جمعه, مارس 29, 2024
Homeخبریںخواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن پہ بھی بلوچ خواتین نظر...

خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن پہ بھی بلوچ خواتین نظر انداز ہو رہے ہیں۔ بی ایس او آزاد

 کوئٹہ(ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ آج دنیا میں خواتین کے تشدد کیخلاف عالمی دن منایا جارہا ہے لیکن بلوچستان میں آج بلوچ خواتین بدترین ریاستی دہشتگردی کے شکار ہیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی کاروائیوں کے دوران خواتین کو جبری تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اغواہ کرکے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں جنگ کے اثرات سے بلوچ خواتین براہراست متاثر ہورہے ہیں گھر اورتعلیمی اداروں سے ان کے بچوں کو اغواہ کرکے ان کو زہنی تشدد کاشکار کیا جاتا ہے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے کئی برسوں تک احتجاجی کیمپوں میں بیٹھے رہتے ہیں کئی ہزار کلو میٹر کی پیدل لانگ مارچ سے لیکر مختلف قسم کے احتجاجی مراحل سے گزرتے ہیں یا اپنے بیٹوں کے انتظار میں تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں فوجی کاروائیوں کے دوران فورسز کے اہلکار ان کے سامنے ان کے پیاروں کو گولیوں سے چھلنی کرتے ہیں یا تشدد کرکے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ماں اپنے کمسن بچوں کے لاشوں کو گود میں لیے ریاستی فورسز سے پوچھتے رہتے ہیں کہ ان کے معصوم بچوں کا جرم کیا تھا؟ آپریشن کے دوران گھروں کو مال موشیوں سمیت نذر آتش کرنا ان تمام تر پر تشدد کاروئیوں کے اثرات سے خواتین متاثر ہورہے ہیں مسلسل فوجی کاروئیوں سے آبادیوں کے آبادی نقل مکانی کرچکے ہیں نقل مکانی جیسے عمل سے گزرنا خواتین کیلئے کسی ازیت سے کم نہیں ہے تیزاپ پاشی اور طالبات پر مسلسل حملوں سے خواتین اسکول کالج و یونیورسٹی میں جانے سے خوف کا شکار ہے یہ تمام تر واقعات نے خواتین کو زہنی تشدد کا شکار کردیا بلوچستان میں بلوچ خواتین جسمانی تشدد کے ساتھ شدید زہنی تشدد کا شکار ہیں گذشتہ روز ڈیرہ بگٹی کے علاقے سے فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے چھ بلوچ خواتین کو جبری طور پر اغواہ کرکے لاپتہ کردیا فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکار وں نے علاقے کو گھیرے میں لیکر عام آبادیوں پر حملہ کیا آبادیوں پر شلنگ اور تشدد کرتے ہوئے گھروں میں گھس کر ننگ و ناموس کو پامال کرکے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایابلوچستان میں ریاستی فورسز اور خفیہ اداروں کی جانب سے بلوچ خواتین کو نشانہ بنانے کے واقعات میں شدت کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی کاروائیوں کے دوران خواتین کے قتل عام سے لیکر جبری گمشدگیوں کے واقعات میں روز بہ روزاضافہ ہوتا جارہا ہے گذشتہ چندسال قبل کوہلو کاہان کے علاقے سے بلوچ خواتین ٹیچر بانک زرینہ مری کو ریاستی فورسز اور خفیہ اداروں نے دن دھاڑے اغواہ کرکے لئے گئے جو تاحال لاپتہ ہے بی آر پی کے سربراہ براہمدگ بگٹی کے ہمشیرہ اور بھانجی کو کراچی میں سرعام فائرنگ کرکے شہید کردیا تربت کے علاقے تمپ میں ایک 17سالہ بلوچ طالب علم کو ایف سی نے مارٹر گولوں کی فائرنگ کرکے شہید کیا اور اسی خاندان کے کئی خواتین زخمی ہوگئے بلوچ سماج ایک سیکولر اور لبرل سماج ہونے کے ناطے خواتین برابری کے بنیاد پر زندگی گزاررہے ادیب کا میدان ہو یا تعلیم و صحت ہویا سیاست وسماجیت تمام شعبہ جات میں بلوچ خواتین برابری کے بنیاد پر جدوجہد کررہے ہیں اور بلوچ قومی تحریک میں ایک نمایاں کردارادا کررہے ہیں بلوچستان میں خواتین کے قتل عام، اغواہ نما گرفتاری اور جبری تشدد جیسے سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات میں روز بہ روز شدت سے اضافہ کے باوجود اقوام متحدہ، عالمی انسانی حقوق کے تنظیموں اور مہذہب و انسان دوست ممالک واقوام اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنطیموں کی تحریک نسواں کے علمبردار کی
خاموشی انتائی افسوسناک عمل ہے اقوام متحدہ ، انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں ، خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیمیں سمیت تمام مہذہب ممالک بلوچستان میں بلوچ خواتین کے قتل عام، اغواہ نما گرفتاری اور جبری تشدد جیسے سنگین انسانی حقوق کے پا مالیوں کا نوٹس لیکر بلوچ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں عملاً کردار ادا کریں کیوں کہ خواتین کے عالمی یوم تشدددن کو چند دفتروں میں شاندار پارٹیوں کی شکل میں منانا دنیا کی مظلوم اور محکوم خواتین کو تحافظ نہیں دے سکتی اس کیلئے اداروں کو عملی کردار ادا کرنا ہوگا
Photo: ‎www.sangarpublication.com Daily Sangar News 25 November 2014 بلوچ خواتین بدترین ریاستی دہشتگردی کے شکار ہیں۔طالبات پر مسلسل حملوں سے وہ اسکول کالج و یونیورسٹی میں جانے سے خوف کا شکار ہے۔بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد مقبوضہ بلوچستان25 نومبر ( سنگر نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ آج دنیا میں خواتین کے تشدد کیخلاف عالمی دن منایا جارہا ہے لیکن بلوچستان میں آج بلوچ خواتین بدترین ریاستی دہشتگردی کے شکار ہیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی کاروائیوں کے دوران خواتین کو جبری تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اغواہ کرکے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں جنگ کے اثرات سے بلوچ خواتین براہراست متاثر ہورہے ہیں گھر اورتعلیمی اداروں سے ان کے بچوں کو اغواہ کرکے ان کو زہنی تشدد کاشکار کیا جاتا ہے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے کئی برسوں تک احتجاجی کیمپوں میں بیٹھے رہتے ہیں کئی ہزار کلو میٹر کی پیدل لانگ مارچ سے لیکر مختلف قسم کے احتجاجی مراحل سے گزرتے ہیں یا اپنے بیٹوں کے انتظار میں تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں فوجی کاروائیوں کے دوران فورسز کے اہلکار ان کے سامنے ان کے پیاروں کو گولیوں سے چھلنی کرتے ہیں یا تشدد کرکے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ماں اپنے کمسن بچوں کے لاشوں کو گود میں لیے ریاستی فورسز سے پوچھتے رہتے ہیں کہ ان کے معصوم بچوں کا جرم کیا تھا؟ آپریشن کے دوران گھروں کو مال موشیوں سمیت نذر آتش کرنا ان تمام تر پر تشدد کاروئیوں کے اثرات سے خواتین متاثر ہورہے ہیں مسلسل فوجی کاروئیوں سے آبادیوں کے آبادی نقل مکانی کرچکے ہیں نقل مکانی جیسے عمل سے گزرنا خواتین کیلئے کسی ازیت سے کم نہیں ہے تیزاپ پاشی اور طالبات پر مسلسل حملوں سے خواتین اسکول کالج و یونیورسٹی میں جانے سے خوف کا شکار ہے یہ تمام تر واقعات نے خواتین کو زہنی تشدد کا شکار کردیا بلوچستان میں بلوچ خواتین جسمانی تشدد کے ساتھ شدید زہنی تشدد کا شکار ہیں گذشتہ روز ڈیرہ بگٹی کے علاقے سے فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے چھ بلوچ خواتین کو جبری طور پر اغواہ کرکے لاپتہ کردیا فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکار وں نے علاقے کو گھیرے میں لیکر عام آبادیوں پر حملہ کیا آبادیوں پر شلنگ اور تشدد کرتے ہوئے گھروں میں گھس کر ننگ و ناموس کو پامال کرکے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایابلوچستان میں ریاستی فورسز اور خفیہ اداروں کی جانب سے بلوچ خواتین کو نشانہ بنانے کے واقعات میں شدت کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی کاروائیوں کے دوران خواتین کے قتل عام سے لیکر جبری گمشدگیوں کے واقعات میں روز بہ روزاضافہ ہوتا جارہا ہے گذشتہ چندسال قبل کوہلو کاہان کے علاقے سے بلوچ خواتین ٹیچر بانک زرینہ مری کو ریاستی فورسز اور خفیہ اداروں نے دن دھاڑے اغواہ کرکے لئے گئے جو تاحال لاپتہ ہے بی آر پی کے سربراہ براہمدگ بگٹی کے ہمشیرہ اور بھانجی کو کراچی میں سرعام فائرنگ کرکے شہید کردیا تربت کے علاقے تمپ میں ایک 17سالہ بلوچ طالب علم کو ایف سی نے مارٹر گولوں کی فائرنگ کرکے شہید کیا اور اسی خاندان کے کئی خواتین زخمی ہوگئے بلوچ سماج ایک سیکولر اور لبرل سماج ہونے کے ناطے خواتین برابری کے بنیاد پر زندگی گزاررہے ادیب کا میدان ہو یا تعلیم و صحت ہویا سیاست وسماجیت تمام شعبہ جات میں بلوچ خواتین برابری کے بنیاد پر جدوجہد کررہے ہیں اور بلوچ قومی تحریک میں ایک نمایاں کردارادا کررہے ہیں بلوچستان میں خواتین کے قتل عام، اغواہ نما گرفتاری اور جبری تشدد جیسے سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات میں روز بہ روز شدت سے اضافہ کے باوجود اقوام متحدہ، عالمی انسانی حقوق کے تنظیموں اور مہذہب و انسان دوست ممالک واقوام اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنطیموں کی تحریک نسواں کے علمبردار کی خاموشی انتائی افسوسناک عمل ہے اقوام متحدہ ، انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں ، خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیمیں سمیت تمام مہذہب ممالک بلوچستان میں بلوچ خواتین کے قتل عام، اغواہ نما گرفتاری اور جبری تشدد جیسے سنگین انسانی حقوق کے پا مالیوں کا نوٹس لیکر بلوچ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں عملاً کردار ادا کریں کیوں کہ خواتین کے عالمی یوم تشدددن کو چند دفتروں میں شاندار پارٹیوں کی شکل میں منانا دنیا کی مظلوم اور محکوم خواتین کو تحافظ نہیں دے سکتی اس کیلئے اداروں کو عملی کردار ادا کرنا ہوگا‎

یہ بھی پڑھیں

فیچرز