جمعه, آوریل 19, 2024
Homeآرٹیکلزسلطان سے دغا اور  انگریز سے وفا

سلطان سے دغا اور  انگریز سے وفا

سلطان ٹیپو کو جس نے دھوکا دیا تھا ، وہ میر صادق تھا۔ اس نے سلطان سے دغا کیا اور انگریز سے وفا کی۔ انگریز نے انعام کے طور پر اس کی کئی پشتوں کو نوازا۔ انہیں ماہانہ وظیفہ ملا کرتا تھا۔ مگر جب میر صادق کی اگلی نسلوں میں سے کوئی نہ کوئی ہر ماہ وظیفہ وصول کرنے عدالت آتا تو چپڑاسی صدا لگایا کرتا۔ میر صادق غدّار کےورثاء حاضر ہوں”ایک آنسو ان کی آنکھ سے پھسلا اور تکیے میں جذب ہو گیا۔میرے بیٹے! میری بات یاد رکھنا ، جیسے شہید قبر میں جا کر بھیسیکڑوں رہتا ہے، ایسے ہی غدار کی غداری بھی صدیوں یاد رکھی جاتی ہے۔ دن کے اختتام پر فرق صرف اس چیز سے پڑتا ہے کہ انسان تاریخ میں صحیح طرف تھا یا غلط طرف پہ۔”دن کیطرف پہ۔”ٹیپو سلطان کی شہادت پر زمین ہی نہیں کانپی آسمان بھی کھل کر رویا پڑھیے انگریزوں نے آخری دن شیر میسور کی نعش کے ساتھ کیا کیا ؟شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ، یہ معروف قول تھا شیر میسور ٹیپو سلطان شہید کا ۔ٹیپو سلطان ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے آخری حکمران تھے۔ آپ کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ نے اور آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو روکے رکھا اور کئی بار انگریز افواج کو شکست فاش دی۔یوں تو شجاعت و بہادری کے کئی قصے ان سے منسوب ہیں مگر ہم اپنے قارئین کے ذوق کی نذر ایک تحریر کررہے ہیں ۔سینئیر کالم نگار جی این بھٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ :ڈیوک آف ولنگٹن کی سپاہ ایک خونریز معرکہ میں سرنگا پٹنم فتح کرچکی تھیں مگر ڈیوک آف ولنگٹن کو ابھی تک اپنی فتح کا یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹنم کے میدان میں جمع ہونے والے محب وطن شہیدوں کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے، رات کی سیاہی اور گہری ہوتی جا رہی تھی۔ لگتا تھا آسمان نے بھی ٹیپو سلطان کی شکست پر جو اسکے اپنے بے ضمیر درباریوں‘ اور لالچی وزیروں کی وجہ سے ہوئی اپنا چہرہ شب کی تاریکی میں چھپا لیا تھا‘ اتنے میں چند سپاہی ولنگٹن کے خیمے میں آئے‘انکے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ انہوں نے اسے ٹیپو سلطان کی شہادت اور اسکی نعش برآمد ہونے کی اطلاع دی۔ یہ نعش سلطان کے وفاداروں کے ڈھیر کے نیچے دبی ملی۔ جنرل ولنگٹن خوشی سے حواس باختہ ہوکر سلطان کی نعش کے پاس پہنچا تو وہ نعش وفاداروں کے جمگھٹ میں ایسی پڑی تھی جیسے بْجھی ہوئی شمع اپنے گرد جل کر مرنے والے پروانوں کے ہجوم میں ہو‘ جنرل نے سلطان کے ہاتھ میں دبی اسکی تلوار سے اسے پہچان کر اسکی شناخت کی۔یہ تلوار آخر وقت تک سلطان ٹیپو کے فولادی پنجے سے چھڑائی نہ جا سکی۔اس موقع پر جنرل نے ایک بہادر سپاہی کی طرح شیر میسور کو سلیوٹ کیا اور تاریخی جملہ کہا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے، اب کوئی طاقت ہماری راہ نہیں روک سکتی‘‘ اور اسکی نعش اندر محل کے زنان خانے میں بھجوائی تاکہ اہلخانہ اس کا آخری دیدار کریں اس کے ساتھ ہی آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا۔ جب سلطان کی قبر کھودی جانے لگی تو آسمان کا سینہ بھی شق ہو گیا اور چاروں طرف غیض و غضب کے آثار نمودار ہوئے، بجلی کے کوندے لپک لپک کر آسمان کے غضب کا اظہار کر رہے تھے۔اس وقت غلام علی لنگڑا، میر صادق اور دیوان پورنیا جیسے غدارانِ وطن خوف اور دہشت دل میں چھپائے سلطان کی موت کی خوشی میں انگریز افسروں کے ساتھ فتح کے جام لنڈھا رہے تھے، اور انکے چہروں پر غداری کی سیاہی پھٹکار بن کر برس رہی تھی‘ جوں ہی قبر مکمل ہوئی لحد بن گئی تو آسمان پھٹ پڑا اور سلطان میسور کی شہادت کے غم میں برسات کی شکل میں آنسو?ں کا سمندر بہہ پڑا۔ قبر پر شامیانہ تانا گیا محل سے لیکر قبر تک جنرل ولنگٹن کے حکم پر سلطان میسور کا جنازہ پورے فوجی اعزاز کے ساتھ لایا گیا۔فوجیوں کے دو رویہ قطار نے کھڑے ہوکر ہندوستان کے آخری عظیم محبِ وطن بہادر جنرل اور سپوت کے جنازے کو سلامی دی۔ میسور کے گلی کوچوں سے نالہ و آہ شیون بلند ہو رہا تھا، ہر مذہب کے ماننے والے لاکھوں شہری اپنے عظیم مہربان سلطان کیلئے ماتم کر رہے تھے اور آسمان بھی انکے غم میں رو رہا تھا۔ جنرل ولنگٹن کے سپاہ نے آخری سلامی کے راؤنڈ فائر کئے اور میسور کی سرزمین نے اپنے ایک عظیم سعادت مند اور محب وطن فرزند کو اپنی آغوش میں ایک مادر مہربان کی طرح سمیٹ لیا۔ اس موقع پر سلطان کے معصوم چہرے پر ایک ابدی فاتحانہ مسکراہٹ نور بن کر چمک رہی تھی

یہ کالم کسی دوسرے ویب سائیٹ سے کاپی کی گئی ہیں)

یہ بھی پڑھیں

فیچرز