پنج‌شنبه, آوریل 25, 2024
Homeاداریئےذاکر مجید کے جبری گمشدگی کے چھ سال

ذاکر مجید کے جبری گمشدگی کے چھ سال

(ہمگام اداریہ)
ذاکر مجید بلوچ ان ہزاروں بلوچ نوجوانوں میں سے ایک ہیں جنہیں ماورائے عدالت جبری طور پر پاکستانی خفیہ اداروں نے اغواء کرکے لاپتہ کردیا ہے ، انہیں 8 جون 2009 کی شام پاکستانی خفیہ اداروں نے مستونگ بلوچستان کے علاقے پڑنگ آباد سے اغواء کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ، اس واقعے کو چھ سال گذرچکے ہیں لیکن آج تک انکے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکی اور نا ہی انکے خیریت کے بابت کوئی خبر آسکی ہے ، چھ سالوں کے اس طویل عرصے میں انکے بازیابی کیلئے احتجاج کے ہر ممکن طریقے آزمائے گئے ،کئی بار بلوچستان میں پہیہ جام شٹر ڈاون ہڑتال کیئے جاچکے ہیں ، سینکڑوں احتجاجی مظاھرے ہوچکے ہیں ، انکے اہل خانہ کی طرف سے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے گئے ہیں ، ذاکر مجید بلوچ کی ہمشیرہ فرزانہ مجید اپنے بھائی کے بازیابی کیلئے کوئٹہ سے کراچی پھر اسلام آباد تک کا تین ہزار کلومیٹر کا سفر احتجاجاً پیدل طے کرچکی ہے لیکن ان سب کے باوجود نا صرف پاکستانی خفیہ ادارے ٹس سے مس ہوئے اور نا ہی انسانی حقوق کے کسی بھی عالمی ادارے نے کوئی سنجیدہ قدم اٹھایا ہے ۔
ذاکر مجید کے گمشدگی کو آج چھ سال پورے ہوگئے ہیں لیکن ان چھ سالوں کے بعد بھی وہ بلوچ نوجوانوں میں اتنے ہی مقبول اور ہر دلعزیز ہیں جتنا کہ چھ سال پہلے تھے ، وہ جبری طور پر لاپتہ ہونے کے باوجود بلوچ سیاسی منظر نامے کا حصہ رہے ہیں انکی خاطر احتجاجو ں کے شدت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ، اس کی سب سے بڑی وجہ ذاکر مجید کے قائدانہ صلاحتیں اور سحر انگیز شخصیت تھی ، وہ ایک طلبہ رہنما تھے اور گرفتاری کے وقت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی سینئر وائس چیئر مین تھے اور لسبیلہ یونیورسٹی میں ایم اے انگلش کے طالبعلم تھے، انہوں نے اپنی زندگی بلوچ نوجوانوں میں شعورِ آزادی پھیلانے اور اپنے حقوق سے آشنائی حاصل کرنے کیلئے وقف کردی تھی ، وہ بلوچستان کے کونے کونے میں جاکر بلوچ نوجوانوں کو جمع کرکے ان سے گفتگو کرتے ان کیلئے لیکچر سیمیناروں کا انعقاد کرتے ، ریاستی بربریت کے خلاف انہیں منظم کرکے احتجاج کرتے ، انکے اسی طرز سیاست نے اتنی تبدیلی پیدا کردی کے وہ ہاتھوں میں بندوق لیئے بغیر پاکستان کیلئے ایک خطرہ بن گئے تبھی انکے آواز کو دبانے اور انکے تحرک کو مقفود کرنے کیلئے انہیں ناجائز طریقے سے اغواء کرکے زندانوں میں بند کرنا خود کو ایٹمی قوت قرار دینے والے ملک پاکستان کیلئے لازمی ہوگیا تھا ۔
عمومی طور پر بلوچستان میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آئے روز کہیں نا کہیں کسی نا کسی بلوچ لاپتہ شخص کیلئے کوئی نا کوئی احتجاج ہورہا ہوتا ہے اور ایسے کسی بھی احتجاج میں ذاکر مجید کا تصویر یا ذکر آپ ضرور دیکھ سکتے ہیں لیکن ہر سال جیسے جیسے انکے جبری گمشدگی کا دن یعنی 8 جون کا دن قریب آتا جاتا ہے بلوچ سیاست میں ایک تحرک آجاتا ہے اور مختلف جماعتیں اور تنظیمیں اپنے احتجاجی شیڈیولوں کا اعلان کرتے ہیں اس سال بھی کئی احتجاجی شیڈیول اور مذمتی بیانات دیکھے جاسکتے ہیں جن میں عالمی اداروں برائے انصاف و انسانی حقوق سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ذاکر مجید سمیت تمام لاپتہ بلوچوں کے بابت سنجیدگی کا مظاھر ہ کرکے عملی اقدامات اٹھائیں کیونکہ اب یہ مسئلہ بلوچستان میں ایک انسانی المیہ و بحران کا شکل اختیار کرچکا ہے ۔
سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اہمیت کو دیکھ کر اب یہ دیکھی جاسکتی ہے کہ بلوچ سیاسی کارکنان فیس بک اور ٹوئٹر پر بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے اور عالمی اداروں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے متحرک ہورہے ہیں ، خاص طور پر سماجی رابطے کے ویب سائٹ ٹوئٹر پر باقاعدگی کے ساتھ مہم چلائے جاتے ہیں ، اس 8 جون کو بھی بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹس نے بلوچستان کے وقت کے مطابق شام 7بجے سے 10 بجے تک ایک احتجاجی کیمپین #FreeZakirMajeed کے ہیش ٹیگ سے چلانے کا اعلان کیا ہے ، جس بابت وہ تمام بلوچوں سے شرکت کی اپیل کرچکے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز