں کر یمہ بلوچ اور کمال کی طرح من پسند مرکزی کمیٹی کے ممبران بھی آئینی حیثیت نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے پاس تنظیمی مینڈیٹ موجود ہے وہ حقیقی سینئر عہدیداران جو حقیقی مینڈیٹ رکھتے تھے اور کسی نہ کسی طرح اس ڈمی مرکزی کمیٹی سے جڑے ہوئے تھے وہ بھی مزید اس کمیٹی کا حصہ نہیں ہیں 2013میں ایک مرکزی کمیٹی کے ممبرا شہید ہوگئے تھے جبکہ دیگر 3مرکزی کمیٹی کے ممبران اسی بحران کی وجہ سے مرکزی کمیٹی سے الگ ہو گئے تھے جس کے بعد 2مزید مرکزی ممبران انہی بحرانوں کاشکار ہوئے جن کی جگہ پر من پسند افراد کو ایک ایک کر کے مرکزی کمیٹی کا حصہ بنانے کاسلسہ شروع کردیا گیا جبکہ حال ہی میں 8مزید مرکزی کمیٹی کے ممبران اس ڈمی کمیٹی سے الگ ہوچکے ہیں جس کے بعد موجودہ ڈمی مرکزی کمیٹی کے 5 رکنی کابینہ میں 2کابینہ ممبران کے ساتھ مرکزی کمیٹی کے تمام ممبران ایسے ہیں جن کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں ۔ زونل حوالے سے ہم بتاتے چلیں کہ اس وقت جب موجودہ ڈمی قیادت نے متنازعہ انسیواں کونسل سیشن منعقد کیا تھاتب کونسل سیشن میں بلائے گئے 60کے قریب کونسلران کی اکثریت 6زونوں سے تعلق رکھتے تھے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں سے ایک یا دو ممبران کو شامل کرکے نام نہاد کونسل سیشن منعقد کیا گیا تھا جو کہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس گروہ کی اس وقت بھی پہنچ صرف چند علاقوں تک محدودتھی البتہ متنازعہ کونسل سیشن کے بعدزونوں کی جانب سے ایک طویل مزاحمت کے بعد جب بحران حل نہ ہو پائے تو ایک ایک کر کے زون نے نہ صرف اپنے وجود کو ثابت کیا بلکہ اس ڈمی مرکزی کمیٹی سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا اس دوران کوئٹہ زون، کراچی زون، اوتھل زون، حب زون، ہوشاب زون، تمپ زون، بسیمہ زون، لندن زون، اسلام آباد زون، پنجگور زون،تربت زون، بالگتر زورن، زامران زون، آسٹریلیا زون، شہید قمبر چاکر زون، شہید سنگت ثنا زون، نوشکی زون، دالبندین زون، ڈیرہ مراد جمالی زون، ڈیرہ اللہ یار زون اور مچھ زون نے مختلف اوقات میں انہی بحرانوں کی وجہ سے مختلف حالات میں موجودہ ڈمی مرکزی کمیٹی سے لاتعلقی کا اعلانیہ اظہار کیا ہے جبکہ وہ آوارن اور مشکے کے علاقے کے چند زون جو تاحال لاتعلقی کا اظہار نہیں کر پائے وہاں بھی وسیع پیمانے پر اس ڈمی مرکزی کمیٹی پر تحفظات پائے جاتے ہیں ،مگر ان کو ڈرا دھمکا کر انکو چھپ کیا جارہا ہے۔ موجودہ ڈمی مرکزی کمیٹی نہ صرف ان 21زونوں کا مینڈیٹ نہیں رکھتا بلکہ بائیکاٹ کرنے والے زونوں میں جو چند ممبران جو مختلف ابہام کی وجہ سے اس ڈمی مرکزی کمیٹی کے ساتھ وابستہ ہیں وہ بھی اب اپنی تنظیمی حیثیت سے دست بردار ہوتے ہوئے لاتعلقی کا اظہار کرنے پر مجبور ہیں ۔ آرگنائزنگ کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ ان تمام حقائق کو بنیاد بناتے ہوئے گزشتہ تین مہینوں سے تنظیم کے اکثریتی زونوں اور سینئر ممبران بشمول وہ مرکزی ممبران جو کہ اس ڈمی مرکزی کمیٹی کا حصہ رہے ہیں ان کے ساتھ گفت شنید اور بحث مباحثے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس انتشار کی کیفیت میں جبکہ تنظیم کی آئین اور ادارے کو ختم کیا جاچکا ہے ممبران کو منتشر ہونے سے بچانے اور تنظیم کے آئین اور اداروں کو از سرے نو بحال کرنے کیلئے حقیقی بنیادوں پر کام کیا جائے اور ایک غیر متنازعہ کونسل سیشن کی راہ ہموار کر کے تنظیم کو آئینی راستے پر گامزن کیا جائے اسی مقصد کیلئے آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کہ تمام زونوں ، ممبران اور سینئر اعہدیداروں کو ساتھ لیتے ہوئے تعمیرے انداز میں تنظیم کی سابقہ مقام کی بحالی کی جد وجہد کریگا۔ آرگنائزنگ باڑی کی اعلامیہ میں کہا گیا کہ موجودہ آرگنائزنگ باڑی اپنے ابتدائی زمہ داریوں کو پوراکرتے ہوئے سب سے پہلے تنظیم کے آئینی بنیادوں کو بحال کریگی جس کیلئے تنظیمی آئین کو از سرے نو استوار کیا جائیگا اور تمام زونو ں اور ممبران کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر تنظیم کاری کر کے تنظیم کی آئینی ساخت کو بحال کیا جائیگا ۔ آرگنائزنگ کمیٹی اس امر کا بھی ادراک رکھتی ہے کہ گزشتہ سالوں سے جاری بحران کے دوران تنظیم ایک انقلابی لائحہ عمل سے محروم رہا ہے اور اس دوران تنظیم کے کارکنان بغیر کسی رہنمائی اور تنظیمی پروگرام کے صرف میڈیا میں نمائش اور ڈمی مرکزی رہنماوں کی پیروی کرتے رہے ہیں جو کہ اپنے ابتدائی دنوں سے ہی تنظیم کو چلانے اور کارکنان کی رہنمائی کرنے میں اپنی ناکامی کا واضح ثبوت دے چکے ہیں آرگنائزنگ کمیٹی اس کمی کو پورہ کرنے کی بھر پور کوشش کریگی اور جلد ہی کارکنان کو تنظیم کاری اور قومی جد و جہد کے حوالے سے بی ایس او آزاد کے کارکنان کے کردار کے حوالے سے ایک جامع پروگرام ترتیب دے کر کارکنان تک پہنچائے گی اورہر لمحہ کارکنان کی رہنمائی کرتی رہے گی۔ آرگنازئنگ باڑی بلوچ عوام اور ان تمام حلقوں سے بھی اپیل کرتے ہیں جو بی ایس او آزاد سے ہمدردی رکھتے ہیں کہ وہ اس ڈمی گروہ کی حقیقت سے ہوشیار رہتے ہوئے انہیں واضح طور پر مسترد کریں آرگنائزنگ باڑی بلوچ عوام اور تحریک آزادی سے وابستہ حلقوں کے حوالے سے بھی پالیسی ترتیب دے کر عوام کو آگا ہ کریگی ۔بی ایس او آزاد ایک وسیع تاریخی پس منظر رکھتا ہے جہاں مختلف اندرونی اور بیرونی قوتوں کے زیر اثر بلوچ طلبہ کو انقلابی راہ سے گمراہ کرنے اور انہیں مختلف ایجنڈوں کے تحت استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے انتشار اور بحرانوں کے تجربے اور تنظیمی و قومی حالات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیکر ایک وسیع لائحہ عمل ترتیب دینا وقت کی ضرورت ہے جس پر بی ایس او آزاد آرگنائزنگ کمیٹی شب و روز ایک کر کے بلوچ عوام کے سامنے مثبت روایات کی مثال قائم کریگی ۔ 

یہ بھی پڑھیں

فیچرز