شنبه, آوریل 20, 2024
Homeاداریئےسانحہ مستونگ ، یرغمال بلوچ مسلح گروہ اور خطرے کی گھنٹی

سانحہ مستونگ ، یرغمال بلوچ مسلح گروہ اور خطرے کی گھنٹی

گذشتہ دنوں مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد نے دو مسافر بسیں روک کر ان میں سے متعدد افراد کو بندوق کے نوک پر اتار کر پہاڑوں کی طرف لے گئے جہاں انکی شناخت کرکے بلوچ اور پشتونوں کو الگ الگ کیا گیا اور بعد ازاں 22 پشتونوں پر قریب سے فائر کرکے انہیں قتل کردیا گیا جن میں سے تادم تحریر 20 کی شناخت ہوچکی ہے ۔ اس انسانیت سوز واقعے کے خلاف کم و بیش تمام بلوچ قوم پرست جماعتوں کی طرف سے مذمتی بیان آچکے ہیں ، کل تک بلوچ قوم پرست حلقے اور پشتون قوم پرست اس سانحے کو پاکستانی خفیہ اداروں کی ایک شیطانی چال گردانتے رہے جس کا مقصد بلوچ و پشتون دونوں برادار اقوام کو آپس میں دست و گریبان کرنا تھا اور بلوچستان میں قومیت کے بنیاد پر ایک نئے تنازعے کی داغ بیل ڈال کر بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنے کی سعی تھی ۔ اس واقعے کی نوعیت ایسی تھی کہ سارے شکوک و شبہات پاکستانی خفیہ اداروں پر اٹھ رہے تھے لیکن ایسے عالم میں ایک متنازعہ بلوچ مسلح گروہ یونائیٹڈ بلوچ آرمی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرکے ایک نئے بحث کو جنم دے دیا ۔
یاد رہے یونائیٹڈ بلوچ آرمی اس سے پہلے بھی اپنے متنازعہ غیر ذمہ دارانہ حملوں کی وجہ سے موضوعِ تنقید بنی رہی ہے ، مذکورہ گروہ کے مسلح کاروائیوں میں زیادہ تر دیکھا گیا ہے کہ ان میں زیادہ تر یا تو بے گناہ بلوچ شہری شہید ہوتے ہیں یا پھر بے گناہ پشتوں ، اس گروہ کے غیر ذمہ دارانہ کاروائیوں میں اسپلنجی میں 10 نہتے پشتون مزدوروں کا قتل ، کوئٹہ میں بے دریغ دھماکوں میں عام بلوچوں کی شہادتیں اور ٹرین پر دھماکہ کرکے ایک ہندو بلوچ خاندان کو نشانہ بنانا شامل ہے ، یہ بھی یاد رہے کہ مذکورہ گروہ ان افراد پر مشتمل ہے جنہیں بلوچ مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے کرپشن اور غیر ذمہ داری کے الزام میں مجرم ٹہرا کراپنے تنظیم سے فارغ کیا تھا اور اطلاعات کے مطابق ان میں نواب خیر بخش مری کے سب سے چھوٹے صاحبزادے مھران مری بھی شامل تھے ، بعد ازاں مھران مری نے اس گروہ کو تشکیل دیکر اپنے جدا شناخت کے ساتھ کاروائیاں کررہی ہے ۔
بلوچ آزادی پسند حلقوں میں اب یہ بحث شدت اختیار کرتا جارہا ہے کہ بلوچ نمائیندگی کا دعویدار یہ گروہ آخر مسلسل کیونکر ایسی کاروائیاں کررہا ہے جس سے بلوچ عوام اور بلوچ کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے ، اطلاعات کے مطابق اب یہ شک تقویت پاتا جارہا ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے اس مسلح گروہ یونائیٹڈ بلوچ آرمی کا کنٹرول حاصل کیا ہوا ہے اور اس تنظیم کو بظاھر تو بلوچ تنظیم ظاھر کرتے ہوئے ایسی کاروائیاں کررہی ہے جس سے بلوچ تحریک کے بنیاد ی اساس ، فکر و نظریے کو نقصان پہنچے ، حیرت کی بات یہ ہے کہ گذشتہ کافی عرصے سے یہ گمان موجود تھا کہ پاکستانی خفیہ اداریں کوئی نا کوئی حرکت کرکے بلوچ اور پشتونوں کو باہم دست و گریبان کرنے کی کوشش کریں گے اور اب اسی طرح کی کاروائی یو بی اے عین موقع پر کرکے اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ اس تنظیم کا کنٹرول پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں میں آچکی ہے ، اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ اس گروہ کے سربراہ مھران مری کا اپنا کنٹرول یو بی اے سے ختم ہوکر آئی ایس آئی کے ہاتھ آچکی ہے تبھی سربراہ ہونے کے باوجود مھران مری نے اپنے آفیشل ٹوئیٹر اکاونٹ سے اس حملے کی مذمت کی ہے ۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یو بی اے کے اسی طر ز کی کاروائیوں اور منفی طرز عمل کے بابت بلوچ لبریشن آرمی اس تنظیم کو بلوچ دشمن تنظیم قرار دیکر یو بی اے کے خلاف مسلح کاروائیوں کا آغاز کرچکا ہے لیکن باقی مسلح تنظیم جن میں ڈاکٹر اللہ نظر کا بلوچ لبریشن فرنٹ اور ذیلی سیاسی جماعتیں اور براہمداغ بگٹی کا بلوچ ریپبلکن آرمی و ذیلی سیاسی جماعتیں مسلسل یو بی اے کی حمایت و معاونت کرتے رہے ہیں اور حتیٰ کے بی ایل اے کا یو بی اے پر حملے کی مذمت بھی کرچکے ہیں ، لیکن اس مستونگ سانحے کے بعد براہمداغ اور ڈاکٹر اللہ نظر گروپوں کی طرف سے بھی اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے ، بلوچ سیاسی مبصرین کے تجزیوں کے مطابق براہمداغ اور ڈاکٹر اللہ نظر کو اپنے غلطیوں کا احساس ہوچکا ہے کہ وہ یو بی اے کی حمایت کرکے ایک سنگین سیاسی غلطی کا مرتکب ہوئے ہیں اسلیئے وہ اب ان واقعات کی مذمت کررہے ہیں اور اب انہیں احساس ہوچکا ہے کہ یو بی اے پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے جبکہ کچھ بلوچ مبصرین کا خیال ہے کہ بلوچ مسلح تنظیموں کے بیچ کے تضادات کی وجہ سے بی ایل ایف اور بی آر اے کے سربراہان اپنے مفادات کے تحت یو بی اے کو استعمال کرتے ہوئے مضبوط ترین تنظیم بے ایل اے کو کمزور کرکے کنٹرول حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن اس خواہش میں ناکامی کو دیکھ یہ تنظیمیں اب آہستہ آہستہ یو بی اے سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنا دامن بچانے کی کوشش کررہے ہیں اور ایک ایسے واقعے کو لیکر یہ انکیلئے ایک اچھا موقع تھا۔
اس موقع پر سب سے اہمیت کا حامل بیان اور موقف بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری کا ہے جنہوں نے واضح الفاظ میں اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ یو بی اے پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے اور انہوں نے برادر قوم پشتون سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس طرح کی کسی واقعے کو ایک تنظیم کا انفرادی فعل سمجھیں اسے پورے بلوچ قوم سے منسلک نا کریں ۔
موجودہ حالت اس بات کا اشارہ کررہے ہیں کہ پاکستانی خفیہ اداروں کے چالوں اور بربریت کا شکار بلوچ قوم اب ایک نئے آزمائش سے دوچار ہے کیونکہ اس بار خفیہ ادارے ایک آزادی پسند جماعت (یوبی اے ) کی شکل میں بلوچ قوم کو جانی ، مالی اور سیاسی طور پر نقصانات سے دوچار کریں گے ، یہ امر یقیناًسنجیدہ بلوچ آزادی پسند حلقوں کیلئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز