پنج‌شنبه, آوریل 25, 2024
Homeآرٹیکلزتنقید کی اہمیت اور موجودہ بلوچ قومی سوچ وسیاسی رویہ،تحریر:عبدالواجد بلوچ

تنقید کی اہمیت اور موجودہ بلوچ قومی سوچ وسیاسی رویہ،تحریر:عبدالواجد بلوچ

تنقید عربی کا لفظ ہے جو نقد سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ’’کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا ‘‘ہے۔ انگریزی میں Criticismکہا جاتا ہے ۔اصطلاح میں اس کا مطلب کسی ادیب یا شاعر کے فن پارے کے حسن و قبح کا احاطہ کرتے ہوئے اس کا مقام و مرتبہ متعین کرنا ہے۔خوبیوں اورخامیوں کی نشاندہی کرکے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کہ شاعر یا ادیب نے موضوع کے لحاظ سے اپنی تخلیقی کاوش کے ساتھ کس حد تک انصاف کیا ہے مختصراََ یہ کہ فنِ تنقید وہ فن ہے جس میں فنکارکے تخلیق کردہ ادب پارے پراصول و ضوابط و قواعد اور حق و انصاف سے بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا جاتا ہے اور حق و باطل،صحیح و غلط اور اچھے اور برے کے مابین ذاتی نظریات و اعتقادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فرق واضح کیا جاتا ہے۔تنقید اس عمل یا ذہنی حرکت کا نام ہے جو کسی شے سیاست یا ادب پارے کے بارے میں خصوصیات کا امتیاز کرے جو قیمت و اہمیت رکھتی ہے ،بخلاف ان کے جن کی قیمت و اہمیت نہیں۔
اب ہم تنقید کو لیکر اس کی سیاسی ،سماجی و معاشرتی پہلوؤں پر اک نگاہ ڈالتے ہیں تاکہ ان تمام محرکات کو سمجھنے میں آسانی ہوجو بلواسطہ یا بلاواسطہ بلوچ قومی تحریک سیاست اور سیاسی سوچ پراثرانداز ہورہی ہے۔بہت سے لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ بہترین اجتماعی عمل وہ ہے جس میں کسی پر تنقید نہیں کی جائے یہ منفی سوچ ہے۔تنقید کوئی معیوب شے نہیں ہے۔وہ ایک اعلیٰ درجے کا فکری عمل (Thinking Process) ہے۔جہاں تنقید اور اختلاف رائے کا ماحول نہیں ہوگا وہاں ذہنی ارتقاء کا سفررک جائے گا۔اور کسی سوسائٹی کے لئے اس سے زیادہ مہلک کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی کہ وہ ایسے کند ذہن افراد کا مجموعہ بن جائے جو شعور و ادراک کی نعمتوں سے محروم اور اعلیٰ فکری صلاحیتوں سے خالی ہو۔صاف گو انسانوں کی ناقدری،تنقید اور جرات اظہار کی حوصلہ شکن پسندوں اور غیرسنجیدہ انسانوں کی زردفصل ہی نہیں اگاتی،بسا اوقات یہ چیز معاشرے میں ذہنی جمود پیدا کرتے ہیں۔اکابر پرستیHero Worshipکی طرح ڈالنے اور فکر و عمل کے سوتے خشک کرنے کا موجب بنتی ہیں۔جب کسی قوم کے ارتقاء کا انحصار اس کی فکری صلاحیتوں پر ہوا کرتا ہے۔قومیں احتسابی عمل اور تنقید کی زور پر ہی ترقی کے مراحل طے کرتی ہیں نہ کہ موقع پرستی و مصلحت کے زور پر۔موقع پرستی و مصلحت کا طریقہ عوام کی بھیڑ جمع کرنے کے لئے سود مند ثابت ہوسکتا ہے لیکن قومی سوچ کی تعمیر اصلاحی معاشرے جیسے ٹھوس کاموں اور دور رس نتائج رکھنے والی پروگراموں کے لئے ہرگز مفید نہیں۔
دوسری طرف جب ہم اپنے ارد گرد سیاسی ماحول خواہ وہ آزادی پسند پارٹیوں کی طرف سے ہو یا پارلیمان نواز پارٹیوں کی طرف سے جائز تنقید اور اصلاح کی جب بات کی جاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس پارٹی پر یا ان کی لیڈرشپ پر آگ کے گولے برسائے جارہے ہوں لیکن اصل میں تنقید کی ہی اسی لئے جاتی ہے کہ کہ سمندر میں پھنسی اس کشتی کو بھنور سے نکال کر ساحل سمندر پا بہ حفاظت لائی جائے۔لیکن ہمیں یہاں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آیا سوشل میڈیا پر بلوچ قومی سیاست کے حوالے جو تنقید ہورہی ہے وہ واقعی اصلاحی بنیادوں پر ہورہی ہے؟؟کیا سوشل میڈیا پر چند ایسے نقاط پر بحث کی جارہی ہے وہ جائز ہیں یا کہ نہیں؟کیا جس طرح کچھ پوشیدہ چیزوں کو جن کو وقت سے قبل سوشل میڈیا کی نذر کی جارہی ہے وہ واقعی بلوچ قومی تحریک کے لئے اور بلوچ قومی آزادی کے لئے سود مند ثابت ہورہی ہیں؟سب سے اہم بات یہ کہ اس بات کا اندازہ ہے ہمیں کہ سوشل میڈیا کی اس بحث و مباحثے سے بلوچ قومی تحریک کو فائدہ پہنچا ہے یا نقصان تو غور و فکر کے بعد ہر کوئی اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ ماسوائے تلخیوں کے دوریوں کے نفرت کے گالم گلوچ کے اور کچھ حاصل ہواہی نہیں تو کیا یہ اصلاحی تنقید کے زمرے میں آتی ہے؟؟؟ہرگز نہیں اصل میں مسئلہ سیاسی تربیت اور سنجیدگی کا ہے غور و فکر (صرف لفاظی بنیادوں پر نہیں بلکہ عملی بنیادوں پر ہو)کی کمی گہرائی سے چیزوں کی مشاہدے کا نہ ہونا اصل وجوہات ہیں۔سب سے بڑی بات اس اصلاحی و تنقید برائے اصلاح کے عمل کو چند شخصیات کے گرد محدود کرکے بلوچ قومی تحریک کے لئے نقصانات پیدا کی جاچکی ہیں۔اس طرح نا کسی تحریک میں ہوئی ہے اور نہ کسی جگہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ قومی مفادات کو شخصی و گروہی لبادے میں اوڑھ کر ان کو خوبصورت تنقید کا نام دیا گیا ہو۔پارٹی سیاست اور شخصی اجارہ داری سے بالاتر ہوکر آج ہی ایک ایسے سیاسی ماحول کو وجود دینا ہوگا جہاں واقعتا اقتدار و طاقت کا سرچشمہ برائے راست عوام کہلائی جائے(لفاطی اہمیت سے بالاتر ہونا ہوگا)۔اس کی ابتداء یقیناًبلوچ قومی تحریک کے مضبوط پلر سنگت حیربیار مری نے یکجہتی کے حوالے سے جن دو نقاط کا ذکر کیا تھا وہی دو نقاط عوامی اہمیت اور تحریک کے اندر عوامی کردار کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتی ہیں۔ان کے ان بنیادی دو نقاط برائے یکجہتی تحریک میں پائے جانے والی ان کمزوریوں کی بخوبی نشاندہی کررہا ہے جس سے بلوچ عوام تحریک آزادی سے بدزن ہورہی ہے جس کا ادراک وقت کی اہم ضرورت ہے۔جس سیاسی اور اجتماعی طریقے سے ان مسائل کی نشاندہی سنگت حیربیار مری نے کی ہیں کہ بے گناہ افراد کا قتل عام اختیارات کی ناجائز استعمال اور بغیر نظم و ضبط کے اداروں کو چلانا بلوچ قومی تحریک پر وہ ناسور زخم ہیں جن کا درد تمام آزادی پسند قوتیں آج سہہ رہی ہیں۔جب تک قومی اجتماعی سوال کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا ان پیچیدگیوں پر سے قابو پانا مستقبل قریب میں مزید مشکل ہوگا۔
جب اہمیت اور حیثیت صحیح معنوں میں عوام کو دی جائے گی عوام کو اس قابل سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے تئیں فیصلہ کرپائے گا،گروہیت اور پارٹی بازی سیاست کا قلعہ قمعہ کیا جائے گا تنقید کے اصل مفہوم سے آگاہی رکھی جائے گی تب بلوچ قومی سیاست میں مثبت پہلوؤں کے پیدا ہونے کی گنجائش پیدا ہوگی ورنہ اسی طرح انتشار و سراسیمگی کا عالم ہوگا لوگ مایوسیت کے دلدل میں دھنستے جائیں گے اور تحریک آزادی میں ایک بڑا وقفہ پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہوگا جو کسی بھی پارٹی یا لیڈر
کے لئے نیک شگون نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز