جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزشہیدوں کا قرض تحریر : حلوان طورانی بلوچ

شہیدوں کا قرض تحریر : حلوان طورانی بلوچ

لفظِ’’شہید‘‘ جیسے ہی ہمارے سماعتوں سے ٹکرا کر ہمارے شعور کے قید میں آتا ہے تو یہ برجستہ طور پر اپنے ساتھ ہمارے دل و دماغ میں بے غرضی ، احترام اور قربانی کا مقدس احساس پیدا کر دیتا ہے۔ شہید ہمارے زبان سے ادا محض ایک عمومی لفظ نہیں بلکہ چار حروف کے قید میں بند یہ لفظ اپنے اندر اعزازو لقب کے ساتھ ساتھ عقیدت کا ایک لامتناہی سلسلہ رکھتا ہے اور یہ قربانیوں سے بھری ،ذاتی غرض و لالچ سے منحرف کردار کی گواہی دیتا ہے۔ یہ لفظ زندگی کے تمام آسائشوں ، خواہش ، اور ان ذاتی خواہشات سے جڑی امیدوں کو ٹھکرانے کی گواہی ہے ۔ یہ لفظ اپنے تمام تر ذاتی مسائل و مصائب کو پس پشت ڈال کر اپنے قومی یا اجتماعی مسائل کو اپنا مسئلہ بنانے کی گواہی ہے۔یہ لفظ والدین ، بہن بھائیوں ، گھر بار حتیٰ کے اپنے آپ سے وابسطہ اپنی امیدوں کو روند کر قوم کے امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کرنے کی گواہی ہے۔ یہ لفظ انسان دوستی ، برابری ، آزادی اور دردمندی کی گواہی ہے ۔ یہ لفظ انفرادیت سے نکل کر اجتماعیت میں ڈھلنے کی گواہی ہے ۔ یہ لفظ اپنے وجود کو مٹاکر قوم کو زندہ رکھنے کی گواہی ہے۔ یوں تو اس قرہ ارض پر بہت سے اموات ہوئے ہیں، روز ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے اور روزانہ کہیں نا کہیں اس زمین کے ماتھے کو کسی نا کسی کا خون تر کر تا رہتاہے لیکن شہید کے لہو کا ہر قطرہ اِک سوچ، فکر، جوش و احساس کے ساتھ زمین کوچھو کر ایک ایسا تاثیر چھوڑتی ہے کہ اسے زرخیز کر دیتی ہے۔ پھر وہی زرخیز زمین اس خون کے بدلے میں اپنے کوکھ سے انسان دوستی، عدل و انصاف، حق اور آزادی کی سوچ اگلتی ہے۔ پھر یہ سوچ صرف اس ایک قوم نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیئے سودمند ثابت ہوتی ہے پھر ہر طرف آزادی کی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں۔
آج اگر بلوچ قوم کا نام زندہ ہے تو یہ صرف انہی شہداء کے قربانیوں کے بدولت ممکن ہوا ہے ورنہ کب کا بلوچ کا نام مر چکا ہوتا اور گمنامی کے کفن میں لپٹ کر تاریخ اور دنیا کی نظروں سے دور کہیں دفن ہو چکا ہوتا۔ آج بلوچ کا نام زندہ تو ہے لیکن یہ قوم آزادی کے تندرست جسم کے بجائے بیماریوں کے غلام زندگی میں سانسیں لے رہا ہے ۔ یہ قوم ایک بیمار مریض کی طرح ہے جسے صرف یہ شہدا اپنے خون کا آکسیجن دے دیکر زندہ رکھے ہوئے ہیں اور اس کے تندرست و توانا نہ ہونے کی سب سے بڑی سبب یہ ہے کہ قوم کے بیشتر افراد اپنے شہدا کے مقصد سے رو گردانی کیئے ہوئے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر ان شہداء سے بیوفائی کررہے ہیں جو ہمیں ہماری ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتے تھے۔ ان شہداء سے جنہوں نے والدین کی طرح ہمیں نہیں جنا لیکن پھر بھی وہ ان والدین سے زیادہ محبت کرکے ہمارے لیئے اپنی جان دے بیٹھے وہ شہداء جن سے ہمارا خونی رشتہ نہیں تھا اور نا ہی جان پہچان تھی لیکن وہ ہمارے لیئے کسی بھی خونی رشتے سے زیادہ مصائب اٹھا چکے ہیں ۔
میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ انسان کے اندر قوتِ مدافعت ( self defense mechanism ) موجود ہوتا ہے اور یہ مثال بھی دی جاتی ہے کہ اگر ایک بچہ اور اسکی ماں ایک ساتھ پانی میں ڈوب رہے ہوں تو ا س کی ماں خود کو ڈھال بناکر اپنے بچے کو بچانے کی پوری کوشش کرتی ہے لیکن جب اس کی اپنی سانس بند ہونے لگتی ہے اور اسکا جسم اسکے شعور کے تابع ہونے کے بجائے خود فیصلہ کرنے لگتا ہے تو پھر وہی ماں بے اختیار طور پر اپنے بچے کے سر پر پیر رکھ کر اوپر آنے کی کوشش کرکے اپنی جان بچانا چاہے گی۔ یہ چیز جان بوجھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ ایک فطری شے ہے تو اس بابت میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ شہدا جو بنا کسی رشتے کے ہماری بہتری کے لئے قربان ہوتے ہیں وہ اس اٹل فطرت کی قید سے بھی آزاد ہوتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کو extraordinary کہا جاتا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ ہم سے ہماری ماؤں سے زیادہ محبت اور خلوص رکھتے ہیں۔
یہاں المیہ یہ ہے کہ ہمارے شہدا کا خون ہر طرح سے زاتی مفادات کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے کوئی نام نہاد لیڈر کی شکل میں ان کے خون کے ہر قطرے کو بیچ رہا ہے تو کوئی ان کے نام سے چندہ کر کے اپنی جیبیں بھر رہا ہے۔ کوئی سیاسی گروہ ان کی لاشوں پر کھڑا ہو کر سیاست کر رہا ہے تو کوئی مزاحمتی تنظیم ان کے نام سے اپنی دکا ن کی چمک میں اضافہ کر رہا ہے اور تو اور جو اس تحریک کے دشمن ہیں وہ بھی ان کو کسی نہ کسی طرح اپنے فائدے ، کرسی وزارتوں وغیرہ کے لیئے استعمال کر رہے ہیں یا پھر کوئی مخبر ان کو گرفتار اور شہید کروانے کی تنخواہ لے رہا ہے۔ خون کا بے غرضی سے بہنا ہرگز ہرگز ایک معمولی حادثہ نہیں بلکہ یہ نصیبوں کو بدلنے والا کائنات کا مقدس ترین عمل ہے ۔ جب کوئی اپنا خون بے غرضی سے بہاتا ہے تو اپنے پیچھے اس سے فائدہ اٹھانے کے مواقعوں کا ایک لازوال سلسلہ پیدا کردیتا ہے۔ لیکن ہمارے شہداء خون بہارہے ہیں اور ان کے خون سے گروہی و انفرادیت پسند انقلابیوں سے لیکر پارلیمنٹ پرستوں و دلالوں تک سب کچھ نا کچھ فائدہ نکال رہے ہیں لیکن وہ جن کی ذمہ داری اجتماعی قوت کی تشکیل اور قومی آزادی ہے وہ اس خون سے قوم کیلئے کیا حاصل کررہے ہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے وہ آنے والے وقت میں اس بہتے خون کے بہاو کے رفتار کا تعین کرے گا اور اس خون کے سود و زیاں کا فیصلہ کرے گا ۔
کسی حد تک مجھے لگتا ہے کہ ان شہداء کے گرتے ہوئے بندوق ، قلم اور الم کو اٹھا کر جس رفتار سے آگے
بڑھنے کی ضرورت ہے وہ عمل رکا ہوا ہے یا سست روی کا شکار ہے جس طرح ان کے مقصد اور سوچ کو آگے لیجانے کی ضرورت ہے اور جس طرح وہ ہمارے وارث بن کر اٹھے تھے اسی طرح اب ہمیں ان کا وارث بن کر انکے سوچ کو اپنا ہتھیار بنا کر انکے شہادت کو تحریک کے دشمنوں کے لیئے زہر قاتل بنانا ہے۔ یہ لوگ اس لیئے تو شہید نہیں ہوئے کہ ان کو اپنی زات کے لیئے استعمال کیا جائے۔ خاصکر دشمن کے صفوں میں شامل بھیڑئے جن سے شہیدوں نے اور شہیدوں سے جنہوں نے زندگی بھر نفرت کی ہے؟۔ اگر ہم نے شہدا کو ان بھیڑئیوں اور گدوں کے رحم و کرم پر چوڑیں گے تو ان کا خون ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریگا۔
گلہ ان لوگوں سے نہیں ہے جنہوں نے اپنی نا لائقی چھپانے اور چار دن کی چاندنی کے لیئے اپنے ضمیر اپنی ماں اور غیرت کو بیچ کر پنجابی کو اپنا باپ بنا لیا ہے لیکن افسوس ان لوگوں پر ہوتا ہے جو سب کچھ سمجھنے، جاننے اور صحیح و غلط کا فرق پہچاننے کے باوجود بھی بے حس بنے بیٹھے ہیں حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ماں ،باپ، بھائی، بہن ،رشتہ دار اور دوستوں کی شکل میں اپنے پیارے کھوئے ہیں۔مجھے تو حیرانی ہوتی ہے کہ اپنے پیاروں کو کھونے کے بعد بھی زندگی کا کوئی مطلب یہ کیسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں یا اس میں کوئی مطلب ڈھونڈا بھی جا سکتا ہے؟ اگر کوئی مطلب نکلتا بھی ہے تو اپنے ان شہید پیاروں کے مقصد اور سوچ کو آگے لیجانے کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔ مجھے ایسے لوگوں کی خاموشی اور بے حسی زہر لگتی ہے جن کے پیارے اور جگر گوشے دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے لیکن وہ اس دشمن سے اپنے شہید کا بدلہ آزادی کی صورت میں لینے کیلئے کوشش کرنے کے بجائے بے حسی اور بے خبری کی مورت بنے زندگی گذارنے اور زندہ رہنے کی کوشش کرنے میں احساسات سے عاری بت بن چکے ہیں ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ زندہ رہنے کے لیے سمجھوتا کر لیا ہے ۔ زندہ رہنے نہیں بلکہ صرف سانس لینے کے لیئے یہ لوگ اپنے پیاروں کی شہادت پر خاموش ہیں، اپنی نفرت کو دبانے کی ہر روزہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اپنی محبت کو دفن کرنے کے لیئے ہر لمحہ اس پر مٹی ڈالتے رہتے ہیں ۔ یہ زندگی تو نہیں ہے یہ تو موت سے بھی بد تر ہے۔ ایسے بے حس لوگ تو ہر روز مر رہے ہیں اور ہر روز مرنے کے لیئے چند سانسیں اس سمجھوتے پر لیئے ہوئے ہیں کہ نا اپنے شہدا سے محبت کرینگے اور نا اپنے دشمن سے نفرت۔ تف ہے ایسی موت جیسی زندگی پر اور یہ لوگ اس خوف کا کیا کرینگے جو تلوار کی طرح ان کے سر پر ہمیشہ لٹکتی رہے گی کہ کب انہیں کسی شک کے بنا پر دشمن اسی طرح اٹھا کر لیجائے اور اذیت کے بعد ان کی لاش کسی ویرانے میں پھینک دے جس طرح انکے پیاروں کا پھینکا تھا۔ مجھے حیرت ہے کہ جسے اپنے بھائی کے ایک تھپڑ پر تو غصہ آتا ہے اور نسل در نسل بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس پنجابی دشمن کے سامنے اپنے پیاروں کو اسکے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد بھی دیکھ خاموش ہیں اور اسکے رحم و کرم پر ایک بے حس زندگی پر اکتفاء کیئے ہوئے ہیں ۔ ایک بے عزتی کی زندگی گذار رہے ہیں انہیں پتہ ہے کہ کب دشمن کے کسی کرائے کے غنڈے کو ان پر زرا سا غصہ بھی آگیا چاہے وہ غصہ اچھے کپڑے پہننے پر ہو ا یاچ اچھی گاڑی چلانے پر یا پھر کوئی گانا ہی تیز آواز میں سننے پر تو بس پھر کیا وہ اسی وقت انکے ہاتھوں بے عزت ہوگا اور ایسے واقعات روز آج کل ہمارے معاشرے میں رونما ہورہے ہیں۔ وہ سانسیں جو اس طرح گھٹ گھٹ کر لی جارہی ہیں وہ کب چھین لی جائینگی پتہ بھی نہیں چلے گا۔
ایسے بے حس لوگ اتنے خوف کا شکار ہیں کہ اپنے بچوں کو یہ سمجھاتے ہیں کہ بلوچ، بلوچستان، سرمچار، آزادی اور شہید جیسے ناموں کے استعمال سے کسی بھی جگہ قطعی گریز کریں اور سمجھاتے وقت بھی مذکورہ نام لیتے ہوئے ایک سو اسی کے زاوئے سے پہلے اردگرد گردن گھما کر دیکھیں گے کہ کہیں کوئی اور تو نہیں سن رہا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر دن ہر وہ کام جو آپ اپنی سوچ اور مرضی کے برخلاف کسی جبر اور خوف کے سائے میں کرتے ہیں وہ موت کے مترادف ہے اور ان شہدا نے اسی خوف اور جبر کو ہمیشہ کے لیئے ختم کرنے کے لئیے اپنی جان قربان کر دی تا کہ آنے والے کل میں کوئی بھی ماں اپنے بچوں کے گھر سے باہر جانے پر خوف محسوس نہ کرے اور یہ خوف
تب تک ختم نہیں ہوگا جب تک شہدا کا مشن کامیاب نہیں ہوتا اور آزادی حاصل نہیں ہوتی۔
تو آئیں آج 13 نومبرکو کوئی بھی بہانا کیئے بغیر شہدا کے اس دن پر ان سے اور خود سے یہ عہد کریں کہ ان کی قربانیوں کو رائیگاں جانے
نہیں دینگے اور ان کے مقصد کو پورا کریں گے اور عہد کریں کہ اپنے شہیدوں کے وارث بن کر انکی سوچ اور جہد کی پیروی کریں گے اور انہیں اس طرح لاوارث نہیں چھوڑینگے کہ کسی بھی ذاتی یا گروہی مفادات کے بھینٹ چڑہ جائیں۔ آو یہ وعدہ کرتے ہیں کہ شہداء نے اپنا مقدس خون بہا کر ہمارے سر پر جو بھاری قرض چھوڑا ہے ہم اس قرض کو دن رات محنت کرکے آزادی کی صورت میں چکائیں گے ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز