جمعه, آوریل 26, 2024
Homeآرٹیکلزحجتِ انحراف،تحریر دادشاہ بلوچ

حجتِ انحراف،تحریر دادشاہ بلوچ

اگر بات تاویل پیش کرنے کی ہو تو ہر شئے یا فکر کی کوئی نہ کوئی تاویل جملہ بازیوں اور لفاظیت کی جھرمٹ میں گھڑ کر پیش کی جا سکتی ہے، اور اسے قبولیت ملنے کے امکانات بھی بہر طور موجود ہوتے ہیں، گو کہ کامل قبولیت ملنا ناممکنات میں سے ہے مگر کسی نہ کسی حد تک وہ بات دوسروں کے کانوں تک پہنچ کر ہی رہی گی حد درجہ قبولیت ملنے کے باوجود بھی دورانیہ مختصر ہی ہوگی کیونکہ طویل دورانیہ میں حقائق اپنے آپ ایڈجسٹ ہونے لگ جاتے ہیں، کیونکہ حقائق آشکار ہونے پر دروغ گوئی کے اثرات ذہنوں سے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں. پڑھنے والے چونکہ بیشتر معلومات تک فی الفور رسائی نہیں رکھتے اسی وجہ سے یہ چٹ پٹی اور موہوم سی جملے بازیاں ان پر اثر پذیر ہونگی اور ہر کوئی متذبذب ہوکر شک و شبہات میں پڑ جائے گا تاوقتیکہ کہ اسکا حقائق پر دسترس نہ ہو، لہذا یہ دورانیہ تاویلات گھڑنے والوں کے لئے سنہرا موقع ہے، بیان پہ بیان، اتحاد اتفاق، تاویلات، مسحور کر دینے والی باتیں، نعرے، لکھاریوں کا جم غفیر، میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا بے دریغ اور پھرتی سے استعمال، مراد یہ کہ جتنی بھی سانپ ہیں پٹارے میں سب کے سب بین بجا کر بس باہر نکالو تاکہ تماشہ بین کہیں اور دھیان نہ دے سکے اور اسی میں الجھا رہے، یہ سب محض انحراف کی احساس اور جرم کی خیال کو غلط کرنے کی ایک سعی لاحاصل ہے.
تاویل پیش کرنے والے کا موضوع سخن کیا ہے اور کس نوعیت کا ہے وہ اس لئے بھی معنی نہیں رکھتا کیونکہ وہ اپنی بات کے حق میں کسی طرح سے کہیں سے کچھ منطق اور دلائل تو پیش کرے گا، منطق اور دلائل کا قصہ بھی اپنے آپ میں نرالہ ہے، دلائل کی امداد کو ہمیشہ حقائق آجاتے ہیں اور حقائق ہمیشہ سیاسی و عسکری میدان عمل میں سرزد ہونے والے واقعات سے جڑے ہوتے ہیں، اور بہت ہی کم لوگوں کا ان واقعات و حقائق تک رسائی ہوتی ہے، وہ واقعات اپنے اندر کتنا زیادہ تنوع رکھتے ہیں وہ اپنے آپ میں ایک الگ بحث ہے اور واقعات کی اسی تنوع پذیری کے باعث بسا اوقات واقعات سے جڑے حقائق اتنے تلخ اور پیچیدہ ہوجاتے ہیں کہ انہیں چاہتے ہوئے بھی منظر عام پر نہیں لایا جا سکتا، لیکن ضروری نہیں ہر گروہ یا فریق مخالف اس امر کو خاطر میں لائے، جو لوگ ہر قیمت پر اپنی ضد منوانے پر تلے ہوں ان کے لیے حقائق سے جڑی حساسیت کوئی معنی نہیں رکھتی اور وہ یہ قیمت بہ خوشی ادا کرنے کو تیار ہیں، اور ایسے میں وہ نہ صرف فریق مخالف کی ٹانگ کھینچتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے اپنی تلوار سے خود کو بھی لہو لہان کردیتے ہیں تاکہ مدعی الیہ کی کردار کو بھی مشکوک بنا سکیں، ان سے ہر گز یہ بعید نہیں کہ وہ قومی سیاسی و عسکری سربستہ رازوں اور حساس نوعیت کی معلومات کو لیلام بازار میں بولی لگوانے کو پیش نہ کریں.
تاویلات دینے اور دلائل گھڑنے کا قصہ کرنوں سے چلتا چلا آرہا ہے، کیونکہ لکھنے والے اپنی بھوکی انا کی تسکین کو لیکر قاری کی زہن کو گدھ کی طرح نوچنا چاہتا ہے، گدھ کی فطرت نوچنا ہے اور اسکی زندگی اسی عمل سے وابستہ ہے، سو ان جیسے چرب جملہ ساز لکھاری حضرات کا بھی، انکا مطمع نظر ہی یہی ہے کہ غلط تاویلیں گھڑ کر اور بے جا مثالیں پیش کرکے قاری کو گھیر کر اپنے بیانیہ کی طرف راسخ کیا جائے، وہ حقائق کو بہت ہی احتیاط کے ساتھ توڑ مروڑ کر اپنے حق میں پیش کرنے کی کوشش کریگا، تاکہ حقیقت کاملہ قاری تک نہ پہنچ پائے، کیونکہ کامل حقیقت میں انکی موت کا ازباب چھپا ہوتا ہے، انکا ہتھیار ہی نا مکمل دلیلیں، سرسری باتیں اور من گھڑت تاویلات ہی ہیں، اور عام قاری تک بوجوہ مکمل حقیقت کا پہنچنا محال ہوتا ہے سو اس چیز کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی سعی کی جاتی ہے، مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ حقائق کو گدلا کرنے میں پہل کرو اور کامل حقیقت کو ایسے جھٹلاو کہ کل اگر حقیقت با امر مجبوری سامنے آ بھی جائے تو اس پر کوئی آسانی کے ساتھ بھروسہ کرنے کو تیار ہی نہ ہو، ایک طرح کی پیشگی صف بندی ہی کہہ لیں، معلومات کو اپنی مفادات کی حد تک لیک کرنے اور ضبط تحریر میں لانے کا بنیادی مقصد ذہنوں کو پراگندہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں.
حقائق کی توڑ مروڑ میں انکی اپنی موضوعی اور گروہی مفادات کی تکمیل کا خواب جڑا ہوا ہے، رائے عامہ کو ہموار کرکے عوام کے اندر زہنی صف بندی کرکے اپنی انفرادی و گروہی مفادات کو اجتماعی لبادے میں منطق و حقائق کا تڑکا لگا کر پیش کیا جاتا ہے، اب سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ سامنے والے کیوں خاموش ہیں، یا ہوجاتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ سامنے والا فریق مکمل طور چپ سادھ لے گا، نہیں وہ بولے گا اور چیزوں کو ضبط تحریر میں لانے کی اپنی حد تک کوشش بھی کرے گا لیکن وہ حقائق اور حساس نوعیت کے معاملات کو کوڑیوں کے مول بازار میں لاکر نہیں بیچے گا، یہاں بات ابھرتی ہے قومی و زاتی مفادات و تصورات کی، اجتماعی و انفرادی افکار و ترجیحات کی، کیونکہ سیاست برائے سیاست میں سب کچھ جائز تصور ہوتا ہے، وہاں مقصد ہی طاقت کا حصول اور اس طاقت کے حق استعمال پر بلا شرکت غیر براجمان ہونا ہوتا ہے لہذا ایسی صورتحال میں کوئی بعید نہیں کہ سیاست برائے سیاست میں یہ وطیرہ اپنایا جائے، لیکن سیاست برائے تعمیر میں ایسی کسی بھی چیز کی گنجائش نہیں ہے اور اس میں مقصدیت اور اس سے جڑی مفادات کے تابع رہ کر کسی بھی نوعیت کے عمل اور اسکے رخ کا تعین کیا جاتا ہے، یہ بات تو ہم قارئین کے لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ حقائق پر دسترس اور تجزیے کے بعد وہ ان دونوں انتہاؤں ” سیاست برائے سیاست اور سیاست برائے تعمیر” میں سے کس کو کہاں پر براجمان کر دیں گے.
رہی بات غیر سنجیدگی کی تو یہاں تو خون کے چھینٹوں پر بھی قہقہے بلند ہورہے ہیں، اختلافات اور چپقلشوں کو انحراف کی حد تک لے جاکر یہی لوگ ہیں جو پھر تاویلات کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں، مگر کس کو نہیں پتہ کہ اندرون خانہ صف بندیوں کے ساتھ ساتھ میڈیا میں کئی دیگر ثناء خوانوں کے معرفت اختلافات و نتائج میں کس کی جھولی میں گرنے کی باتیں ہوتی رہی ہیں. آج سے نہیں بلکہ کچھ سال پہلے اس امر کی جانب اشارہ کیا جاتا رہا ہے کہ اختلافات ہیں اور چپقلش کی ابھرنے کی صورت میں کس کا ساتھ دینا ہے اور کس کا نہیں، اور اسی عمل کی پھر اپنی حیثیت سے تردید بھی جاتی ہے، یعنی بیمار بھی خود اور عطار بھی، اور ہائے افسوس وہ “بیچارے میر کے لونڈے” ایک مکمل انحرافی عمل جو اندرون خانہ ایک عرصے سے جاری و ساری رہا ہے اور ایسے کئی بے نام نامہ بروں کے سہارے میدان میں عملاً صف بندی کی گئی، پروپیگنڈے کے سہارے یا پھر غلط اور آدھے ادھورے معلومات کے ذریعے، لیکن آج سیاسی ثنا خوان آکر اس انحراف کی رد میں حجت پیش کررہے ہیں، اور خود کو نہ صرف بری الزمہ قرار دینے کی جتن کر رہے ہیں بلکہ معصومیت کی لبادے میں ایسے چھپ رہے ہیں جیسے کہ دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کرلیں.انحراف کی کوئی تاویل نہیں کوئی حجت نہیں، ایک کامل اور جاری عمل سے نکل کر اپنے پسند کی حاشیے پر جاکر بیٹھ جانا کامل انحراف ہے، اور اسے انحراف ہی کہا جائے گا، کل تک مخالفین پر بالکل اسی نوع کے انحرافی عمل کے نتیجے میں سخت قوانین کی نفوذ کی باتیں کرنے والے لوگ آج خود لفظوں کی گورکھ دھندا میں یہ چاہتے ہیں کہ ذہنوں کو پراگندہ کرکے اپنی کہانی کو اپنی انحرافی طبع کے مانند طول دیا جائے، لیکن قلم کی توقیر کہیں نہ کہیں تو سلامت رہنی ہے، جب زنگ اتر جائیں اور کچھ تحریر کرنے کا سبیل نکل آئے تو پھر یہ بھی ضرور زہن میں رہے کہ اس بار مقابلہ سخت ہے اور اصولوں کی میزان میں تمھارا پلڑا کافی اوپر کو ہے.
وفاداری اور کتے کی مثال تو خیر ضرب المثل کے طور پیش کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن اصولوں سے انحراف کو شخصی وفاداریوں کے عوض تولنے کی لن ترانیاں کم سے کم علمی توہین کے زمرے میں ضرور شمار ہونگی، کیونکہ جملہ بازیوں کی کرشمہ سازی میں آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ شخص اپنی کردار کا آئینہ دار ہوتا ہے اور وفاداری کردار و عمل سے کی جاتی ہے اور کردار و عمل روبوٹ نہیں انسان میدانِ عمل میں سرانجام دیتے ہیں تو نتیجتاً وفاداری کردار و عمل سے اور اسی احسن اور بلند مرتبت کردار و عمل کے حامل شخص سے ناگزیر بنیادوں پر ہو ہی جاتی ہے، اختلافات کے ہوتے انحرافی عمل کو جائز قرار دینے کی سعی کی مخالفت ہر حال میں اور ہر جانب سے ہونی ہے، خون کے مقدس بوندوں سے تحریر کردہ میثاق سے رو گردانی کی سزا لازم ہے، تم کیا ہو، کون ہو وہ اپنے اندر ایک حیثیت رکھتی ہے اور وہ حیثیت مسلمہ ہے لیکن اپنی اوقات و قوت کو انحراف اور اسی انحرافی عمل سے ابھرنے والے منظر نامے سے آپ ہر گز نتھی نہیں کرسکتے، اور نہ ہی اپنی کردار، اوقات اور حیثیت کی بنیاد پر کوئی سزا و جزا کے عمل سے راہ فرار اختیار کرسکتا ہے، کردار اگر مقصد سے بلند اور ارفع تصور ہونے لگیں تو کم از کم پاکستانی عسکری ذہنیت اور ہماری ہٹ دھرمی میں کوئی فرق باقی نہیں رہ پائے گی.
ہم جو بھی ہیں کرداروں کے حد تک ہیں، باوجود اسکے کے ہم نے کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں، حدود و قیود کا نفاذ ہم پر لازم آتا ہے، شتر بے مہار کی طرح نہ بندوق قبول کی جاسکتی ہے اور نہ ہی قلم، قاری کے زہنوں سے آج تو بیشک وقتی طور پر کھیلوگے، انکو خوب رگڑوگے، غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کی آخری سرحد تک لے جاؤگے اور آخری حد تک انکو تذبذب میں ڈالوگے لیکن انجام کار اصول اور کامل راہ و راہبند ہی آخری حل ہیں لہٰذا جلد یا بدیر اسے سب کو قبول کرنا ہوگا.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز