جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزتیرہ نومبر کا المیاتی پہلو :تحریر۔نود بندگ بلوچ

تیرہ نومبر کا المیاتی پہلو :تحریر۔نود بندگ بلوچ

نپولین بونا پارٹ کہتا ہے ” شہادت موت نہیں بلکہ مقصد کی وجہ سے ملتی ہے ” شہادت کا لفظی معنی ہی گواہی دینا ہے یعنی سچ کی گواہی دینا اسکی وکالت کرنا ، اگر مقصد ذاتی ہو تو وہ شہادت اس شخص کو کردار کے اعلیٰ درجات پر پہنچادیتی ہے اور اگر وہی مقصد قومی ہو تو پھر وہ شہادت قوموں کو انسانیت کے اعلیٰ درجات یعنی آزادی و ترقی سے ہمکنار کرتی ہے ۔ تبھی دنیا کے ترقی یافتہ اقوام ہوں یا ترقی پذیر یا پھر پسماندہ سبھی اپنے شہیدوں کو یاد کرتے ہیں ، یہ اقوام زوال کی گہرائیوں کو چھو رہے ہوں یا پھر بام عروج پر جھوم رہے ہوں سبھی اپنے شہداء کے قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ، قومیں آزاد ہوں یا غلام ہر وقت اپنے شہداء سے تجدید عہد کرتے ہیں کیونکہ یہ شہداء کا لہو ہوتا ہے جو غلام، زوال پذیر ، پسماندہ اقوام کو لڑنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ عنایت کرتا ہے اور آزاد، عروج پذیر ، ترقی یافتہ اقوام کو آزادی و ترقی کا قدر و احساس دلاتی ہے۔
دنیا کے وہ تمام اقوام جنہوں نے جنگوں کی صعوبتیں سہی یا پھر غلامی کے اندھیرے دیکھے تقریباً سبھی ایک دن اپنے شہداء کیلئے مختص کرکے اس دن من حیث القوم انہیں یاد کرتے ہیں اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ آذربائیجان ہر 20 جنوری کو اپنے شہداء کا دن مناتا ہے یہ وہ دن تھا جب آزادی مانگنے کے پاداش میں سوویت آرمی نے باکو شہر پر چڑھائ کرکے 180 سے زائد احتجاجیوں پر فائرنگ کرکے انہیں شہید کردیا تھا۔ افریقی ملک ملاوی ہر 3 مارچ کو اپنے ان شہداء کے یاد میں گذارتا ہے جنہوں نے برطانوی قبضہ گیر سے آزادی حاصل کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردی تھی ۔ آرمینیا ہر سال 24 اپریل کے دن اپنے ان شہداء سے تجدید عہد کرتا ہے جو خلافتِ عثمانیہ کے دور میں ترکوں کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہوئے تھے ۔ بنگلہ دیش نے اپنے شہداء کو یاد رکھنے کیلئے 21 فروری کا دن مختص کیا ہے یہ وہ دن ہے جب 1952 میں بنگلہ زبان کے حفاظت کیلئے طلباء سڑکوں پر نکلے تھے اور پاکستانی قابضوں نے ان کا استقبال بندوق کے گولیوں سے کیا تھا اس دن کو وہ زبان کے شہداء کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اسی دن اب دنیا زبانوں کا عالمی دن مناتا ہے۔ قابض اٹلی سے آزادی چھیننے کی لگن میں شہید ہونے والوں کو لیبیاء ہر سال 16 ستمبر کے دن اس شان سے یاد کرتی ہے جس کا وہ حقدار ہیں ۔ پانامہ نے 9 جنوری کا دن اپنے ان شہید طلباء کے قربانی سے منسوب کیا ہے اور ہر سال انہیں یاد کرتی ہے جنہوں نے 1964 میں صرف اس لیئے اپنی جان دی کہ امریکہ کے زیر کنٹرول پانامہ نہر پر پانامہ کا جھنڈا لہرایا جائے اور ان قربانیوں نے ہی امریکہ کو مجبور کردیا کہ وہ پانامہ نہر کا کنٹرول واپس پانامہ کو دیدے ۔ شام نے 6 مئ کا دن اپنے شہداء کیلئے مختص کردیا ہے تاکہ وہ اپنے ان قومپرست شہداء کو کبھی نہیں بھولیں جنہیں دمشق میں 6 مئ 1916 کے دن سلطنت عثمانیہ کی فوج نے شہید کردیا تھا ۔ ترکی 18 مارچ کا دن اپنے ان شہداء کے یاد میں گذارتا ہے جنہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران وطن کی دفاع میں اپنا جان قربان کردیا تھا ، ویتنام نے 27 جولائ کا دن نا صرف اپنے شہداء کیلئے مختص کیا ہے بلکہ اس دن ان تمام سپاہیوں کو بھی یاد کیا جاتا ہے جو آزادی کی جنگ میں زخمی ہوئے تھے ۔ برما نے اپنے شہداء کا دن 19 جولائ قرار دیا ہے یہ دن ان 9 برمی آزادی پسند لیڈروں کے شہادت کے دن سے منسوب ہے جنہیں 19 جولائ 1947 کو ایک ساتھ شہید کردیا گیا تھا ۔ اسی طرح ٹوگو 21 جون ، تیونس 9 اپریل اور یوگنڈا 3 جون کو اپنے شہداء کے دن کو احترام و عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں ، ان کے علاوہ بھی بہت سارے آزاد و غلام اقوام ایسے ہیں جنہوں نے اپنے شہداء کیلئے ایک دن مختص کیا ہوا ہے اور اسی دن وہ بلا تفریق تمام شہداء کو یاد کرتے ہیں اور ان سے تجدید عہد کرتے ہیں ۔ شہداء کیلئے ایک دن مختص کرنے کا فلسفہ یہی ہے کہ نا شہداء میں تفریق ہو اور نا یاد کرنے والوں میں کوئ فرق ۔ سب نے اپنی یکساں قیمتی جان ایک مشترکہ مقصد کیلئے مجموعی طور پر قوم کیلئے قربان کردیا اسلیئے قوم مشترک ہوکر انہیں یکساں طور پر یاد کرے ۔
بلوچ 175 سالہ دور غلامی میں صرف چند ماہ ہی آزادی کی روشن صبح دیکھ سکے ہیں۔ 13 نومبر 1839 سے لیکر 11 اگست 1947 تک انگریزوں کے قبضے میں رہنے کے بعد صرف 7 ماہ آزادی کے دن گذار کر پھر پاکستانی جارحیت کا شکار ہوگئے اور ایک بار پھر 27 مارچ 1948 کو بلوچ سرزمین بیرونی قبضہ گیروں کے نرغے میں آگیا اور تاحال اسی قبضے کا شکار ہے ۔ اتنی طویل غلامی کسی بھی قوم کو سیاسی ، سماجی اور معاشی طور پر پسماندگیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیتی ہے لیکن بلوچ اس طویل قبضے کے پہلے دن 13 نومبر 1839 سے لیکر تادم تحریر ٹوٹنے کے بجائے مزاحمت کرتا آرہا ہے اور اپنے آزادی کیلئے کبھی منتشر اور چھوٹے سطح پر اور کبھی منظم و اجتماعی حوالے سے جدوجہد کرتا آرہا ہے ۔ اس طویل جدوجہد کے دوران ہزاروں کی تعداد میں بلوچ شہید ہوگئے جن میں سے کئیوں کے نام آج تک زندہ ہیں اور کئ گمنام ہیں ۔ ایک نیم قبائلی معاشرے میں رہنے کی وجہ سے قبائلی روایات کا اثر نا صرف ہمارے نفسیات پر بہت گہرے نقوش چھوڑ چکا ہے بلکہ ہمارے سیاست پر بھی اس کے گہرے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں ، اسی لیئے یہاں سماج کی طرح شہداء کے بھی طبقات بنائے گئے ہیں اور ان طبقات و درجات کا بنیاد بھی کردار سے زیادہ قبائلی ،علاقائی، ذاتی یا گروہی وابسطگی ہے ۔ اسی لیئے کچھ شہداء شاہ شہیداں ، شہید انقلاب وغیرہ بن جاتے ہیں اور کئ باکردار شہید آہستہ آہستہ تاریخ کے صفحات سے ہی مٹ رہے ہیں ۔ اس لیئے دنیا کے باقی اقوام کی طرح یہ ضروری تھا کہ تمام بلوچ شہداء کو تاریخ میں امر کرنے اور برابری کی حیثیت دینے کیلئے ایک دن ایسا مختص کیا جائے جس دن تمام بلوچ ایک ہوکر تمام بلوچ شہداء کو ایک حیثیت دیکر انہیں یاد کریں ، ان سے تجدید عہد کریں اور ان کے قافلے کو منزل تک پہنچانے کا عزم کریں ۔ اس حوالے سے 2010 سے ہی بازگشت چل رہی تھی اور بالآخر 13 نومبر کو شہداء کا دن قرار دیکر اسے ہر سال شان و شوکت سے منانے کا عزم کیا گیا اور اسے بلوچستان لبریشن چارٹر کا بھی ایک حصہ بنایا گیا تاکہ اس دن کی اہمیت نا صرف آج بلکہ بلوچ آزادی کے بعد بھی یکساں رہے ۔
تمام شہداء کیلئے ایک دن مختص کرنے کا بنیادی مقصد نا صرف بلوچ شہداء کو یکساں حیثیت اور اہمیت دینا تھا بلکہ گروہیت کا شکار بلوچ سیاست کو ایک نکتہ پر جمع کرکے گروہیت کی نفی کرنا بھی مقصود تھا ، تاکہ شہداء کے نام پر اپنی اپنی دکانداری چمکانے کی روایت کو ختم کیا جائے اور ساتھ میں اس رجحان کو بھی ختم کیا جائے جہاں سیاست کا نام مردہ پرستی بن جاتی ہے اور سیاسی عمل صرف اس بات کو سمجھا جاتا ہے کہ ہر گروہ اپنی بنیاد ایک شہید یا کچھ شہیدوں کو بناکر پورا سال انکے برسیوں کے انتظار میں گذار دیں ۔ اس دن کیلئے 13 نومبر کا چناو بھی اپنے پیچھے ایک فلسفہ رکھتا ہے ۔ اس وقت اگر بلوچ سیاست پر نظر دوڑائیں تو سیاسی پارٹیاں کچھ دن بہت زور شور سے مناتے ہیں جیسے کہ 26 اگست ، 20 نومبر ، 8 اپریل ، 11 جون ، 15 جولائ وغیرہ ان دنوں میں سے ہر ایک کو کسی نے اپنا میراث سمجھا ہوا ہے اور ان پر کسی قسم کا سمجھوتا کرتے نظر نہیں آتے مثال کے طور پر اگر بی آر پی سے آپ پوچھیں کہ شہداء کیلئے کونسا دن مختص ہو تو وہ اکبر خان کے شہادت کے دن کو ہی یوم شہداء ٹہرائیں گے جسے بی این ایم وغیرہ نہیں مانیں گے اور اگر آپ بی این ایم سے پوچھو گے تو ان کیلئے مقدس صرف غلام محمد کے شہادت کادن ہوگا اور وہ اسی کو شہداء کا دن قرار دینے کی ضد کریں گے اسی طرح بی ایس او شہید حمید وغیرہ کے دن پر دعویٰ کرے گا ، اس لیئے ایسا دن ہونا ضروری تھا کہ جس پر کسی گروہ کا دعویٰ نا ہو تاکہ ایک تو سب کو قابلِ قبول ہو اور دوسری طرف اس سے گروہیت کی بھی نفی ہو اور دوسری اہم بات یہ کہ ہم کہتے ہیں کہ اس طویل غلامی کے دوران تمام شہداء کو یاد کیا جائے اس میں شک نہیں کہ پاکستانی قبضہ گیریت انگریز استعماریت کا تسلسل ہے اب اگر ہم ایک ایسا دن مختص کرتے کہ اس میں پاکستان اور انگریزوں دونوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے بلوچوں کو یکساں یاد کیا جاسکتا تو یقیناً یہ زیادہ بہتر ہوتا اس لیئے 13 نومبر سے بہتر اور کونسا دن ہوسکتا تھا یہ دن ناصرف اس طویل غلامی کا آغاز تھا بلکہ اسی دن سے ہی شہادتوں کا یہ نا رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس دن مثالی طور پر بلوچ سر زمین کے دفاع کیلئے ایک عام بلوچ ، سردار اور خان برابری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔ ان سب کے باوجود 13 نومبر کا دن الہامی نہیں ہے اس لیئے اگر کوئ بھی گروہ یا شخص مضبوط دلائل دیکر اسے بدلنے کی کوشش کرے اور اس سے بہتر دن سامنے لائے تو یہ کوئ گناہ نہیں ہوگا حتیٰ کے بلوچستان لبریشن چارٹر میں بھی اس ترمیم کی گنجائش موجود تھی ، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس حد تک آنے سے پہلے ہی ایک دن کے تصور کو ہی مسترد کردیا گیا ۔ اس حوالے سے واحد دلیل میری نظروں سے گذشتہ دن حاجی انور ایڈوکیٹ کے بیان میں گذرا جس میں موصوف یہ دلیل دے رہے تھے کہ اگر ہم شہداء کا دن 13 نومبر کو مناتے ہیں تو اسکا مطلب ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ ہم انگریزوں سے آزاد ہوئے تھے ، انور صاحب کا کہنا ہے کہ کیونکہ ہم انگریزوں سے آزاد ہوئے تھے اور ان شہداء کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تھا اسلیئے اب ہمیں شہداء کا دن صرف ان شہداء سے منصوب کرنا چاہئے جو پاکستان کے ہاتھوں شہید ہوئے اس کیلئے موصوف نے 15 جولائ کا دن تفویض کیا تھا یہ وہ دن ہے جس دن بابو نوروز کے رفقاء کو پھانسی دی گئ تھی اور کچھ لوگوں کے مطابق اس دن پھانسی نہیں دی گئ تھی بلکہ 15 جولائ کے دن ان کی جسد خاکی کو قلات پہنچایا گیا تھا ۔ میں انور صاحب کے ان دلائل سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ شہیدوں کا دن منانے کا مقصد صرف پاکستان کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کا دن نہیں منانا ہے بلکہ ان تمام شہداء کو یاد کرنا ہے جو بلوچ مادر وطن کے دفاع کیلئے اپنا جان قربان کرگئے چاہے ان کا تعلق جس بھی صدی اور دہائ سے ہو اور چاہے دشمن جو بھی ہو ، اگر ہم شہداء کو اس طرح تقسیم کریں کہ پاکستان کے ہاتھوں شہید ہونے والے اور برطانیہ کے ہاتھوں شہید ہونے والے تو یہ ایک بار پھر ایک تقسیم ہے جو شہداء دن کے فلسفے کے ہی منافی بن جاتا ہے ۔ دوسری بات شہداء کا آپ جو بھی دن مختص کریں اس سے قطعی طور پر آپ کے اس موقف پر کوئ اثر نہیں پڑے گا کہ آپ 11 اگست کو ایک بار آزاد ہوئے تھے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا موقف مزید مضبوط ہوگا کیونکہ 11 اگست کو دنیا کے سامنے لانے کا ہمارا مقصد جہاں یہ ہے کہ ہم ظاھر کریں بلوچستان ایک آزاد ریاست تھا اور پاکستان نے اس پر قبضہ کرلیا وہیں اس دن ہم یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں ہم ایک جدا قوم ہیں اور پاکستان سے پہلے بھی وجود رکھتے تھے ، اگر ہم ان شہداء کو یاد کرتے ہیں یا ایک ایسے دن کو مناتے ہیں جو پاکستان کے قیام سے پہلے کے ہیں تو میرا خیال ہے یہ ہمارے جداگانہ شناخت اور قومیت کے تصور کو مزید استحکام بخشتا ہے ۔
اگر ہم دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 13 نومبر کو مسترد کرنے کے پیچھے حقیقت میں نا دن کے تفویض کا مسئلہ ہے اور نا کچھ اور بلکہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ ہمارا گروہیت پسند ذہنیت ہے ، یہ گروہیت پسندی اصل میں ہے کیا ؟ انفرادی سطح پر نفسیاتی ماہرین اسکی یوں تشریح کرتے ہیں کہ “جب ایک شخص دنیا کے رفتار کے ساتھ نہیں چل پائے اور اپنے خواہش کے مطابق اہمیت حاصل نہیں کرپائے پھر اسکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے الگ تھلگ کردے پھر یا وہ تنہائ پسند ہوجاتا ہے یا پھر خود کو مقابلے کے اس دنیا سے کاٹ کر اپنی ایک جدا دنیا بنادیتا ہے جس کا کرتا دھرتا وہ خود ہوتا ہے” ، اسی طرح اگر بلوچ سیاست پر ایک نظر دوڑائیں تو ہمیں اصولی و نظریاتی تقسیم بہت کم ملتا ہے ہمیشہ سے تقسیم در تقسیم کا بنیادی وجہ یہی رہا ہے کہ کسی طور اپنی الگ اور جدا دنیا بنا کر اس چھوٹی سی دنیا کا سربراہ بناجائے ، وہ مقام حاصل کیا جائے جو اجتماعی طور پر ممکن نہیں ، ذرا ایمانداری سے سوچیں کہ مثال کے طور پر کل کوئ معجزہ ہوجاتا ہے اور بلوچ ایک سنگل پارٹی بناتے ہیں اور پھر لیڈر شپ کی بنیاد مخلصی ، اہلیت اور قابلیت ہو جاتی ہے تو پھر کیا اس وقت بہت سے لیڈران جو اپنے اپنے جماعتوں کے بلا شرکت غیرے حکمران بن چکے ہیں وہ کسی طور میرٹ کے مطابق ایک تحصیل کے صدر کی بھی اہلیت رکھیں گے ؟ اپنے لیڈروں پر ایک نظر دوڑائیں تو سب چور دروازوں سے آئے ہوئے ہیں ، براہمداغ بگٹی کس میرٹ اور اہلیت کے بنیاد پر بی آر پی کا سربراہ ہے ؟ اگر یہی براہمداغ بی این ایم میں جاتا اور واجہ غلام محمد کے مقابلے میں کھڑا ہوتا اور الیکشن میرٹ پر ہوتا تو آپ کو کیا لگتا ہے وہ کبھی کسی پارٹی کے سربراہ بن پاتے ؟ اسی طرح بی این ایم کے خلیل اور بی ایس او کے کریمہ کو دیکھیں تو یہ صرف خفیہ لابینگ ، چال بازی اور دھوکہ دہی کے بنیاد پر اپنے اپنے تنظیموں کے سربراہ بن گئے اور اب سربراہی پر ایسے چمٹے ہیں کہ شاید انہیں صور اسرافیل بھی اپنی جگہوں سے نا ہٹا سکے ، ڈاکٹر اللہ نظر صاحب کا بی ایل ایف کا سربراہ بننا بھی اب کوئ راز نہیں رہا ، انہوں نے آتے ہی کتنوں پر غداری کے فتوے لگا کر اور کتنوں کے غیر موجودگی میں ان کے جگہوں پر لپک کر یہ جگہ حاصل کی سب کو علم ہے ۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کے پتہ نہیں بلوچ سیاست میں کتنے ایسے لائق اور اہل لیڈران گم اور ضائع ہوئے ہونگے جو ہمارے سیاست کے غلیظ ” لابینگ ” میں مہارت نہیں رکھتے تھے کیونکہ ہمارے سیاست میں لیڈر بننے کا معیار کبھی بھی اہلیت نہیں رہا ہے بلکہ لابینگ اور موقع پرستی کا ہنر رہا ہے ۔ اسکے علاوہ سالویشن کے تمام جماعتوں کو دیکھیں تو سب کی بنیاد شخصی سے شروع ہوا اور اب تک چل رہا ہے اب آگے کا پتہ نہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی قومی اور اجتماعی نقطے پر آنا ان سب کی سلسلہ وار موت ہے اسی لیئے اجتماعیت کو یہ خودکشی سمجھتے ہیں 13 نومبر ایک ایسا ہی اجتماعی نقطہ ہے اب اسکو یار لوگ ببانگ دہل واضح الفاظ میں مسترد تو نہیں کرسکتے اسلیئے اب سیاسی طور پر چاہتے ہیں کسی طرح اس دن کو متنازعہ کیا جائے ، اسی لیئے آپ نے دیکھا ہوگا عوامی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے اتحاد سب کا نعرہ مستانہ ہوتا ہے لیکن عملی طور پر آج تک یہ ہمیں اپنے سیاست میں نظر نہیں آتا۔ اب سوچیں یہاں ہر پارٹی نے ایک الگ دن اپنے لیئے مختص کیا ہوا ہے اور سب کے الگ الگ شہید ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سب نے الگ گروہ بنا لیئے تو اب یہاں انکی پہلی ترجیح ان گروہوں کا استحکام ہے بی ار پی اکبر بگٹی پر ملکیت جتائے گی ، بی این ایم غلام محمد کے وارث بنیں گے اور بی ایس او رضا جہانگیر کو ہیرو بنائے گا پھر ان شہیدوں کی خوب پرچار کرکے عوام میں ان کے بابت ایک جذباتی کیفیت پیدا کی جائے گی اور پھر خود کو بالترتیب کسی شہید کے نسبت سے جوڑ کر ان جذبات کو اپنے گروہ کیلئے استعمال کرے گا ، آپ نے ایسے جملے تو بہت سنیں ہونگے کہ ” بی ایس او شہیدوں کی تنظیم ہے ” ، ” بی آر پی شہید اکبر خان بگٹی کے فلسفہ پر عمل پیرا ہے ” ، ” بی این ایم غلام محمد کے فکر کو لیکر چل رہی ہے ” اب تو مارکیٹ میں ایک اور نعرہ بھی آگیا ہے ” یو بی اے بابا خیر بخش کی فلسفے پر گامزن ہے ” یعنی اچھائ کا معیار اپنی کارکردگی اور کارنامے نہیں بلکہ کسی شہید سے خود کو جوڑنا ہے پھر ظاھر ہے جب شہیدوں سے جڑ گئے تو پھر شہیدوں کی ریس لگ جاتی ہے ، جتنا زیادہ جس شہید کی تشہیر ہو ، جتنا زیادہ اسکے برسی پر ہنگامہ ہو تو اس سے جڑا گروہ انتا ہی آگے جائے گا ۔ حقیقت میں دیکھا جائے ہم مردہ خور ، مردہ پرست اور مردہ فروش ہیں ۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ تمام پارٹیاں اپنے اپنے ملکیتوں سے دستبردار ہونگے؟ اس سے بھی بڑا سوال تو یہ ہے کہ یہ مردوں سے دستبردار ہوگئے تو پھر کریں گے کیا ؟ اب تو انکی ساری سیاست کچھ مخصوص شہیدوں کی برسی اور انکے سرخ سلام میں گذرتی ہے جب یہ شہید آپ ان کے گروہوں کے ہاتھ سے لیکر قومی کردو گے تو پھر کڑوی حقیقت یہ ہے کہ ان کےپاس کچھ کرنے کو بھی نہیں بچے گا اور پھر کیا وہ پاگل ہیں کہ 13 نومبر منائیں اس سے کسی ایک کے گروہ کو کیا فائدہ ۔ اب یہاں المیہ یہ ہے کہ جس طرح اس گروہی اور لابینگ زدہ سیاست نے کئ قابِل لوگوں کو گم کردیا اسی طرح یہ مردوں کو بھی نہیں بخش رہے ہیں ، شاید یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا لیکن پھر بھی کہتا ہوں کہ جو شہید قبائلی حیثیت ، گروہی سربراہی ، با اثر یار دوست یا پرکشش شخصیت نہیں رکھتا ہے وہ وقت کے رفتار میں ایسے گم ہوجاتا ہے کہ معلوم ہی نہیں پڑتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اشتمالیت کے داعی ہمارے اس قومی ملکیت کی نجکاری کرہے ہیں۔
ایک طرف تو یہ گروہی سوچ ہوگئ لیکن پھر بھی 13 نومبر کو بلوچستان میں کچھ ہو اور ہمارے مردہ خور گِدھ (جماعتیں) جمع نا ہوں تو یہ بھی ممکن نہیں ہے ، اس لیئے ایسی ایسی مذاحقہ خیز وارداتیں آج کل وقت دِکھا رہا ہے کہ حیران ہوں ہنسوں یا سر پر مٹی ڈال کر ماتم کروں ۔ مثال لیجیئے اللہ نظر گروہ کا جو بی ایل ایف ، بی این ایم اور بی ایس او آزاد پر مشتمل ہے اور جن کو لاش نوچنے میں اتنی مہارت حاصل ہے کہ شاید بلوچ سیاست میں یہ ہنر آج تک کسی کو بھی اس سطح تک نصیب نہیں ہوا بابا مری کا جنازہ اور بی ایس او کا بیان تو آپ کو یاد ہی ہوگا نا ۔ اب ڈاکٹر اللہ نظر صاحب خود تو متقی ہیں اس لیئے لاش نوچنے کیلئے بی ایس او کریمہ کو ڈیڑھ مہینے پہلے ہی اعلان کروایا کہ 13 نومبر کو ہڑتال ہوگی اور تب سے تشہیری مہم شروع ہے جتنی تیزی سے آپ شہداء کے دن کی تشہیر کریں گے اس سے دگنی تیزی سے یہ آپ کو اسیران ہڑتال کیلئے نظر آئیں گے پھر حسب امید بی این ایم نے اسکی حمایت کردی کیونکہ سب پہلے سے منصوبہ بندی ہوا تھا اب ہوسکتا ہے ڈاکٹر نظر خود اس ہڑتال اور اسیران کیلئے کوئ بیان دے دیں اگر نہیں دیا بھی تو پھر بی ایل ایف کے بندوق بردار 13 نومبر کو مکران کے کچھ علاقوں میں دکانیں بند کرادیں گے ۔ یعنی کسی طور 13 نومبر کو چھوڑنا بھی نہیں ہے ایسا نا ہو کہ بلوچ عوام خود نکل کر اس دن کچھ کریں یا اپنی دکانیں بند کریں اور وہ کرنا رائیگاں ہوجائے بلکہ ہر عمل کو لاش کی طرح نوچنا ہے ۔ پہلے بھی میں نے عرض کیا دوبارہ کہتا ہوں صرف اتنا غور کریں کہ آخر ان کو پورے سال میں اسیران کیلئے ہڑتال کا کال دینے کی ضرورت صرف 13 کو ہی کیوں پیش آئ ؟ انہوں نے اس ہڑتال کیلئے کال ڈیڑھ مہینے پہلے ہی کیوں کال دی ؟ اگر اب بھی ہمیں سمجھ نہیں آیا تو پھر میں کہوں گا کہ چند سال مزید غلامی کی سزا ہم پر واجب ہوتی ہے تاکہ کچھ تو عقل ٹھکانے لگے ۔ اب آگے مزے کی بات یہ ہے کہ بی ایس او نے ہڑتال کے بعد ہونے والے تنقید سے تنگ آکر یہ کال دے دی کہ وہ 13 نومبر کو شہداء کا دن بھی منائے گا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ شہداء کا دن منانے کا اعلان کردیا لیکن اس دن اسیران کیلئے ہڑتال کی کال بھی واپس نہیں لی یعنی مجموعی طور پر 150 کارکنان کی مالک تنظیم بلوچستان جیسے وسیع خطے میں ایک ہی دن نا صرف ہڑتال کرے گی بلکہ ریفرنس بھی منعقد کریں گے اس حد تک دیکھ کر انسان سوچتا ہے کہ شاید گروہیت اور غیر سیاسی پن کی یہ انتہاء ہے لیکن روکیں ذرا دوبارہ بی ایس او کے 13 نومبر کے شہداء کےدن کی کال کے بارے میں سوچیں آپ کے ذہن میں ایک اور سوال آئے گا کہ 13 نومبر یوم شہداء بلوچستان منانے کا مقصد تمام شہیدوں کو برابر کی حیثیت دیکر انہیں برابر حیثیت سے یاد کرنا ہے اور گروہیت کی نفی کرنا ہے تو اسکا مطلب بی ایس او اس فلسفے کو مانتا ہے اس لیئے 13 نومبر منا رہا ہے ؟ بی ایس او برابری کے فلسفے کو مانتا ہے اس لیئے یہ دن منارہا ہے لیکن ہماری یاداشت اتنی بھی کمزور نہیں یہی بی ایس او کریمہ 14 اگست کو رضا جہانگیز کی بھی برسی منا چکا ہے پھر کیا رضا جہانگیز باقیوں سے زیادہ خاص تھا ؟ یہ تو سراسر اس فلسفے سے انکار ہوا پھر اس دوغلا پالیسی کی بنیاد کیا ہے ؟ اسکی بنیاد صرف گروہیت اور موقع پرستی ہے یعنی قومی کاز سے بھی خودکو جوڑنا ہے اور اپنے گروہی دن کو بھی ضائع نہیں کرنا ہے اور یہ گروہیت و دوغلا پن صرف اسلیئے قائم ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ کارکنوں کا ریوڑ کبھی یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ ان سے کچھ پوچھے اور ٹوکے اور انفرادی لحاظ سے کسی نے ایسا کیا تو یہ جملہ سلامت ہے ” تنظیمی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے پاداش میں فلانی ولد فلانی کی بنیادی رکنیت منسوخ کی جاتی ہے “۔
بلوچ قوم کے غلام باشندوں ان شہیدوں نے ہم سے کچھ نہیں مانگا ، انہوں نے اپنے موت کی قیمت وصول نہیں کی ، انہوں نے اپنے موت کیلئے یہ شرط نہیں رکھی کے ان کے بعد آپ ان کے خاندان کی کفالت کرو گے ، وہ کسی مولوی کے خیالی جنت کے پیچھے جنونی بھی نہیں تھے انہوں نے اپنی جان صرف اس لیئے قربان کی کیونکہ انہیں میری ، آپکی اور آنے والے نسلوں کی غلامی کا احساس تھا وہ اسی احساس کو لیکر اپنے جان سے گذر گئے ، انہوں نے ہمیں صرف دیا ہے ، انہوں نے ہمیں شرف بخشی ، ہمیں عزت دی ، دنیا میں ہماری گردن اور نام اونچا کردیا ہے اور ایک آزاد ، خوشحال اور مساوی معاشرے کی بنیاد اپنے لہو سے رکھ دی وہ معاشرہ جس میں وہ نہیں بلکہ ہم جئیں گے برابری ، عزت اور آزادی کے ساتھ ۔ انہوں نے اپنی جان ہمیں دنیا کے سب سے قیمتی تحفہ آزادی دینے کیلئے قربان کی ۔ کیا ہم ان کے احسان مند نہیں ، کیا ہم پر ایک شکریہ تک واجب نہیں ہوتا ، کیا ہم اتنے پتھر بن چکے ہیں کہ ان کے یاد میں ہمارے آنکھوں سے ایک آنسو تک نہیں ٹپک سکتا؟ ۔ میری عظیم بلوچ قوم! چھوڑیں ان گروہیت کے شکار پارٹیوں کو انفرادیت کے شکار لیڈروں کو اور مردہ خور گیدڑوں کو ، وہ شہید نا کسی پارٹی کیلئے مرے نا کسی شخص کیلئے بلکہ پوری قوم کیلئے جان قربان کرگئے وہ بھی برابری کے ساتھ اس لیئے اب وہ ہم سب کے ہیں ، ہمارے ذات ،جسم اور روح کا حصہ ہیں ۔ اپنے جسم اور روح میں کوئ تفریق نہیں کرسکتا اسلیئے سب کے سب برابر ہیں اور سب سے ہمیں برابر محبت ہے ، یہ محبت ہمارے روح تک میں رچ بس گئی ہے اور ہمیں اپنے محبت کے اظہار کیلئے کسی پارٹی یا کسی لیڈر کی ضرورت نہیں ہے ہمارا اپنے شہیدوں سے محبت لا محدود ہے جسے تنظیموں کے حدوں میں بند کرنے کی کوئ بھی کوشش ہم مسترد کرتے ہیں اس لیئے شہیدوں کی وارث یہ قوم اس 13 نومبر کو کسی بھی لیڈر یا پارٹی کو خاطر میں لائے بغیر صرف اور صرف شہیدوں کیلئے گھر سے نکلیں ، انہیں خراج تحسین پیش کریں ، ان کے تصویرں جگہ جگہ آویزاں کریں ، کہیں بھی کوئ بھی ان شہیدوں کے یاد میں جمع ہوتا ہے اسکا ساتھ دیں ، اگر یہ نہیں ہوسکتا پھر ہر شخص 13 نومبر کے شام کو شہیدوں کی یاد میں شمع روشن کرکے انکا شکریہ ادا کریں انکے ساتھ تجدید عہد کریں ، جس شخص سے جو کچھ بھی بن پائے وہ کرے ، شہیدوں کی قربانی ہمیں زندہ قوموں میں شامل کرتی ہے اور ان شہیدوں کو یاد کرنا انہیں ہمیشہ کیلئے زندہ کردیتی ہے ، تو آئیں ان لوگوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں جنہوں نے ہمیں دنیا میں زندہ کردیا ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز