جمعه, آوریل 26, 2024
Homeآرٹیکلزدرست سمت : تحریر: اسلم بلوچ

درست سمت : تحریر: اسلم بلوچ

قوم دوستی وحب الوطنی کی عالمگیر معیار سے اگر ہمارے ہاں کے مقرر کردہ معیارمختلف نہیں تو پھر جلدازجلد ہم کو بلوچ قومی تحریک کے عملی مسائل سے گہرا تعلق پیدا کرنا ہوگا کیونکہ موجودہ جاری بے ہنگم و لغو کوششیں کسی صورت بھی درپیش حالات کیلئے حقیقی جدوجہد کے تقاضوں کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔
ایک قوم دوست اور محب وطن قومی مفادات کے منافی کسی بھی عمل کی نشاندہی کرسکتا ہے اس پر تنقید کرسکتا ہے اسکی تشریح وضاحت کیلئے بحث مباحثے کرسکتاہے بحالت مجبوری اسکی مذمت کرسکتا ہے عملی طور لاتعلقی سے اور عملی طور پر بہتر عمل سرانجام دینے سے ا سکے خلاف شعوری آگاہی پھیلاسکتاہے لیکن اسکی بنیاد پرہرگز گروہیت کو ہوا نہیں دے سکتا قیادت کا مسئلہ پیدا کرکے ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچ سکتا مخصوص حلقے بناکر دھڑے بازی کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے تنگ نظری قدامت پرستی و موقع پرستی کیلئے سازگار ماحول پیدا نہیں کرسکتا اپنے ساتھیوں و عوام کیلئے عقیدہ پرستی و لکیر کے فقیربنانے والے رجحانات کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا۔
تاریخ گواہ ہے کہ تحریکات کی رہنمائی فطری رہنما اصولوں نے کی ہے اور جن شخصیات پارٹی و تنظیموں نے ان اصولوں کی مکمل پاسداری کی وہ ہی اپنے عوام میں قابل اعتماد و قیادت کے اہل ٹھہرے ہیں مختلف علاقوں میں اپنے اپنے مخصوص حلقہ اثر رکھنے سے قومی تحریک میں قیادت کا مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا اور ناہی ہوگا اور نہ ہی دھڑے بازی اور مخصوص حلقوں کے ذریعے خودساختہ قیادت کیلئے مسائل پیدا کرکے آپسی جھگڑوں میں الجھنے سے کچھ حاصل ہوگا مسلسل دشمن کے طاقت کے متعلق اپنے قوت وکارکردگی اور بیرونی حمایت کے متعلق مبالغہ آرائی نے ہمیں بے مقصد تنازعات میں الجھانے کے ساتھ ہی ساتھ بے پناہ قیمتی جانوں کے ضیاع سے بھی دوچارکردیاہے بدقسمتی سے یہی تسلسل آج اس مبالغے کو بھی تقویت دیتا جارہا ہے کہ بیرونی حمایت سے کامیابی خود بخود چل کر ہمارے پاس آئے گا اور اسی کے بنیاد پر کارکنان و عوام کومزید بے عملی کے دلدل سے قریب کیاجارہاہے شعوری یا لاشعوری طور پر۔
(قوت کی حصول کیلئے اعتماد کی اہمیت اور مجتمع طاقت کو وسعت دینے منظم و متحرک رکھنے کیلئے پختگی و بنیادی اصولوں کی اہمیت سے قطع نظر) جسکی وجہ سے ہمارے تمام بلندبانگ دعوے پچھلے کچھ عرصے سے صرف اور صرف خالی خولی نعروں کی عکاسی کرتے نظرآرہے ہیں ہم ان حالات میں بڑے بڑے فلاسفر بنیں یا لیڈر ہمارے تمام اقدامات کا مجموعہ لغو اور بے ہنگم ہی ثابت ہورہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جلد از جلد اپنے تحریک کے عملی مسائل سے جو مجموعی حوالے سے ہمارے اپنے ہی رویے سوچ و اعمال کے پیدا کردہ ہیں ان مسائل سے تعلق جوڑ کر انکو حل کرکے آگے بڑھیں گروہئت اور خودساختہ قیادت کیلئے پیدا کئے گئے مسائل نے تحریک کے قوم دوست حلقوں کے باہمی تعلقات و تعمیری مراحلے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے جسکی وجہ سے ہم بحیثیت قوم خود کو منظم و متحرک کرنے سے تمام عرصے میں قاصر رہے اور ہمارے بیچ اعتماد کا ایک ایسا فقدان پیدا ہوا جس نے ہمارے اس ذہنی رویے کو بھی مفلوج کرکے رکھ دیا جو باہمی اختلافات کو بااعتماد و تخلیقی انداز میں حل کرسکتا تھااس دوران وہ منفی عناصر جو تمام آزادی پسند قوم دوست حلقوں میں موجود تھے موقع غنیمت جان کر خود کو منظم کرتے گئے چھوٹے چھوٹے مفادات چندے کی رقم نے انکی منزل تخلیق کی جو کسی صورت جدوجہد کو حقیقی سمت میں لے جانے کی حق میں نہیں ہیں قابل غور نقطہ یہ ہے کہ بلوچ عوام مسلسل فوجی جارحیت سے دوچار قتل ہو رہے ہوں وطن کے دشمن بلوچوں کے ماضی کے محفوظ علاقوں میں دندناتے پھر رہے ہوں چادر و چاردیواری کی تقدس شب و روز پامال ہورہاہو ماں بہنوں کی عزت محفوظ نہ ہوں ایسی صورت حال میں کوئی وطن پرست یا قوم دوست آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے گروہیت یا لیڈری چمکانے جیسے فضولیات میں وقت گزاری کرسکتا ہے؟
کسی تنظیم،پارٹی یا گروہ کے سربراہ ہونے سے قطع نظر قیادت کسی منصب یا مرتبے کا نام نہیں جسکو رسمی رجحانات سے توانا کیا جاسکے قیادت بروقت درست فیصلے اور درست کام کرنے کا نام ہے قیادت تبدیلی کو درست سمت دینے اور عمومی بصیرت کی تخلیق کو سنوارنے کا نام ہے یعنی ہر فرد کے داخلی جذبے کو حقیقت سچائی سے ہم آہنگ کرنے کا نام ہے جس کا خاصہ اعتماد ہے اور بہتر تعلقات کی بنیاد صرف اور صرف اعتماد ہی ہے جب تسلسل سے دیانتداری اور انصاف کے ساتھ انسانی محنت عمومی کردار اور تمام تعلقات کی نگرانی کی جاتی ہے تب اعتماد پختہ ہوتا ہے اور اخلاقی حاکمیت قائم ہوتی جو قیادت کے اہل کہلاتی ہے اپنے ہی لوگوں کی محنت سے بددیانتی انکے کردار سے بے انصافی معمولات و مسائل سے لاتعلقی حقیقی آگاہی کے مقابلے ذاتی آگاہی کو ترجیح دینے جیسا ہے جو بد اعتمادی کی بنیاد ثابت ہوتی ہے چی گویرا ونیلسن منڈلا کی اخلاقی حاکمیت یا برتری کیوں نسلی یا جغرافیائی امتیاز سے آزاد آج بھی قائم و دائم ہیں نیلسن منڈلا نے چھبیس سال جیل میں گزارنے کے دوران اپنے کردار کو لیکر اپنے نظریات و اقدار کا سودا اپنی زندگی بچانے شہرت حاصل کرنے اور تحریک کی قیادت برائے راست کرنے کی خاطر قید سے آزاد ہونے کی صورت میں کیوں نہیں کیا اس بارے دشمن کے کئی پیش کش ٹکرانے کا فیصلہ اور تحریک سے جوڑے عمومی بصیرت کو تخلیقی حوالے سے پلنے پھولنے اور تحریک کی قیادت کرنے کا دیانتدارانہ و منصفانہ موقع فراہم کرنے کا فہم و ادراک ہی پوری تحریک پر اسکے اخلاقی حاکمیت و برتری حاصل کرنے کا ذریعہ بنی یہ بلکل بھی خود غرضی، عارضی مفادات،منتقم مزاجی، مفاد پرستی الزام تراشی کے کلچر کے برعکس ہوتا ہے۔
آج کل علم و ابلاغ کا دور ہے معمولی سے معمولی سطح پر بھی ہمیں غلبہ پسندی اور کنٹرول کرنے والے ذہنی رویے سے پرہیز کرنا چاہیے ہم منظم بنانے کے لیے لوگوں کو مائل کرسکتے ہیں کنٹرول ہرگز نہیں کیونکہ ہمارا واسطہ دل دماغ اور روح سے ہے ناکہ اشیاء سے
ہمارا واسطہ دل دماغ اور روح سے ہے ناکہ اشیاء سے کہ ایک شئے کی جگہ ہم دوسرے کو رکھ سکتے ہیں دوران جدوجہد اگر ہم اعتماد کھو دینگے تو کوئی بھی قانونی کلچر ہمیں کامیابی عطا نہیں کرسکتاحربے تو ہرگز نہیں اس وقت تک کے نتائج بہت کچھ ثابت کرچکے ہیں بس ذرا ٹھنڈے دماغ و غیرجانبداری سے اپنے اپنے ذات کی نفی کرکے غور کرنے کی ضرورت ہے
تمام آزادی پسند قوتیں اولین اپنے اندر دوئم مجموعی حوالے سے باہمی احترام کے تحت گروہیت و موقع پرستی کی وجہ سے پیدا ہونے والے پیچیدگیوں پر قابو پانے کیلئے دیانتداری سے کام کریں کیونکہ ہمارے جدوجہد کاتقاضایہی ہے کہ ان حالات میں قومی سوچ کی وسعت کے تحت عوام کو منظم و متحرک کرنے میں کسی بھی وجہ سے رخنہ اندازی کی گنجائش باقی نہ رہے ہمیں اپنے اپنے مطالبات اور تحریک کی موجودہ
صورت حال عیار و خونخوار دشمن کے پالیسیوں کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے ہماری بقاء قومی جدوجہد سے جوڑے تمام حقیقی قوتوں کے استحکام انکے وسعت اور بہتر اور موثر طریقوں سے کام کرنے میں ہے تاکہ عوامی سطح پرایک امید افزا سازگار ماحول بن سکیں جو ان قوم دوست قوتوں میں لوگوں کی مجتمع و منظم ہونے میں مددگار ثابت ہو بصورت دیگر صرف اور صرف بیرونی حمایت پر تکیہ اور ان تمام مسائل کی موجودگی میں ان ذہنی رویوں کے ساتھ کچھ بھی حاصل ہونے کی امید بہت کم ہے۔پھر ایسا نہ ہو کہ رہی سہی منظم افرادی قوت بھی جلد اجاراداری کی نظر ہوجائے منظم خیالات و نظریات افسر شاہی کے گندگی میں بدبو دار نہ ہوں
آخری بات جب آپ کے پاس منظم سیاسی سرگرمیاں موجود ہوں تو آپکو غیر معمولی اور غیر ضروری روک تھام کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ واضح و مکمل خیالات و نظریات کے ساتھ منظم افرادی قوت کولیکر منظم سیاسی سرگرمیاں سرانجام دینا از خود نظم و ضبط کا ایک مستقل معمول ہوتا ہے دوران جدوجہد تمام اقدامات ابتدائی نوعیت کے ہوتے ہیں یہ انتہائی اور حتمی نوعیت کے ہوہی نہیں سکتے ان کیلئے تجربات و دلائل کے ثبوت پیش کرنے ہوتے ہیں جب اندھا دھند قبول کرنے کا مرحلہ گذرچکا ہوتا ہے تو سچائی کے متعلق کوئی بھی بات یا معلومات صرف اور صرف اس بنا پرمستردنہیں کیا جاسکتاکہ اس بات یا معلومات کی عملی افادیت آپ کے پسند کے مطابق نہیں ہوتا۔
منتشر خیالات و نظریات کو مقصد سے ہم آہنگ کرکے واضح و مکمل شکل دینا اور انتہائی بے ترتیب کام کو ترتیب دینے کے لئے قابل عمل طریقہ کار ہی کار آمد ثابت ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز