جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزحیربیاربراہمدغ مہران اتحاد، ایک خوش آئندابتداء،تحریر :حفیظ حسن آبادی

حیربیاربراہمدغ مہران اتحاد، ایک خوش آئندابتداء،تحریر :حفیظ حسن آبادی

براہمدغ خان بگٹی اور مہران مری کے اتحاد کی خبر بلوچ قومی تحریک کیلئے نیک شگوں ہے حالانکہ یہ کوئی نئی بات بھی نہیں کیونکہ یہ دونوں رہنما ابتداء سے ایک ساتھ کام کرتے آرہے ہیں تاہم باقاعدہ ایک ساتھ کام کرنے کا اعلان پہلی بار کیا جارہا ہے جوہر لحاظ اہمیت کا حامل ہے۔ بلوچ قوم اس خوش خبری سے ابھی سرشار ہی تھا کہ شام ڈھلے دشمن کے چکے چھڑانے والی براہمدغ حیربیار رابطوں اور اتحاد کے حوالے بات چیت کے ابتداء کی خبر آئی جس نے یقیناً ہر اُس بلوچ اور اُن کے ہمدردوں کا دل شاد کیا جو بلوچ قوم کو غلامی کے جہنم سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں ۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ قومیں میدان عمل میں پے درپے ٹھوکروں کے بعد کہیں جاکرآزادی کے منزل تک پہنچ پاتے ہیں۔بلوچ قوم کے اپنی آزادی وبقا کیلئے جدوجہد اور قدم قدم پر ٹھوکروں کی ابتداء 13 نومبر 1839 سے شروع ہوتی ہے جو تاحال کبھی مدھم کبھی اُبھر کر جاری و ساری ہے۔
رواں تحریک جسکے سرخیل شہید نواب اکبرخان بگٹی ، شہید میربالاچ مری اورشہید غلام محمد بلوچ ہیں کسی بھی دور کے تحریک سے زیادہ منظم اور ہمہ گیر ہے تاہم اس میں اُن بیشمار غلطیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جن کے سبب روز بہ روز مشکلات و چیلنجز میں اضافہ ہوتا گیا اور ہم (بلوچ قوم ) متحد و یکمشت ہونے کے بجائے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم در کا تقسیم کا شکار ہوکر دشمن کا آسان ہدف بنتے رہے۔ گویادوسرے لفظوں میں ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی مرحلہ وار اجتماعی موت کا اہتمام کیا ۔
اس چیز کے ادراک میں ہم نے بڑی کوتائی بھرتی کہ ریاست کا عام معتبر و مخبر سے لیکر تمام سول و عسکری و نیم عسکری قوتیں تحریک کو نیست ونابود کرنے ایک ساتھ رہے ،تمام مراعات یافتہ پارلیمانی جماعتیں جمعیت سے لیکر مسلم لیگ ،پختونخواہ میپ وپی پی تک بی این پی مینگل سے لیکر عوامی و نیشنل پارٹی تک سب بلوچ تحریک آزادی کو جڑسے اُکھاڑنے ریاست کے معاون کار رہے لیکن تشدد کی زد میں کچلا بلوچ قیادت اپنے اختلافات کا مہذب حل نکال کر یکجہتی کی راہ ہموار نہ کرسکا ۔
اس کشکمش کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹیوں پر بیرونی دباؤ بڑھ گیا جس سے ہر تنظیم میں اپنی جگہ داخلی طورپر گرفت ڈھیلی پڑگئی اور تمام تنظیموں میں کئی موقع پرست، جوابدہی سے گریزاور سرکشی کے بلبلے نمودار ہوئے جو اب یکے بعد دیگرے پھٹ رہے ہیں۔جبکہ زمین پر بلوچ قوم کے خلاف ریاست کو بربریت کرنے میں آسانی اور اپنے لوگوں کو تحریک کے صفوں میں داخل کرنے ،مذہبی و قباہلی لشکر بنانے اور تحریک کے اندر کئی دراڑیں ڈالنے موافق موقع دستیاب ہوا تاہم اس سے وہ خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہ کرسکا کیونکہ اُس کے تمام مہرے بلوچ بارے یکساں رائے رکھنے باوجود ملکی داخلی مسائل کے دبوچ میں تقریباً نیم جان رہے اُوپر سے عالمی طور پر تنہائی نے پاکستان وایران دونوں کی بنیادیں ہلادیں ۔
بلوچوں کے ان دونوں دشمن ریاستوں خلاف عالمی رائے روز بروز ہموار ہوتی جارہی ہے جس کے براہ راست اثرات بلوچ تحریک آزادی پر پڑیں گے۔بلکہ ہم تو یہاں تک کہنے کی جرات کریں گے کہ بلوچ ہی وہ مرکزی قوت ہے جو عالمی قوتوں کی کامیابی اور ان ریاستوں کی ریشہ دوانیوں سے چھٹکارہ پانے کے ضامن کا کردار ادا کرسکتی ہے۔
پاکستان اور ایران بلوچ اور اُسکی سرزمین کی اہمیت اور نئی عالمی پالیسیوں میں اُن کے مقام کابخوبی ادراک رکھتے ہیں اس لئے یہ دونوں ریاستیں ملکر بلوچ بارے اپنی نئی پالیسی کو دستاویزی شکل دے چکے ہیں جس پرپاکستانی آرمی چیف تہران میں اپنے منصب کیساتھ دستخط کرچکے ہیں۔ معاہدہ کے اہم نکات میں یہ نکات شامل ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے دشمنوں کو پکڑ کرایکدوسرے کے حوالے کریں گے، انٹلیجنس معلومات کا تبادلہ کریں گے ، سرحدپر باڑ لگائیں گے ، دونوں ملکوں کے فیلڈکمانڈر ز ہاٹ لائن پر ہمہ وقت رابطے میں رہیں گے اورضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کے خاک میں گھس کر ملک دشمنوں کا خاتمہ کریں گے ۔ یہاں یہ کہنے کی خاص ضرورت نہیں کہ یہ دونوں ریاستیں کس کو دشمن کہتے ہیں اور کس کی آمد ورفت کو محدود کرنے خاردار دیوار کھڑی کرنے جارہے ہیں۔لیکن اس گھمبیر صورتحال کے باوجود جو چیز بلوچ قوم کیلئے حوصلہ افزاء ہے وہ یہ کہ پوری دنیا (چین اور روس کے علاوہ) ان دو ریاستوں سے سخت ناراض ہیں اور ان کی بدمعاشیوں کو چیک دینے بلوچ ہی واحد قوت ہے جو امریکہ و افغانستان سمیت تمام عرب ممالک کا حقیقی اتحادی بن کر اپنی آزادی کے راستے کے مشکلات کو آسان کرواسکتاہے جبکہ اس سنہرے موقع سے اُس وقت تک فاہدہ نہیں اُٹھایا جاسکتاہے جب تک ہمارے صفوں میں اتحاد اور ہماری پالیسیز میں ہم آہنگی نہ ہو۔
ہمارے کرد بھائیوں کا مثال ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے اُن کی قربانیاں اُن کادلیرانہ و ہر لحاظ سے منظم جدوجہد اُس وقت تک اُنھیں کامیابیوں سے ہمکنار ہوکردرست عالمی توجہ کا حقدار نہ بن سکا جب تک وہ اپنے داخلی مسائل ایک مخصوص وقت تک ایک کنارے رکھ کر ایک چھتری تلے جمع نہیں ہوئے ۔ہمارے لئے بھی دنیا کے دروازے اُس وقت بلاجھجھک کھلیں گے جب ہم یہ دکھا پائیں گے کہ ہم دنیا سے پہلے آپس میں بیٹھنے اور ایک دوسرے کاآراء اختلاف رائے رکھنے باوجود سننے اورہرمسلہ کا حل تلاش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔
تاحال حقیقی قوتوں کے درمیان رابطے کا فقدان اورتحریک کو درپیش خطرات سے عدم توجہی اورکچھ خود ساختہ غلط فہمیوں کی وجہ سے ایک طرف اتحاد کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئی ہیں تو دوسری طرف موقع اور ضرورت کی شدت سے فاہدہ اُٹھاکر کچھ مطلبی اور موقع پرستوں نے اتحاد کے نعرہ کو راہ فرار کیلئے ایک زریعہ بنانے کا اہتمام کر رکھا ہے جو تمام تنظیموں کو اندر سے جوابدہی سے گریزاں عناصر کو پناہ دے کر اتحاد کے نام پر ایک نہ ختم ہونے والے انتشار کا دروازہ کھولنے کی راہ ہموار کرنے جارہے ہیں ۔ہم نے پچھلے مضمون میں اس طرف اشارہ کیا کہ تمام تنظمیوں نے ماضی میں ایک دوسرے کے بھاگتے ہوئے یا جوابدہی سے فرار عناصرکو پناہ دینے کی سنگین غلطی کی ہے ۔کچھ نے تو اس حد تک چابکدستی دکھائی ہے کہ دوسرے تنظیم کے اندر کے لوگوں کو بھاگنے پراُکساکر اُنھیں اپنے تنظیم کامڈی بھی ساتھ لینے کا کہا ہے۔ ان بھگوڑوں کو پناہ دینے کے عمل نے تما م تنظیموں کو کیسے مشکلات سے دوچار کیا ہے وہ جاننے والے جانتے ہیں اُس پر تبصرے کی چنداں ضرورت نہیں ۔
مذکورہ بالا ناخوشگوار واقعات اور گذشتہ دنوں کے بی ایل ایف بی ایل اے یو بی اے اور بی آرپی اتحاد ڈرامہ میں ایک خاص اور خطرناک فرق نظر آتا ہے پہلے درجنوں واقعات میں جوبھاگے عناصر ایک تنظیم سے دوسرے تنظیم میں گئے اور قبول بھی ہوئے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پہلے کسی تنظیم نے اُس میں شمولیت کرنے والوں کو اُن کے سابقہ تنظیم کیساتھ اتحاد کا نام نہیں دیا ہے نہ ہی کسی گروپ نے یہ ہمت کی ہے کہ پوری تنظیم کی نمائندگی کادعویٰ کرکے اپنی نئی شمولیت کو دوسرے تنظیم سے اشتراک عمل یا اتحادوغیرہ کا نام دے سکے ۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ بی ایل اے ،بی آر اے ،یوبی اے کیساتھ بی ایل ایف نے اتحاد کا چرچا کیا ہے لیکن وہ اتحاد ان تنظیموں کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے چند عناصر سے داخلی انڈرسٹنڈنگ یا کسی اور بنیاد سے ہوئی ہے۔ اب یہ وقت کے ساتھ سب پتہ چل جائیگا کہ اگر کچھ عناصر نے اپنی تنظیموں کو اعتماد میں لئے بغیر بی ایل ایف سے اتحاد کی بات یا اشتراک عمل کی بات کی تھی تو بی ایل ایف تصدیق کئے بنا ایک ایسے تخریبی عمل کا کیسے حصہ بنا جو دیگر تنظیم کے داخلی معاملات میں مداخلت کے زمرے میں آتا ہے۔
اب جب بالائی سطح پر بی آرپی سربراہ براہمدغ خان بگٹی کے مہران مری کے ساتھ بلوچ مسلے کو بین القوامی طور پر اُجاگر کرنے پر اتفاق رائے حتمی شکل اختیار کرچکا ہے اور فری بلوچستان موومنٹ کے حیربیارمری کیساتھ براہمدغ خان بگٹی کے ایک ساتھ کام کرنے کے امکانات تلاش کرنے پر اتفاق اور آئندہ دنوں ملاقات اور تفصیلی گفتگوکی تیاریاں خوشگوار تبدیلی کے مثبت اشارے مل رہے ہیں جن سے ایک طرف بلوچ قوم بڑی اُمیدیں لگائے ہوئے ہے وہاں دوسری طرف بی ایل ایف اور بی این ایم کیلئے یہ صورتحال ایک امتحان سے کم نہیں کہ اُنھوں نے کیا سوچ کر مہران مری ،براہمدغ خان بگٹی اور حیربیارمری کو نظرانداز کرنے کاروش اپنا کر اُن کے صفوں سے چندعناصر کو تنظیموں کامختار کُل سمجھ کر اُن کے ساتھ اشتراک عمل طے پانے کے علانات کرتے رہے جو کہ قوم کیساتھ دھوکہ اور اپنے ساتھ بدترین خود فریبی ہے۔
آخری جملہ کہنے کے باوجود ہم یہ اُمید رکھتے ہیں بی ایل ایف اور بی این ایم اپنی سطح سے گر کر تنظیم کے اندرجوابدہی سے گریزعناصر سے بات چیت کے بجائے قیادت سے براہ راست اتحاد کی راہیں تلاش کریں گے اور ایسے عناصر کو اپنے صفوں میں جگہ نہیں دیں گے جو دروازے سے آنے والے جوابدہی سے بھاگ کر کھڑکی سے چھلانگ لگانے کے خواہاں ہیں۔بلکہ ان عناصر کو اپنے تنظیموں کو مطمین کرنے اوراُنھیں مکمل اعتماد میں لینے اور دیرپا اتحاد کیلئے اپنے داخلی مسائل نمٹانے کامشورہ دیں گے ۔
(ختم شُد )

یہ بھی پڑھیں

فیچرز