جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزتنقید، انکار،نتائج اور قمبر و وارث قتل کے حکایات تحریر۔ نود بندگ...

تنقید، انکار،نتائج اور قمبر و وارث قتل کے حکایات تحریر۔ نود بندگ بلوچ

گذشتہ کچھ ماہ سے تواتر کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات جن میں یو بی اے کا افغان برادری کا قتل عام، جوق در جوق اپنے کمانڈروں کے ساتھ حکومت کو سلامیاں دینا، بی ایل ایف میں درون خانہ پڑتی دراڑیں اور جس کے نتیجے میں فضل حیدر سے لیکر وارث تک کا قتل اور اس سے پہلے قمبر قاضی،کچکول بہار،حکیم ساسولی وغیرہ کی مشکوک شہادتیں نا حادثات ہیں نا اتفاقات بلکہ یہ اس طرز عمل کے نتائج ہیں جن کے بابت گذشتہ تین سالوں سے زائد عرصے سے تحاریر و گفتار کے ذریعے خدشات و تحفظات کا اظہار کیا جاچکا تھا اور اب بھی اسی ’’ رفتار بے ڈھنگی‘‘ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا بالکل کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ یہ جاری طرز عمل مستقبل قریب میں مزید انتشار اور ابتری کا پیش خیمہ ثابت ہوگی، لیکن جیسا کہ شروع سے دیکھا گیا ہے کہ بہتری کی کسی بھی گنجائش کو مسترد کرکے یہ عناصر شروع دن سے پاکستانی طرزِ رویہ اپنا کر یا تو قومیت کے جذبات کا منفی فائدہ اٹھا کر اپنے غلط روش پر ان اٹھتی انگلیوں کو نا پید اتحاد و یکجہتی کیلئے خطرہ قرار دیکر اسکے پیچھے چھپتے رہے یا پھر بے منطق سازشی تھیوریاں گھڑ کر ان کمزوریوں کی نشاندہی کو کبھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے رچائی گئی سازش یا پھر پاکستانی خفیہ اداروں سے بے تکے انداز میں نتھی کرکے سنجیدہ حلقوں میں نشانہ تضحیک بنتے گئے۔ کہتے ہیں کہ وقت و تاریخ ہر چیز کا فیصلہ کرتے ہیں ، میں اپنے اصل موضوع پر آنے سے پہلے گذرتے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ امور کی طرف نشاندہی کرنا چاہوں گا جو یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ تنقیدی تحاریر کی صورت میں جن مسائل ، کمیوں اور کوتاہیوں پر سوال اٹھایا جاتا رہا ہے ان کے ڈانڈے نا کسی ملٹی نیشنل کمپنی سے ملتے ہیں اور نا ہی یہ پاکستان کی طرف سے رچائی گئی کسی سازش کا شاخسانہ تھے بلکہ یہ مسائل حقیقی اور بلوچ معروضی حقائق سے جڑے ہوئے تھے اور ہیں جنہیں بُری طرح نظر انداز کرکے انہیں متنازعہ بناکر آج موجود بہت سے مسائل اور مصائب کو دعوت دی گئی۔ یو بی اے کے حوالے سے شروع دن سے ہی بی ایل اے کی طرف سے یہ موقف آتا رہا ہے کہ اس تنظیم میں موجود لوگ گناہوں کا مرتکب، احتساب سے مفرور عناصر پر مبنی ہیں۔ یہ غیر ذمہ دار ہیں اور تحریک کو کسی بھی نقصان سے دوچار کرسکتے ہیں اور ساتھ ساتھ انکے کمانڈروں کے بارے میں یہ قوی شبہات وجود رکھتے تھے کہ درون خانہ انکے خفیہ تعلقات نا صرف پاکستانی خفیہ ادروں بلکہ ہزار خان رامکانی جیسے ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں سے بھی ہیں، اس حوالے سے نا صرف میڈیا میں بھرپور طریقے سے ان کے جرائم کی تفصیلات اور کردار کی تشریح ہوتی رہی بلکہ جائز و ناجائز طریقوں سے بلوچ آزادی پسند سیاست میں اسٹیک ہولڈر بننے والے تمام کرداروں سے ان کے بابت گفت و شنید ہوتی رہی، اور اس مسئلے کے اوپر تمام اسٹیک ہولڈروں کو کردار ادا کرنے کا کہا گیا کہ بلوچ قومی مڈی کی ایک خطیر تعداد انکے قبضے میں ہے اور ایسے غیر ذمہ دار عناصر کے ہاتھ لگنے کی وجہ سے وہ مڈی نا صرف ضائع ہوسکتی ہے بلکہ الٹا تحریک کے خلاف بھی استعمال ہوسکتی ہے، لیکن بجائے اسکے کہ یہ نام نہاد لیڈر و اسٹیک ہولڈر تقسیم در تقسیم اور احتساب سے فراری کے پہلے اینٹ کے پڑنے کو روکتے بلکہ انہوں نے اپنے گروہی خواہشات کے تسکین کیلئے اس اینٹ کی داغ بیل ڈالنے میں حتی الامکان مدد کی اور آج نتیجہ کیا نکلا پورے قوم کے سامنے ہے ایک طرف بے گناہ افغانوں کو بلا جواز کثیر تعداد میں قتل کرکے بلوچوں کیلئے ایک غیر ضروری محاذ کھولاگیا بلکہ دوسری طرف تحریک کو بدنام کرنے کیلئے دشمن کو جواز بھی فراہم کیا گیا جس کی اسے اشد ضرورت تھی۔ اسی طرح جن افراد پر بی ایل اے اس لئے حملہ کرتا رہا کہ یہ دشمن کے ایجنٹ ہیں اور قومی مڈی کو سستے داموں فروخت کررہے ہیں انہی کو بی ایل ایف اور اسکے دم چھلے پاکٹ تنظیمیں برادر کے خطابات دے کر حتی الامکان کوشش کرتے رہے کہ بی ایل اے کے خلاف ایک محاذ کھولا جائے لیکن بعد میں انکے انہی برادروں میں سے برادرِ اعلیٰ حاجی ولی قلاتی میڈیا کے سامنے سرکار کو سلامی دے بیٹھا اور مراد ناڑی قوم دشمن ہزار خان رامکانی کے وتاخ میں پناہ لیکر بیٹھ گیا، یہ تو بڑے واقعات ہیں لیکن جہاں جہاں آج یو بی اے کے کیمپ ہے وہاں کے اہلِ علاقہ بخوبی واقف ہیں کہ یہی لوگ جب بی ایل اے کے ڈسپلن میں تھے تو پابند تھے لیکن آج عام بلوچوں کو تنگ کرنا، ان کیگھروں میں گھسنا،بھتہ لینا، چادر و چاردیواری کی پامالی کرنا انکا شیوہ بن چکا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ محض اپنے گروہی برتری کی خاطر جس طرح تحریک میں اس روایت کو پنپنے کا موقع دیا گیا کہ جو بھی کوئی گناہ کرکے فرار ہوکر الگ تنظیم بنائے اور موجود تنظیم ہمیشہ تقسیم در تقسیم کا شکار رہیں یہ اپنے ساتھ بہت سے پیچیدگیاں اور مسائل لانے کا سبب بنا ہے اور آگے زیادہ مہلک انداز میں بنتا رہے گا،اور اگر ہم یہ کہیں کہ یہ جنگ کا حصہ ہیں یا یہ محض چند پیش آنے والے حادثاتی واقعات ہیں تو بالکل غلط ہوگا کیونکہ حادثہ وہ ہوتا ہے جس کے بارے میں علم نہیں ہو یہاں نا صرف آج کے ممکنہ حالات کا علم تھا بلکہ سب کو خبردار بھی کیا گیا تھا لیکن اس حوالے سے مجرمانہ خاموشی میں یقیناً ڈاکٹر اللہ نظر اور براہمداغ بگٹی ان قلاتیوں کے شریک جرم بنتے ہیں، یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ جب آغاز میں سنگت حیربیار کی طرف سے یہ کوشش ہورہی تھی کہ اس یو بی اے کے جن کو بوتل میں ہی بند رہنے دیا جائے اور سب سے کردار ادا کرنے کا کہا گیا تھا تو انہی ویژنری لیڈروں و دانشوروں نے اس چپقلش کو حیربیار کے نواب بننے کی کوشش قرار دیکر ہر طرح سے زامران مری کی کمک کی تھی لیکن یہاں وقت بے رحم نے دوبارہ حقائق کی قلعی یوں کھولی کہ جس حیربیار کو نوابی کا طعنہ مارا جارہا تھا اس نے بابا خیربخش کے انتقال کے بعد نواب بننے کی کوشش کجا بلکہ اس سرداری نظام کو ہی مسترد کرکے نوابی کے خاتمے کا اعلان کردیا لیکن دوسری طرف ان ویژنری لیڈروں نے رحمدل مری ( بی ایل ایف کے سینٹرل کمانڈر) کی صورت میں زامران مری کو نواب بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی حتیٰ کے مہران کے نوابی کے وقت تائید کنندہ میں رحمدل مری اور ویژنری برادر حاجی قلاتی کا نام پیش پیش تھا۔ اسی طرح آج دیکھا جائے تو آواران ، میھی ، گبین ، پیدارک وغیرہ آپریشن کو ہم بظاہر ریاستی بربریت قرار دیکر ان کے پیچھے چھپے مجرمانہ غفلت سے پہلو تہی کرسکتے ہیں لیکن یہ سوال پھر بھی اپنے جگہ موجود رہے گا کہ گھروں میں بیٹھے عام بلوچوں کو ریاست اگر بمباری کرکے شہید و اغواء کرے تو یہ یقیناً ریاستی بربریت ہے لیکن اگر ایک مسلح جہدکار کو ریاست بے خبر گھر میں آن گھیر لے تو کیا یہ بھی ریاستی بربریت ہے یا پھر مجرمانہ غفلت؟ چلو ایسے اکا دکا واقعات جنگ کا حصہ یا انفرادی کمزوریاں ہوسکتی ہیں لیکن یہی واقعات تواتر کے ساتھ خود کو دہراتے رہیں تو یہ کس کی کمزوری ہے؟ اس پہلو پر اگر دیکھا جائے تو شروع دن سے مختلف تنقیدی تحاریر میں روشنی ڈالی جاچکی تھی کہ بی ایل ایف اپنے محدود طاقت کا غلط اندازہ لگا کر اور غلط استعمال کرکے گھاٹے میں جائے گا، بقول ایک دوست کے جب وہ ایک بار ڈاکٹر سے ملنے مشکے جارہا تھا تو اسکے سامنے بار بار ہر جگہ ایک بات دہرائی جارہی تھی کہ دیکھو ہم نے یہ علاقے آزاد کرالیئے ہیں، وہاں سرمچار بغیر نقاب کے بندوق کے ساتھ موٹر سا ئیکلوں پر گھومتے نظر آتے یا پھر کوئی فرضی سا نقاب لگا بھی ہوتا تو سب جانتے کہ یہ کون ہیں رات اپنے اپنے گھروں میں ہی قیام کرتے ، وہ ان علاقوں کو فری زون قرار دیکر بی ایل اے پر طعنہ زنی کرتے کہ وہ اب تک فری زون نہیں بنا سکا ہے۔