پنج‌شنبه, آوریل 25, 2024
Homeآرٹیکلزدشمن! تحریر : جمال ناصر بلوچ

دشمن! تحریر : جمال ناصر بلوچ

’سیاسی‘ کے تصور کیا ہیں؟ سیاسی دائرہ کار اور ذاتی دائرہ کار کیا ہیں؟ جب تک سیاسی اور ذاتی کے فرق کو سمجھا نہیں جائے گا تب تک یہ ممکن نہیں کہ منطقی انداز سے تشکیلِ ریاست جیسے پیچیدہ عمل کو آگے لے جایا جاسکے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بلوچ قومی تحریک کے بہت سے مسائل اور ناکامیوں کی وجہ سیاست کی ناسمجھی سے منسلک ہے۔ اگر بلوچ قومی تحریک کی ستر سالہ تاریخ کو دیکھا جائے تو بہت سے الفاظ اور تصورات جو کہ صرف سیاست سے جڑے ہوئے ہیں ان میں ’سیاسی‘ اور ’ذاتی‘ کا فرق موجود نہیں ہے۔ ہمارے یہاں سیاسی کے تصور پر غیرسیاسی عناصر غالب ہیں (یعنی سماج میں موجو د کسی عام فرد کے تصورات اور سیاست میں موجود فرد کے تصورات کا لیول ایک ہی ہے) ۔ ان تصورات میں سے ایک چیز ’دشمن‘ ہے۔ بلوچ سیاست میں آج تک دشمن کی وضاحت نہیں ہوسکی نا ہی کوئی ایسا معیار طے کیا گیا ہے کہ جس کی بنا پر تبدیل ہوتے ہوئے حالات کے مطابق دشمن کی نشاندی کی جاسکے۔ بلوچستان کی سیاست میں دشمن کا مفہوم اور اس کی تعریف پسند نا پسند، ذاتی اختلافات، سیاسی اختلافات ، عدم برداشت اور قبائلی مسئلوں وغیرہ کی بنیادپر طے کی جاتی ہے ۔دشمن کا یہ معیار سیاسی افراد اور غیر سیاسی افراد یا آزادی پسند اور غیر آزادی پسند سمیت زیادہ تر تنظیموں میں یکساں پایا جاتا ہے یعنی نظریاتی فکر یا بنیادی سیاست میں اختلافات کے باجود لفظ دشمن اور دشمن کے معیار کو بلوچستان کے سطح پر تمام بلوچ ایک ہی حساب سے دیکھتے ہیں۔
میرے نزدیک بلوچستان کی آزاد حیثیت کو بحال کرنے لیے دشمن کی وضاحت اور کسی بھی فرد یا افراد کے مجموعے کو دشمن قرار دینے کے معیا ر کو طے کرنا ضروری ہے۔ اگر اس مسئلے پر توجہ دینے کی بجائے اس کو نظرانداز کیا جائے گا تب اس صورت کوئی بھی آزادی پسند تنظیم یا تنظیمیں وہ طاقت حاصل نہیں کرپائیں گی جو طاقت ہمیں بحیثیت قوم ایک ریاست تشکیل دینے کے لیے چاہیے۔میری دشمن سے مراد سیاسی دشمن ہے، یہاں پرپاکستان آرمی اور اس سے برائے راست منسلک دوسرے ادارے یا افراد جو کہ ’مسلح‘ کے زمرے میں آتے ہیں وہ تفصیلی طو ر پر زیر بحث نہیں ہیں ، کیونکہ دو مسلح افواج کے درمیاں جنگ بھیانک ہے مگر اس لحاظ سے پیچیدہ نہیں کہ افواج میدان جنگ میں اپنے اپنے دشمن کو جانتے ہیں اس کی آسانی سے نشاندہی ہوسکتی ہے، وہ ایک الگ قسم کا لباس پہنتے ہیں اسی لیے دونوں اطراف کے لوگ آسانی سے ایک دوسرے کی نشاندہی کرکے طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں اگر غیرروایتی اور گوریلہ جنگ کو بھی دیکھا جائے تب بھی ’ میتھڈ آف انگیج مینٹ‘ میں تبدیلی ہوسکتی ہے لیکن دونوں کا سامنا مسلح صورت میں ہی ہوگا اور دونوں مسلح اداروں سے ہی تعلق رکھتے ہونگے ۔ سیاسی لوگ اور تنظیموں کی سیاسی دشمن کو پہچاننے کی جستجو داہمی ہے ۔ یہاں لفظ سیاسی سے میری مراد غیر مسلح نہیں ہے ۔ سیاسی دشمن سے مراد دشمن کی سیاسی طور پر نشاندہی ہے ۔
جرمن سیاسی ریلسٹ اور فلسفی کار ل ا شیمت اپنی کتاب ’دی کانسیپٹ آف دی پولیٹیکل ‘ میں سیاسی کے تصور پر تفصیلی بحث کرتے ہوے کہتے ہیں کہ’ سیاسی ‘کی آخری حد یا اس کا مرکز دو ریاستوں یاقوموں میں دوست اور دشمن کی بنیاد پر تقسیم ہونا ہے ۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ دشمن کیا ہے ؟ دشمن کون ہے ؟ یہ فیصلہ اور اس بات کا تعین کون کرے گا کہ کو ئی دشمن ہے ؟
جس طرح اخلاقیات کے دائرہ کار میں اچھائی کی ضد برائی ہے، جمالیات کی نظر سے خوبصورتی کا مکمل ضد بدصورتی ہے، یا معاشیات میں منافع کا ضد غیرنفع ہے۔ اسی لحاظ سے سیاست کی انتہاہ پردوست کا مکمل ضد دشمن ہے۔ان تمام مثبت لفظوں کے منفی یا ضد ایک دوسرے سے منفرد ہیں ان کی اپنی پہچان ہے اور ان کا اپنا دائرہ کار ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اخلاقیات کے لحاظ سے ’اچھا‘ ، جمالیات کے لحاظ سے بھی خوبصورت ہو، یا اخلاقیات کے لحاظ سے برا ئی، معاشیات کے لحاظ سے غیر نفع ہو۔ اسی منطق کے تحت یہ ضروری نہیں کہ دشمن ہمیشہ اخلاقی لحاظ سے برا ہو یا جمالیات کے نظر سے بدصورت یا پھر معاشی لحاظ سے ہمارے لیے غیر نفع ہو۔ یہ ممکن ہے کہ دشمن مہذب ہو یا جب ہم اس سے معاشی رشتہ جوڑیں تب ہمیں فائدہ ہو۔ دشمن وہ نہیں جو آپ کا مدمقابل ہو یا کسی چیز پر آپ دونوں کے درمیان تضاد ہو۔ دشمن وہ بھی نہیں جس سے آپ کے ذاتی مسئلے ہوں اور جس سے ذاتی جذبات کی بنا پر آپ شدید نفرت کرتے ہوں۔
کارل اشیمت کے مطابق دشمن اس وقت وجود رکھتا ہے جب ’لڑنے والے لوگوں کا ایک اجتماع ایسے ہی دوسرے اجتماع کے آمنے سامنے ہو اور ایسے لڑنے والے اجتماع کا رشتہ ایک قوم سے اور اس کے تمام چیزوں سے ہو ، اسی رشتے کے سبب لڑنے والا ایک اجتماع دوسرے اجتماع کا قومی دشمن بن جاتا ہے ‘ ۔ دشمن ہمیشہ اجنبی اور الگ ہوتا ہے جو کہ دوسرے اجتماع کی طرز زندگی کو مکمل ختم کرنا چاہتا ہے ‘۔ کارل اشیمت کے مطابق جرمن سمیت دنیا کی بہت سے دوسرے زبانوں میں سیاسی اور ذاتی دشمن کا فرق موجود نہیں ہے۔عیسائیوں کی مقدس کتاب انجیل میں لکھا ہے کہ ’تم اپنے دشمنوں سے محبت کرو‘۔ لاطینی زبان میں اسی آیت کا ترجمہ ’diligite inimicos vestros‘ ہے ناکہ ’ diligite hostes vestros ‘ ۔ لاطینی زبان میں inimicos کے معنی ذاتی مخالف یا ذ اتی دشمن کے زمرے میں آتا ہے اور hostes کے معنی قومی دشمن ہے۔ اسی طرح یونانی زبان میں سیاسی اور ذاتی دشمن کے درمیان فرق واضح ہے ، یونانی فلسفیوں کی تحریروں میں سیاسی یا قومی دشمن کے لیے لفظ polemios اور ذاتی دشمن کے لیے لفظ ekthros استعمال ہو ا ہے۔
کارل اشیمت کے مطابق انجیل کی آیت ’تم اپنے دشمنوں سے محبت کرو‘ میں لفظ دشمن ،سیاسی یا قومی دشمن کے بجائے ذاتی دشمن کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ تم اپنے ذاتی دشمن سے محبت کرو، اس کا واضح اشارہ کسی فرد کے ذاتی دشمن کی طرف ہے ۔ کارل اشیمت مزید دلائل دے کر لکھتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ہزار سال تک مسلمانوں اور عیسائیوں کی کشمکش کے دوران کسی عیسائی کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ یورپ کی دفاع کی بجائے وہ محبت میں ترکوں اور مسلمانوں کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیں۔ ہم اگر لاطینی لفظ hostes اور inimicos پر مزید روشنی ڈالتے ہیں تو دیکھنے کو ملتا ہے کہ Hostes لاطینی زبان کے لفظ hostis کی جمع ہے۔ Hostis گرائمر کے لحاظ سے ناؤن یعنی اسم ہے۔ اس لفظ کے تین معنی ہیں ’ ریاست کا دشمن‘ ، اجنبی، اور دشمن ( صرف جمع کے لحاظ سے) ۔ جبکہ لاطینی لفظ inimicos گرائمر کے لحاظ سے اڈجیک ٹیف یعنی صفت اور اسم کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔یہ دو لاطینی الفاظ سے مل کر بنا ہے، in یعنی نا اور amicus یعنی دوست، یہ لفظ زیادہ تر واحد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لاطینی زبان میں اس کے تین معنی ہیں، جس سے آپ کو خطرہ ہو، جو آپ سے نفرت کرتا ہو ، اور جو آپ کے مفادات کے خلاف ہو۔جبکہ یورپ کے قدیم زبان یونانی زبان اور تحریروں میں ذاتی اور قومی دشمن کے فرق کی وضاحت افلاطون اپنی کتاب جمہوریہ میں کرتے ہیں۔ ایلکس تھامسن اپنی کتاب ڈیسڑکشن اور ڈیموکریسی میں لکھتے ہیں کہ افلاطون یونانی لفظ polemios کو قومی دشمن جبکہ لفظ ekthrosکو ذاتی دشمن کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
قدیم یونان نے دنیا کے بہترین فلسفی اور تاریخ دان پیداکیئے تو دوسری طرف لاطینیوں نے دنیا کی طاقت ور ریاست کی بنیاد رکھی۔ ہزاروں سال پہلے ان کی زبان اور تحریروں میں قومی دشمن اور ذاتی دشمن کا فرق اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ ان کی کامیابی کی وجہ ان کی سیاسی پختگی تھی۔ اشیمت دشمن کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ تیسری طاقت یہ فیصلہ نہیں کرسکتی کہ کون دشمن ہے اور کون دشمن نہیں ہے۔ یہ فیصلہ دونوں فریق ہی کرسکتے ہیں ۔دشمن ہمیشہ اجنبی اور الگ ہوتا ہے جو کہ دوسرے اجتماع کی طرزِ زندگی کو مکمل ختم کرنا چاہتا ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ دشمن وہ نہیں جو کسی وجہ سے سیاسی مخالف وہ یا وہ آپ کی سیاست سے اختلاف رائے رکھے۔ یہ عنصر کسی طرح سے بھی سیاسی دشمن کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ انسان کا ایسا کوئی معاشرہ وجود نہیں رکھتا یا کوئی ایسا قومی ریاست وجود نہیں رکھتا جہاں الگ الگ سیاسی سوچ سے تعلق رکھنے والے افراد موجود نہ ہوں، ان سیاسی سوچ کی آپسی مسلح جنگ کو خانہ جنگی کہا جاسکتا ہے لیکن یہ جنگ چونکہ دو قوموں کے درمیاں نہیں اسی لیے اندرونی جنگوں میں ایک فریق دوسرے فریق کو ’ دشمن‘ کا لیبل نہیں لگاسکتا۔ ’سیاسی‘ کے لحاظ سے دشمن وہ ہے جو دوسرے فریق کے وجود کے لیے خطرہ ہو، دشمن دوسرے فریق کو طاقت کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہو ۔ لاطینی اور یونانی زبان میں سیاسی اور ذاتی دشمن کے لیے الگ الگ الفاظ موجود ہیں مگر جرمن زبان کی طرح بلوچی زبان میں بھی سیاسی اور ذاتی دشمن کا فرق موجود نہیں ہے۔ بلوچی زبان میں اگر قبائلی بنیاد پر جنگ اور مسئلے مسائل جنم لیتے ہیں تو اس کے لیے دشمنی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور اگر سماجی مسئلے میں ایک خاندان کا فرد دوسرے فرد کو قتل کردے تو وہ بھی دشمنی کے زمرے میں آتا ہے ، حتیٰ کہ زیادہ تر مسئلے جو ہمارے یہاں دشمنی کے زمرے میں آتے ہیں فطرتی حوالے سے وہ غیر سیاسی ہیں اور سیاست کے دائرہ کار پر پورا نہیں اتر تے ہیں۔ اسی لیے بلوچ سیاست یا سماج میں دشمن کا سیاسی اور ذاتی حوالے سے تفریق موجود نہیں ہے ۔ آسان لفظوں میں اگر کارل اشمیت کے نظریہ کو بیان کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہوگا۔سیاسی کے لحاظ سے ’دشمن‘ ایک ہی قوم کے دو افراد نہیں ہوسکتے۔ دشمن آپ کے وجود اور طرزِ زندگی کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہو، اس منطق کے تحت ایک ہی قوم کے افراد سیاسی طور پر دشمن نہیں ہوسکتے کیونکہ دونوں گروہ کا تعلق ایک ہی طرزِ زندگی سے ہے۔ سیاسی دشمن فرد نہیں ہوسکتے کیونکہ دشمن سیاسی لحاظ سے صرف ایک اجتماع ہی ہوسکتا ہے اس میں ا فراد کی کوئی اہمیت نہیں یعنی قوم کے ساتھ قوم کی جنگ۔ جرمنی اور برطانیہ کی جنگ، بنگالی اور پنجابی کی جنگ، فن لینڈ اور روس کی جنگ یا بلوچ اور پنجابی کی جنگ۔
جس طرح میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ بلوچستان میں سیاسی لحاظ سے دشمن کو سمجھا نہیں گیا اور دشمن کے معنی ذاتیات اور جذبات، اور ناپختگی کی بنا پر طے کیے جاتے ہیں اسی لیے ہم بحیثیت قوم آج شدید سیاسی بحران کا شکار ہیں۔ آج اگر آزادی پسند سیاسی اور مسلح تنظیموں کے دشمنوں کی ایک لسٹ بنائی جائے تو وہ کچھ اس طرح ہے:
نیشنل پارٹی ؟ دشمن ۔
بی این پی عوامی ؟ دشمن ۔
بی این پی مینگل؟ دشمن۔
بلوچستان اسمبلی کے تمام ممبران ؟ دشمن۔
لیویز کے تمام اہلکار ؟ دشمن۔
سرکاری نوکر؟ دشمن۔
منشیات کے حادی افراد ؟ دشمن۔
منشیات فروش؟ دشمن۔
مذہب پرست بلوچ ؟ دشمن۔
ٹیکے دار اور کاروباری افراد؟ دشمن۔
پولیس فورس ؟ دشمن۔
سردار اور ان کے قریبی لوگ ؟ دشمن ۔
ایرانی قابض کے خلاف جنگ کرنے والے بلوچ ؟ دشمن۔
سرکاری دباؤ کے تحت مردم شماری کرنے والے افراد یا ٹیچرز؟ دشمن۔
ٓ
اس طویل لسٹ میں موجود تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو کوئی نا کوئی آزادی پسند اپنا دشمن سمجھتا ہے شاید تمام آزاد ی پسند مسلح تنظیمیں ایک دوسرے سے اس لسٹ حوالے اتفاق نہ کریں جیسے کہ ، کچھ آزادی پسند سمجھتے ہوں کہ تمام پارلیمان ممبران کو قتل کرنا جائز اور آزادی کے لیے ضروری ہے جبکہ کسی دوسری آزادی پسند تنظیم کے لیے پارلیمان ممبران کے لیے یہی رائے ہو مگر وہ اس کے ساتھ ساتھ لیویز ، پولیس اور مردم شماری کرنے والے افرادکو بھی قوم کا دشمن تصور کرتے ہوئے ان پر طاقت کے استعمال کو آزادی کی جد وجہد سمجھتے ہوں۔ یہاں تک کہ اسکول بنانے والے ٹھیکے دار، پارلیمان پرست پارٹیوں کے عام کارکن اور معمولی سرکاری نوکری کرنے والوں کو قتل کرنے کے بعد بیانات کے ذریعے دشمن کا لقب دیاگیا ہے یا بہت سی جگہ سرمچاروں کی طرف سے ذاتی مخالفین کو قومی دشمن قرار دے کر قتل کردیا گیا ۔ یہاں پر کسی بھی صورت ان دلالوں کا ذکر نہیں ہورہا جو کہ دشمن کا آلہ کار بن کر با قائدہ ’بلوچ کارکنان کے قتل میں برائے راست ملوث تھے اور اسکی مکمل تصدیق کے بعد ہی ان پر طاقت کا استعمال کیا گیا ہو ‘۔

اپنی ہی قوم کے افراد کو دشمن تصور کرنے سے اس کو قتل کرنے تک کا سلسلہ سالوں کی سیاسی سوچ پر انحصار کرتا ہے۔ چوں کہ بلوچستان کی سیاست میں سب سے پرانی تنظیم بی ایس او رہی ہے اسی لیے اس تمام پراسس میں بی ایس او کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بی ایس او کی جب بنیاد رکھی گئی تھی تو اپنے وقت کے حساب سے بی ایس او ایک ترقی پسند اور جدید سوچ رکھنے والی تنظیم کے طور پر جانی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ بی ایس او نے بلوچ قبائلی نظام ا ور سرداروں کو بھی اپنا دشمن قرار دیا۔ بی ایس او کے بہت سے کارکنان کے رویے ایسے تھے جیسے کہ ان کو پاکستان نے نہیں بلکہ بلوچ قبائلی نظا م نے قومی طور پر غلام بنا یا ہوا ہے۔ اس سوچ نے قبائلیت کو دشمن قرار دیا اور تنظیموں کی طرف سے کھل کر اس سوچ کو قومی سطح پر ابھارنے کی کوشش کی گئی، اے میر نواب و سردار انت، اے ڈنگ جنوکیں سیاہ مار انت، جیسی شاعری اور جذبات کی بنا پر سیاست کرنا بلوچ تاریخ میں اس سیاسی سوچ کی اپنی مثال آپ ہے لیکن اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو بی ایس او کی اسی سیاسی ناپختگی کی وجہ سے وہ اصل دشمن پنجابی اور اسکی ریاست کے بجائے بلوچ قوم کے ایک حصے کو دوسرے حصے کا دشمن قرار دیتے رہے جبکہ اسی عرصے کے دوران مری قبیلے کے سردار خیر بخش مری نے اپنے قبیلے کو بلوچستان کی آزادی کے لیے کامیابی سے استعمال کیا اور اصل دشمن پنجابی فوج اور ریاست کو شکست دینے پر توجہ دی ( یہاں پر سردار خیر بخش مری کی فارن پالیسی زیر بحث نہیں جہاں پر انہوں نے سرمایہ دار طاقتوں اور ملکوں کو اپنا دشمن سمجھا)۔ اگر کارل اشیمت کے نظریات کے تحت دیکھا جائے تو ایک ہی قوم کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ’دشمن‘ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ قبائلی افراد اور اس نظام سے تعلق رکھنے والے افراد اسی حد تک بلوچ قوم کا حصہ ہیں جتنا حصہ ایک مڈل کلاس ، بیرون ملک مقیم بلوچ ، سیاست دان، یا مذہب پرست بلوچ ہے۔ سیاسی کے لحاظ سے دشمن اجنبی ہو نا چاہیے جبکہ سردار اور قبائلی نظام ہمارے قوم کا حصہ ہیں ۔ ستر کی دہائی میں ہونے والی جدوجہد میں میرے نزدیک سیاسی دشمن کی نشاندہی نہ ہونے کے سبب ہماری جدوجہد نیم سوشلسٹ اور نیم نیشنلسٹ رہی ہے۔اگر موجودہ جدوجہد کو دیکھا جائے تو اس جدوجہد کو شروع کرنے والے افراد نیشنل ازم حوالے سے کلیر تھے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ بلوچ رہنما حیربیار مری کے علاوہ ان کے کچھ ساتھی بعد میں شعوری طور پر نیشنل ازم کے حوالے ابہام کا شکار ہوتے گئے ۔ تحریک کی شروع ہونے کے بعد اس کی مضبوطی ، اور موجود ہ بحران تک بہت سے افراد کی تحریروں اور پارٹیوں کی پالیسیوں سے نیشنل ازم حوالے سے نا پختگی کے واضح جھلک اور اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب نیشنل ازم کو آگے لیجانے والے خود سیاسی سوچ حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں تو اس کے اثرات لوکل پالیسی پر بھی پڑتے ہیں۔
ہماری آج کی جدوجہد سیاسی حوالے سے سب سے کلیر جدوجہد ہے جہاں پر ہم اس بات پر واضح ہیں کہ بلوچستان کو پاکستانی غلامی سے آزادی دلانی ہے۔ آزادی کے حوالے سے شاید ہی بلوچ تحریک گزشتہ ادوار میں اس طرح واضح تھی کہ جس طرح آج ہے۔ لیکن سیاسی حوالے سے مزید پختگی کی ضرورت ہے کیونکہ آج بھی تحریک کی بہت سی پالیسیاں جذباتی ،بچکانہ اور ناپختہ ہیں۔ اگر ہم موجود ہ دور کی سیاست کو دیکھتے ہیں تو اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پرانی بی ایس او اگر قبائلی نظام اور سرداروں سے الجھی ہوئی تھی تو آج کی بی ایس او نے تقریباََ بلوچ سماج سے تعلق رکھنے والے تمام حصوں کو اپنا دشمن سمجھ رکھا ہے ( راقم تقریبا ایک سال تک بی ایس او آزاد لندن کا صدر رہا ہے او ر بحیثیت عہدیدار اس نے ان پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ نہیں لیا اور نہ ہی کبھی ان پالیسیوں کی نشاندہی پارٹی قیادت کے سامنے کی، اسی لیے ایک حد تک راقم بھی قصور وار ہے ) ۔ بی ایس ا و سمیت دوسرے سیاسی تنظیموں کا دشمن حوالے سے پالیسی موجود ہ جدوجہد میں بھی بچکانہ اور جذبات کی بنیاد پر قائم تھی اور اب تک ہے۔

اللہ نذر کے دور سے لیکر کریمہ بلوچ کے دور تک ، بی ایس او میں تعداد حوالے فرق یا تنظیمی طو ر پر مضبوطی اور کمزوری دیکھنے کو تو ملتی ہے مگر سیاسی پختگی حوالے سے بی ایس او کے بنیاد سے لیکر آج تک تمام سربراہوں کی سیاسی پختگی کے حساب سے سیاسی معیار یکساں رہاہے ۔ میرے نزدیک ان تمام سربراہاں کی سیاسی پالیسیاں بچکانہ، غیر منطقی اور آئڈیلسٹ بنیاد پر استوار تھیں۔ موجود ہ جدوجہد کے دوران بی ایس او نے بہت سی پالیسیوں کے ذریعے اپنے آپ کو محدود کیا جیسے کہ سرکاری نوکری کے حوالے سے پالیسی جہاں پر بی ایس او کے سیاسی زمہ داران اگر سرکاری نوکر تھے تو وہ یا تو اپنی ذمہداری چھوڑ د یتے یا پھر سرکاری نوکری۔ اسی طرح بی ایس او نے بہت سی ایسی بچکانہ پالیسیاں عوام میں متعارف کرائیں جس سے نہ صرف بی ایس او کو بلکہ بلوچ جدوجہد آزادی کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
نوجوانوں کی زندگی کا ایک حصہ اسکول، کالج اور یونیورسیٹیوں میں تعلیم کے دوران بیت جاتی ہے۔ وہ سماجی حوالے سے دوسرے افراد کی نسبت کم دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اسی لیے زیادو تر نوجوان زندگی اور اپنے ارگرد کی حقیقت کو اسٹوڈنٹ لائف کے بعد ہی سمجھ پاتے ہیں۔ بی ایس او کی سیاسی ناکامی کی وجہ بھی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ بحیثیت ایک طلبہ تنظیم بی ایس او نے نوجوانوں کے جذبات کو پختہ سیاسی سوچ میں تبدیل کرنے کے بجائے نوجوانوں کے جذباتی احساسات کو اپنی تنظیمی پالیسی تشکیل دے کر حقیقی سیاست اور بلوچ چاگرد (معاشرہ) سے اپنے آپ کو ڈس انگیج کیا۔
یہی وجہ ہے کہ بی ایس او کے تمام ادوار میں اس کے زیادہ تر کارکنان اور عہدیدار تنظیم سے فارغ ہونے کے بعد اسی انداز سے زندگی گزارتے ہیں کہ جس کی وہ بی ایس او میں موجودگی کے دوران جذباتی احساسات اور ناپختہ سوچ کے تحت مخالف ہوا کرتے تھے۔ چونکہ بی ایس او کی سیاسی سوچ زیادہ تر جزبات پر منحصر رہی ہے اسی لیے’ سیاسی ‘ کے لحاظ سے دشمن کی پہچان بھی جذبات کے تحت کی گئی۔ زیادہ تر کارکن جب بھی اسٹوڈنٹ لائف کے بعد اپنے سماج اور ارد گرد کی حقیقت کو سمجھتے تو اپنے ماضی سے اس قدر شرمندہ ہوتے کہ اپنی سیاسی ناپختگی اور تنگ نظری کی بجائے ناکامی کا سارا ملبہ آزادی کی تحریک پر ڈالتے اور اپنی ذات کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ :: ’ہم تو آزادی کے لیے مخلص تھے لیکن آزادی کا مطالبہ جذباتی مطالبہ ہے ، آزادی کی سیاست حقیقت سے دور ہے اسی لیے ہم ناکام ہوئے ………. وغیرہ وغیرہ‘ ۔
بیشک آزادی کی جو جدوجہد ماضی اور حال میں کی گئی ان میں زیادو تر کارکنان کا سیاست سے لگاؤ جذبات اور قوم دوستی کی بنا پر تھا اور ہے لیکن سیاسی کارکنان کی جذباتی لگاؤ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آزادی کی سیاست صرف جذبات ہی پر قائم و دائم ہے۔ ریاست تشکیل دینے کے لیے ملک میں سیاسی کام، مسلح جدوجہد، ڈپلومیسی ، میڈیا پالیسی وغیرہ سب الگ الگ فیلڈز ہیں اور ان کاموں کو سر انجام دینے کے لیے جذبات سے زیادہ کمٹمنٹ، عقل او ر ایمانداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان تمام کاموں کے لیے سائنسی طریقہ کار اور پروفیشنل ازم درکار ہے۔ اسی لیے آزادی کی تحریک کو ذاتی طور پر ناکامی کا شکار ہونے والے لوگوں کی طرف سے ’جذباتی تحریک ‘ کہنا ازخود انکی سیاست حوالے سے لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی ناپختگی صرف بی ایس او کے نوجوان کارکنان تک محدود نہیں ہے جو سوچ جو کہ جذبات اور ناپختگی کی پیداوار ہے وہ سوچ تمام آزادی پسند سیاسی اور مسلح تنظیموں میں یکساں پایا جاتا ہے چائے وہ بی این ایم ، بی آر پی ، بی آر اے، بی ایل ایف یا پھر بی ایل اے ہو۔ اگر ان سب کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی نہ کسی حد تک سب ’’دشمن ‘‘اور سیاسی’’ مخالفیں‘‘ کے درمیان فرق واضح کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مخالف کو ناصرف دشمن سمجھ کر اس سے دشمنوں جیسا برتاؤ کیا گیا بلکہ کچھ تنظیموں کی طرف سے سماج کے ان حصوں کو بھی زبر دستی چھیڑا گیا جو نہ مخالف کے زمرے میں آتے ہیں نا ہی دشمن کے۔ ان تمام پہلوؤں پر تفصیلی بحث ضروری ہے تاکہ دشمن حوالے سے مزید وضاحت کی جاسکے اسی لیے ان تمام پہلوؤں کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

اول: قبائلی نظام ، سردار اور سماج:
ؓبلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اور یہاں پر بسنے والے بلوچوں کا مزاج بھی قبائلی ہے۔ قبائلی نظام اور قبائلی مزاج الگ الگ شے ہیں۔ مکران میں اگر بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی طرح قبائلی نظام موجود نہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ یہاں کے لوگ غیر قبائلی ہیں۔ مکران سمیت بلوچستان کے تمام علاقوں میں قبائلیت، سماج اور لوگوں کی زندگیوں پر گہرے اثرات رکھتی ہے۔ اسی لیے میرے نزدیک بلوچ قوم اور قبائلیت کو الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں قبائلی سوچ مضبوط اور کچھ علاقوں میں کمزور ہے۔ اس قبائلی نظام اور سوچ کی ستونوں پر ہی موجودہ بلوچ معاشرہ وجود رکھتا ہے۔ قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب معاشرے قبائلیت سے نکل کر جدید شکل اختیار کرتی ہیں جہاں پر تمام وفاداریاں قومی ریاست، قومی قانون اور قومی مفادات سے کی جاتی ہیں ۔ ایسے معاشروں میں علاقہ، رشتہ داری اور قبائل وغیرہ ثانوی حیثیت رکھتی ہیں ۔ معاشروں کوصرف ریاستی طاقت کے ذریعے ہی ترقی دی جا سکتی ہے ، اسی لیے بلوچستان کے سماجی ساخت میں مثبت تبدیلی ، ترقی اور برابری صرف ریاست کی طاقت سے ہی لائی جاسکتی ہے جو کہ بعداز آزادی ہی ممکن ہے لیکن ہمارے یہاں سماجی آزادی ، انقلاب ، اور تمام ترقی کا ٹھیکہ آزادی پسند تنظیموں نے اٹھا رکھا ہے۔ کوئی سماج کو تبدیل کرنے پر تلا ہوا ہے تو کوئی مڈل کلاس کا ترجمان بنا پھر تا ہے ۔ شاہد ان کے علم میں نہیں کہ نیشنلزم کا بنیادی مقصد تمام قوم کو یکجاہ کرنا ہوتا ہے نیشنلزم کے تحت جدوجہد کرنے والے نہ قبائلی مفادات کو دیکھتے ہیں نا ہی طبقاتی مفادات کو۔ اس کی ایک معمولی سی مثال ہمیں یہودی قوم پرستی سے ملتی ہے۔ سیاسی طور پر یہودیوں کے لیڈر ڈیوڈ بنگورین سوشلزم کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے ، یہودیوں کی قومی تحریک بہت سے نظریات اور سیاسی سوچ رکھنے والی پارٹیوں پر مشتمل تھی جہاں پر ڈیوڈ بنگورین کی پارٹی لیبر زایونسٹ سوشلسٹ گروپ کی سب سے بڑی پارٹی تھی۔ بنگورین سوشلزم پر بلوچستان میں موجود نام نہاد مڈل کلاسوں سے زیادہ علم اور پختگی رکھتے تھے۔ سوشلسٹوں کے نزدیک سرمایہ دار ان کے دشمن ہیں اور ان کی جدوجہد سرمایہ داروں کے خلاف ہے۔ لیکن بنگورین دنیا کے سب سے مشہوراور طاقتور سرمایہ دار خاندان روتھشیلڈ (Rothschild) سے تحریک کے لیے بھرپور کمک لیتے ہیں یہاں تک کہ یہودیوں کی آبادکاری سے لیکر اسرائیل کی پارلیمان کی عمارت بنانے تک تمام مالی امداد اسی خاندان کی طرف سے دی جاتی ہے مگر بنگورین یہودیوں کی سب سے بڑی سوشلسٹ پارٹی کا سربراہ ہوتے ہوئے بھی سوشلزم پر قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور یہودی سرمایہ داروں کی بھرپور مدد لیتے ہیں کیونکہ بنگورین اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ قومی جنگوں میں مڈل کلاسی بھڑک بازی سے زیادہ قومی مفادات کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ دوسری طرف آج بھی بلوچ آزادی پسند وں میں ایسے ایسے سوشلسٹ اور مڈل کلاس بھڑک باز دیکھنے کو ملتے ہیں جو نہ سوشلزم کے بنیادی اصولوں کو سمجھتے ہیں نا ہی نیشنلزم کے اجزا کو۔ بنیادی سیاست کو سمجھے بغیر ایسے لوگ قومی پالیسیاں بناتے ہیں جو کہ پرتضاد ، تنگ نظر اور بے وقوفانہ ہوتی ہیں ۔ ایسے لوگ قوم کے ایک حصے کو دوسرے حصے اور ایک طبقے کو دوسرے طبقے کے خلاف کرنے کی کوشش میں آج بھی لگے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں موجود سردار ہمارے دشمن نہیں ہیں اس لیے کسی بھی پارٹی یا تنظیم کی طرف سے فقط جذبات کی بنا پر اور مڈل کلاسی بھڑک بازی کے تحت بلوچ قبائلی سرداروں کو ا پنا دشمن قرار دینا میرے نزدیک بلوچ قومی طاقت کو کمزور اور بلوچ قوم کے ایک حصے کو دوسرے حصے کے خلاف کرنا ہے۔ کارل اشیمت نے سیاسی دشمن کو واضح طور پر بیان کیا ہے اسی وضاحت کے تحت نہ ہی بلوچ قبائلی سردار ہم سے الگ ہیں، نہ وہ شناخت حوالے یا قومی حوالے سے اجنبی ہیں۔ سردار اسی طرح بلوچ قوم اور بلوچ معاشرے کا حصہ ہیں کہ جس طرح آزادی پسندوں میں موجود مڈل کلاسی بھڑک باز ہیں ۔
اگر قبائلی سرداروں ، میر و معتبروں کو فقط اس بنا پر دشمن قرار دیا جاتا ہے کہ سماج میں موجود تاریخی اور ارتقائی طور پر تشکیل شدہ درجہ بندی میں سردار وں کی حیثیت سماج میں موجود دوسرے افراد سے قبائلی طورپر زیادہ ہے تو میرے نزدیک یہ سیاست سے زیادہ قسمت کا فیصلہ ہے۔ بلوچ قوم اور بلوچ سماج اس حوالے سے منفرد نہیں کیونکہ دنیا کے تمام قوموں میں ضروریات کے مطابق طبقاتی درجہ بندی وجود میں آئی ہے۔ جیسے کہ برطانیہ میں لارڈز اور جاپان میں دائمیوں سماجی درجہ بندی میں اس طرح کی حیثیت رکھتے تھے کہ جس طرح بلوچ قبائلی اور سماجی ڈھانچے میں سرادر اپنی حیثیت رکھتے ہیں۔
قبائلی نظام اور قبائلی مزاج سے جد ت کی جانب سفر ایک ارتقائی عمل ہے۔ اس ارتقائی عمل میں سیاست، معاشیات، تعلیم اور سماجی عوامل مل کراقوام کو ترقی دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ آزادی پسند تنظیم یا فرد کی طرف سے ’جدوجہد سماج کی آزادی تک‘ کا دعوی ان کی سیاست سے کم علمی، حکمت عملی کا فقدان اور لفاظیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیونکہ سماج کی آزادی کا ٹھیکہ اٹھانا کسی آزادی پسند تنظیم یا اس میں موجود کسی ذمہ دار کی بس کی بات نہیں یہ ذمہ داری آزاد ریاست کے اداروں اور حکومت کی ہوگی کہ وہ کس طرح اور کس سمت سماج کی آزادی کو لیجانا چاہیں گے ( سماج اور ریاست کے مسئلے پر مضمون : ’’ادارے،لیڈر اور سماج میں مداخلت ‘‘ ، میں تفصیلی بحث کی گئی ہے) ۔ سیاسی حلقوں میں خود ساختہ انقلابیوں کی طرف سے رسم و رواج کو فرسودہ قرار دے کر تنظیمی طاقت کو عورتوں کی آزادی کے لیے استعمال کرنے کے خوائش مند افراد بھی تشکیلِ ریاست کی عمل سے لاعلم ہیں ۔ اسی لیے یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ان کے نزدیک کبھی بنیادی قبائلی نظام ان کا دشمن ہے تو کبھی وہ ’فرسودہ روایات ‘ کا نام لیکر سماج میں ہر روز ایک نیا دشمن تلاش کرتے ہیں۔ بلوچ چاگرد ، ہمارا قائم شدہ معاشر ہ اور اس کے موجود ہ اجزا ہمارے کسی طرح سے سیاسی دشمن نہیں اور کسی بھی سیاسی یا مسلح پارٹی کی طرف سے بلوچ قوم کے ایک حصے کو دوسرے حصے کے خلاف کرنا میرے نزدیک آزادی کی تحریک کو مزید نقصان دینے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی فرد ، تنظیم یا کوئی سیاسی سوچ رکھنے والوں کا اجتماع آزادی کی جدوجہد میں مڈل کلاسی اور سرداروں و قبائل کے نام پر قوم کو تقسیم در تقسیم کرنا چاہتا ہے تو ایسے افراد اور تنظیموں کی ہمیں کھل کر حوصلہ شکنی کرنی ہوگی کیونکہ یہ مسئلہ ایک پالیسی یا فردی رائے کا نہیں بلکہ یہ سوچ نیشنلزم کی بنیادی اصولوں کے خلاف سوچ ہے جو کہ آگے چل کر ہماری تحریک کے لیے مزید مشکلات کا سبب بنے گی۔

دوم : مذہب، بلوچ علما، داعش کا شوشہ اور بلوچ معاشرہ:
بلوچستان کی سیاست میں مذہب کے حوالے سے تضاد کا آغاز بی ایس او کی طرف سے اس وقت کیا گیا جب روس اور امریکہ کی سرد جنگ کے دوران بلوچستان کے زیادہ تر قوم پرستوں نے کمیونزم کی طرف جھکاؤ کیا تب جذباتی اور آئیڈیلسٹ نوجوانوں نے کمیونزم کی چند کتابوں کا رٹہ لگا کر بلوچ معاشرے میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا کہ جس سے یہ تاثر عام ہوا کہ آزاد بلوچستان کے لیے جدوجہد کرنے والے مذہب کے خلاف ہیں اور یہ سوویت یونین کی طرح انقلاب لاکر مذہب پر پابندی لگانا چاہتے ہیں ۔ ستر کی دہائی میں نوجوان سیاسی قیادت اپنی قوم کو سمجھنے میں ناکام رہی اور وہ اس حقیقت کو سمجھ نہیں سکی کہ ایک قوم میں طرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں اگر چند افراد خدا پر یقین نہیں رکھتے تو زیادہ تر لوگ مذہب کو مانتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں۔ اگر قوم کو ساتھ لیکر چلنا ہے تو تمام بلوچوں کو ایک حساب سے دیکھنا ہوگا چاہئے کوئی مذہب مخالف ہو یا مذہب پرست ہو، کوئی زکری ہو یا نمازی ہو۔ یا کوئی بلوچ عیسائی ہو یا ہندو ہو۔ نیشنلزم کا کام قوم کو ایک مقصد کے لیے متحد کرنا ہوتا ہے ناکہ مذہب، قبائل اور طبقے پر سیاست کرکے اپنی قوم کو مزید تقسیم در تقسیم کرنا۔ کل اگر جذباتی سیاست کرنے والے سرد جنگ کے دوران یہ کام سر انجام دے رہے تھے تو آج مڈ ل کلاسی بھڑک باز سوچ سمجھ کر ایک ایسا مذہبی تضاد پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ جس کی آگ نسل در نسل بجھانے سے بھی نہیں بجھے گی۔ بلوچ قوم کی نوے فیصد آبادی مذہب کو مانتی ہے، اگر ان کو مذہب پرست نہیں کہا جاسکتا تو میرے نزدیک بلوچ کو مذہب مخالف کہنا بھی غلط ہوگا۔ بلوچ سیکولر قوم ہے جو کہ سیاست اور مذہب کو الگ الگ طریقے سے دیکھتی ہے اور ہزاروں سال سے بلوچستان میں مختلف مذاہب کو ماننے والے ایک ساتھ زندگی گزارتے آرہے ہیں۔ ایک بلوچ کا دوسرے بلوچ سے رشتہ یا سماجی تعلق بلوچ رسم رواج کی بنا پرقائم ہے جس میں مذہب کا کوئی عمل و دخل شامل نہیں ، بلوچ کے رسم رواج بلوچ معاشرے کے قانون ہیں جس کی بنیاد آج بھی مذہبی نظریوں یا سیاسی نظریوں سے زیادہ مضبوط ہے۔ دوسری طرف اگر قابض پنجابی کو دیکھا جائے تو بلوچ پنجابی مسلمانوں کی طرح درندے نہیں ،اس کی واضح مثال پنجابی کا دوسرے پنجابی سے مذہب کے نام پر برتاؤ ہے۔ پنجابی مسلمانوں کی طرف سے پنجابی ہندو یا عیسائیوں کا قتل، زندہ جلانا ، عیسائی پنجابیوں کی عورتوں کو مسلمان پنجابیوں کی طرف سے زنا بلجبر کا شکار کرنا وغیرہ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ پنجابی مسلمان ایسے درندوں کے مانند ہیں جو مذہب کے نام پر اپنے قوم کی عورتوں کو بھی نہیں بخشتے۔
پنجابی ریاست نے ہمیشہ مذہب کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ مذہب کے نام پر ہندوستان کو تقسیم کیا گیا اور اس کے بعد ’پنجابی اسلام‘ کے ٹھیکے داروں نے بنگلہ دیش میں لاکھوں مسلمان بنگالیوں کا قتل اور عورتوں کا ریپ کیا۔ جبکہ بلوچ نے اپنی تاریخ میں کبھی بھی مذہب سے کھلواڑ نہیں کی۔
بلوچ اگر مسلمان ہو یا غیر مسلم، ہندو ہو یا عیسائی ، وہ تاریخی طور پر ایک دوسرے کو فقط بلوچ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی لیے میرے نزدیک نہ کسی مذہب پسند یا دین دار فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی پر اپنا مذہبی نظریہ تھونپے نہ ہی کسی غیر مذہب فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ زبردستی کسی مذہب پسند پر اپنے نظریات سیاست کے نام پر مسلط کرے۔ مگر قائم شدہ بلوچ مزاج اور اصولوں کے برعکس بد قسمتی سے بلوچ کی اس سماجی اور قومی قوت کو آج چند بے وقوف کمانڈر اور سیاسی کارکن برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔یہ چند افراد اور ان کی تنظیمیں نا عالمی سیاست کا علم رکھتی ہیں نا ہی بلوچ معاشرے کو سمجھتی ہیں۔ جب شام میں بشار الاسد کے خلاف انقلاب نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کی تب اس بغاوت نے ایک طرف کردوں کو تاریخی موقع فراہم کیا تو دوسری طرف اس جنگ نے داعش کو دنیا کی سب سے خطرناک اسلامی شدت پسند تنظیم کے طور پر ا بھارا۔ اسی دوران کردوں نے اسے ایک انمو ل سیاسی موقع سمجھ کر اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اورانہوں نے داعش کے خلاف جنگ میں موثر نتائج حاصل کئے جس میں عرب قبائل ناکام رہے ۔ عراق اور شام میں داعش کے ساتھ بہت سے ایسے گروپ بھی شامل ہوئے جن کو ایک وقت تک امریکہ بشار الا سد کے خلاف استعمال کر رہا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اول داعش شام اور عراق کے حالات کی وجہ سے مضبوط ہوئی، دوئم چونکہ امریکہ نے وہاں بہت سے سنی گروپوں کو پہلے سپورٹ کیا تھا جو بعد میں داعش کے ساتھ ملے اسی لیے امریکہ داعش کے بارے میں ایک حد تک دوسروں سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ آج کل پاکستان اورافغانستان میں بھی داعش کی موجود ہونے کی بات پاکستانی حکومت اور افغانستان کی طرف سے کی جارہی ہے جبکہ بلوچ مسلح تنظیم بی ایل ایف کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے کہ داعش بلوچستان کے تمام بلوچ علاقوں میں موجود ہے ۔ اس تنظیم نے اس سے پہلے بھی پاکستانی دلالوں کو لشکر خراسان کا نام دے کر اسلامی شدت پسند ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان کی طرف سے بھی اکثر اس بات کو عام کیا جاتا ہے کہ بلوچستان میں اسلامی شدت پسند ہیں اور ان کو شکست دینے کے لیے پاکستان عالمی سطح پر کچکول ہاتھ میں لیے پھرتا رہتا ہے۔ پاکستان اگر اسلامی شدت پسندی کا شوشہ چھوڑتا ہے تو اس سے پاکستان کے مفاد وابستہ ہیں۔اگر آزادی پسند تنظیمیں بھی پاکستان کے پروپیگنڈا کو تنظیمی پالیسی بنا تی ہیں تو اس سے ہزاروں سوالات جنم لیتے ہیں ۔بلوچستان میں اگر کوئی اسلامی شد ت پسند وجود رکھتا ہے تو وہ پاکستان کے بنائے ہوئے ہیں جو کہ پاکستان کے اشاروں پر عمل کرتے ہیں اور ان تنظیموں کی کوئی آزاد حیثیت نہیں ہے۔بہت سی جگہ بی ایل ایف کی طرف سے پاکستانی دلالوں کے ساتھ جھڑپ کو اسلامی شدت پسند تنظیموں کے ساتھ جھڑپ قرار دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کے ضلعی سیاسی تنظیمیں بھی اس بات پر ز ور دیتی ہیں کہ بلوچستان میں ان کا مقابلہ اسلامی شدت پسندوں
سے ہورہا ہے۔ ان تنظیموں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان کردستان نہیں ہے ۔ ان کی یہ پالیسی جہاں وہ عالمی سیاست سے متاثر ہوکر زمینی حقائق کو رد کررہے ہیں اس جیسی آئیڈیلسٹ پالیسیا ں قومی تحریک کے لیے نقصاندہ ہیں کیونکہ حقائق ان تنظیموں کے دعوؤں کے برعکس ہیں ۔ بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں اسلامی شدت پسند گروپ وجود نہیں رکھتے اور بلوچ تحریک کے خلاف سرگرم زیادہ تر لوگ ریاست پاکستان کے دلال ہیں ۔ اس طرح کے دلال دنیا کے تمام آزادی کی جدوجہدوں کے دوران دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے ۔ مسلح اور سیاسی تنظیمیں جو داعش اور لشکر خراسان کا شوشہ چھوڑ تے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا اتنی بے وقوف ہے کہ ان کے بیانات کو پڑھ کر ان کو سپورٹ کرے گی اور دوسری طرف یہی تنظیمیں اپنے بیانوں میں بلوچ عوام سے مخاطب ہو کر عالمی طاقتوں کے خلاف بھڑک بازی کرتے ہیں مگر حقیقت میں امریکہ اور یورپ کو خوش کرنے کے لیے یہ اتنے ا تاؤلے ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ بلوچ معاشرے، سیاست اور تحریک پر ان کے مذ ہب مخالف پروپیگنڈے سے کیا اثرات پڑرہے ہیں۔
مارچ ۲۰۱۷ کو بی ایل ایف کی طرف سے ایک بلوچ کو قتل اور اسکے دو ساتھیوں کو گرفتار کرنے کے بعد بیان دیا گیا کہ ’پیر کے روز ضلع گوادر کے تحصیل پسنی میں شے رمضان زیارت کے مقام پر عالمی دہشت گرد تنظیم داعش و لشکرخراسان کے اہم کارندے بلال عرف بادشاہ کو ہلاک کیا ‘۔ میں چونکہ بلال عرف بادشاہ کے کردار کے بارے میں علم نہیں رکھتا اسی لیے اسے گناہ گار یا بے گناہ قرار دینا میرے لیے مناسب نہیں مگر اس بیان میں داعش و لشکر خراسان کے حوالے سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔ اول،داعش ، دولتِ اسلامیہ فی لعراق والشام کا مخفف ہے۔ یعنی اسلامی حکومت عراق اور شام میں، نام داعش اس تنظیم کے مقاصد کو خود واضح کرتی ہے ۔ داعش خراسان کا نام 2014 کے آخر میں سامنے آیا اور تمام عالمی تجزیہ نگار سمیت افغان حکومت اسے پاکستان کی پیداوار سمجھتے ہیں۔
فروری ۲۰۱۷ کو افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل نکول سن نے امریکی کانگریس کی سینیٹ کمیٹی کے اجلاس کے دوران کمیٹی ممبران کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں موجود داعش کا عالمی تنظیم داعش سے کوئی تعلق نہیں، یہ تمام لوگ زیادہ تر پاکستانی اور ازبک ہیں جو کہ تنظیمی طور اپنے آپ کو نیا چہرہ دینا چاہتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چند بلوچ تنظیمیں عالمی حالات کو سمجھے بغیر ان حالات سے متاثر ہوکر ایک طرف بلوچستان اور بلوچ معاشرے میں نئے دشمن پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف اپنی نازانتی سے بلوچ قومی تحریک کی ساکھ کو عالمی سطح پر نقصان پہنچار ہے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام عالمی طاقتیں داعش اور دوسری تنظیموں کے بارے میں علم رکھتے ہیں اسی لیے چند بلوچ تنظیموں کی طرف سے اس طرح کے سفید جھوٹ بلوچ قومی موقف کو نقصانات سے دوچار کررہی ہے۔ داعش اور چند تنظیموں کے حوالے بیانات سے قطع نظر ، بلوچ قوم میں موجود اسلام دوست علماء نے ہمیشہ پاکستانی جارہیت کی مخالفت اور آزاد بلوچستان کی حمایت کی ہے۔ بی ایل ایف اور بی آر اے نے پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں ان علما اور جہد کاروں پر بھی طاقت کا استعمال کیا ہے جو کہ ایران کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اس حوالے سے بلوچ رہنما حیربیار مری نے اپنے سینکڑوں بیانات میں اس بات کی وضاحت کی ہے
کہ بلوچ قومی تحریک بلوچ علما کے خلاف نہیں، اس کے ساتھ ساتھ اتحاد کے لیے سیاسی کمیٹیوں کے شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ ’’ بلوچ قوم کی طرف سے عطا کردہ طاقت کو بلوچ کے خلاف استعمال کرنا، سماجی مسائل میں دخل اندازی کرکے رسم و رواج کو پامال کرنا یا کسی بھی قوت کا پراکسی بن کر بلوچوں کے خلاف دشمن کی مدد کرنا جیسے پالیسیوں کو مکمل ترک کیا جائے‘‘۔ یعنی وہ اس حکمت عملی کے خلاف ہیں کہ جس کے تحت ایک بلوچ کسی دوسرے دشمن ریاست سے کمک لیکر بلوچ کے خلاف استعمال ہو، نہ وہ اس بات کے حق میں ہیں کہ ایران کے خلاف برسر پیکار بلوچ پاکستان سے نذدیکی کریں اور پاکستان کے خلاف جہد کاروں کو نقصان دیں ، نا ہی حیربیار مری اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف برسرپیکار بلوچ ایران کی مدد لے کر ان بلوچوں کو نشانہ بنائیں جو کہ ایران کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ۔
اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کے حقیقی عالم دین آزادی کے لیے ہمیشہ سے ہمدردی رکھتے تھے موجودہ بلوچ تحریک میں بلوچ علما نے اپنی قوم کا ساتھ دیا ،جن میں قابل ذکر مولانا عبدالحق بلوچ ہیں ۔ انہوں نے عوام میں آزادی کے حوالے سے شعور پیدا کرنے میں ایک انتہائی مثبت کردار ادا کیا۔ جماعت اسلامی کا رہنما ہوتے ہوئے بھی آپ نے قومی مفادات اور بلوچ قوم دوستی کو پروان چڑھایا۔ بد قسمتی سے ۷۰ کے دوران بلوچ نوجوانوں کی طرف سے کمونیزم کے نام پر مذہب دشمنی کی بنا پر بلوچستان پر پاکستانی قبضہ گیریت کی تاریخ کا صرف آدھا سچ عوام کے سامنے لایاجاتاہے اور ہمیشہ ان ہی چیزوں کی تشہیر کی گئی جن سے بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے لوگ مطمئن تھے ۔ بلوچستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے میر غوث بخش بزنجو کی تقریر بلوچ سیاسی تاریخ کا ایک انمول حصہ قرار جاتا ہے جہاں وہ آزادی برقرار رکھنے کے حق میں اور پاکستان سے الحاق کے خلاف بیان دیتے ہیں مگر اسی دن اسی ایوان میں دو بلوچ علما ء مولوی عضر محمد اور مولوی محمد عمر پاکستان اور ان کے حمایتوں پر بلوچستان کے پارلیمان میں سوالات اٹھاتے ہیں، مولوی عضر محمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں شراب اور جسم فروشی عام ہے، پہلے پاکستان اپنے آپ کو پاک کرے اور اس کے بعد ہم سے کسی یونین کی بات کرے جبکہ مولوی محمد عمر بھی پاکستان مخالف قرارداد کی حمایت کرتے ہیں اور قلات کے اس وقت کے وزیر اعظم کے کردار پر پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے پرا عتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ ہمارے وزیر اعظم ہیں یا کہ پاکستان کے وکیل؟تاریخی حوالے سے بلوچستان میں بلوچ تحریک آزادی اور اسلام دوست بلوچ طبقوں کے درمیان کوئی اختلاف موجود تھا نہ ہی ایسا کوئی اختلاف آج وجود رکھتا ہے۔ بلوچ تحریک میں موجود ناپختہ کارکنان، تنگ نظر رہنماؤں اور نام نہاد انقلابیوں نے ہمیشہ جان بوجھ کر تحریک اور علماء کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ستر میں نوجوانوں نے خود بلوچ سماج کو اپنی بچکانہ حرکتوں کی وجہ سے منتشر کیا اور اب ہوبہو و ہی حرکتیں چند بلوچ مسلح تنظیمیں اور ان سے منسلک سیاسی تنظیمیں کررہی ہیں ۔ جہاں کبھی بلوچ سرداروں کو دشمن قرار دیا جاتا ہے تو کبھی داعش کا شوشہ چھوڑ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ستر سال قبل مولوی عضر محمد پاکستان کو ناپاک سمجھتے تھے اور مولوی محمد عمر بلوچستان اور پاکستان کو الگ الگ سمجھتے تھے اسی طرح موجودہ تحریک کے دوران بھی مولانا عبدالحق جیسے عالم دین نے بلوچ سرمچاروں اور تحریک آزادی کی مکمل حمایت کی تھی۔ ہمیں شہید مولانا عبدالکبیر قمبرانی کے کردار کو بھی یاد کرنا ہوگا جو کہ بلوچ قومی آزادی کے حمایتی تھے،جب ’پنجابی اسلام ‘ کے ٹھیکے داروں نے بلوچ شہیدوں کے نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کیا تب مولانا عبدالکبیر بلوچ شہیدوں کی نمازہ جنازہ پڑھاتے ، اور ہر جمعہ نماز کی تقریر کے دوران سرمچاروں کی حمایت اور قومی آزادی کے حوالے سے لوگوں کی ذہن سازی کرتے تھے اس لئے آپ کو پنجابی اسلام رد کرنے کی وجہ سے 11 اپریل 2011 کو شہید کردیا گیا۔ اس کے علاوہ بلوچ علماء فورم جیسی تنظیموں سمیت آج بھی بلوچستان میں موجود زیادہ تر اسلام دوست اور حقیقی علما پاکستان سے نفرت اور بلوچستان کی آزادی کے لیے جہد کو بر حق سمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں موجود حقیقی علما ء نہ کل ہمارے دشمن تھے اور نہ وہ آج ہمارے دشمن ہیں ۔ بلوچ ایک قوم ہے اور آزاد بلوچستان پر بلوچ قوم کے تمام افرادکا اتنا ہی حق ہے جتنا حق بلوچستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا ہے۔ بلوچستان میں موجود سنجیدہ مسلح اور سیاسی قوتوں پر لازم ہے کہ وہ چند بچکانہ سوچ رکھنے والی تنظیموں کی طرف سے بلوچ علما ء اور مذہب کے خلاف منفی پروپیگنڈا کو ’الگ الگ تنظیمیں، الگ الگ پالیسیاں ‘ والے فلسفہ کے تحت نظرانداز کر نے کے بجائے اس بات کو ممکن بنائیں کہ ان چند تنظیموں کی بچکانہ حرکتیں قومی تحریک کو زمینی اور عالمی سطح پر نقصانات سے دوچار نہ کریں۔

سوئم: سرکاری ملازمین
بلوچستان میں متبادل معیشت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ ضرورتِ زندگی پورا کرنے کے لیے سرکاری نوکری کرتے ہیں۔ سرکاری نوکر ی کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔ مگر چند آزادی پسندوں نے بلوچ سرکاری ملازمین کو دشمن قرار دے کر ان پر طاقت کے استعمال کو اپنا قومی حق سمجھ رکھا ہے۔ اگر کوئی سرکاری بیوروکریسی میں کا م کرتا ہے، یا پولیس کا ایک حوالدار ہے کوئی بی اینڈ آر میں ملازمت کررہا ہو یا پھرفشریز میں، چند تنظیموں کے نذ دیک سرکاری نوکری کرنا غداری کا مرتکب ہونا ہے۔ لیکن اکثر آزادی پسند تنظیمیں اس بات کی وضاحت نہیں کر پاتیں کہ اگر تمام سرکاری نوکریاں غداری اور تحریک سے دشمنی کے زمرے میں آتی ہیں تو کیا اس منطق کے تحت شہید صبا دشتیاری، شہید عارف نور، شہید ماسٹر نذر سمیت دوسرے شہید بھی سرکاری ملازم ہوتے ہوئے تحریک دشمن تھے ؟ ؟
جن تنظیموں کی طرف سے سرکاری نوکری کرنے والوں پر سب سے زیادہ دباؤ ڈالا جاتا ہے ان کے اپنے مرکزی رہنما تنظیم میں رہتے ہوئے سرکاری نوکری کیا کرتے تھے۔ یعنی جو جہدکار سرکاری نوکر ہے وہ وطن پرست اور جو سرکاری نوکر عام بلوچ اور آزادی پسند تنظیموں کا کا رکن نہیں وہ دشمن ! کارل اشیمت کی تحریروں کے ذریعے اگر دشمن کو پہنچاننے کی کوشش کی جائے تو میرے خیال سے بلوچ سرکاری نوکروں کو کسی صورت دشمن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نہ یہ نوکر نسلی حوالے سے پنجابی ہیں، نہ یہ ہم سے الگ ہیں اور نہ ہی یہ لوگ بلوچ نسل کشی میں حصے دار ہیں۔اس کے باوجود گذزشتہ ایک عرصے سے بلوچ قومی تحریک میں موجود زیادہ تر تنظیمیں سرکاری نوکری حوالے سے تنگ نظری کا شکار ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری نوکر چونکہ ان کی طرح جہد کار نہیں اسی لیے وہ بلوچ اور بلوچستان کے غدار ہیں یا مخلصی حوالے سے قوم پرستی کے شرائط پر پورا نہیں اترتے ۔اس طرح کی سوچ رکھنے والے ا فراد اور تنظیمیں ، جدوجہد کے حقیقی اصولوں سے ناواقف ہیں اور وہ اپنی آدرشوادی نظریات کو حقیقی دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں جو کہ جہد کاروں اور عوام کی دوری کا باعث بن رہا ہے۔ اگر تنظیمی طور پر دیکھا جائے تو بی ایس او آزاد نے سرکاری نوکری حوالے سے تنظیمی سطح پر اپنی پالیسیوں کی کھل کر تشہیر کی ہے۔ بیانوں اور پالیسیوں کے ذریعے یہ تاثر دیا گیا کہ جو بھی سرکاری نوکر ہے یا نوکری کرے گا اس کا بی ایس او سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ اس طرح کے جذباتی سیاسی پالیسیوں نے نا صرف بی ایس او بلکہ تمام سیاسی تنظیموں کو نقصان پہنچایا ہے کیونکہ جو سیاسی افراد تعلیم سے فارغ ہوکر بی این ایم ، بی آر پی یا دوسری تنظیموں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں وہ اسی سوچ کے تحت سیاست کرتے جو سوچ ان کو بی ایس او کے ذریعے ورثے میں ملتی آرہی ہے۔
یہ سوچ آہستہ آہستہ بلوچ قومی تحریک کی غیر اعلانیہ پالیسی بنتی گئی اور اب یہ سوچ تمام تنظیموں پر حاوی ہے۔( 2009 میں طاقت کے استعمال پر حیربیار مری نے اندرونی سطح پر آزادی پسند تنظیموں سے اختلاف رکھا لیکن زیادہ تر آزادی پسند تنظیموں کی طرف سے اپنی ان پالیسیوں کا بھرپور دفاع کرنے کے بعد حیربیارمری نے آزادی پسند وں کے درمیان پالیسی حوالے اختلافات کا ذکر اپنے ایک بیان میں کیا )۔ حقیقتا بلوچ سرکاری ڈاکٹر، پروفیسر، ٹیچرز ،وکیل پولیس ، لیویز وغیرہ بلوچ جدوجہد کے خلاف نہیں تھے اور پولیس اور لیویز بلوچ جدوجہد کے لیے ہمدردی رکھتے تھے یہاں تک کہ لیویز اہلکار باقاعدہ بلوچ تحریک سے وابستہ تھے۔ آج بھی سرکاری نوکریوں پر فائز بلوچ افسران بلوچ جدوجہد کی کامیابی چاہتے ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ایک آزاد بلوچستان میں ہی وہ قومی شناخت قائم رکھتے ہوئے ترقی کرسکتے ہیں۔
آزادی کی جدوجہد عشروں اور صدیوں تک چلتی ہے جہاں پر سیاسی پالیسیاں بھی طویل مدتی ہوا کرتی ہیں۔ معاشی لحاظ سے فلسطین بلوچستان سے زیادہ خوشحال ہے، بائیس عرب ممالک کو اگر دیکھا جائے تو فلسطینی متو قع عمر کے لحاظ سے نویں نمبر پر ہیں جبکہ بلوچ بڑی مشکل حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں ، مسلم ممالک بشمول پاکستان جس فلسطین کے لیے دن رات شور مچا تے رہتے ہیں ان کی معیار زندگی اور معاشی حالت بلوچ قوم سے ہزار گناہ بہتر ہے۔ پاکستان بلوچ آزادی کے خلاف ہے اور دوسری طرف اپنے آپ کو اسلام کا چیمپئین ظاہر کرنے کے لیے فلسطین کی آزادی کا رٹہ لگا تا رہتا ہے مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اسرائیل سے زیادہ ظلم اور زیاتی فلسطینیوں پر پنجابی فوج نے کی ہے۔1970 کو جب فلسطینی آزادی پسندوں اور اردن کے بادشاہ کے درمیان اختلافات جنم لیتے ہیں تو فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے پاکستانی فوج ضیاء الحق کی قیادت میں قتل و غارت کی مہم شروع کرتی ہے۔ جہاں پر پچیس ہزار کے قریب آزادی پسند فلسطینیوں کا قتل کیا جاتا ہے۔پاکستانی ریاست ان حقائق کو پاکستانی سطح پر ہر وقت چھپانے کی جستجو کرتی رہی ہے۔ جس فلسطین کو آج دنیا کی سب سے لاچار قوم کے طور پر دکھایا جاتا ہے وہ بلوچ قوم سے ہزاروں گناہ زیادہ پرآسائش زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچ کو درپیش مسائل اور زمینی حقائق کو سمجھے بغیر چند آزادی پسند مسلح تنظیموں کی طرف سے بلوچ سرکاری ملازمین پر طاقت کا استعمال ہورہا ہے ۔ جو سوچنے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ عام بلوچ انتہائی کٹھن زندگی گزار رہے ہیں ۔
بلوچستان کے عوام کوفلسطین کی طرح کروڑوں ڈالر کی عالمی امداد نہیں ملتی۔ ہمارے یہاں موجود سرکاری ملازمین اپنے پورے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں اور ایسے افراد نہ تحریک کے خلاف کام کررہے ہوتے ہیں نہ ہی دلالوں کی طرح بلوچ کے قتل میں ملوث ہوتے ہیں ان کا گناہ کبیرہ فقط سرکاری ملازم ہونا ہے۔میرے نذ دیک ان پالیسوں اور حکمت عملی کی نشاندہی بے حد ضروری ہے کیونکہ ان پالیسیوں کی وجہ سے آزادی پسند اپنی ایک الگ ہی دنیا میں زندگی بسر کررہے ہیں جہاں وہ نہ عام بلوچ کے مسائل کو سمجھتے ہیں اور نہ معاشی حالات پر نظر رکھتے ہیں۔
اس طرح کا ایک واقع کا ذکر میں یہاں پر ضروری سمجھتا ہوں، کئی سال پہلے ایک بلوچ گلوکار جو بلوچ قوم پرست حلقوں میں بہت مشہور تھے وہ پاکستان کی ایک سرکاری پروگرام میں بحیثیت گلوکار اپنی خدمات پیش کرتے ہیں ۔ اس کے ردعمل میں بی ایس او کے نوجوان سمیت دوسرے قوم پرست جہدکار اس بات پر انتہائی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل کو قومی غداری سے تشبیہ دیتے ہیں ۔ بلوچستان میں گلوکار ہندوستانی یا پاکستانی گلوکاروں کی طرح کروڑوں روپے نہیں کماتے بلکہ وہ اپنے پیشے کے ذریعے فقط عزت کی زندگی گزار پاتے ہیں ۔ اسی لیے اگر کوئی کسی پروگرام میں معاشی اور دیگر مجبوریوں کے تحت شرکت کرتا ہے جہاں اس کے عمل سے قوم کو نقصان نہیں پہنچتا تو سیاسی تنظیموں کو اس کی مخالفت اور اس کے خلاف سیاسی محاذ کھولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حقائق کے برعکس اگر کوئی تنظیم کہتی ہے کہ سرکاری نوکری کرناغداری ہے یا پھر سرکاری محفلوں میں فنکاری کرنا غداری ہے تو کیا ایسی تنظیمیں تمام لوگوں کی معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکتی ہیں؟ اگر کسی گلوکار کے سرکاری محفلوں میں جانے پر ان کو اعتراض ہے تو کیا وہ اس گلوکار کو متبادل کام یا معاشی ذرائع فراہم کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں توان سیاسی تنظیموں اور ان کے کارکنان کو فاشسٹوں کی طرح سماج کے تمام پہلوؤں پر ڈیکٹیشن دینے کے بجائے اپنی بچکانہ سیاست پر نظرثانی کرنی ہوگی ۔ سرکاری نوکری کرنا بلوچستان کی مفلوج اور کمزور معاشی نظام کا باقاعدہ حصہ ہے اور ہزاروں لوگوں کی گزر بسر ان ہی نوکریوں پر ہے۔آج بلوچستان میں اصل دشمن سے زیادہ طاقت اپنے ہی لوگوں پر استعمال کی جارہی ہے جس کی تازہ مثال حالیہ دنوں میں ایک آزادی پسند مسلح تنظیم کی طرف سے مردم شماری کے نام پر بلوچستان کے چندعلاقوں میں بلوچ ٹیچرز پر اپنی طاقت کا استعمال ہے۔

میرے نذدیک تنظیم کی ان بچکانہ پالیسیوں نے تقریبا بلوچ قوم کے تمام حصوں کو دشمن قرار دیا ہے اور اب چند بچے کھچے ٹیچرز کو بھی مردشماری کے نام پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جہاں تک بات گوریلہ جنگ کی ہے تو پاکستانی فوج پر کہیں پر بھی حملہ کرنا جائز ہوگا چا ہئے وہ کسی مردم شماری میں حصہ لے رہے ہوں یا نہیں مگر موجودہ واقعات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مردم شماری کے نام پر زیادہ تر طاقت بلوچ اساتذہ یا بلوچ سرکاری نوکروں کے خلاف استعمال کی گئی ہے۔ مردم شماری ایک سیاسی مسئلہ ہے، اگر آزادی پسند تنظیموں کی طرف سے بیانات کے ذریعے اس بات کا اعلان کیا جاتا ہے کہ ریاستی سرپرستی میں مردم شماری جائز نہیں اور ہم اسے نہیں مانتے تو اس صورت آزادی پسندوں کو کچھ اور ثابت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ آزادی پسندوں کا واضح موقف ہے کہ پاکستان بلوچستان پر جبری قابض ہے اور ریاست کی انتظامی پالیسیاں بلوچ قوم کے خلاف ہیں۔ اسی منطق کے تحت بہت سے عالمی معاہدے جو بلوچستان کو لیکر پاکستان اور بیرونی طاقتوں کے درمیان ہوئے ہیں ان پر بھی ہمارے خدشات ہیں اور سیاسی طور پر ہم ان معاہدوں کی مخالفت کرتے آرہے ہیں اسی لیے آزاد بلوچستان میں ان معاہدوں کی کوئی قانونی یا سیاسی حیثیت نہیں ہوگی۔ اسی طرح بہت سے معاملوں میں مسلح تنظیموں سے زیادہ مثبت نتائج سیاسی پارٹیاں دے سکتی ہیں اس لیے ہماری پالیسیوں کی مرکزیت مسلح کے بجائے کثیرالابعاد ی ہونی چاہیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں مردم شماری کا مسئلہ صوبائی سیاست کرنے والوں کے لیے زیادہ اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے پاکستانی اسمبلی میں پارلیمانی سیٹ مختص ہونگی اور یہی وجہ ہے کہ ایک طرف بی این پی مینگل جیسی پارٹیاں تو دوسری طرف پختونخوا ملی عوامی پارٹی مردم شماری کو لیکر بلوچ اور پشتوں قوم کے درمیان دوریاں پیدا کررہی ہیں ۔ دونوں پارٹیوں کا مقصدبلوچ اور پشتون قوم کا مستقبل نہیں بلکہ پارلیمانی سیٹ اور پاکستانی سیاست ہے۔ بی این پی پنجابیوں کی طرح افغان پناہ گزینوں کو مردم شماری کے دوران مسئلہ بنارہی ہے اور کچھ آزادی پسند تنظیمیں بی این پی کی پالیسی سے متاثر ہوکربی این پی کے نقش قدم پر چل پڑی ہیں۔ ہمارا یہ واضع موقف رہا ہے کہ بلوچستان کی موجودہ سرحدیں جسے صوبہ بلوچستان کہا جاتا ہے وہ ہمارے نزدیک حقیقی بلوچستان نہیں ہے۔ اس بلوچستان میں افغان علاقے بھی شامل ہیں جن پر ہم نے کبھی سیاسی دعوی نہیں کیا کیونکہ یہ سرزمین افغانستان کی ہے جن پر ہزاروں سال سے افغان پشتون قوم آباد ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے کچھ علاقے افغانستان کے پاس ہیں اور اسی منطق کے تحت آج تک کسی افغان سرکار نے ڈیورنڈ لائن جو بلوچ اور افغان سرزمین کو تقسیم کرتی ہے اسے تسلیم نہیں کیا۔
اگر افغان ، صوبہ بلوچستان میں آباد ہو ئے بھی ہیں تو وہ زیادہ تر افغانستان کے سابقہ علاقوں میں آباد ہیں جن پر بلوچ آزادی پسندوں نے کبھی سیاسی دعوی نہیں کیا ۔ بی این پی ، نیشنل پارٹی اور دوسری پارلیمانی پارٹیوں کے لیے صوبہ بلوچستان کے سیٹ بلوچ قومی جدوجہد سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ ان پارٹیوں کا وجود ہی ان سیٹوں سے وابستہ ہے مگر جب آزادی پسند بھی پاکستانی صوبہ بلوچستان کی طرز پر سیاسی حکمت عملی بناتے ہیں تو سیاسی حوالے سے ان پر یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ آیا ایسی تنظیمیں بلوچستان اور صوبہ بلوچستان کے فرق کو سمجھتی ہیں یا نہیں؟؟۔
ایک طرف بی ایل ایف کی مرد م شماری حوالے سے پالیسی جس کا بنیادی منطق یہ ہے کہ سرکار بلوچ کو اقلیت بنانا چاہتی ہے اور آبادکاری و جعلی مردم شماری کے ذریعے بلوچ علاقوں میں بلوچ کو اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے تو دوسری طرف بی ایل ایف اپنے تازہ بیان میں کہتی ہے کہ ، بلوچ قومی تحریک آزادی میں رنگ ونسل و قومیت اور ذات کا کوئی عنصر حاوی نہیں۔ اگر واقعی بلوچ قومی تحریک میں نسل، ذات اور قومیت کا کوئی عنصر شامل نہیں تو بی ایل ایف سمیت ہم سب کیوں غیر بلوچ نسل کے لوگوں کی آبادکاری کے خلاف ہیں؟؟ اگر بی ایل ایف واقعی بلوچ نسل اور قوم کو تحریک کی بنیاد نہیں سمجھتی تو کیا ان کے سیاسی موقف میں اور سردار ثنا اللہ زہری کے سیاسی موقف میں فرق ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والی تمام نسلیں بلوچستان میں آباد ہوسکتے ہیں؟؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بی ایل ایف سیاسی طور پر تضادات کا شکار ہے ، چائے وہ مردم شماری کے نام پر بلوچوں پر طاقت کا استعمال ہو، دشمن کی مفہوم ہو یا پھر قومی جدوجہد کے بنیادی مقاصد۔ بی ایل ایف سمیت چند دوسری تنظیمیں ان سنگین تضادات کی رہنمائی میں تحریک کو فائدے کے بجائے مزید نقصانات سے دوچار کررہی ہے۔ اسی لیے اب ہمیں تحریک میں موجود تمام سیاسی معاملات اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان تمام پالیسیوں کو ترک کرنا ہوگا جو کہ حقیقت پسندی کے بجائے آئیڈیلسٹ سوچ پر قائم ہیں ۔ (پولیس اور لیویز کا ذکر اوپر کیا گیا ہے لیکن ان دونوں اداروں پر بحث کی گنجائش موجود ہے کیونکہ پولیس اور لیویز اداراتی حوالے سے مسلح ہیں مگر بلوچ اکثریتی علاقوں میں پولیس اور لیویز بلوچ اہلکاروں ایک حد تک بلوچ قومی جدوجہد کے مدمقابل نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے موجودہ کردار اور سابقہ کردار پر طویل بحث کرنے کے بعد ہی دشمن حوالے سے پولیس اورلیویز کے کردار کی وضاحت کی جاسکے گی)

چہارم : پارلیمانی پارٹیاں اور پارلیمانی سیاست۔

بلوچستان کی آزادی کی تحریک ، آزادی حوالے سے ہمیشہ ابہام کا شکار رہی ہے اور موجودہ جدوجہد سے پہلے بلوچ عوام آزادی پر اس طرح کلیر نہیں تھے کہ جس طرح آج ہیں۔ آج کی موجود پارلیمان پرست جماعتیں کل تک آزادی کی جدوجہد کا حصہ تھیں۔ آج بھی ان جماعتوں کی اکثریت یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ بلوچ پرست ہیں اور پاکستانی پارلیمانی سیاست کے ذریعے بلوچ کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں مگر ہم سب جانتے ہیں کہ سچائی اس کے برعکس ہے۔
ستر کی پارلیمانی سیاست کے دوران بلوچ قوم پرست قوتوں نے پاکستانی انتظامی صوبہ بلوچستان میں پہلی دفعہ حکومت بنائی تھی جس کو چند مہینوں میں ختم کردیا گیا اس تجربے کے بعد آزادی پسندوں نے ہمیشہ پارلیمانی سیاست کو حقیقی جدوجہد (آزادی حاصل کرنا) کے لیے رکاوٹ سمجھا ۔ موجود بلوچ جدوجہد کی مضبوطی، پاکستان کی طرف سے انسانی حقوق کی بے انتہاہ خلاف ورزیوں اور بلوچ عوا م کے دباؤ نے قوم پرستی کے نام پر سیاست کرنے والے پارلیمان پرستوں کو مجبور کیا کہ وہ ۲۰۰۸ کے انتخابات کا بائیکاٹ کریں۔ ۲۰۰۹ میں پاکستان نے مارو اور پھینک دو پالیسی کا آغاز کیا جو اب تک جاری ہے۔ اس دوران بہت سے بلوچ نوجوانوں کو قتل کیا گیا اورروزانہ کی بنیاد پر کارکنوں کی لاشیں پھینکی گئیں۔ اس عرصے میں پارلیمان میں موجود بلوچ ارکان نے نہ صرف پاکستان آرمی اور سیکورٹی فورسز کے خلاف بیانات دیے بلکہ صوبائی وزیر صادق عمرانی اور علی مدد جتک نے پارلیمان کے فلور پر گواہی دی کہ کس طرح انہوں نے پاکستانی ایف سی کو بلوچ نوجوانوں کا قتل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔سچ بولنے پر صادق عمرانی کو صوبائی وزارت سے ہٹادیا جاتا ہے اور ان کے چھوٹے بھائی کو ایف سی جبری لاپتہ کردیتی ہے۔ صادق عمرانی کی گواہی آزادی پسند حلقوں کی سیاسی تائید ہوتی ہے اور انسانی حقوق حوالے سے آزادی پسندوں کے موقف کو عالمی سطح پر زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ماضی کے سیاسی واقعات پر روشنی ڈالنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری موجودہ سیاسی سوچ کے تحت تمام پارلیمانی ممبر واجب القتل ہیں، تمام لوگ جو کسی نہ کسی طرح پاکستانی سیاست میں شامل ہیں ان کو ہماری طرف سے دشمن کہا جاتاہے۔ صادق عمرانی پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن ہیں وہ وفاق کی بات کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ بلوچ نواجوانوں کی قتل کو دیکھ کر تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کے فوجی اداروں کے خلاف بیان دیتے ہیں۔ صادق عمرانی نے ایسا کام کیا جو کہ قوم اور تحریک سے ہمدردی کے زمرے میں آتا ہے ، مگر چند آزادی پسند تمام پارلیمان پرستوں اور اس نظام سے وابستہ لوگوں کو قومی دشمن کہتے ہیں۔۔۔۔۔ کیا صادق عمرانی کا کردار دشمنی ہے ؟ کیونکہ وہ بھی پارلیمان پرست ہیں اور رئیسانی حکومت میں شامل رہے ہیں ؟۔ کارل اشیمت کے مطابق دشمن کے خلاف طاقت کا استعمال جائز ہے اور اگر ہمارے نذ دیک تمام پارلیمان پرست ہمارے دشمن ہیں تو ان پر طاقت کا استعمال بھی نا جائز نہیں لیکن اگر ہم صادق عمرانی کے کردار کو دشمنی نہیں کہہ سکتے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ بلوچ سیاست میں ان جیسے افراد کی کیا تعریف یا ان کا مفہوم کیا ہوسکتا ہے جو کہ پارلیمان پرست بھی ہیں اور بلوچ دشمنی میں ملوث بھی نہیں؟ میرے نزدیک پارلیمان میں موجود بلوچ یا بلوچستان کی آزادی کے بجائے وفاق یا پھر صوبہ سطح پر سیاست کرنے والے ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ یہ تمام لوگ ہمارے سیاسی مخالفین تو ہوسکتے ہیں لیکن ان کو قومی دشمن کہنا سراسر نا انصافی ہوگی اور اسی منطق کے تحت پارلیمان پرستوں پر طاقت کا استعمال بھی ناجائز ہو گا۔ پارلیمان پرستوں یا سرکاری نوکروں پر اس وقت طاقت کے استعمال کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے اگر وہ برائے راست آزادی پسند بلوچ کارکنوں کو قتل کرنے یا قتل کروانے میں ملوث ہوں یا پھر وہ تحریک آزادی کے خلاف سازشوں میں برا ۂ راست ملوث ہوں اور طاقت استعمال کرنے سے پہلے آزادی پسند تنظیمیں ان الزامات کو ثبوتوں کی بنا پر ثابت کرسکیں تب ہی آزادی پسند وں کی طرف سے ان کو دشمن کا آلہ کار قرار دے کر طاقت کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لفظ سازش سے مراد تحریک کو ختم کرنے کے لیے ایسے سیاسی ہتکنڈے استعمال کرنا جن کو کوئی رد نہ کرسکے، اس کی تازہ مثال ڈاکڑ مالک اور حاصل بزنجو کی کردار کی دی جاسکتی ہے۔

میری رائے میں نیشنل پارٹی سمیت دوسری پارٹیاں ہمارے دشمن نہیں بلکہ سیاسی مخالفین ہیں اور اگر ان پارٹیوں میں ڈاکڑ مالک اور حاصل خان جیسے چند افراد موجود ہیں تو یہ اس بات کا ہرگز جواز نہیں کہ ہم تمام ممبران پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے جہاں ہوسکے ان کو قتل کریں۔ یہ عمل ہماری تحریک ، ہماری قوم پرستی اور ہماری بنیادی سیاسی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔نیشنل پارٹی کے کل ارکان کی تعداد چند سو بھی ہو تو کیا ان تمام لوگوں کو صرف اس لیے قتل کرنا جائز ہوگا کہ وہ پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتے ہیں ؟ یا پھر یہ لوگ اپنے معمولی مسائل کو حل کروانے کے لیے نیشنل پارٹی سے وابستہ ہیں؟؟ کسی بھی بلوچ کے قتل اور اس پر طاقت کا استعمال، یا اسے دشمن قرار دینے سے پہلے ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ ہماری تحریک کا مقصد کیا ہے ؟ کیا چند ہزار آزادی پسند تنظیموں کے ممبران کے لیے ہم جدوجہد کر رہے ہیں یا پھر بیس سے پچیس ملین بلوچ قوم کے لیے یہ جدوجہد شروع کی گئی ہے جن کی اکثریت آزاد بلوچستان کی حامی ہے؟ ؟ اگر آزادی پسند تنظیموں کے چند ہزار کارکنان کے لیے یہ تحریک شروع کی گئی ہے تو ہمیں سوائے ان چند ہزار ممبران کے تمام بلوچوں کا قتل عام کرنا ہوگا۔ اگر واقعی ہماری تحریک قومی تحریک ہے تو اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ نیشنل پارٹی، بی این پی عوامی، جماعت اسلامی، جمعیت، بی این پی مینگل، پاکستان مسلم لیگ سمیت تمام پارلیمانی پارٹیاں، سرکاری نوکر، پولیس اور لیویز کے بلوچ ارکان، نواب و سردار، مذہب پرست وغیرہ بلوچ قوم کا حصہ ہیں اور آزاد بلوچستان ، آزادی کی تحریک سے منسلک چند ہزار بلوچ کارکنان کا نہیں بلکہ بلوچ قوم کا ہوگا جن میں یہ تمام لوگ بھی شامل ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پارلیمان پرست پارٹیوں کو دیوار سے لگانے میں آزادی پسندوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ کل تک صادق عمرانی اور علی مدد جتک اگر بلوچ نوجوانوں کی قتل پر گواہی دینے کو تیار تھے اور تمام تر مشکلات کے باوجود یہ لوگ قومی تحریک سے ہمدردی رکھتے تھے تو کیا وجہ ہے کہ آج جب پاکستانی فوج بلوچستان کے تمام علاقوں سے بلوچ عورتوں کو اغواء کرتی ہے اور سب کے سب خاموش ہیں ؟ ؟ سوائے آزادی پسند تنظیموں کے کوئی اور فرد آواز اٹھانے کو تیار ہی نہیں؟؟ اس کی وجہ ہمیں اپنی تنگ نظر اور بچکانہ پالیسیوں میں تلاش کرنا ہوگی۔ ہم نے خود اپنے راستے بند کیے ہیں اور ہم نے ہی اپنی ناپختہ سیاست کے ذریعے اصل دشمن کو چھوڑ کر تمام بلوچ قوم کو اپنا دشمن سمجھ رکھا ہے۔ چند آزادی پسندمسلح تنظیموں کی بلوچ قوم میں مقبولیت اور طاقت حاصل کرنے کے بعد کا عمل ذمہ دار جہدکاروں کے بجائے زیادہ تر امریکی ایکشن فلموں کے کاؤ بوائے cowboy ) ( کی طرح رہا ہے جہاں پر یہ کاؤ بوائے سرمچار ہروقت اس جستجو میں رہتے ہیں کہیں نہ کہیں انھیں بس کسی پر بندوق چلانے کا موقع مل جائے۔ ان ہی کاؤ بوائے سرمچاروں کی trigger-happy پالیسیوں نے ایک حد تک حقیقی سرمچاروں کے لیے بھی مشکلات پیدا کیے ہیں۔ اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے تو آزادی پسندوں کی پالیسیوں نے ہی ڈاکڑ مالک اور حاصل جیسے لوگوں کو سیاسی طور پر اس قابل بنایا کہ وہ نیشنل پارٹی کو بلوچ تحریک کے خلاف استعمال کریں۔ نیشنل پارٹی میں موجود جدوجہد کے لیے ہمدردی رکھنے والے بہت سے کارکن موجود ہیں اور ان کا یہ موقف ہے کہ منفی عمل کا آغاز بی ایل ایف کی طرف سے کیا گیا۔ جب بی ایل ایف نے بلا وجہ مولابخش دشتی کو قتل کیا تو اس کے رد عمل میں کارکنان تحریک سے بدظن ہوئے ۔ مولا بخش دشتی ایک پارلیمان پرست اور سیاسی حوالے سے نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں شمارہوتے تھے۔ ان کے کردار اور شخصیت کے حوالے سے بھی کوئی جوازاب تک دیا نہیں جاسکا کہ جس سے ان کے قتل کو جائز قرار دیا جاسکے۔ بی ایل یف نے مولابخش دشتی کا قتل کرکے نیشنل پارٹی میں تحریک سے ہمدردی رکھنے والے کارکنان کو تحریک سے بدظن کیا اور بی ایل ایف کے اس عمل نے ہی ڈاکٹر مالک اور حاصل لابی کے لیے راستہ ہموار کرکے نیشنل پارٹی میں موجود تحریکی ہمدردوں کے لئے تمام راستے بند کردیے۔ ان ہی بچکانہ پالیسیوں نے بلوچ قومی تحریک کو نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ ہماری پالیسیاں سیاسی طور پر ناپختہ ہیں اسی لیے طاقت کا استعمال ان تمام لوگوں کے خلاف کیا گیا اور اب تک کیا جا ر ہا ہے جو ہمارے اپنے لوگ ہیں جو ہماری قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور جو تحریک سے دشمنی کرنے کے بجائے اپنی اپنی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ بی این پی مینگل کی سب سے زیادہ مخالفت راقم نے اپنی تحریروں میں کی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بی این پی مینگل ایک طرف پاکستانی سیاست کرتی ہے تو دوسری طرف بی این پی کا ممبر ہوتے ہوئے جاوید مینگل اور ان کے بیٹے آزادی کی سیاست کرنے کا شوشہ چھوڑتے ہیں بی این پی کی اس پالیسی سے تحریک کے اندر بہت سے معاملات میں جان بوجھ کر کنفیوژن پیدا کی گئی۔ اسی لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ آزادی پسندوں کے لیے بی این پی ، نیشنل پارٹی سے زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے۔ لیکن تمام تر اختلافات کے باوجود میں یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ بی این پی مینگل براۂ راست بلوچ نوجوانوں کے قتل میں ملوث ہے اسی لیے میں کسی بھی طرح بی این پی مینگل پر طاقت کے استعمال کو جائز قرار نہیں دے سکتا ۔ بی این پی مینگل، بی این پی عوامی، نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی سمیت تمام پارلیمانی پارٹیا ں دشمن کے زمرے میں نہیں آتے ۔ اگر بی این پی، نیشنل پارٹی کا کوئی ممبر یا بلوچستان پارلیمان کا کوئی ارکان ( موجود ہ پارلیمان میں بلوچ نسل کشی کرنے والے افراد بھی شامل ہیں جس سے کوئی انکاری نہیں) اگر براۂ راست دشمنی ( دشمنی کی وضاحت اوپر کی گئی ہے ) میں ملوث ہے تو اس کے ساتھ وہی برتاؤ کرنا چاہیے جو کہ ایک عام دلال کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن کسی بھی فرد پر طاقت کے استعمال سے پہلے اس کے خلاف ٹھوس ثبوت ہونا لازمی ہیں کیونکہ ماضی میں غداری کا سرٹیفیکٹ جاری کرتے ہوئے چند تنظیموں نے طاقت کا استعمال بے گناہ لوگوں کے خلاف کیا ہے۔ جہاں تک بات اگر ان لوگوں کی پارلیمانی سیاست کی ہے تو فقط سیاسی اختلافات کی بنا پر طاقت کا استعمال کرنا ازخود آزادی پسندوں کی سیاسی ساکھ پر سوالات اٹھاتا ہے۔ عالمی قانون، سیاسی تاریخ، انسانی حقوق ، سیاسی حقوق اور موجود حالات کی نظر سے اگر بلوچستان کی حالات کا جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی آزادی پسند دلائل، ثبوت اور سیاسی ڈبیٹ کے ذریعے بلوچستان کی آزاد ی کا کیس بنا سکتا ہے۔ ایسا کوئی بھی پارلیمان پرست وجود نہیں رکھتا جو کہ بلوچستان کی آزادی کے حق میں دیے گئے دلائل کو دلائل کے ذریعے شکست دے سکے۔ اس کے باوجود ہم سیاسی مخالفین کو سیاست سے شکست دینے کے بجائے اگر طاقت کا استعمال کریں اور ان کے کارکنان کو قتل کریں تب ایسی صورت میں آزادی پسندتنظیموں اور افراد کے لیے جدوجہد کرنے کے بجائے سیاست اور جہد کو چھوڑ کر گھروں میں آرام کرنا بہتر ہوگا کیونکہ تمام معاملات میں سیاسی جواز اور کیس ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی تنظیم یا فرد بندوق کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں دیکھ سکتا تو یہ اس تنظیم اور فرد کی نا اہلی کو ثابت کرتی ہے۔ البتہ پاکستانی اسمبلی اوربلوچستان اسمبلی کے الیکشن کے دوران طاقت کے استعمال پر بحث کی گنجائش موجود ہے کیونکہ الیکشن کو ناکام بنانے سے عالمی سطح پر یہ باور کرایا جاسکتا ہے کہ بلوچ قوم نام نہاد پاکستانی جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی اور وہ اس میں حصہ لینا نہیں چاہتے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گذ شتہ الیکشن کے دوران طاقت کا استعمال تمام ممبران پر نہیں ہوا۔ کچھ علاقوں میں طاقت کا استعمال کیا گیا جن میں سے کچھ وا قعات کو جائز اور کچھ کو نا جائز قرار دیا جاسکتاہے۔ جائز اور ناجائز اس لیے کہ کچھ حملوں میں ان افراد کو نشانہ بنایا گیا جو کہ کردار حوالے سے دشمن کے آلہ کار کے زمرے میں آتے ہیں جیسے کہ ثنا اللہ زہری جو کہ الیکشن سے پہلے بھی بلوچ کشی کرتا رہا ہے لیکن چند افراد پر طاقت کا استعمال اس لیے ناجائز ہے کہ انہوں نے کبھی بلوچ کشی میں حصہ داری نہیں لی مگر آزادی پسندوں کی طرف سے طاقت کا استعمال صرف الیکشن کو جواز بنا پر کیا گیا۔ یہاں پر مجھے تشویش اس بات کی ہے کہ ایک فرد بلوچ کش ہے اور دوسرا بلوچوں کے قتل یا آزادی پسندوں کے قتل میں ملوث نہیں مگر دونوں کو ایک ہی نظر سے دیکھنا و جانچنا اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا کیا ہماری سیاسی اور مسلح حکمت عملی پر سوالات نہیں اٹھاتا؟؟ ان تمام پیچیدہ معاملات پر ایک ہی مضمون میں بحث کرنا ممکن نہیں اسی لیے پاکستانی اور صوبائی الیکشن کے دوران طاقت کے استعمال پر یہ تحریر غیر جانبدار ہے۔ مگر بلوچستان کی لوکل باڈیز الیکشن کے حوالے سے میری رائے یہ کہ ان انتخابات پر طاقت کا استعمال تحریک کے حق میں نہیں، لوکل باڈیز الیکشن کسی صورت بھی قومی تحریک کے لیے نقصاندہ نہیں ، ان الیکشن کے نما ئندوں کے پاس زیادہ سے زیادہ ضلعی سطح کے اختیار ات ہوتے ہیں جن سے وہ عوام کے روزمرہ معمولی مسائل حل کرپاتے ہیں
اس تحریر کے آغاز میں کارل اشیمت کے دشمن حوالے مفہوم اور تعریف پر روشنی ڈالی گئی ۔ ’سیاسی‘ کے لحاظ سے لفظ ’دشمن‘ کے معنی اور مفہوم کی وضاحت ہماری زبان میں موجود نہیں جس طرح کہ اشیمت کے دور میں جرمن زبان میں سیاسی اور ذاتی دشمن کی وضاحت اور اس کے لیے الگ الگ الفاظ وجود نہیں رکھتے تھے جبکہ لاطینی اور یونانی زبان میں سیاسی اور ذاتی دشمن کے لیے الگ الگ لفظ موجود ہیں بلکل اسی طرح بلوچی زبان بھی جرمن زبان کی طرح دشمن کے سیاسی اور ذاتی پہلو کے فرق کی وضاحت لسانی طور پر اب تک نہیں کرسکی ہے ۔ اگر کسی زبان میں سیاسی کے لحاظ سے دشمن کا مفہوم موجود نہیں تو وہاں پر سیاسی دشمن کی مفہوم اور تصور کی وضاحت ضروری ہوجاتی ہے ۔ سیاسی کے لحاظ سے دشمن ایک اجتماع ہی ہوسکتی ہے جس میں ذاتی دشمن کے فردی تصور کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سیاسی دشمن ہماری قوم کے بجائے کوئی اور یا اجنبی ہی ہوسکتا ہے ۔دشمن وہ ہے جو ہماری طرز زندگی کو مکمل ختم کرنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرے۔ بلوچ کا دشمن بلوچ نہیں ہوسکتا اسی منطق کے تحت نہ بلوچ قوم میں موجود سردار ہمارے دشمن ہیں ، نہ اس میں موجود رسم و رواج، نہ پارلیمانی سیاست کرنے والے نہ ہی سرکاری نوکر نہ ہی مذہب پرست لوگ، نہ ہی آزادی کے بجائے کوئی اور نظریہ رکھنے والے افراد۔۔۔۔
جہاں تک قوم میں موجود ایسے افراد کا تعلق ہے جو کہ براۂ راست قتل، نسل کشی یا پھر تحریک کو ختم کرنے لئے سیاسی طور پر سازشوں میں ملوث ہیں جوکہ سردار بھی ہوسکتے ہیں، اور مڈل کلاس بھی، جو کہ مذہبی بھی ہوسکتے ہیں اور بے مذہب بھی۔ ایسے افراد سرکاری نوکر بھی ہوسکتے ہیں اور کاروباری افراد بھی، ماہی گیر بھی ہوسکتے ہیں اور ڈاکڑ بھی ، اسی لیے ان افراد کے کردار کی وجہ سے پورے طبقے، پیشے، قبیلے، سماجی اسٹیٹس، یا نظریہ کو دشمن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر یہ لوگ بلوچ ہوکر اپنے کردار سے دشمنی کے زمرے میں فردی حوالے سے آتے ہیں تو ان کو انفرادی طور پر دیکھا جائے نہ کہ اجتماعی طور پر ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ضرروی ہے کہ ہماری سیاست میں سیاسی ڈاکڑین بچکانہ اور جزباتی سوچ پر منحصر نہ ہو۔ ہماری تحریک میں ایسے کارکن بھی پائے جاتے ہیں جو ایک آزادی پسند تنظیم یا فرد سے اختلاف رکھ کر ذاتی احساس کو سیاست پر حاوی کرتے ہوئے اختلاف رکھنے والے کو دشمن قرار دے کر ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو چند مہینے بعد اختلافات ختم ہونے یا ذاتی رنجش ختم ہونے پر دشمن قرار دیے جاچکے افراد یا تنظیم سے انتہائی محب اور قربت کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ اگر قوم میں دشمن کے مفہوم کا تنظیمی فیصلہ یا سیاسی لحاظ سے اس کی وضاحت ایسے کارکنان کے ہاتھوں میں ہو تو ایسے افراد قوموں کی تباہی کا با عث بن جاتے ہیں ۔بد قسمتی سے دشمن اور دشمنی کی مفہوم پر بی ایس او کے نوجوان بھی تاریخی حوالے سے حاوی رہے ہیں جس نے ہمیں قومی حوالے سے نقصانات سے دوچار کیاہے۔ بلوچستان میں کسی بھی آزادی پسند تنظیم نے سیاسی طور پر دشمن کی اب تک وضاحت نہیں کی اور عدم وضاحت کی وجہ سے تحریک میں موجود سیاسی اور مسلح تنظیمیں اپنی ہی قوم کو اپنا دشمن سمجھنے لگی ہیں۔اگر ایک طرف قوم کو دشمن کی درندگی کا سامنا ہے تو دوسری طرف مسلح تنظیموں کی بے مہاری ہے۔
سن زو کہتے ہیں کہ’ اپنے دشمن کو جانو ، اپنے آپ کو جانو ، تو ہزار جنگوں میں ہزار فتح‘۔ کارل وون کلا وزٹیز اپنی کتاب’ جنگ پر‘ میں کہتے ہیں کہ جنگ طاقت کا استعمال ہے تاکہ دشمن کو مجبور کرسکیں کہ وہ ہماری خواہشات پر عمل کرے‘ ۔ بد قسمتی سے ہم نہ دشمن کو جاننے کی جستجوں کررہے ہیں نہ ہی خود کو جانتے ہیں۔ ہمیں یہ جنگ جیتنے کے لیے اپنے دشمن پنجابی کوبھی سمجھنا ہوگا۔ پنجابی مسلمانوں نے ہندوستان کی 1857 کی جنگِ آزادی کے دوران انگریز قبضہ گیر وں کی مکمل مدد کرتے ہوئے ہندوستان کی جنگِ آزادی کو کچلا۔پنجابی مسلمان اپنے مفادات کے لیے اسلام کا نام لیکر اپنے ہی وطن ہندوستان کو انگریزوں کی آشیر باد سے تقسیم کرتے ہیں۔ پنجابی اس کے بعد بنگالی مسلمانوں کا قتل عام اور لاکھوں بنگالی مسلمان عورتوں کا ریپ کرتے ہیں۔ سوویت یونین کو توڑنے کے لیے پنجابی پشتونوں کو اسلام کے نام پر استعمال اور بعد میں اپنے ہی بنائے ہوئے جہادیوں کو چند ڈالر کے لیے فروخت کرتاہے۔جب افغانستان مغربی ممالک کی کمک کی وجہ سے مستحکم ہونے لگتا ہے تو پاکستان ایک طرف مغربی ممالک سے دہشتگری کے خلاف جنگ کے نام پر پیسے لیکر پشتون علاقوں میں نسل کشی کرتا ہے تو دوسری طرف ان ممالک کے فوجیوں کو افغانستان میں ہلاک کرواتا ہے جن ممالک سے اس کو ڈالر کی صورت میں کروڑوں ڈالر امداد ملتی ہے ۔ پنجابی پشتون کو پشتون کے خلاف استعمال کرتا آرہا ہے اور آج پنجابی بلوچستان میں بلوچ کو بلوچ کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ پنجابی کی مکاری اور اس فطرت کو سمجھ کر آزادی پسندوں کو اپنی حکمت عملی بنانی ہوگی۔ آج ہماری کمزوری کے اسباب یہ نہیں کہ قوم نے آزادی پسندوں کو اپنانے سے انکار کیا بلکہ ہم نہ اپنے دشمن کو سمجھ پارہے ہیں نہ ہی ہم اپنی قوم کو سمجھتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خود کو قوم سے الگ کرکے اپنی ایک الگ دنیا بنارکھی ہے۔ اس دنیا میں آزادی پسند تنظیموں کے ارکان کے علاوہ سرکاری نوکر ، پارلیمان پرست ، ٹیکے دار، ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے لیے لڑنے والے، غریب اور لاچار بلوچ، سب کے سب دشمن ہیں۔ سماج کو تبدیل کرنے ، فرسودا نظام کے نام پر قبائل سے چیڑخانی ، مذہب سے دشمنی، سرداروں کو مڈل کلاسی سیاست کا نام لیکر دشمن قرار دینا، سرکاری نوکر اور ٹھیکے داروں پر طاقت کا استعمال ، تمام پارلیمان پرستوں کو واجب القتل قرار دینے جیسی جزباتی اور آ یڈ ئلسٹ پالیسیوں کو رد کرتے ہوئے اب آزادی پسندوں کو اصل دشمن ’پنجابی ریاست‘ پر توجہ دینی ہوگی۔ شاہد جس طرح کارل اشیمت سیاسی دشمن کی تشریح کرسکتے تھے اس طرح آج تک کسی سیاسی فلسفی نے نہیں کی۔ کارل اشیمت نے 1963 میں کہا تھا کہ’ تم مجھے بتاؤ کہ تمھارا دشمن کون ہے اور میں تمھیں بتاؤں کہ تم کون ہو‘۔ چون ( ۵۴) سال بعدآج بلوچ قوم آزادی پسند سیاسی اور مسلح تنظیموں سے وہی سوال کررہی ہے کہ ’ تم ہمیں بتاؤں کہ تمارا دشمن کون ہے ؟ اور ہم بتائیں گے تم کون ہو !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز