پنج‌شنبه, مارس 28, 2024
Homeآرٹیکلزحقیقی قومی مسائل بمقابلہ سیاسی سمجھوتا تحریر :تیاب دیم

حقیقی قومی مسائل بمقابلہ سیاسی سمجھوتا تحریر :تیاب دیم

قومی موقف اور سیاسی سمت کو لے کر حقیقی قوم پرست قیادت کے بیچ جو اختلافات پہلے بظاہر معمولی اور شخصی نوعیت کے لگ رہے تھے اب اپنی حقیقی رخ اور منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔دوستوں کی طرف سے قوم کو اصل مسائل سے آگاہ اور انہیں اعتماد میں لینے کی شروع ہی سے ایک شعوری کوشش کی مگر اصل اور بنیادی نوعیت کے وہ مسائل جو اختلافات اورتضادات کی بنیادی وجہ تھے ان کی بابت قوم کو آگاہ کرنے میں شاید دوست اس حد تک کامیابی نہ ہوئی جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی اسی کمزوری ( یا بعض معاملوں میں وسیع تر قومی مصلحت )کی وجہ سے سیاسی کارکن اور عوام ایک طرح سے کنفیوژن کا شکار ہو گئے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ سنجیدہ سیاسی و علمی بحث اپنی ڈگر سے ہٹ کررد عمل در رد عمل کے ایک نہ رکنے والے سلسلے میں تبدیل ہوا جوکہ علم و شعور اور سیاسی بالغ پن کے بجائے جذباتی پن اور الزام تراشیوں کا ایک ایسا غیر سیاسی مرکب بن گیا جو کہ ہر قسم کی اخلاقی حد بندیوں سے آزاد ہے۔جب ایک فریق سیاسی اور علمی بحث و تنقید کو تو تو میں میں اور گلی کے بچوں کی لڑائی بنائے اور بد قسمتی سے آپ بھی جذبات میں آکر ترکی بہ ترکی اسی روش کو اختیار کریں تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہو گا جو، اب نظر آرہا ہے۔یعنی اصل مسائل اس غل غپاڑے میں کہیں دب گئے ۔سیاسی اور علمی استادوں اور طالب علموں نے بھی اپنا دامن بچا کہ اس سے کنارہ کش ہونا شروع کیا کیونکہ نہ استادوں کیلئے بحث کی گنجائش اور نہ طالب علموں کیلئے سیکھنے کو کچھ رہا۔عوام کو اعتماد میں لینا بے شک ایک مثبت سیاسی عمل ہے مگر اس کو اصل مسائل کی جڑ سے دانستہ یا نا دانستہ آگاہ نہ کر نا بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے اور فریق مخالف بھی اس سے فائدہ اٹھا کر آپ کو کہیں سے کہیں پہنچاتا ہے کیونکہ جب آپ کا اعتراض واضح نہیں ہو گا تو کیونکر عوام کو لے کر اس کی سچائی کے تعین اور بعد از اس کی حمایت پہ آمادہ کیا جا سکتا ہے۔میرے خیال اب بے سروپا الزامات اور غیرسیا سی و غیر اخلاقی الزاماتی تحریروں کے بجائے اصل مسائل پہ ذمہ دارانہ سیاسی بحث کا آغاز کرنا چاہئے۔کیونکہ عوام پہلے مچھلی بازار کے اس شور میں زیادہ تر اصل اختلاف کی وجوہات اور اندرون خانہ زیر بحث اصل مدعا سے بے خبر تھے مگر شبیر بلوچ کے ریکارڈڈ آڈیو ٹیپ نے بہت سے اندر کی باتوں سے پردہ اٹھایا ہے۔اس سے اصل مسائل اور فریقوں کے موقف اور اختلافی وجوہ کا اندازہ ہوتا ہے حالانکہ اس میں بڑی حیانت کی گئی ہے اسے کاٹ کوٹ کر صرف چند جملے شائع کئے گئے ہیں مگر اس میں بھی بہت سی اہم باتیں واضح ہیں اگر اس ریکارڈنگ کو مکمل پیش کیا جاتا تو قوم کو بہت سی اندر کی باتوں کا پتہ چل جاتا مگر شاید یہ بات ڈاکٹر اور اس کے پیروکاروں کیلئے سیاسی نقصاں کا باعث ہوتا اس لئے اس کو مکمل شائع کرنے کی جرات نہ کر سکے مگر پھر بھی یہی غنیمت ہے اور اس میں بھی کافی کچھ ہے۔میں اسی ریکارڈنگ کے تناظر میں چند باتوں پہ روشنی ڈالنا چاہوں گا۔سب پہلے یہ کہ شبیر بلوچ کون ہیں۔شبیر بلوچ ایک لکھاری ہیں کہ جن کا تعلق شروع سے ہی قومی تحریک سے رہا ہے جس نے ایک لکھا ری ہونے کے باوجود ایک متحرک سیاسی کردار ادا کیا ہے جس سے مکران کے تما م نظریاتی سیاسی دوست آگاہ ہیں۔ان کی بی ایل ایف کی قیادت ڈاکٹر اللہ نظر ،واحد قمبر بی این ایم کی قیادت خلیل بلوچ و منان بلوچ اور بی ایس او کی قیادت زاہد کرد سے انتہائی قریبی سیاسی تعلق رہا ہے۔یہ تعلق سالوں پہ محیط ہے۔شبیر بلوچ ایک پڑھے لکھے اور مخلص بلوچ جہد کار رہے ہیں اور تواتر سے اس کے متعلق لکھتے رہے ہیں۔پچھلے قریباً دو تین سالوں سے اس نے اپنا سیاسی تعلق ان تنظیموں اور ان کی قیادت سے تھوڑ کر بی ایل اے کے دوستوں سے ساتھ جوڑ لیا ہے۔اور غالب امکان ہے کہ اس کی وہاں بھی ایک ذمہ دار حیثیت ہو گی۔لہذا وہ ایک ذمہ دار شخص ہیں اور اسی بات کو بنیاد بنا کر اس کی ریکارڈنگ کی گئی ہے۔اس ریکارڈنگ میں تین چیزیں کافی اہم ہیں ۔سب سے پہلی اس میں واضح ہے کہ ڈاکٹر اللہ نظر کی جانب سے حیر بیار سے بار بار رابطہ کیا گیا اور پھر سے وہی پرانے اتحاد اور طریقہ کار کو چلانے کی کوشش کی گئی یعنی اختلاف ڈاکٹر اور اس کی ٹیم کو نہیں بلکہ بی ایل اے کے دوستوں کو تھا۔دوسرے ان اختلافات کا حیر بیار کی ذات سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ تاثر دیا جاتا ہے۔اس میں واضح ہے ڈاکٹر اللہ نظر چارٹر کی حمایت(سابقہ بیان گواہ ہیں)حیر بیار کی لیڈری غرض ہر قسم کے سمجھوتے کیلئے تیار تھا( اور شاہد اب بھی ہے) مگر شبیر بلوچ اور بی ایل اے کے دوسرے دوست اصل مسائل کی حل ہونے تک کسی بھی سمجھوتے پہ تیار نہیں تھے لہٰذا حیر بیار نے اپنی واجہ گری کے بجائے وسیع تر قومی مفاد کو ترجیح دے کر کسی ایسے سمجھوتے سے انکار کیا جو انہیں ذاتی طور پہ لیڈر اور واجہ بناتا مگر قومی لحاظ سے نقصاندہ ہوتا۔اب یہ سنجیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اللہ نظر اور اس کے ماتحت تنظیموں سے بی ایل اے کے دوستوں کو کیا اختلافات تھے اورہیں ۔یہ کس قدر حقیقی ہیں اور ان کا تعلق کس حد تک قوم و قومی تحریک سے ہے۔ڈاکٹر اور اس کی ٹیم کی جانب سے اس ریکارڈنگ کو شائع کرنے کا سب بڑا مقصد غالباً یہی ہے کہ دیکھو شبیر بلوچ خود اقرار کر رہاہے کہ ہم نے با ر بار رابطہ کیا بلکہ لندن اپنے نمائندے تک بھیجے،چارٹر سمیت تمام شرائط کو مانا مگر بی ایل اے کے دوست پھر بھی اپنی ضد اور اختلاف پہ اڑے رہے اب ہم کو کوئی الزام نہ دے کہ ہم قومی(درحقیقت گری) سمجھوتے کو تیار نہ تھے اب بات یہاں تک تو کافی حد تک صاف ہے کہ ڈاکٹر اور اس کی ٹیم سابقہ صورت حال کی بحالی کے بدلے چارٹر،حیر بیار کی لیڈری اور دوسرے تمام شرائط کو ماننے کیلئے تیار تھے مگر بی ایل اے کے دوست کسی ایسے سمجھوتے کے خلاف تھے جو اصل مسائل کو کور نہ کرتا ہو۔
اب بات آتی اصل مسائل پہ کہ وہ کیا کہ جنہیں بنیاد کر بی ایل اے کے دوستوں نے اتنا بڑھا قدم اٹھایا ہے جن دوستوں نے غور سے ریکارڈنگ سنی ہے ان کو اندازہ ہو گا کہ اصل اختلاف مکران میں بی ایل ایف کی عوام دشمن پالیسیز کو لے کر ہے۔یہی وہ عوامی مسائل اور مشکلات ہیں کہ جن پہ بی ایل اے کے دوست کسی سمجھوتے کیلئے تیار نہیں۔یہ عوام دشمن اور رد انقلابی اقدامات ایسے ہیں کہ جن سے مکران اور آواران کے تمام قومی نظریاتی دوست واقف ہیں۔جوعمومی مسائل تحریروں کی شکل میں آرہے ہیں اور جو اخباری بیانات شکل میں بی ایل ایف پہ لگ رہے ہیں اس سے تو یہ سراسر انکاری ہیں مگر شبیر بلوچ کی جانب سے ریکارڈنگ میں بی ایل ایف پر ایک واقعہ کے حوالے سے انتہائی سنگیں الزام لگایا گیا ہے یہ ایسا عمل ہے کہ جس کا بلوچ معاشرے میں تصور تک نہیں کیا جاتا ہے۔بی ایل ایف کے سرمچار عرصہ پہلے ایک معزز بلوچ فیملی سے ان کی گاڑی چھین کر لے گئے حد سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ گاڑی میں خواتین تھیں ان کو آبادی سے دور بیچ رستے میں گاڑی سے بندوق کے زور پہ اتارا۔یہ واقعہ غالباً آواران تربت روڑ پہ کسی جگہ پیش آیا۔اگر یہ بات جھوٹ ہے اور شبیر بلوچ نے ایک ذمہ دار تنظیم پہ اتنا بڑاجھوٹا الزام لگا ئے ہیں تو شبیر بلوچ کا قومی احتساب ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر اور بی ایل ایف کو شبیر بلوچ بلکہ بی ایل اے دوستوں کو بھی عوامی عدالت میں کھڑا کرنا چاہئے اور قوم کو بتانا چاہئے کہ یہ جھوٹے ہیں اب ان کے پاس آواز کی شکل میں ثبوت بھی ہے اگر سچے ہیں تو ڈر کس بات کا ، وگرنہ اگر یہ واقعہ سچ ہے تو ایسی بے غیرتی کی مثال تو قابض نے بھی پیش نہیں کی ہو گی۔بلوچ معاشرے میں چور، ڈاکو اور قومی غدار بھی اس طرح کی گری ہوئی حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔اس قومی فوج اور بابالاڈلہ اور عزیر گینگ میں فرق کیا رہ گیا ہے۔مگر ہمیں اس لئے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ہم کہنے کی حد تک قوم دوست ہیں ورنہ غیرت کے معاملے تک صرف اپنی چار دیواری تک محدود ہیں۔آج جو لوگ گالیاں دے رہے ہیں اگر ان کی حقیقی ماؤں بہنوں کے ساتھ یہ واقعہ ہوتا تو ان کا رد عمل کیا ہوتا؟جس نے یہ ریکارڈ کیا ہے اگر کل کو اس کی فیملی کے ساتھ خدانحواستہ کوئی سرمچار یہ ذ لیل حرکت کرے تب اس کا رد عمل کیا ہو گا۔اس ماں اور بہن کو اپنی ماں بہن سمجھ کے سوچیں تو اصل بات سمجھ میں آئی گی کہ اختلافات کیوں ہیں۔اب بی ایل اے کے دوست ایسے سنگین قومی مسئلوں پہ اختلاف نہ کریں تو کیا کریں شاید دوست ان مسئلوں کو کسی قومی مصلحت کی وجہ سے میڈیا میں ہائی لائٹ نہیں کر رہے ہیں مگر اندرونی طور پہ یہی اصل اختلافات کی جڑ ہیں اب مکران کے عوام جو کہ سب کچھ بہتر جانتے ہیں وہ فیصلہ کریں کہ بی ایل اے کے دوستوں کو سیاسی سمجھوتہ کرنا چاہئے یا نہیں کیونکہ اس ریکارڈنگ میں واضح ہے کہ ڈاکٹر اور اس کی ٹیم حیر بیار کی لیڈر شپ ،چارٹر سمیت تمام باتوں کو ماننے اور سمجھوتے کیلئے تیار ہے بشرطہ کہ بی ایل اے کے دوست مکران میں بی ایل ایف کی عوام دشمن پالیسیز پہ خاموشی اختیار کریں۔یعنی آپ مجھے ملا کہیں میں آپ کو حاجی اور بھاڑ میں جائے عام عوام یہی اسٹیٹسکو انہوں نے باقی تنظیموں کے ساتھ رکھا ہے مگر وہ خود داغدار ہیں اس لئے کوئی اسٹینڈ لینے سے قاصر ہیں مگر ذمہ دار قومی فوج ایسے کسی مصلحت کا شکار ہر گز نہیں ہو گی۔ یہ بات بھی غور کرنے کی ہے شبیر بلوچ اور دوسرے دوستوں کو کون سا ذاتی مفاد تھا جو پورا نہیں ہوایا کہ ان کو کوئی لیڈری کا شوق تھا ۔شبیر بلوچ کے سر میں کوئی درد تھا جو واجہ واجہ کو چھوڑ کر ہر قسم کی کردار کشی اور گالیاں برداشت کر رہا ہے۔یہ اور بہت سے دوسرے ایسے رد انقلابی اقدامات جو مسلسل کئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے عوامی نفرت اور بیزاری میں روز بہ روزاضافہ ہو رہا ہے ان کو اور دوسرے نظریاتی دوستوں کو مجبور کیا کہ اپنے راستے الگ کریں۔نظریاتی دوستوں نے متعدد بار ڈاکٹر اور اس کے لاڈلے کمانڈر اختر ندیم سے ان منفی اعمال کا ذکر کیا اور ان کے سد باب کی درخواست کی مگر زبانی جمع خرچ کے علاوہ عملی طور پہ کچھ نہ ہوا تو مجبوراً دوست بی ایل اے کے دوستوں کے پاس اپنی فریاد لے گئے۔جب انہوں نے مکران کے زمینی حقائق کا جائزہ لیا تو ان کے بھی رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ان کو قومی تحریک ڈوبتا ہوا نظر آیا اس لئے انہوں نے بی ایل ایف کو مکران میں عوام کولے کر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی درخواست کی مگر ان کا اصرار یہ تھا( اور آج تک ہے) کہ وہاں تم یہاں ہم۔ہم وہاں مداخلت نہیں کریں گئے اور آپ لوگ یہاں نہ کریہ سوچ ہے قومی لیڈری کے دعوے داروں کا ۔اب تو اگر حیر بیار اور بی ایل اے کی سوچ ان کی طرح اپنی لیڈری پہ ہو تی تو وہ ضرور کوئی سمجھوتہ کرتے مگر یہ مسائل اور رد انقلابی اعمال اپنی جگہ پہ جوں کہ توں رہتے۔اب میرا ان تمام نظریاتی دوستوں سے گزارش ہے جو علاقے میں موجود ہیں اور جو تمام علاقائی مسائل سے آگاہ ہیں وہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں کہ صحیح کون اور غلط کون۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز