جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزشہدائے مشن بیرگیر :تحریر:باسط بلوچ

شہدائے مشن بیرگیر :تحریر:باسط بلوچ

“جنگ عظیم دوئم کے اہم کردار ونسٹن چرچل سے پوچھا گیا کہ ایک عالمی جنگ لڑنے کے بعد آپ اپنے تاثرات کیسے بیان کریں گے تو انھوں نے کہا کہ جنگ کسی بھی قسم کی ہو دشمن کتنا طاقتور ہو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ آپ زہنی طور پر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن مجھے زندگی میں سب سے زیادہ ڈر حادثات سے لگتا ہے کیونکہ آپ حادثات کے لیے زہنی طور پر تیار نہیں ہوتے”.
شھید حئی بیرگیر، شھید کرم شاہ اور شھید گلزار کو آج ہم سے جدا ہوئے تین سال مکمل ہوگئے. شھید کرم شاہ سے صرف دو ملاقاتیں ہوئیں جب وہ پہلی بار ایک دوست کے ساتھ دو ہزار بارہ کے ستمبر میں ہمارے کیمپ آیا تھا. اس سے پہلے وہ بی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے جدو جہد کر رہا تھا. انتہائی ہنس مکھ اور سلجھے ہوئے شخصیت کا مالک اور قدرے سنجیدہ نوجوان تھا. پہلی ملاقات میں آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے تھے کہ مادر وطن کا یہ بہادر بیٹا اپنی دھرتی ماں سے بے انتہا محبت کرتا تھا. وطن کے ساتھ مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اسی قدر اپنے دشمن سے نفرت بھی کرتا اور اسے شکست دینے کے لیے ہر پل بے تاب رہتا. شھید کرم شاہ جب چند دنوں بعد پھر کیمپ آیا تو اپنے ساتھ شھید گلزار کو بھی لے آیا. خود ایک دن رہ کر شھید گلزار کو ابتدائی ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے یہیں دوستوں کے پاس چھوڑ کر چلا گیا.
شھید گلزار نے انتہائی محنت اور دلچسپی سے اپنی ابتدائی ٹریننگ حاصل کی. فارغ اوقات میں ہم ایک ساتھ بیٹھتے مختلف امور پر باتیں کرتے اور اپنے اپنے تجربات کا ایک دوسرے سے تذکرہ کرتے شھید گلزار انتہائی دلچسپی سے ان مجالس میں حصہ لیتا اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتا اور جو بات سمجھ میں نہ آتی اس کے متعلق سوال کرتا . وہ عمر میں بہت چھوٹا اور اپنے والدین کا بڑا بیٹا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کا واحد کفیل بھی تھا کیونکہ اس کا والد چند سال پہلے قضائے الٰہی سے وفات پا چکا تھا اور اسی وجہ سے اس چھوٹی سی عمر میں شھید گلزار پر گھر کی کفالت کا زمہ بھی تھا لیکن وطن کے سچے عاشق اپنی حقیقی زمہداریؤں کا احساس رکھتے ہوئے اس میدان کارزار میں کود پڑتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرخ روح بن جاتے ہیں. شھید گلزار ابتدائی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد اپنے شہر سوراب چلا گیا اور ان سے دوسری اور آخری ملاقات تب ہوئی جب وہ اکتوبر کے آخری دنوں میں شھید حئی کو لینے آیا. جاتے وقت خدا حافظ کرنے کے لیے میں ان کے ساتھ چند قدم آگے چلنے کے بعد رُکا اور شھید حئی و گلزار آگے بڑھے. میں آج بھی ان دونوں کو جاتے ہوئے دیکھتا ہوں. جنگ کے محاذ پر اپنے آس پاس محسوس کرتا ہوں دشمن کو شکست دیتے ہوئے انھیں خوش دیکھتا ہوں اور ان کی یہی خوشی میرے لیے حوصلے کا باعث بنتی ہے. شھید کرم شاہ اور شھید گلزار سے وابستہ یادیں بس انھی دو ملاقاتوں پر محیط ہیں.
شھید حئی بیرگیر تو میرے آنکھوں کے سامنے پلا بڑھا اور جوان ہوا. اس کے بچپن کی شرارتوں کا زکر کروں یا گلی میں دادا گیری کا، دوستوں کی جھرمٹ میں کھیل کود کا یا اپنے ہم عمروں کے غول کے آگے آگے چلتے ہوئے قیادت کا. اُس سے ہزاروں یادیں وابستہ ہیں ہزاروں امیدیں بندھی ہوئی تھیں. پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب بڑا ہو گیا؟ کیسے سمجھدار بن گیا؟ کہاں سے تربیت حاصل کی؟ وطن کے عشق میں کب مبتلا ہو گیا؟ کب وطن سے وفا کا عہد و پیمان کر گیا؟ بس اتنا دیکھ سکا کہ اژو چوری چھپکے سے میرے چھپائے ہوئے ہینڈ گرنیڈوں سے ایک اٹھا لیتا اور مغرب کے بعد اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز آتی. تھوڑی دیر بعد انتہائی پرسکون احساسات کے ساتھ گھر میں داخل ہوتا اور موقع ملتے ہی میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہتا یہ کارروائی میں نے سرانجام دی ہے. آہستہ آہستہ دن گزرتے گئے اب ہینڈ گرنیڈ کی بجائے میری پسٹل اپنی جگہ سے غائب ہونے لگی لیکن کان میں سرگوشی لگاتار ویسی کی ویسی رہی. کبھی کبھی دل میں ایک عجیب سا وسوسہ ہونے لگتا کہ بغیر ٹریننگ بغیر تربیت اور اکیلا چھوٹا اژو……….. لیکن روک نہیں سکتا تھا کہ کہیں اعتماد پر میری وجہ سے خوف طاری نہ ہو جائے.
دو ہزار دس میں چھوٹے بھائی مجید کی شہادت کے بعد میں کہیں اور نکل گیا اور وہ سیدھا کیمپ پہنچ گیا. جب کچھ دنوں بعد میں کیمپ پہنچا تو اژو فوجی تربیت حاصل کر رہا تھا. اس کے علاوہ چند دیگر نئے دوست بھی تربیت لے رہے تھے آخری دن وہ نئے دوست فائرنگ کر رہے تھے جبکہ اژو کو فائرنگ کی لسٹ سے یہ کہہ کر خارج کیا گیا تھا کہ آپ نے میدانِ جنگ میں دشمن پر برائے راست فائرنگ کرکے ٹریننگ حاصل کر لی ہے. لیکن پھر بھی فائرنگ کے لیے اس کا دل مچلا جا رہا تھا.
شہر سے نکلنے کے بعد شھید اژو نے مادر وطن کے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا لیا اور بہت جلد ان فضاؤں کو اپنے اندر جذب کر لیا. وہ انتہائی محنت اور لگن سے اپنے مقصد کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کر لیا. تمام دوستوں سے عمر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے سب کا چہیتا ہر دل عزیز بن گیا اور دوستوں کے ساتھ گھل مل جانے کے ساتھ ساتھ سب کی عزت و خدمت کرنے لگا. وہ کیمپ کے تمام امور، کیمپ کے آس پاس گشت، علاقے سے واقفیت حتیٰ کہ روٹی پکانا بھی مجھ سے پہلے سیکھ گیا. ایک وقت ایسا آیا جب میں نے خود کو اژو سے بہت پیچھے محسوس کیا. وہ مجھے اکیلے میں ادا یا سنگو کہہ کر پکارتا اور آج بھی جب رات کو اندھیرے میں اکیلے اپنے جُھگ کی طرف جاتا ہوں تو کبھی کبھی یوں محسوس کرتا ہوں میری پانی کی کیتلی پانی سے بھر کر اژو مجھے “او سنگو” کہہ کر پکار رہا ہے. درجنوں بار خواب میں اسے دیکھا مجھے کوستے ہوئے کہتا ہے ادا آپ نے مشہور کیا ہے کہ اژو شھید ہوا ہے یہ دیکھو میں زندہ ہوں اور اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے سنگو کے ساتھ کھڑا ہوں اور یہی ادا مجھے حوصلہ دے کر ایک نئے عزم کے ساتھ نئی صبح کا آغاز کرتا ہے .
ایک دفعہ اژو اور ایک اور دوست کسی کام کے سلسلے میں شہر گئے تھے وہاں ایک دوست کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے اچانک اژو نے چند گاڑیوں کی لائٹوں کی روشنی دیکھی تو فوراً اپنے ہمراہ کو بیدار کرتے ہوئے کہا کہ شاید دشمن ہم پر حملہ کرے تو زہنی طور پر تیار رہنا کہ یہ راستہ کہاں جاتا ہے اور اگر ہم اس طرف نکلے تو کہاں جا سکتے ہیں وغیرہ. اس کے ساتھ ہی گھر کے اندر آواز دے کر دوست کو بلانا چاہا دوست کی بہن کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا بھائی یہاں نہیں کوئی کام ہے تو مجھے بتا دو. شھید اژو نے پر اعتماد انداز میں اسے دور سے نظر آنے والی گاڑیوں کے آنے کی خبر دی اور کہا کہ آپ فون کر کے پتہ کرو کہ یہ کیسی گاڑیاں تھیں. لیکن بہن کی انتہائی کوشش کے باوجود فوری طور پر معلوم نہ ہو سکا کہ گاڑیاں کیسی تھی. اسی دوران شھید اژو نے اپنے دوست سے کہا آؤ ایک ایک قول کرتے ہیں اور یہ ہماری بہن ہمارے شھید ہونے کے بعد اس قول کو ہمارے دوستوں تک پہنچائے گی. اژو کے شھید ہونے کے بعد دوست نے کہا فوری طور پر میری زہن میں کچھ نہیں آیا اژو نے فوراً کہا بہن اگر میں شھید ہوا تو میرا یہ قول میرے دوستوں تک پہنچانا کہ ” آزادی کی جنگ میں جب تک بندوق کی آواز زندہ ہے سمجھنا میں زندہ ہوں”.
کیمپ میں رہتے ہوئے میں نے اسے مزید قریب سے دیکھا تو اس کی شخصیت کا ایک اور باب مجھ پر کھل گیا جب وہ ایک مہمان دوست کے ساتھ ایکسپلوزو کیمیائی اجزاء پر بڑی مہارت سے ڈسکس کر رہا تھا اور میں پیچھے بیٹھا سُن رہا تھا کہ اس کو یہ تمام چیزیں کہاں سے معلوم ہوئیں. اس کے پاس اسکرو ڈرائیورز کی ایک سیٹ تھی اور کسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھے برقی آلات کی مرمت و چھیڑ چھاڑ کر رہا ہوتا. یا کسی کونے میں بیٹھ کر ڈیٹونیٹر بناتا اور پھوڑتا. ایک دن مجھے کہنے لگا جو ریموٹ خراب ہیں مجھے دے دو میں سیٹ کر دوں گا لیکن میں نے منع کر دیا. تھوڑی دیر بعد کماش کا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھے دونوں ہنستے مزاق کرتے ہوئے آ رہے تھے. میرے پاس پہنچ کر کماش نے کہا اسے ایک خراب ریموٹ دے دو یہ بنائے گا اور اگر نہ بنا سکا تو ریموٹ کی قیمت اس سے وصول کر لیں گے. میں نے ایک خراب ریموٹ دے دیا وہ خوش ہوتے ہوئے شھید حق نواز کو بلایا اور دونوں باتیں کرتے ہوئے اپنے جُھگ کی طرف چلے گئے. ابھی پندرہ بیس منٹ گزرے نہیں تھے کہ واپس آیا اور میری طرف ریموٹ بڑھاتے ہوئے کہا لو یہ ٹھیک ہو گیا اگر باقی جو جو ٹھیک کروانے ہیں میں حاضر ہوں اور میں لاجواب ہو گیا. جاتے وقت وہ مہمان دوست نے کماش کو کہا کہ آپ کا یہ سنگت بہت زھین ہے اسے کہیں کسی ماہر کے پاس بھیجو بہت کچھ سیکھ کر آئے گا. وہ واقعی ماہر تھا وہ خدا داد صلاحیتوں کا مالک تھا وہ ہنر مند تھا. بقول عالیان یوسف اگر نثار جیتا تو اور رفعتیں پاتا اور بہت سی کامیابیاں سمیٹ لیتا. فیڈل کاسترو کہتا ہے کسی فن کے ماہر کو بھی موت آسکتی ہے خاص کر جب وہ جنگ جیسے خطرناک فن کا ماہر ہو. ایسے بہادر سپوت دنیا میں صرف ایک بار آتے ہیں. ان انمول لوگوں کو ایک بار جان سے گزرنے کے بعد پھر سے پیدا نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کا نعم البدل پیدا ہو سکتا ہے ہاں ان کے افکار و خیالات کو اپنا کر ان جیسے کردار اپنایا جا سکتا ہے خود کو بدل کر ان کے قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے پھر بھی وہ کہیں آسمان پر ستاروں کی جھرمٹ میں یکتا رہ کر چمکتے رہتے ہیں اور نئے دور کی خوشحالی بکھیرتے ہیں.
شھید اژو کو کیمپ سے گئے ہوئے چھ دن گزر گئے تھے اسے ایک کار بلاسٹ کرنے کے لیے فلنگ کرنی تھی جبکہ کار بے حد پرانی تھی جس کی ایک چیز مرمت کر کے برابر کرتا تو دوسری خراب ہوتی. چھٹے روز فون کرکے کہا گاڑی کو مزید مرمت کرنے کے لیے مجھے پیسوں کی ضرورت ہے لہٰذا میرے ہاتھ میں پہنی ہوئی میری منگنی کی انگوٹھی ہے اسے بیچ کر اپنا کام مکمل کرتا ہوں. شہادت سے چند گھنٹے قبل اژو سے میری فون پر بات ہوئی انتہائی پرسکون انداز میں کہنے لگا آج بہت ریلیکس ہوں کام سب برابر کر چکا ہوں اور اب دوست کے گھر نہا دھونے کے لیے جا رہا ہوں. اژو سے خدا حافظ کہہ کر میں واپس دوستوں کے پاس آیا. شام کو اچانک شھید امیر الملک نے مخابرے پر مجھے آواز دی جلدی سے گلزار کا فون لیکر نیٹ ورک پر آ جاؤ. میں نے پوچھا سنگت خیر تو ہے؟ کہنے لگا سوراب میں کوئی مسئلہ ہوا ہے اژو کا نمبر ڈائیل کر رہا ہوں لیکن اٹھا نہیں رہا آپ جلدی سے گلزار کا نمبر لیکر آجاؤ. دھڑکتے دل اور ٹوٹتی سانسوں کے ساتھ جب میں نیٹ ورک پر پہنچا شھید امیر الملک سوچوں میں گم تنہا خاموش بیٹھا ہوا تھا. میں نے پہنچتے ہی پوچھا سنگت خیر تو ہے؟ افسردہ لہجے میں کہنے لگا سنگت سوراب شہر میں ایک گھر کے اندر دھماکہ ہوا ہے اور تقریباً ہمارے دوست شھید ہو گئے ہیں.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز