جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزخطے میں پاکستان کی کامیاب ہوتی پالیسیاں اور ہماری بے حسی! تحریر۔عبدالواجدبلوچ

خطے میں پاکستان کی کامیاب ہوتی پالیسیاں اور ہماری بے حسی! تحریر۔عبدالواجدبلوچ

دنیا کی سیاسی صورت حال میں خاصی تبدیلی کا رجحان اس وقت شروع ہوا جب عالمی دنیا میں طاقت ور ممالک کی طرف سے خطے میں وسائل پر قبضہ اور اپنی اثر رسوخ قائم رکھنے کے لئے تبدیلی کے نام پر بہت بڑی جنگ چھیڑی گئی جس سے مشرق وسطیٰ سمیت کئی ممالک متاثر ہوئے۔شام میں ہونے والے حالیہ چند ملکوں کی کشکمکش اور اپنی اجارہ داری برقراررکھنے کی خاطر اسد حکمران سمیت ایران و روس کی شام پر اپنی تسلط مضبوط کرنا اور بالخصوص طاقت کے توازن کو برابر رکھنے کے لئے ایک طویل دورانیہ پر محیط جنگ کا سامنا ہے جس کی وجہ سے یورپی دنیا میں مہاجرین کے بحران نے سر اٹھا کر یورپی قوتوں کو خاصی پریشانی میں مبتلا کیا اور موجودہ صورت حال کی وجہ سے یورپ ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہے کیونکہ مہاجرین کی بحران سے ایک طرف یورپی ہمسایہ اور نیٹو کے رکن ملک ترکی جو کہ ایک فاششٹ کی شکل اختیار کرچکا ہے یورپی یونین کا ممبر بننے کے لئے یونین پر مہاجرین کے مسئلے کو لیکر Black Mailingکی سیاست پر بضد ہیں اور بالخصوص دولت اسلامیہ کے گھاڑے پنجوں اور انفرادی طریقوں سے یورپ میں داخل ہونا بھی سنگین شکل اختیار کرتا جارہا ہے ان تمام محرکات کی وجہ سے یورپ کی پوزیشن یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہر یورپی ممالک کو اپنی انفرادی حیثیت اور قومی تشخص کی فکر لاحق ہوتی جارہی ہے جس سے یورپی یونین کے تمام پلرز Un Balenceہوتے جارہے ہیں۔دوسری طرف امریکہ میں آنے والی سخت موقف کے مالک ٹرمپ سلطنت اور حالیہ پیش کی گئی ان کی پالیسیوں سے یورپی دنیا بہت پریشان دکھائی دے رہا ہے ،یقیناًامریکہ کی موجودہ حکمران سیٹ اپ ایشیاء سمیت پوری مشرق وسطیٰ کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ ویسی بھی نا صرف ٹرمپ سلطنت خطے میں پیچیدگی کا اصل سبب بنے گا بلکہ خطے میں پائی جانی والی اس کشمکش کا پایا جانا پہلے سے موجود بڑے قوتوں کے مابین پائی جانے والی سرد جنگ کا حصہ ہے جس کا لب لباب ہر کسی کو اپنی تشخص اور ساکھ کو برقرار رکھنا ہے ۔اور ان تمام محرکات کا ہونا ایشاء میں ابھرتی سامراجی قوت چین اور روس کے عزائم سے یورپ اور امریکہ پریشان ہیں۔
جب ہم اپنے معاشرے پر نظریں دوڑانے کی کوشش کرتے ہیں تو من حیث القوم ہمیں اس موجودہ صورت حال کے تناظر میں اپنی شناخت اور وجود کے مٹنے کا خدشہ ایک طویل پریشانی میں مبتلا کررہا ہے کیونکہ ایک طرف ہم بہ حیثیت قوم بہ حیثیت سرزمین خطے کی اس اہم پہلو میں واقع ہیں جسے مستقبل قریب میں عالمی سامراج کے ما بین اڑتی تلاطم کے سخت لہروں میں ازیت ناک رویے کا سامنا کرنا ہوگا اور اس خطرناک لہروں کا مرکز یقیناًساحل بلوچستان پر ہی ہوگا جس کی اہمیت پر چائینا ،روس،کینڈا،ایران،ہندوستان،افغانستان اور بالخصوص امریکہ کی نظریں جمی ہوئی ہیں اور سب سے اہم بات بلوچ قوم اس خطے میں اپنی قومی شناخت اور آزادی کی جنگ میں بے سر و سامانی مصروف تو ہے لیکن دنیا کی نئی صف بندیوں سے نا آشناء،خطوں کے درمیان بنی جانے والی نئی پالیسیاں،پرانے دشمنوں کا صلح کی جانب بڑھنا اور بالخصوص پاکستان کی نئی پالیسیوں کے تناظر میں پائے جانے والی پاکستان کی پہچان پر دنیا کی قائم ہونے والی مثبت رائے سے بالکل بے خبر دکھائی دیتی ہے جو یقیناًبلوچ قومی تحریک کے لئے کسی صورت فائدہ مند نہیں ہے۔بلوچ قوم کی منتشر ہوتی سیاسی قوت مزاحمتی حوالے ٹھوس زرائع کا نہ ہونا موجودہ سیاسی کارکنان اور جہد میں مصروف جہدکاروں کے لئے روز بہ روز تشویش کا باعث بنتا جارہا ہے کیونکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی حکمت عملیوں کو ترتیب دینے میں ہمارے سیاسی کیڈرز ناکام دکھائی دیتے ہیں۔بلوچ قوم کی ستر سالہ پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف مشرقی بلوچستان میں جاری شورش اور تحریک کے نشیب و فراز اپنی جگہ لیکن موجودہ دور میں بلوچ کی بقاء اور شناخت سمیت اپنی سرزمین میں اقلیت جیسے امراض میں مبتلا ہونے کی مستقبل قریب کے روش سے ظاہر ہوتی آثار پاک چائینہ اکنامک کوریڈور تک آکر رک جاتی ہے کیونکہ یہ وہ عمل ہے اگر دو قوتوں کی اشتراکیت سے بننے والی اس عظیم Projectکو پایا تکمیل تک پہنچایا گیا تو بلوچ یقیناًخطے میں پیدا ہونے والی پیچیدگی کی کیفیت میں اس جنگ کے دوران اپنا پوزیشن برقرار نہیں رکھ پائے گا جس سے انہیں پاؤں تلے روندنا یقینی امر ہے کیونکہ یہ جنگ نہ صرف چند ممالک کے درمیان اقتصادیات کو بیلنس رکھنے کی خاطر لڑی جائے گی بلکہ پاکستان اپنی پرانی روش اور اپنے لے پالک قوتیں جو مذہبی شدت پسندی کے شہنشاہ ہیں ان کی اثررسوخ کو بلوچ سرزمین میں پھیلا کر بلوچ قومی تحریک کو نا ختم ہونے والی پریشانی میں مبتلا کرکے انہیں ایک کونے پر مصروف کرسکتا ہے کیونکہ بلوچ قومی تحریک کو بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا ہے جس سے ہم ایک تو روز بہ روز اپنے سماج میں اپنے لوگوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کی طرف سے بلوچ کی شکل میں Parlimentariansکی شکل میں اپنی مسلط کی ہوئی پالیسیوں کو بلوچ سماج میں مستند کرنے کی کوشش کرناہے۔بلوچ سیاسی قوت کے لئے مستقبل قریب میں چائینہ کی گوادر میں اثر رسوخ اور ان کی بڑھتی فوجی قوت کو یہاں لاکر مستقل کرنا بہت بڑے چیلنجز کا سبب بن سکتا ہے جس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور ہوسکتا ہے اس ضمن میں دنیا کی باقی قوتیں اپنے مفادات کے عوض ان قوتوں کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی تحت پالیسیاں مرتب کریں جو کسی صورت بلوچ قومی تحریک کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوسکتے اور یہ بھی ہوسکتا ہے جس طرح آج روس پاکستان کی طرف نرم گوشہ اختیار کرکے پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے ہوسکتا ہے دوسری قوتیں گوادر کی اہمیت کے پیش نظرپاک چائینہ ساجے داری کا حصہ بنیں جس سے ایران اور انڈیا اہم پوزیشن پر ہیں جن کے بارے میں قیاس کی جاسکتی ہے۔کیونکہ یہ مذکورہ قوتیں کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ جس سرزمین پر ایک قومی جنگ لڑی جارہی ہے جہاں کامیاب ہوتی سیاسی حکمت عملیاں زیرو کے برابر ہیں اور دنیا میں قومی جنگ حوالے جن سفارت کاری کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہ ہونے کی برابر ہے بجائے اس قوم کے ساتھ برابری کی بنیاد پر طاقت ور قوتوں کا مقابلہ کیا جائے بلکہ چند محدود مدت کے لئے اس قوم کو اپنا پراکسی بناکر خطے میں پیچیدگی پیدا کیا جائے اور بعد میں مسلط شدہ قوتوں کے ساتھ معاہدات کرکے اپنے عزائم حاصل کی جائیں (اس امر سے قطع نظر کہ انڈیا ایران میں بلوچ سرزمین پر چاہبار بندرگاہ پر مصروف ہے )یہ امر اس لئے ممکن ہوتا نظرآرہا ہے کیونکہ چین گوادر کے زریعے جانے والی تجارتی سامان کی حفاظت کے لئے بحری افواج اور جنگی بحری جہازوں کو مستقل بنیادوں پر تعینات کرے گا یہ جہاز پاکستان کی کرپٹ بحری و بری افواج کے ساتھ مل کر اس تجارتی عمل کی حفاظت کریں گے۔اس کے علاوہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ گوادر کی بندر گاہ پر چین کی آبدوزیں بھی تعینات کی جائیں جب کہ ان جہازوں کی مرمت اور دیکھ بھاک کے لئے بری اڈہ بھی بنایا جائے گا جو یقیناًپاک چائینہ کی اشتراکیت پر مشتمل ہوگا ۔ اس کے علاوہ چین کے اس خطے میں سامراجی مفادات موجود ہیں جن کی تحفظ کے لئے وہ بڑے پیمانے پر اپنا فوجی تسلط بڑھانے کی جانب بڑھ سکتا ہے،بحر ہند کے دوسری جانب چین افریقہ کے ایک چھوٹے سے ملک جبوتی میں پہلے ہی ایک اڈہ قائم کر رہا ہے چین کا کہنا ہے کہ اس اڈے کا مقصد افریقہ میں امن کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے لیکن چینی عزائم سے یہ واضح طور پر نظرآتا ہے کہ چین دنیا بھر میں اپنی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے لئے اس طرح کا کھیل کھیل رہا ہے لیکن اس اثر رسوخ کا برائے راست ٹکراؤ امریکہ کے مفادات کے ساتھ بن رہا ہے جس کی وجہ سے یہ خطہ کشیدگی کا شکار ہوگا اور اس کشیدگی کا مرکز مقبوضہ بلوچستان ہی ہوگا۔ کیونکہ گوادر بندرگاہ کی اہمیت کے پیش نظر بالخصوص بحر بلوچ کے قریب ہی خلیج فارس میں بحرین کے قریب امریکہ کا بحری بیڑہ موجود ہے جبکہ اس پورے خطے میں ابھی تک امریکہ کا اثر رسوخ موجود ہے ہندوستان کی مفادات بھی خطرے میں ہیں اور دوسری جانب ہندوستان بھی ایران کے ساتھ مل کر مغربی بلوچستان پر چاہبار کی بندرگاہ پر ایران اور افغانستان کے ساتھ مل کر تعمیر کا کام شروع کرچکا ہے جس کی امریکہ نے بھی حوصلہ افزائی کی ہے ۔(مغربی بلوچستان میں ایرانی بربریت سے قطع نظر ان قوتوں کاproxyبننے کے لئے بلوچ قومی تحریک کے ایک پلر براہمدگ بگٹی کا حالیہ انٹرویو اور اس جانب نرم گوشہ اختیار کرنا از خود بہت سے سوالات اٹھانے کا متعمل ہے) لیکن سب سے اہم بات مشرقی بلوچستان میں دنیا کی سیاسی و اقتصادی تبدیلیوں کے پیش نظر ہمیں ستر سالہ پاکستانی طوق غلامی کے ساتھ ساتھ چین کی سامراجی غلامی کا طوق بھی قبول کرنا ہوگا۔بلوچ سیاسی قوت کی مشترکہ پالیسیاں اور یکجہتی ہی چین کے ان عزائم کے سامنے رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔اور دوسری طرف ہندوستان،افغانستان اور امریکہ کے ساتھ اپنی سیاسی تاریخ اور قومی جنگ کو آگے رکھ کر ایک مضبوط قوت کی شکل میں اپنا ایجنڈہ پیش کرنا بلوچ سیاسی قوت کے لئے ناگزیر بن چکا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطے کی اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ بلوچ سیاسی و مزاحمتی وقت کیا پوزیشن اختیار کرے گی آیا ان طاقت ور ریاستوں کا Proxyبن کر پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران ان کے پاؤں تلے مسلنے کے لئے تیار رہے گی یا ان قوتوں کے مابین اپنی حیثیت کو مضبوط پوزیشن دینے کے لئے حکمت عملیاں ترتیب دے گی اس ضمن میں گزشتہ دن سنگت بشیر زیب بلوچ کی جانب سے تحریر کی گئی مضمون میں ان تمام کوتاہیوں کا ذکر کیا گیا جن کا ازالہ کرکے خطے میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز