پنج‌شنبه, آوریل 25, 2024
Homeآرٹیکلزشہید داد اللہ عرف اسد مری: تحریر:-مہراب مہر

شہید داد اللہ عرف اسد مری: تحریر:-مہراب مہر

میری موت میرے نسل کی زندگی ہے، میری موت ایک ظالم و جابر کے خلاف جنگ کی صورت میں سامنے آتا ہے، لہذا میں مرنے سے خوف نہیں کھاتا، لیکن جینے کی خواہش حد درجہ دل میں موجود ہے، یہ زندگی، در بدری اور غلامی کی زندگی مجھے ہر وقت موت کے فرشتے سے ملوانے کے لیے اکساتا رہتا ہے. ایک ہی لمحہ ہوتا ہے جہاں پر فیصلہ کرنے میں مشکل پیش نہیں آتی. موت کی خوبصورتی اس وقت پرکشش زندگی کی فنا پر عاوی ہوتی ہے جب درد حد سے بڑھ جاتی ہیں اور ماں بہنوں کی چیخ و پکار و مادر وطن کی غمگین صورت پر بیگانی کا بڑھتا ہوا احساس سونامی بن کر تہذیب، روایات و ثقافت کو ملیامیٹ کر دیتا ہے تو شعور کی اتھا گہرائیوں میں چھپے وہ خیالات سر اٹھانے لگتے ہیں. میرا زندہ رہنا کس کام کا؟ وطن پر غیروں کی قبضہ گیریت کے ساتھ تہذیب، ثقافت غلامی کی آگ میں جل کر خاکستر ہورہے ہوتے ہیں، اور میں جانوروں کی طرح دنیا سے بے نیاز اپنی زندگی کے مدار میں گردش کر رہا ہوتا ہوں. مجھے جینا ہے ہمیشہ زندہ رہنا ہے، میں اپنی زندگی کے خاتمے کا فیصلہ ایک خوبصورت و خوشنما مقصد کے لیے کرنے کا فیصلہ کر چکا ہوں. مجھے اپنے آنے والے نسلوں کے لیے مرنا ہوگا. میری موت دوسروں کی زندگی ہوگی. میری موت سے دیگر کو وہ حوصلہ ملے گی کہ قابض جتنا بھی ظالم و طاقتور ہو وہ بلند حوصلہ و مستقل مزاج و مضبوط فیصلوں و عظیم مقصد کے سامنے ہمیشہ نہیں رہ سکتا. اسکا خاتمہ مضبوط فکر و سوچ کے تحت ہمیشہ سے ممکن رہا ہے. میں بھی اسی سوچ کے تحت اپنے وطن پر قربان ہونے کا فیصلہ کر چکا ہوں. یہ فیصلہ میں نے جذبات میں نہیں کی ہے بلکہ کافی عرصے سے سوچ و بچار کے بعد مجھے اپنی موت کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہوئی کہ دشمن دن بہ دن ہم پر اپنی جبر و بربریت میں اضافہ کررہا ہے اور ہم انہیں موثر جواب نہیں دے پا رہے ہیں اور جس ممکن حد تک ہم نے جنگ کی ہے لیکن جو نتائج ہم چاہتے ہیں وہ ہمیں نہیں مل رہے ہیں اور اس وقت ایک ہی راستہ ہے جس پر ہم چل کر دشمن کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور انھیں اپنے وطن سے نکال سکتے ہیں اور میں خود کش حملہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہوں. شہید ماما مہندو اسکی باتیں سن رہا تھا. ماما مہندو خوشی و غم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ طنزیہ کہتا “جی پھر سے سوچ لو کیونکہ یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں. اس سے پہلے ہی بھی ایسے فیصلے ہوئے اور وہ لوگ اپنے فیصلوں سے مکر گئے ہیں میرے کہنے کا مقصد اتنا ہی ہے کہ تم سوچ لو یہ کوئی جذباتی عمل نہیں. مرنے کو ہم اب کہاں زندہ ہیں اب بھی موت ہر وقت ہمارے اوپر گردش کر رہی ہے لیکن خود کش حملہ آور بننے کے لیے خود کو تیار کر لو تو پھر دیکھیں گے. میں نہیں کہتا کہ تم اپنے فیصلے سے مکر جاؤ گے، لیکن اس سے پہلے بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں، وقت گزرتا گیا سب اس بات کو بھول گئے”. لیکن شہید داد اللہ عرف اسد مری پھر وقفے وقفے سے اپنی بات دہراتا رہا اس دوران قریباً ایک سال کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن وہ ہمیشہ سے یہی بات دہراتا رہا. شہید ماما مہندو سمجھ چکا تھا کہ یہ وقتی فیصلہ نہیں بلکہ اسد نے فیصلہ کر لیا ہے وہ گاڑی چلانے کیلئے ڈرائیونگ سیکھنے کی کوشش کر رہا تھا. کیمپ میں اپنے روزانہ کے کاموں کو انجام دینے کے ساتھ ساتھ اسکی نظریں دور کسی بامقصد منزل پر تھیں. “ماما میں کب جاؤنگا” وہ ہر وقت اپنے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا خواب دیکھ رہا تھا. اور ماما مہندو سے اس کا ذکر کر رہا تھا.
وہ اپنے کام میں کسی حد تک مہارت حاصل کر رہا تھا کہ ماما مہندو کام کے سلسلے میں مچھ بولان میں تھا اور وہاں دشمن کو اسکی بھنک لگ چکی تھی اور ماما مہندو اپنے دیگر دو ساتھیوں آدم مری و شہید زامری مری کے ساتھ شہید ہوگئے. ماما مہندو کی شہادت کے بعد یہ نوجوان اپنے فیصلے پر قائم و دائم تھا اب دیگر دوست اسے حملے کے طور و طریقے سکھا رہے تھے. وہ لگن کے ساتھ اپنے ذمے کی کام کو سیکھ رہا تھا.
دشمن کی طرف علاقے میں جاری آپریشن اور محاصرے کی سبب اس کام میں خلل پڑ گیا تھا مگر اب تک وہ اپنے فیصلے پر قائم و دائم تھا. وہ شہید باز خان عرف درویش کی طرح اپنا فرض نبھانا اور اس کے نقش قدم پر چلنا چاہتا تھا. دو سال سے زائد عرصہ گزر چکا لیکن وہ اب تک اپنے فیصلے پر قائم تھا. وہ خاموشی کے ساتھ اپنی شہادت کے دن کا انتظار کر رہا تھا جب وہ دشمن پر جھپٹ پڑے گا اس سے اپنے وطن پر ہر ظلم و ناانصافی و قبضہ گیریت کا بدلہ لے گا. وہ ابھی خیالات میں گم سم تھا. وہ اس وقت خوشی سے پھولے نہ سمائے جب اسے کہا گیا کہ تمہیں عنقریب اپنے کام پر جانا ہوگا. وہ اس وقت کی انتظار میں تھا کہ ایک دن کسی کام کے سلسلے میں اسے چار پانچ ساتھیوں کے ساتھ بیج دیا گیا تاکہ جاکر علاقے کو دیکھا جائے واپسی پر تم اپنے کام پر جاؤگے. وہ روزانہ کی طرح اپنے سفر پر نکل گئے. وہ سفر کر رہے تھے صبح سے دوپہر ہو گئی تھی. لیکن وہ سفر کر رہے تھے بیٹھ کر پہاڑوں پر دشمن کے مورچوں کو ڈھونڈ رہے تھے. جب وہ “مشکاپ” کے دامن میں پہنچے تو سورج پہاڑوں کے اوٹ میں چھپ رہا تھا. آسمانی افق پر سرخی پھیل رہی تھی. ابھی ان مرغزار و پہاڑی سلسلوں کو تاریکی اپنی آغوش میں لینے کچھ لمحوں کی انتظار کر رہا تھا کہ کچھ دوست دوربین کرنے کے بعد آگے سفر کرنے لگے. شہید داد اللہ عرف اسد تھوڑی دور آنے کے بعد رک کر موبائل سگنل چیک کر رہا تھا. کچھ قدموں کے فاصلے پر دیگر دوست جارہے تھے کہ اچانک بندوق کی آواز ہوئی سب لیٹ کر دوڑ کر پتھروں میں مورچہ لینے لگے. جوابی فائرنگ شروع ہوئی. جنگ جاری تھی. اسد کدھر ہے. اسد کو آواز دیتے رہے. دوسری طرف کوئی جواب نہیں آیا. ایک طرف جنگ چل رہی تھی دوسری طرف اسد نہیں دکھ رہا تھا. ایک نے ہمت کر کے دیکھا اسد ان سے کچھ فاصلے پر پڑا ہوا ہے. آواز دیتے رہے اسکی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا. آسمان پر شہید کے خون کی سرخی پھیل چکی تھی. تاریکی آہستہ آہستہ سرخی کو اپنے اندر جذب کر رہی تھی. فائرنگ جاری تھی. دیگر دوست دشمن پر حملہ آور ہو رہے تھے اور ایک دوست شہید داد اللہ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر محفوظ جگہ پر لے آیا. وطن کا یہ خود کش حملہ آور جو شہید درویش کی رندگیری کا فیصلہ کر چکا تھا 25 اگست 2015 کو بولان کے پہاڑی علاقے مشکاپ میں جام شہادت نوش کر گیا.
شہید داد علی کاہان کے علاقے کوڈی میں 1980 کو جمال ماہکانی کے گھر پیدا ہوا وہ کاہان میں پلا بڑھا اور تیز رفتار زندگی کی رفتار کے ساتھ وہ بھی دوڑتا رہا. جب وہ نوجوان تھا تحریک کی بنیاد رکھی جاچکی تھی اور نواب خیر بخش مری جسٹس نواز مری کے قتل کیس میں گرفتار ہو چکا تھا اور دیگر بہت سے بلوچ جسٹس نواز مری کے قتل کیس میں گرفتار کئے جاچکے تھے اور شہید داد اللہ عرف اسد مری بلوچستان کی آزادی کے لیے بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے بندوق ہاتھ میں لے کر جد و جہد شامل ہو گئے تھے. وہ کاہان میں سیاہ گری، جبرو، بمبور، نساؤ ، پیشی و دیگر پہاڑوں میں اپنی قومی ذمہ داریاں نبھاتے رہے. کاہان میں ناڑی مراد کے کیمپ میں اپنے قومی ذمہ داریاں نبھاتے رہےاور مختلف جنگی محاذوں میں اپنے خدمات سر انجام دیتے رہے. کچھ عرصے کے بعد وہ ایک علیحدہ کیمپ میں رہے اور اسکے ذمہ دار کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے اور اپنے کیمپ کے ساتھیوں کے ساتھ دشمن کی قبضہ گیریت کے خلاف و وطن کی آزادی کے لیے اپنے قومی فرائض ایمانداری کے ساتھ انجام دیتے رہے اور وہ سندھ میں تھے جب خفیہ اداروں کو اسکی اطلاع مل چکی تھی اور سندھ سے خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے 25 مارچ 2013 کو اسے اغواء کرلیا اور دو مہینے تک وہ خفیہ اداروں کے جبر و بربریت سہتے رہے. وہ ریاستی ٹارچر سیلوں میں اپنی و وطن کی آزادی کا عزم رکھے ہوئے تھے وہ دشمن کے ظلم و جبر کو برداشت کرتے رہے دو مہینے کے بعد کوئٹہ میں بے ہوشی و نیم زندہ حالت میں پایا گیا. اس وقت اسکی حالت بہت ہی نازک تھی. کچھ مہینے تک وہ اسپتال میں رہے، اسکی ہڈیاں ٹوٹے ہوئے تھے. کچھ وقت تک وہ موت سے لڑتے رہے. آخر کار اس نے موت کو فتح کر لیا اور اپنی موت کا فیصلہ بھی کر لیا تھا. کچھ مہینے اسپتال میں رہنے اور صحت یابی کے بعد پھر تنظیمی کاموں کے حوالے سے بولان کے کیمپ میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے چلے گئے.
وہ ایک مخلص بہادر و ایماندار ساتھی تھا. اتنے عرصے میں وہ بہادری و ایمانداری کے ساتھ مختلف محاذوں میں اپنی قومی فرائض سر انجام دیتے رہے. وہ بولان میں بھی مختلف جنگی محاذوں میں شریک رہے اور بہادری کے ساتھ مختلف محاذوں پر دشمن کے خلاف لڑتے رہے.اٹھارہ سال کی عمر سے لیکر اپنی شہادت کے دن تک وہ ثابت قدمی کے ساتھ بلوچستان کی آزادی کے لیے جہد کرتے رہے وہ شہید درویش کی رندگیری کرنا چاہتے تھے لیکن وقت و حالات نے انھیں موقع نہ دیا اور وہ دشمن پر قہر ڈالنے سے پہلے ہی شہید ہو گئے. لیکن اسکی پختہ سوچ و فکر و اسکی قربانیاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں اور تاریخ کا یہ خود کش حملہ آور شہید درویش کے فکر کا ساتھی تھا اور تاریخ کے اوراق میں اسکی قربانیاں اور اسکے فیصلے سنہرے حروف میں لکھے جائیں گے. میری موت کا مقصد میری نسل کی زندگی ہے جو لوگ کسی مقصد کے لیے مرتے ہیں وہ مرتے نہیں وہ تاں ابد زندہ رہتے ہیں.
یہ بھی پڑھیں

فیچرز