(یہاں حکمت عملیوں میں واضح فرق زیر بحث نہیں) ، یہ حالت صرف مشکے کی نہیں بلکہ مکران کے بیشتر علاقوں میں بی ایل ایف کی یہی پالیسی تھی ، یہ محض لاف زنی اور نوخیز سیاسی کارکنوں کی خاطر ایک ’’ جنت بریں ‘‘ کا سا ماحول پیدا کرکے انہیں متاثر کرکے اپنی قوت بڑھانے اور باقیوں کو نیچا دِکھانے کیلئے ہی ہوتا تھا، لیکن اس لاف زنی میں کِن کِن گوریلہ اصولوں کی دھجیاں اڑائی جاتی رہی یہ تجزیہ ماہر حرب بہتر انداز میں کرتے ہیں لیکن آج اسکے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ چھوٹا سا بھی ریاستی آپریشن کسی گھر ، بستی یا گاوں پر ہوتا ہے تو کچھ نا کچھ سرمچار اپنے گھر میں ہی دشمن کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ اسی حوالے سے راقم سمیت دوسرے کئی دوستوں کے تحاریر گذشتہ سالوں میں ریکارڈ پر ہیں لیکن یار لوگ خاص طور پر انکے سوشل میڈیا دانشور اپنے گھروں میں بیٹھنے کو اپنی کامیابی اور اس پر تنقید کرنے کو جلن وغیرہ میں تشریح کرکے آج متعدد سرمچاروں کی شہادت کی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کے باوجود بے پرواہ نظر آتے ہیں۔ اب اسی طرح بی ایس او آزاد اور بی این ایم کے حالت زار پر تھوڑا غور کریں آج سے تین سال پہلے ان کی حالت قطعاً اتنی بوسیدہ اور محدود نہیں تھی جتنی کی آج ہے اس وقت ان کے طرز عمل ، پالیسیوں اور اندر لابینگ و انہیں بی ایل ایف کا دم چھلہ بنانے پر تنقید کرکے دوست یہ واویلہ کرتے رہے کہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو یہ ادارے عملاً ختم ہوجائیں گے، اور آج ذرا غور کریں کہ کیا ان اداروں کی حالت میں بہتری آئی ہے یا پھر یہ اس سطح پر کھڑے ہیں جس کا خوف تھا اور جس بابت خدشات و تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا؟ بی این ایم پورے بلوچستان میں کہاں دِکھتا ہے؟ دِکھنا چھوڑیں آج بی این ایم بطورِ ایک خودمختار ادارہ وجود ہی نہیں رکھتا بلکہ یہ بی ایل ایف کا غیر مسلح نام ہے یعنی وہی لوگ جب اسلحہ ہاتھ میں اٹھا تے ہیں تو بی ایل ایف ہیں اور وہی لوگ اسلحہ رکھ کر آکر تقریر کرتے ہیں تو بی این ایم ہیں اس کے چیئرمین سے لیکر تمام مرکزی عہدیدار بی ایل ایف کے اعلیٰ سے لیکر ادنیٰ کمانڈران ہیں ( ویسے بھی بی ایل ایف میں سپاہیوں سے زیادہ کمانڈران کی تعداد ہے )اور مکران کے وہ علاقے جہاں بی ایل ایف کے کیمپ وجود رکھتے ہیں وہاں بی این ایم ضرور ہے لیکن بی ایل ایف کی عملداری یا وجود جہاں نہیں ہوتی وہاں بی این ایم بھی وجود کھو دیتا ہے اگر آسان الفاظ میں بیان کریں تو بی این ایم اس وقت مکمل طور پر بطور پارٹی ختم ہوچکا ہے آج صرف ایک نام ہے جسے بی ایل ایف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے اور بیرونی ملک چندوں کیلئے استعمال کرتا ہے۔ یعنی بی ایل ایف نے ایک پھلتی پھولتی پارٹی کو عملاً ختم کرکے صرف اسکے نام پر قبضہ سیاسی بیانات اور چندوں کی خاطر کیا ہے۔ میں شرطیہ کہتا ہوں کہ پاکستان اگر اپنا پورا زور بھی لگاتا وہ بی این ایم کو ختم نہیں کرسکتا لیکن ڈاکٹر اللہ نظر ، ڈاکٹر امداد ، ڈاکٹر منان اور خلیل جیسے شاطروں نے صرف اپنے لابینگ اور چالبازی سے بی این ایم کو اس طرح ختم کردیا جس طرح پاکستان چاہتا تھا۔ اسی طرح بی ایس او آزاد پر ایک نظر دوڑائیں تو یہ گذشتہ دنوں ایک اور گروپ کے اجتماعی طور پر نکل جانے کے بعد اب تین حصوں میں غیر اعلانیہ تقسیم ہوچکا ہے یہ سب انہیں منفی طرز عمل کا طفیل ہے جن کے اوپر شروع سے ہی تنقید کیا جاتا رہا ہے۔ اب یہاں ایک اور حقیقت غور طلب ہے کہ دوستوں کی طرف سے ہمیشہ سے ہی براہمداغ اور اللہ نظر کا بی این پی کے ساتھ غیر اعلانیہ اتحاد پر نا صرف سوال اٹھائے گئے بلکہ بی این ایف کو توڑنے کا ذمہ دار بھی اسی مخفی اتحاد کو قرار دیا گیا ہے، لیکن یہ موصوف ہمیشہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنے سے انکاری رہے اور حسبِ معمول اس بات کو بھی کسی سازش سے جوڑنے لگے لیکن جیسے جیسے وقت کا پہیہ چلتا گیا دھول چھٹتی گئی یہ مخفی اتحاد اپنے آثار ظاہر کرنے لگا سب سے پہلے یہی لوگ جنیوا میں ہاتھوں میں ہاتھ ملائے کھڑے نظر آئے پھر اب گذشتہ ماہ کے دوران براہمداغ اپنے مختلف انٹرویووں میں اس بات کا اقرار کرتے نظر آئے کے بی این پی انہیں قابلِ قبول ہے اور انکا اتحادی ہے۔ اب یہ وضاحت تو اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ بی این پی سے اتحاد و اتفاق کیونکر ممکن ہوپایا لیکن کیا یہ وضاحت بھی واجب نہیں ٹہرتی کہ وہ اتنے وقت سے قوم سے اس اتحاد کے بابت جھوٹ کیوں بولتے رہے اور ان حقائق کو پیش کرنے والوں کے خلاف فتووں اور بدتمیزیوں کا بازار کیوں گرم کیئے رکھا؟۔ ان عوامل پر غور کرنے سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ جن مسائل و منافقتوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی تحریروں کی صورت میں ہوتی رہی وہ آج ایک ایک کرکے ثابت ہورہے ہیں لیکن اس تنقید کو موقع جان کر سدھار کے بجائے اپنے اجارہ دارانہ عزائم کی تکمیل کیلئے جس طرح قوم کو اس وقت مشکلات کے بھنور میں دکھیلا گیا یہ تاریخ میں یقیناًجرم کے حیثیت میں یاد رکھا جائیگا اور جس انداز میں تنظیموں کے ناموں کا استعمال کرکے خود میں سدھار کے بجائے اس تنقید کو سازشوں و پاکستان سے جوڑ کر خود کو چھپایا گیا یہ بھی بلوچ سیاست کے ایک سیاہ باب کے طور پر ہمیشہ نقش رہے گا، یہاں قابلِ ذکر سوشل میڈیا کا رول ہے، سوشل میڈیا کو جہاں کچھ دوستوں نے بطورِ خیالات و خدشات کو بلوچ عوام کے سامنے لانے کا ذریعہ بناکر پہلی بار ہر عام و خاص بلوچ کو قومی تحریک کے اندرونی معاملات شریک کیا وہیں بی آر اے ، بی ایل ایف اور اس کے دم چھلوں کا رویہ سوشل میڈیا کے بابت انتہائی غیر مناسب رہا، یعنی ان حقائق کو طشت ازبام ہوتے دیکھ کر ان خیالات و خدشات کا جواب خیالات اور حقائق سے دینے کے بجائے (کیونکہ جب بات حقائق پر آتی تو انہی کا سیاہ چہرہ واضح ہوتا ) ایک طرف انہوں نے ملاوں کی طرح سوشل میڈیا کو نحوست قرار دیکر اس سے قطع تعلقی کا اعلان کیا تو دوسری طر ف کمال منافقت کا سہارا لیتے ہوئے سوشل میڈیا کے اس موثر ذریعے کو متنازعہ بنانے کیلئے اپنے کارکنوں کا ایک ایسا ٹیم میدان میں چھوڑا گیا جنہوں نے ایک طوفانِ بدتمیزی و دشنام طرازی برپا کردیا۔ یہاں بات صرف چند نامعلوم آئی ڈیوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ کئی بی ایل ایف کے ہمدرد و ممبر بھی منظور بسمل ، غنی پہوال ، حنیف شریف ،میجر مجید، قادر شیخ اور خلیل سیٹھ کی صورت میں اس بدتمیزی کا حصہ رہے۔ یہاں بی ایل ایف کے اس سوشل میڈیا ٹیم اور دانشوروں کی حالت اور انکاریہ کیفیت بھی قابلِ دید ہے، ماضی قریب کے محض چند مثالیں پیش کرکے ان عناصر کی قابلِ رحم حالت پر آپ کو غور کرنے کی دعوت دونگا کہ جب قمبر قاضی کو شہید کیا گیا تو دوستوں کی طرف سے پہلے دن ہی یہ حقیقت بلوچ مخلوق کے سامنے رکھی گئی کہ یہ مخلص اور سینئر سنگت دشمن کی گولیوں سے شہید نہیں ہوا ہے بلکہ یہ بی ایل ایف کے اندرونی سازشوں کا شکار ہوکر شہید کیا گیا ہے جس کی بنیادی وجہ بی ایل ایف کے اعلیٰ قیادت سے اختلاف رکھنا تھا، لیکن بی ایل ایف سے منسلک دانشوران اور انکے سوشل میڈیا ٹیم مسلسل اس حقیقت کو نا صرف انتہائی بھونڈے انداز میں مسترد کرتی رہی بلکہ یہاں تک کہتی رہی کہ اسکے شہادت کو دشمن کے بجائے بی ایل ایف پر ڈال کر حیربیار کے فکری دوست گناہ کا مرتکب ہورہے ہیں لیکن آج نا صرف یہ حقیقت بالکل عیاں ہوگیا ہے بلکہ بی ایل ایف وارث کو قتل کرنے کے بعد مجبوراً اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی نظر آیا کہ شہید قمبر قاضی بی ایل ایف کے اندرونی سازشوں کی وجہ سے ہی شہید کیا گیا۔ اسی طرح جب فضل حیدر کو قتل کیا گیا تو دوستوں کی طرف سے یہ بات دلائل کے ساتھ پیش کی گئی کے اس کے قتل میں بی ایل ایف ملوث ہے لیکن بی ایل ایف کی یہی ٹیم اس حقیقت کو حسبِ معمول پروپیگنڈہ اور جھوٹ قرار دیکر راہ فرار کی کوشش کی لیکن یہاں قاتل اور قتل کے حقائق اتنے واضح تھے کہ بی ایل ایف کو مجبوراً اسے قبول کرنا پڑا تب وہی لوگ ڈھٹائی کے ساتھ اب تک موجود ہیں اور دوسرے حقائق کو جھوٹ قرار دینے میں مصروف ہیں، یہی سلسلہ وارث کے قتل کے بعد بھی رونما ہوا جب بی ایل ایف، بی این ایم اور بی ایس او کا مشترکہ سوشل میڈیا ٹیم ابتداء میں نا صرف وارث کے قتل سے انکار کرکے دوستوں کے اس پیش کردہ حقیقت کہ اس کے قتل میں بی ایل ایف ملوث ہے کو مسترد کردیا بلکہ انہیں ایف سی کے ہاتھوں شہید قرار دیکر وارث کی تصویریں تک آویزاں کردی گئیں لیکن ایک بار پھر یہاں قاتل ننگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا تو اسی لیئے بی ایل ایف کیلئے قبول کرنا ناگزیر بن گیا۔ ان عوامل سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ عناصر اسی طرح کتنی حقیقتوں کو جھوٹ اور پروپیگنڈہ قرار دیکر ایک طوفان بد تمیزی اور جعلی بیانوں کے پیچھے چھپتے رہے ہیں اور یہ بھی سمجھنا اب بالکل مشکل نہیں کہ سوشل میڈیا اور تحاریر کے خلاف درجنوں بیانات دینے ، گالم گلوچ کے غرض سے ایک سوشل میڈیا ٹیم تشکیل دینے ، سازشی تھیوریاں گڑنے کی اصل وجہ یہ رہی ہے کہ اسی سوشل میڈیا اور تحاریر کے ذریعے سے انکی حقیقت اور سیاہ اعمال کا وہ پردہ پاش ہورہا ہے جس کے پیچھے سالوں سے وہ چھپے رہے تھے۔ موضوع کے اہم حصے پر آتے ہیں کہ آج بی ایل ایف کے اندر کئی سینئر لوگ یا کمانڈران کیوں ایک ایک ہوکے یا تو مشکوک انداز میں مارے جارہے ہیں یا پھر بی ایل ایف کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں۔ ابتداء میں جب بی ایل ایف کا قیام عمل میں آیا اور انکی کاروائیاں شروع ہوئیں تو اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ انہیں بی ایل اے کی طرف سے ہر ممکن تعاون حاصل رہی جس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ بی ایل اے اس وقت سے گروہی پہچان اور نام کو اہمیت دینے کے بجائے سوچ کو اہمیت دیکر اسے پروان چڑھانا چاہتا تھا، حتیٰ کے بی ایل اے کے سرکلوں میں اسی خیال کی پرورش ہوتی گئی کہ ہم سب ایک ہیں بس علاقوں کے حوالے سے مختلف ناموں میں بٹے ہیں کام کررہے ہیں لیکن جیسے جیسے بی ایل ایف اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر مضبوط ہوتا گیا انکی طرف سے واضح تبدیلیاں بھی دیکھنے کو ملنے لگے، پہلی بار تمہارا اور میرا کا تصور پیدا کیا گیا اور حتیٰ کے وہاں تربیتی سرکلوں میں بقولِ ایک دوست یہ تعلیم شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے کہ بی ایل اے وغیرہ روایتی قبائلی سرداروں کے گروہ ہیں اصل جہدکار بی ایل ایف ہے۔ جب آپ گروہ سے بالا تر ہوکر ایک قومی سوچ کے تحت چلتے ہیں تو قوت بھی متحد ہوتی ہے لیکن یہ گروہیت اور گروہی سوچ ایک ایسا زہر ہے جو ایک بار پیدا ہونے کے بعد پھر رکتا نہیں بلکہ یہ پھر ہر گروہ کے اندر اور گروہ پیدا کرتا جاتا ہے۔ اسی طرح سوچ کے ساتھ ساتھ بی ایل ایف کے نظم و نسق کو چلانے کے بھی متنازعہ طریقے استعمال ہونے لگے یعنی اول تو افرادی قوت کے نشے میں ہر قسم کے لوگ مناسب تربیت کے بغیر تنظیم کا حصہ بنائے جاتے رہے اور سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ پھر تنظیم کے اندر مختلف گروپ تشکیل دیکر انہیں اپنے مالی وسائل پیدا کرنے کی مکمل چھوٹ بھی دے گئی، جس کی وجہ سے منشیات کا لوٹ مار اور اسے بیچنا آہستہ آہستہ شروع ہوکر اب بی ایل ایف میں اتنی تیزی سے راسخ ہوچکا ہے کہ بہت سے لوگ بی ایل ایف میں اپنے گروپ سمیت بھرتی صرف اسی منشیات کے کاروبار کی خاطر ہورہے ہیں اور اب اگر اس منشیات ، ڈکیتی اور بھتہ خوری کو بی ایل ایف سے ختم کیا جائے تو بی ایل ایف ایک ماہ کے اندر ہی بیٹھ جائے گا اور اپنی آدھی سے زیادہ افرادی قوت کھو دے گا۔ بی ایل ایف اور ساتھ ساتھ بی آر اے کے اندر باقاعدہ یہ قانون مرتب ہے کہ جو بھی گروپ منشیات کی جو گاڑی لوٹے گا یا جہاں ڈکیتی ڈالے گا یا بھتہ وصول کرے گا تو وہ رقم آدھا آدھا برابر اس گروپ اور مرکز کے بیچ تقسیم ہوگا۔ اس وجہ سے بی ایل ایف کے اندر بہت سارے چھوٹے بڑے گروپ بنتے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ منشیات کے لوٹ مار سے ہر گروپ مضبوط ہوتا گیا۔ اب کیونکہ یہاں ایک طرف تنظیم سماجی برائیوں میں ملوث ہوچکا تھا اور دوسری طرف افرادی قوت بڑھانے کی چکر میں بغیر ضروری تربیت اور جانچ پڑتال کے جوق در جوق لوگ تنظیم میں اٹھاتے گئے تو اس سے تنظیم میں ایسے لوگوں کی بھرمار ہوگئی جن کا مقصد ہی بی ایل ایف میں آکر مال بنانا تھا، جب ایسے لوگ تنظیم میں ذمہ دار ہونگے تو داداگیری ، بدمعاشی ، بے گناہوں کا قتل و لوٹ مار بھی عام سی بات ہوگی اب زیادہ تر ان گروہوں کا مقصد لوٹ مار ہی ہوتا ہے لیکن رسم پورا کرنے کیلئے کبھی کبھار یہ دور سے چار گولیاں چلا کر گہرام بلوچ کو بیس کی ہلاکت بتاکر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر آگے گہرام بلوچ بھی مرچ مصالحے لگاکر پھر ان چار گولیوں کوپتہ نہیں کیا بنا کر میڈیا میں پیش کرتا ہے۔ ان مذکورہ عوامل اور طرز پر دوست کافی وقت سے تحریری صورت میں تنقید کرتے آرہے ہیں کہ اس طرح منشیات کا کاروبار ، بے گناہوں کا قتل ، جرائم پیشہ غیر ذمہ دار افراد کی بھرتی اور بی ایل ایف کے اندر بننے والے کئی چھوٹے چھوٹے غنڈہ گینگ بی ایل ایف کو تباہی کا شکار کرینگے ہی کرینگے لیکن اس سے تحریک کو خاص طور پر مکران میں نا قابلِ تلافی نقصان ہوگا، مجھے یاد ہے ایک بار کسی دوست نے یہ بات چھیڑی تھی کہ بی ایل ایف تباہ ہوتا ہے یا آباد انکی اپنی تنظیم ہے بی ایل اے کو اسے چھوڑکر اپنے کارکردگی پر توجہ دینی چاہئے میرے خیال میں یہ خیال ان ذہنوں کو مطمئن کرنے کیلئے کافی ہے جو گروہیت پر یقین رکھتے ہیں لیکن جب بات قومی سوچ کی آتی ہے تو یہ تقسیم ہی ختم ہوجاتا ہے کہ کون بی ایل ایف کون بی ایل اے اب بی ایل ایف کو اگر ڈاکٹر اللہ نظر کی ملکیت سمجھ کر چھوڑ بھی دیا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ آج کئی نوجوان بی ایل ایف کی وجہ سے نہیں بلکہ قومی سوچ کی وجہ سے اس سے جڑے ہیں اور جڑتے رہیں گے کیا ایسے لوگوں کو چھوڑ دیا جائے کہ وہ ضائع ہوجائیں یا بی ایل ایف کے بے مہاری کا شکار ہوجائیں؟ یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ بی ایل ایف بس بطور ایک تنظیم غلط ہے بلکہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ بی ایل ایف غلط کی ایک ایسی چلتی مشین ہے جس کے اندر مخلص دوستوں کے جذبات ، مخلصی ، بے لوثی اور جان پس کر ضائع ہوجاتی ہے اور نوجوانوں کے مخلصی اور جانوں کا یہ استحصال پاکستان کے استحصال سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ اسی قومی سوچ و مفادات کو لیکر دوست گذشتے طویل عرصے سے ان عوامل کی نشاندہی کرچکے ہیں لیکن جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ منشیات کے منافع بخش کاروبار کو چلائے رکھنے اور افرادی قوت کے نشے کو پورا کرنے کیلئے نا صرف ان خدشات کو مسترد کیا جاتا رہا بلکہ انہیں خدا جانے دنیا کے کتنے کمپنیوں اور ایجنسیوں کی سازشیں قرار دی جاتی رہی۔ چند ماہ پہلے کسی دوست سے بی ایل ایف کے مستقبل کے بارے میں بحث ہورہی تھی، اس دوست کا کہنا تھا کہ آج جس طرح سے بی ایل ایف میں چھوٹے چھوٹے گروپ بنے ہیں اور ان میں سے اکثر کو جس طرح منشیات کے کاروبار کی لت لگی ہے، اب یہ آہستہ آہستہ اتنے خودمختار ہوتے جائیں گے کہ بی ایل ایف کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے اس وقت بھی کئی گروہ مکمل اپنے مرضی سے چل رہے ہیں، اور کچھ گروہوں کی بس بی ایل ایف سے تعلق کسی شخصی وفاداری سے جڑی ہے یعنی کوئی گروہ مکمل خودمختار ہے بس واجہ موسیٰ کا لاڈلا ہے اور اسی طرح کوئی اللہ نظر وغیرہ کا ، پھر آگے جاکر جب بھی بی ایل ایف ان گروہوں کو دوبارہ کنٹرول میں لینے کی کوشش کرے گا تو انکے اندر یا تو ایک قتل و غارت شروع ہوجائیگی یا پھر بی ایل ایف کے اندر سے ہی چھوٹے چھوٹے گروپ الگ تنظیموں کے نام سے سامنے آنے لگیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ غائب ہوتے جائیں گے۔ اب آج اگر ہم غور کریں تو بی ایل ایف کے اندر شروع ہونے والی قتل غارت قمبر قاضی، حکیم ساسولی ، کچکول بہار ، فضل حیدر اور وارث کا قتل انہی عوامل کا نتیجہ ہے جن کی نشاندہی دوست کئی سالوں سے کرتے آرہے ہیں۔ اب بی ایل ایف کے اندر کچھ گروہ اس حد تک آزاد ہوچکے ہیں کہ بی ایل ایف کا ان پر کنٹرول ختم ہوچکا ہے اب دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کیلئے ہی بی ایل ایف کے مرکز نے ایک ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیکر اپنے کئی کمانڈروں اور سینئر ساتھیوں کا قتل شروع کردیا ہے۔ اب یہ کنٹرول ختم ضروری نہیں صرف منفی وجوہات کے بنا پر ہوا ہے بلکہ کئی دوستوں کو اس لیئے شہید کیا گیا کہ وہ بی ایل ایف کے اند اس منفی کھیل کو دیکھ کر پورے گروپ سمیت بی ایل ایف سے الگ ہونا چاہتے تھے جیسے کے قمبر قاضی ، اب ان کیلئے آسان طریقہ یہ تھا کہ پورے گروپ کے نکلنے کا نقصان برداشت کرنے کے بجائے قمبر قاضی کو ہی راستے سے ہٹا دیا جائے۔ قمبر قاضی ایک بے مثال کردار کے مالک جہد کار تھے، وہ بی ایل ایف کے ان پالیسیوں سے اس وقت سے اختلاف رکھتے تھے جب سوشل میڈیا میں بی ایل ایف پر تنقید شروع بھی نہیں ہوا تھا، وہ بہت کوشش کرتے رہے کہ بی ایل ایف میں سدھار پیدا کریں لیکن اپنے ان کوششوں میں ناکامی اور ایسے لوگوں کو اعلیٰ ذمہ داریوں پر آتے دیکھ کر جو بالکل بھی ایسے ذمہ داریوں کا اہل نہیں تھے انہوں نے بی ایل ایف کو چھوڑ کر بی ایل اے میں جانے کا فیصلہ کیا، لیکن اس سے پہلے کے وہ اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ پہناتے انہیں راستے سے ہٹادیا گیا وجہ یہی تھی کہ وہ بی ایل ایف کے بہت سے نوجوانوں میں اچھی شہرت رکھتے تھے اگر وہ بی ایل ایف سے نکلتے تو یقیناًاسکے ساتھ بہت سے دوست اور بھی نکلتے، اور ایک قمبر کو راستے سے ہٹانے کے نتیجے میں بی ایل ایف بہت سے دوسروں کے نکلنے کے نقصان سے بچتا سو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ قمبر کے بعد یہ سلسلہ نہیں رکا بلکہ یہاں ایک تیر سے دو شکار کیئے گئے یعنی پہلے وارث کے گھر میں اسکے بھائی کے ہاتھوں قمبر کو شہید کروایا گیا اور بعد میں اسکے قتل کا الزام وارث پر عائد کرکے اسے راستے سے ہٹایا گیا۔ یہ اہل علاقہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وارث اور اسکے گروپ کے بھی بی ایل ایف کے مرکزسمیت دوسرے ذیلی گروہوں کے ساتھ بار بار اختلاف رہیں ہیں اور انہیں حل کرکے وارث کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن بی ایل ایف کو ہمیشہ یہ خوف تھا کہ وارث کسی بھی وقت گروپ سمیت انکے کنٹرول سے نکل سکتے ہیں ، اس لیئے انہوں نے دوسرے پیرو گروپ کو استعمال کرکے وارث کو ٹھکانے لگا دیا۔ قمبر قاضی اور وارث کے قتل کے بعد یہاں کچھ بہت ہی ضروری سوال اٹھتے ہیں جن پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ یہ بات اب مکمل طور پر واضح ہے کہ نا قمبر قاضی اور نا ہی وارث دشمن کے ساتھ ملے تھے اور نا ہی بی ایل ایف نے وارث کے قتل کے بعد اسے دشمن کا ایجنٹ کہا اور دونوں ہی دشمن نہیں بلکہ بی ایل ایف کے گولیوں سے ہی مارے گئے ہیں۔ صرف اس پہلو پر غور کرنے سے ہی اس بات پر حقیقت کا مہر ثبت ہوجاتا ہے کہ بی ایل ایف کے اندر گروہی لڑائی چل رہی ہے۔ اب ان دونوں کے قتل پر محرکات پر ذرا غور کریں قمبر قاضی قتل ہوا بالفرض وارث اور اسکے بھائی نے اسے قتل کیا تھا تو کیا وجہ تھی؟ کیا وارث اور اسکا بھائی دشمن کے ساتھ ملے تھے؟ نہیں کیونکہ نا بی ایل ایف نے یہ دعویٰ کیا ہے اور نا ہی دشمن کے ساتھ مل کر کوئی اپنے گھر میں کسی کمانڈر کو قتل کرکے پھر بھی اپنے گھر میں بلا خوف آرام سے رہتا ہے۔ تو پھر کیا قمبر قاضی اور وارث کی ذاتی دشمنی تھی؟ نہیں بلکہ قمبر وارث پر سب سے زیادہ اعتبار کرتا تھا اور اکثر اسکے گھر میں آتا جاتا تھا اور نا ہی کبھی انہوں نے دشمنی کا اظہار کیا، ورنہ کوئی مسلح جہدکار اپنے کسی دشمن کے گھر میں کیسے بلا خوف و خطر سو سکتا تھا؟ نا وارث دشمن کا ایجنٹ تھا اور نا ہی اسکا قمبر سے کوئی دشمنی تھی پھر اس نے یا اسکے بھائی لیاقت نے قمبر کو کیوں قتل کیا ہوگا؟ ، وارث تنظیم کے ایک ذمہ دار تھے تو یقیناً ایک ہی وجہ قتل کی بنتی ہے کہ اسے کہا گیا تھا، ظاہر ہے وہ ایک کمانڈر کا قتل کسی گروہ یا شخص کے کہنے پر نہیں کرے گا بلکہ وہ بی ایل ایف کے مرکز کے حکم پر ہی ایسا کرسکتا ہے۔ یہاں ایک اور عجیب سا منطق پیش کیا جاتا ہے کہ وارث کا بھائی لیاقت دماغی مریض تھا اور اس نے اسی مرض کی وجہ سے پاگل پن میں قمبر کو شہید کردیا، اب اگر اس حقیقت کو تسلیم کیا بھی جائے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ لیاقت تو بی ایل ایف کے حراست میں ہے اگر اس نے پاگل پن میں ہی قتل کیا تھا تو سزا اسے ملتی اس کے گناہوں کا سزا وارث کو دنیا کے کس قانون کے تحت دی گئی؟ اب ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ وارث اگر قمبر کے شہادت میں ملوث تھا تو وہ اپنے علاقے میں بلا خوف و خطر کیوں گھومتا تھا حالانکہ قتل اسکے گھر میں ہی ہوا تھا؟ وہ غیر مسلح کیوں تھا؟ وہ فرار کیوں نہیں ہوا؟ اس نے قتل کے وقت مزاحمت کیوں نہیں کی؟ اور یہاں تک شنید ہے کہ وارث نے اپنے بھائی لیاقت کو خود ہی گرفتار کرکے بی ایل ایف کے حوالے کیا تھا۔ ان سے یہ بات ظاہر ہوتا ہے کہ وارث کسی قسم کا خوف محسوس نہیں کررہا تھا وہ بے خوف اس صورت میں ہوسکتا تھا کہ یا تو وہ اس قتل میں ملوث ہی نہیں تھا اور مطمئن تھا یا اگر وہ اس قتل میں ملوث تھا تو ضرور اس نے بی ایل ایف کے ہائی کمان کے کہنے پر ہی یہ عمل کیا تھا کہ اسے بی ایل ایف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورہا تھا۔ اب ان میں سے جو بھی وجوہات ہوں لیکن نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ بی ایل ایف میں محض کنٹرول کے اوپر سینئر جہد کاروں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور یہ سلسلہ یہاں ہر گز نہیں رکے گا بلکہ ابھی اور بھی گروپ ہیں یا تو ان کے ساتھ بھی یہی ہوگا یا پھر وہ خوف سے عملداری میں آجائیں گے اور اسکے ساتھ ساتھ اب اس قتل کے بعد جس طرح ایک گروپ کے ہاتھوں دوسرے گروپ کو قتل کروایا جاتا ہے ان گروپوں کے باقی بچے لوگوں میں بھی بدلے اور لڑائی کا ایک سلسلہ شروع ہوجائیگا اور پتہ نہیں کتنے جہد کار صرف اندرونی سازشوں کی نظر ہوجائیں گے اور یہ سب کچھ صرف اللہ نظر کی بادشاہی کو قائم کرنے کیلئے ہوگا۔ یہاں ایک اور غور طلب پہلو ہے کہ قمبر قاضی ہو ، وارث ہو یا پھر فضل حیدر ان سب کو دھوکے سے قتل کیا گیا۔ چلو قمبر قاضی کو بی ایل ایف نے قبول نہیں کیا ہے اسے ہم تھوڑی دیر بحث سے الگ کرکے دیکھتے ہیں تو یہ صاف ظاہر ہوتی ہے کہ جس طرح وارث اور فضل حیدر کو قتل کیا گیا تھا ان دونوں وارداتوں میں مزاحمت کا عنصر نظر نہیں آیا یعنی وہ اس وقت نہتے تھے یا مقابلے کے پوزیشن میں نہیں تھے۔ تو اسکا مطلب انہیں آسانی سے گرفتار کیا جاسکتا تھا پھر گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے اگر اس پر غور کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ بی ایل ایف انہیں گرفتار نہیں بلکہ راستے سے ہٹانا چاہتا تھا اور اگر ان کو گرفتار کیا جاتا تو شاید بی ایل ایف انہیں قتل نہیں کرسکتا یا اس سے بھی بڑھ کر انکے گرفتاری کے بعد اگر حقائق بیان ہوتے تو ان میں بی ایل ایف کی اعلیٰ قیادت کے گناہ بھی سامنے آجاتے تو کیوں گرفتار کیا جائے۔ اب ذرا سوچیں وارث ایک دکان میں کسی بچے کے ساتھ نہتا کھڑا تھا اور بندوق بردار تیار ی کے ساتھ آتے ہیں اور اسے گرفتار نہیں کرتے مار دیتے ہیں جو آسانی سے گرفتار ہوسکتا تھا لیکن اگر یہی وارث گرفتار ہوتا تو پھر شاید وہ یہ بھی بتادیتا کہ قمبر قاضی کا قتل کس کے حکم پر ہوا تو صاف ظاہر ہے مارنے والا یہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ حقیقت کبھی سامنے آجائے۔ یہ کیا شاید انکے زندہ رہنے اور منہ کھولنے کی صورت میں کئی ایسے حقائق سامنے آجاتے کہ ہم سب دنگ رہ جاتے جس طرح سے قمبر قاضی جیسے سنگت کو شہید کیا گیا اس سے تو صاف ظار ہے کہ ایسے کئی اور قتل اور خفیہ قبریں ابھی تک ہمارے معلومات سے پوشیدہ ہیں جہاں جرائم اور سنگت کشی کے انتہائی سیاہ ابواب دفن ہیں۔ میں تو تمام دوستوں سے دست بستہ اپیل کرتا ہوں کہ بی ایل ایف کے جتنے بھی سینئر دوست شہید ہوئے ہیں ڈاکٹر خالد سے لیکر وارث تک سب کے قتل ، محرکات اور اس شخص کے سوچ و اختلافات پر دوبارہ غور کیا جائے کیا پتہ اس پنڈورہ بکس سے اور کیا کیا نکلے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز